عمران شاہد بھنڈر
تشکیک کا انگریزی متبادل Skepticism یونانی لفظ Skeptismo سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب ہے متجسس، محقق ہونا، یا تجسس کی بنیاد پر تحقیق کو جاری رکھنا۔ ایک متجسس یا متشکک ہر خیال،ہر شے، ہر معروض کو شک کی نظر سے دیکھتا ہے اور ان کے بارے میں تحقیق کرکے کسی نہ کسی طرح کا یقین حاصل کرنا چاہتا ہے۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ وہ کسی ”یقین“ پر ٹھہر جائے۔ تیقن اور تشکیک ایک دوسرے میں سرایت کیے ہوئے ہوتے ہیں۔ کبھی تیقن اور کبھی تشکیک کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ ”مطلق یقین“ کا نقص یہ ہے کہ اس سے علم کی حدود کو وسیع کرنا ممکن نہیں رہتا۔تشکیک کا بنیادی مقدمہ یہی ہے کہ ہر اس نظریے، خیال اور مذہب کو شک کی نظر سے دیکھا جائے جو “سچائی” کا حتمی دعویٰ رکھتا ہو، یا وہ مسلسل تحقیق کے بعد کسی بھی وقت ’سچائی‘ تک پہنچ کر رُک جائے اور اسے”حتمی سچائی“ تصور کر لے۔ تشکیک کے اس عمل میں جونہی کوئی محقق کسی سچائی پر پہنچنے کا دعویٰ کرتا ہے، تشکیک اسے تیقن میں تبدیل کر دیتی ہے۔قطع نظر اس سے کہ اس کی بنیاد میں کوئی عقلی و منطقی اصول کارفرما ہے یا وہ کسی ماورائی سچ پر یقین کا فقط دعویٰ ہی رکھتا ہے۔ قدیم تشکیک اس امر پر اصرارکرتی ہے کہ آخری سچائی کا دعویٰ کھوکھلا ہے۔ اس طرح قدیم تشکیک کا مکتبہ فکر سچائی کے ماورائی دعوے کو مسترد کرتا ہے اور کوئی ”فیصلہ“ دینے کی بجائے اپنے فیصلے کو التوا میں رکھتا ہے۔محمد اقبال کی کتاب کا عنوان ”فکرِ اسلامی کی نئی تشکیل“ ہی یہ واضح کر دیتا ہے کہ ”پرانی“ یا ”موجودہ“ تشکیل تشکیک کی زد میں ہے، اور اب اسے ان اصولوں کے تحت پرکھا جائے گا جو اس سے پہلے موجود نہیں تھے۔ لہذا جو پہلے تھا وہ شک سے بالا نہیں رہا۔ اب اگر تیقن درکار ہے تو پہلے سے موجود پر تشکیک لازم ہے۔ اور اگر اسی پر تیقن قائم ہے تو نئی تشکیل کا کوئی مقصد ہی نہیں ہے۔
یہ بات ذہن میں رہنی بہت ضروری ہے کہ خالص تشکیک نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہے۔ کیونکہ ہر تشکیک میں تیقن شامل ہوتا ہے۔ یعنی اگر میرے ذہن میں کسی نظریے کی سچائی سے متعلق تشکیک کا پہلو موجود ہے تو وہ صرف اس لیے کہ میں اس تشکیک کے برعکس تیقن کا ایک مفہوم اپنے ذہن میں رکھتا ہوں۔ خواہ یہ تیقن اس تشکیک پر ہی کیوں نہ ہو۔ لہذا تیقن کے بغیر تشکیک ایک تجریدی اصطلاح کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے، جبکہ دوسری طرف تشکیک بھی کسی نہ کسی تیقن پر ہوتی ہے۔ تشکیک اور تیقن کے درمیان ایک جدلیاتی رشتہ موجود ہوتا ہے۔ جب تیقن ہو تو تشکیک نہیں ہوتی، اور جب تشکیک ہو تو تیقن نہیں ہوتا۔ تاہم حتمی تیقن اور حتمی تشکیک نام کی کوئی شے موجود نہیں ہوتی۔
فلسفیانہ سطح پر حسیات کی تحدید تشکیک کی بنیاد ہے۔ چونکہ مظاہر جیسا کہ ہمیں دکھائی دیتے ہیں ویسے نہیں ہوتے، یعنی مظہر اور اس کی حقیقت میں فرق ہوتا ہے، اور اس فرق کی تفہیم کے لیے رہنمائی عقل سے حاصل کی جاتی ہے۔یونان میں تشکیک کے حوالے سے سب سے پہلا فلسفی، جو سقراط سے بھی تین سو ساٹھ برس قبل پیدا ہوا، اس کا نام پائرو ہے۔ تشکیک کے اس مکتبہ فکر کو پائرونزم کہا جاتا ہے۔ پائرو کی تشکیک کے بعد کم از کم یہ ضرور ہوا کہ آزادانہ تحقیق و جستجو کو تقویت ملی، تاہم اس کے باوجود ”آخری سچائی“ کی تلاش جاری رہی، خواہ وہ سقراط ہو یا افلاطون اور ارسطو وغیرہ، وہ کسی نہ کسی سطح پر ایک ماورائی سچائی کو تسلیم کرتے تھے جو ہر طرح کی تشکیک سے ماورا تھی جس کا احاطہ حسیات نہیں صرف عقل ہی کر سکتی تھی۔یہاں اعتقاد کا قضیہ کارفرما تھا، جو کہ ہر عہد کی طرح ان کے عہد کی بھی مجبوری تھی۔
جدید عہد میں فرانسیسی فلسفی رینے ڈیکارٹ نے دوبارہ وہی سوال اٹھایا اور نتیجہ یہی نکالا کہ اپنی موضوعیت کے علاوہ ہر شے پر شک کیا جا سکتا ہے۔ چونکہ ڈیکارٹ یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ تشکیک کو جو شے منطقی بنیادوں پر تیقن میں بدلتی ہے، وہ عقل ہے، اس لیے ڈیکارٹ کو جدید عقلیت پسند فلسفی تسلیم کیا جاتا ہے، لیکن یہ تیقن آخری تیقن نہیں، یہ بھی نئے حقائق کی جستجو اور دریافت کے بعد تشکیک کا حصہ بن جاتا ہے۔ ڈیوڈ ہیوم وہ واحد متشکک ہے جو تسلسل سے نہ صرف یہ کہ عقلی منہج کو شک کی نظر سے دیکھتا رہا ہے، بلکہ وہ جس حسی تجربے کی بنیاد پر عقلی تصورات پر شک کرتا ہے اس تجربے کو بھی تشکیک سے بالا نہیں سمجھتا۔ ہیوم کا علت و معلول کا نظریہ یہی تھا کہ یکے بعد دیگرے برپا ہونے والے واقعات میں کوئی ایسا ثبوت نہیں ہے جس سے دونوں کے درمیان کسی بھی طرح کا منطقی لزوم واضح کیا جا سکے۔ ایک بیلیئرڈ کی گیند جب دوسری گیند سے ٹکراتی ہے تو ایک آواز پیدا ہوتی ہے۔ ہیوم کے نزدیک تجربے سے قبل ٹکرانے اور آواز پیدا ہونے کا کوئی بھی عقلی تصور قائم نہیں کیا جا سکتا۔ جبکہ گیند کے دوسری گیند سے ٹکرانے کے بعد جو آواز پیدا ہوتی ہے، اس آواز کا کوئی سراغ ٹکرانے کے عمل سے نہیں لگایا جا سکتا۔ کانٹ پر ڈیوڈ ہیوم کی تشکیک کے گہرے اثرات مرتب ہوئے، جو بالآخر اسے بھی ”مطلق سچائی“ سے متعلق تشکیک کی جانب لے گئے۔
کلاسیکی جرمن فلسفے میں ”نظامِ الٰہیات“ کو عقل کے تابع کر دیا گیا تھا، اس لیے یہ ضروی ہو گیا کہ اس کو بھی شک کی نظر سے دیکھا جائے، اور یہ کام عمانوئیل کانٹ نے بخوبی سر انجام دیا، جس سے نہ صرف یہ کہ مابعد الطبیعات کے روایتی تصور کو گہری ضرب لگی، بلکہ مسیحی نظامِ الٰہیات کی جڑیں تک ہِل گئیں اور انسان کو اس کی عقلیت کی بنیاد پر ’مرکزیت‘ حاصل ہو گئی۔ بعد ازاں ہم دیکھتے ہیں کہ جرمن عینیت میں فلسفیانہ سچائیاں کسی ایک جگہ نہیں ٹھہر نہیں جاتیں، بلکہ نئے حقائق کی دریافت کا ایک غیر مختتم سلسلہ ہے، یہ رد و نمو کا “حتمی” عمل ہے، اور یہ کبھی بھی کسی ایک سچائی پر رک نہیں جاتا، بلکہ مسلسل چلتا رہتا ہے۔ نتیجہ اس کا یہی نکلتا ہے کہ ہر طرح کے دیگر ارتقا کی طرح عقلی ارتقا بھی جاری رہتا ہے، اور یہی عقلیت پسند فلسفوں کی سب سے بنیادی خصوصیت ہے کہ وہ کسی آخری اور حتمی سچائی پر رُک نہیں جاتے۔ فکری سطح پر خطرہ عقلیت کو نہیں ہے، کیونکہ وہ تو تبدیلی کی قائل ہے، اصل خطرہ اس کو ہے جو تبدیلی کو سراب سمجھے اور ایک ایسی آخری سچائی تک محدود ہو کر رہ جائے جسے ”عقیدہ“ کہا جاتا ہے، کیونکہ عقیدہ ہی وہ واحد”بنیاد“ ہے جو حتمی سچائی کا دعوے دار ہے، اور یہی وجہ ہے کہ اس کو ہمیشہ تشکیک سے خطرہ رہتا ہے۔
محمد اقبال جرمن فلسفے کے ایک سنجیدہ قاری تھے۔ انہوں نے جرمن فلسفے کے زیرِ اثر تمام مذہبی اصطلاحات کے نام تک تبدیل کر دیے۔ خدا کی جگہ مطلق خودی، مطلق حقیقت اور لامتناہیت جیسے فلسفیانہ تصورات استعمال کیے۔ یہ محض الفاظ ہی نہیں تھے، بلکہ معنوی اعتبار سے بھی مذہبی تعبیرات سے یکسر مختلف تھے۔ اقبال نے وحی اور جنت و دوزخ کے مفاہیم تبدیل کر دیے۔ انہوں نے قرآنی آیات کو بطور تمثیل پیش کیا، جو کہ ان آیات کا تقاضا نہیں تھا۔ چونکہ اقبال جانتے تھے کہ تمثیل کے بغیر ”نئی تشکیل“ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اس لیے انہوں نے جو بھی آیات پیش کیں ان کے مفاہیم کو یکسر تبدیل کر دیا۔
اقبال ایک مفکر تھے۔ وہ جانتے تھے کہ تفکر انسانی سرشت کا حصہ ہے۔ وہ اس حقیقت سے آگاہ تھے کہ اگر تیقن کی جدلیات سے انحراف کیا گیا تو مستقل جہالت اپنے حصار میں لے لے گی۔ بے چینی و اضطراب انسانی سرشت کا حصہ ہے۔ مسلسل تفکر کا مطلب تحقیق کی جستجو ہے، جو کہ بے چینی و اضطراب کا تسلسل ہے۔ اضطراب تشکیک کا بنیادی سبب ہے، اس لیے فکر کو محدود کرنے کی کوشش کرنا انسان کو اس تشکیک سے روکنا ہے جو سماجی حرکت اور ارتقا کے سبب لازمی طور پر انسان فکر میں پیدا ہوتی ہے۔ ماورائے عقل کوئی ایسی شے، کوئی ایسا جواز، کوئی ایسا عقیدہ یا آئیڈیالوجی موجود نہیں کہ جو انسان کو تفکر کرنے سے روک سکے۔ فکر کو محدود کرنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ بعض سچائیوں کو پہلے سے تصور کر کے انہیں ماورائے تفکر قرار دے دیا گیا ہے۔ ایسی سچائیاں جن کی اپنی بنیاد کسی فکر پر نہیں بلکہ ماورائے فکر ایک مفروضے پر رکھی جاتی ہے۔ انسان کی فکر کو محدود کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو اس کی اپنی سرشت کی اس فعلیت سے روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے، جو پہلے سے طے شدہ حدود سے ماورا ہونا چاہتی ہے۔ہیگل کہتا ہے کہ انسانی فکر کو روکنا بالکل ایسے ہے جیسا کہ انسان کو سانس لینے سے اس وقت تک روکا جائے جب تک وہ نظامِ تنفس کا مکمل علم حاصل نہ کر لے، یا کسی انسان کو کھانے پینے سے اس وقت تک روکا جائے جب تک وہ نظامِ انہضام میں مہارت حاصل نہ کر لے۔ بالکل ایسے ہی تفکر انسانی سرشت میں پیوست ہے، اور یہ فکر کی داخلی پکار ہے جس سے کہ عقیدہ پرست خوف زدہ ہوتے ہیں، اور تفکر کرنے والوں پر عقیدت کی آڑ میں پابندیاں لگا کر ان کی فکری صلاحیت کو معذور کرنا چاہتے ہیں۔ لہذا تشکیک کوئی ایسی شے نہیں ہے کہ جو انسان کے لیے اجنبیت کی حامل ہو، بلکہ یہ انسانی فکر کی داخلی پکار ہے کہ وہ تمام حدود سے ماورا ہونا چاہتا ہے۔ ماورا ہوجانے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ وہ کسی ایسے مرحلہ میں داخل ہو چکا ہے کہ جہاں سے اگلے تمام راستے مسدود ہو جاتے ہیں۔ بلکہ انسان کے فکری ارتقا کا یہ سلسلہ اپنی سرشت میں لامتناہیت کا حامل ہے، اور یہی مسلسل ارتقا تشکیک کو اپنی سرشت میں شامل رکھتا ہے۔ حقیقی مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب تشکیک اور تیقن کے درمیان ناقابلِ عبور خلیج قائم کر لی جاتی ہے۔ اس وقت تیقن تشکیک کو برداشت کرتا ہے اور نہ تشکیک تیقن کو خاطر میں لاتی ہے۔ لیکن جب تشکیک کو تیقن کے اندر دیکھا جائے اور تشکیک کے بطن میں تیقن دکھائی دے، اس طریقے سے کہ دونوں میں جدلیاتی تعلق قائم رہے تو تشکیک کسی بھی صورت تیقن کے لیے کوئی مسئلہ کھڑا نہیں کرتی۔ وجہ اس کی ظاہر ہے کہ ”سچائی“ کو کوئی ”بنی بنائی“ شے تصور نہیں کر لیا گیا ہے، بلکہ تبدیلی کے عمل کے دوران میں دونوں کا گزر ہو سکتا ہے۔ ایسے میں جو شے عقیدے کے لیے انتہائی مہلک ثابت ہوتی ہے اور جس کا ثبوت خود عقیدہ پرست کئی بار دے چکے ہیں وہ یہی ہے کہ وہ بار بار عقل کو اس کی حدود میں رہنے کا درس دیتے رہتے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ عقل کی کوئی حدود نہیں ہوتیں، اور اگر سچائی کی تلاش میں کسی جگہ رکنا مقصود ہو تو وہ بھی عقل خود طے کرتی ہے نہ کہ کسی پہلے سے تیار شدہ چوکھٹے سے گزر کر اظہارِ اطمینان کرتی ہے۔
جدید مغربی فلسفے کی تاریخ میں ڈیوڈ ہیوم ایک ایسا فلسفی ہے جس نے تجربیت یا عقل استقرائی پر کاری ضرب لگائی۔ ماورائے عقل تصورات کی حقانیت پر سوالات قائم کیے۔ وہاں بھی اصل مسئلہ یہی تھا کہ انسان کی فکر کو تجربیت تک محدود کر دیا گیا تھا، یا اسے حد سے بڑھا کر عقلِ محض کے سپرد کر دیا گیا تھا۔ اب یہ تحدید، جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں، خواہ تجربیت کی حدود میں ہو، خواہ ماورائے تجربیت یا ماورائے عقلیت کسی عقیدے کی بنیاد پر ہو، اسے رد کر دیا جاتا ہے۔جدلیاتی فکر کا وصف یہ ہے کہ وہ تجربیت، عقلیت اور ماورائے عقلیت کی قائم کردہ تمام حدود کو مسمار کرتی ہوئی انہیں اپنے بطن میں سمو لیتی ہے۔ جس فلسفے کے وسط میں حرکت، تغیر، تضاد، تخالف جیسے مقولات گردش کر رہے ہوں انہیں تشکیک سے کہیں بھی کوئی خطرہ لاحق نہیں رہتا، کیونکہ جدلیاتی مفکر تشکیک سے خوفزدہ نہیں ہوتے، بلکہ اسے قبول کرتے ہیں۔ تشکیک، تغیر، حرکت صرف ان عقائد کے لیے خطرہ ہوتے ہیں، جو ان کو اپنا مخالف سمجھتے ہیں۔جن عقائد میں داخل اور خارج کی حتمی ”دوئی“ قائم ہوتی ہے۔ جہاں سچ کا جوہر مستقل مانا جاتا ہے۔ تاہم تشکیک کے عمل میں سچ کو، بہرحال، اپنے اُلٹ میں بدلنا ہے۔ جو حتمی تھا اسے اضافی ہونا ہے۔ اقبال اسلام کی”نئی تشکیل“ اس لیے کرنا چاہتے تھے کہ وہ جانتے تھے کہ ”حتمی سچائی“ اپنے اُلٹ میں بدل چکی ہے۔ یعنی وہ اضافی ہو گئی ہے۔ حتمی سچائی پر تشکیک ہی اگلی سطح پر ایک اور سچائی کے لیے تیقن فراہم کر سکتی ہے۔ مستقبل میں تیقن کے لیے ماضی کے تیقن پر تشکیک ہی اس کا واحد راستہ ہے۔ اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ انسان کی فکری اور عملی تاریخ ارتقا سے نجات نہیں پا سکتی۔ تاریخ ہر نظریے اور ہر مذہب کا امتحان ہوتی ہے، اور اس امتحان میں فیصلہ بھی تاریخ کو ہی کرنا ہوتا ہے۔
ایک تشکیک جو مذہبیوں کے ہاں ملتی ہے، یہ ہے کہ انسانی عقل و فکر میں خرابی یا بگاڑ باقی رہتے ہیں، ا س لیے ضروری ہے کہ ”عقیدہ“ تراش لیا جائے اور اسے عقل و فکر کی حدود سے ماورا قرار دے دیا جائے۔ اگر اس بات کو تسلیم کر لیا جائے تو بہت سے فکری مسائل جنم لیتے ہیں، جس سے عقلیت پسندوں کو نہیں بلکہ عقیدہ پرستوں کو مسئلہ درپیش ہو سکتا ہے۔ وہ ’مفکر جو‘ عقل و فکر کے بگاڑ کو تسلیم کرتے ہیں اور ساتھ ہی عقیدے کو عقل سے پرکھتے ہیں، وہ ہمیشہ غلطی کا ارتکاب کرتے ہیں، کیونکہ وہ عقل میں بگاڑ کے لمحے کا تعین نہیں کر سکتے، اس کے لیے انہیں عقل میں داخل ہونا پڑے گا، جس سے وہ گریزاں ہیں۔ عقل کی حدود میں داخل ہونے کا مطلب ہی یہ ہے کہ بگاڑ کو تصور نہیں کرنا، بلکہ عقل کے اندر بگاڑ کو دکھانا ہے، جو بذات خود ایک عقلی، منطقی عمل ہے۔ اب اگر یہ کہا جائے کہ عقل اپنی حدود سے تجاوز نہ کر کے اس خرابی یا بگاڑ سے بچ سکتی ہے تو ایک نیا سوال یہ اٹھتا ہے کہ آپ کو کیسے پتا چل گیا کہ عقل کا بگاڑ یا خرابی کس لمحے اس میں در آتے ہیں اور یہ کیسے ثابت کیا جا سکتا ہے کہ عقیدہ بجائے خود عقل کے بگاڑ کے طور پر پیدا نہیں ہوتا؟ اگر یہ جواب دیا جائے کہ عقیدہ عقل کا بگاڑ نہیں ہے تو پھر اس کا مطلب یہی نکلتا ہے کہ عقیدہ عقل کی حدود میں ہے۔ اصل نکتہ یہی ہے کہ بگاڑ کے لمحے کا تعین کر لیا جائے، اور اگر بگاڑ کے لمحے کا تعین ہو جائے تو پھر ایک اور سوال کھڑا ہو جاتا ہے کہ بگاڑ کا تعین بھی عقل کی حد میں ہے۔ اور عقل خود اس بگاڑ کے تدارک کا ذریعہ ہے جس کا ایک ہی مطلب نکلتا ہے کہ عقل اپنے بگاڑ پر قابو پاکر آگے نکل چکی ہے، یعنی ا س نے اپنے بگاڑ کو کم ا ز کم نظری و منطقی سطح پر دور کر لیا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عقلی طور پر یہ ضروری ہے کہ بگاڑ یا خرابی کو عقل کا لازمی حصہ تصور کر لیا جائے۔ ا س کا واحد طریقہ یہ ہے کہ اس سارے قضیے کو جدلیاتی طور پر دیکھا جائے یعنی تشکیک اور اضافیت جدلیاتی عمل کا حصہ ہیں نہ کہ اس سے باہر اور ماورا۔
دنیا کی کوئی بھی تہذیب اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک اس کے اندر سچ اور اخلاقیات جیسی اقدار خود احتسابی کے لیے قوتِ محرکہ کا کردار ادا نہ کر رہی ہوں۔ خود احتسابی کا مطلب ہے کہ سچ کو جھوٹ سے الگ کرنے کے عمل سے گزرنا۔ سیاسی، سماجی، مذہبی، تاریخی اور اخلاقی اقدار کے حوالے سے اسی جذبہ محرکہ کے تحت تحقیق کرنے کے جو پہلو میں نے مغربی فلسفیوں، مفکروں اور لکھاریوں میں دیکھے ہیں، وہ مجھے کہیں بھی دکھائی نہیں دیے۔ اگر ان لکھاریوں کے پیشِ نظر مغربی معاشروں کی مذہبی تاریخ کی تحقیق کرنا ہے تو اس حوالے سے انہوں نے چرچ اور مذہبی ہستیوں (مسیح اور موسیٰ) کے متعلق حقائق کو بے لاگ تنقیدی زاویے پر پرکھا اور وہ نتائج نکالے کہ جن سے نہ صرف حقائق سامنے آتے ہیں بلکہ اگلی نسل کے اندر سچ کی دریافت کے حوالے سے ایک شدید خواہش بھی پنپنے لگتی ہے۔ کیونکہ جب تک سچ کی دریافت سے حقیقی وابستگی نہ ہو، اس وقت تک سچ کبھی سامنے نہیں آتا اور سچ کو سامنے لانے کے لیے لکھاری کی سچ سے محبت ہونی بہت ضروری ہوتی ہے۔ یہی یونانی فلسفے کی وہ عظیم روایت ہے جو سقراط سے شروع ہوئی۔ بعد ازاں عظیم ارسطو نے کہا کہ مجھے افلاطون سے محبت ہے، لیکن افلاطون سے زیادہ مجھے سچ سے محبت ہے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ مغربی لکھاری رنگ، نسل، مذہب کی تفریق کے بغیر اپنی دو ہزار برس پر محیط مسیحیت کی تاریخ میں مضمر وحشت و بربریت کو بالکل ویسے ہی بیان کرتے ہیں جیسی کہ وہ عمل میں آئی ہے۔ ہمیں کسی بھی موضوع پر تحقیق کرنی ہو تو اس موضوع پر بڑی اور اہم کتاب ہمیں مغرب لکھاریوں کی ہی دستیاب ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ مسلمان لکھاریوں کو مغرب پر تنقید کرنی ہو تو وہ بھی مغربی لکھاریوں کے حوالوں پر مبنی ہوتی ہیں۔
اس کے برعکس اگر ہمیں اسلامی تاریخ پر تحقیق کرنی ہو تو اوّل تو کوئی’مستند‘ کتاب ہی نہیں ملتی، اور اگر کبھی کوئی کتاب مل جائے تو اس میں اسلامی روایت میں موجود ہر طرح کی بداخلاقی اور ظلم و دہشت کے بارے معذرت خواہانہ رویہ ملتا ہے۔ لکھاریوں کی کوشش ہوتی ہے کہ ہر غلط کاری کا کہیں نہ کہیں سے کوئی جواز تلاش کر کے پیش کر دیا جائے۔ ان رویوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ کسی بھی مذہبی اور تہذیبی روایت میں تقدس کو بنیادی اہمیت دی جاتی ہے اور اسی کو بنیاد بنا کر ”سچ“ کو پسِ پشت ڈال دیا جاتا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جب تک تاریخی معاملات میں مبنی بر سچائی اور تنقیدی روح کو بیدار نہیں کیا جاتا، سچائی کا حصول ممکن نہیں ہوتا۔ اس طرح اپنی مذہبی روایت کا تو دفاع کیا جا سکتا ہے، جو یقیناََ زوال کا باعث بنتا ہے، مگر انسان کا سچ سے راستہ قطعی طور پر الگ ہوجاتا ہے۔ سچائی کی تلاش کے لیے خود سچا ہونا پڑتا ہے اور جب تک خود سچے نہ ہوں اس وقت تک سچائی کا حصول ممکن نہیں رہتا۔سچ کا انکشاف کرنا، اس کا تنقیدی جائزہ لینا، اس میں مضمر اپنی خامیوں کو تسلیم کرنا تہذیبی و اخلاقی ارتقا کے لیے ازحد ضروری ہے۔ محمد اقبال کے حوالے سے بھی یہ رویہ نمایاں ہے۔ اقبال سے عقیدت کا پہلو کچھ اس طرح شدت اختیار کر گیا ہے کہ اگر کوئی اقبال سے اختلاف کرے تو اسے ”قومی مجرم“ اور ”مذہبی مجرم“ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ جب کہ محققین اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ کسی بھی ”فکر“ کو آگے بڑھانے کے لیے نہ صرف یہ کہ اس سے اختلاف کرنا ضروری ہے بلکہ اس اختلاف کا متبادل پیش کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ اختلاف کا مطلب ہے مکالمہ کیا جا رہا ہے، جب کہ اتفاق کرنے کا مطلب یہ ہے کہ مکالمہ ختم ہو گیا ہے، سب ہی ایک دوسرے سے متفق ہیں۔ لہذا اب کوئی گنجائش ہی نہیں بچتی کہ فکری پہلو کا ارتقا ممکن ہو سکے۔ ایک طرف تو یہ رویہ علمی و اخلاقی زوال و بحران کی طرف لے جاتا ہے اور دوسری طرف یہ رویہ علمی و اخلاقی بحران کی پیداوار ہوتا ہے۔ اقبال ایک مفکر تھے، انہوں نے جس پر چاہا تنقید کی۔ انہوں نے قرآن کی غیر روایتی تعبیرات پیش کیں، جو قرآن کی تعلیمات ہی نہیں بلکہ قرآن کے الہامی ہونے پر اہم سوالات قائم کرتی ہیں۔ ان معنوں میں اقبال ”متشکک“ تھے۔ یعنی انہوں نے روایتی اعتقادات کو شک کی نظر سے دیکھا اور ان کا متبادل پیش کیا۔
کمنت کیجے