Home » ڈاکٹر مشتاق صاحب کا تصور سنت و حدیث اور ہماری معروضات
اسلامی فکری روایت تفسیر وحدیث شخصیات وافکار

ڈاکٹر مشتاق صاحب کا تصور سنت و حدیث اور ہماری معروضات

ڈاکٹر خضر یسین

شروع ہی میں ایک وضاحت پیش کر دینا چاہتا ہوں کہ اس مضمون کا مقصد ڈاکٹر مشتاق صاحب سے کسی علمی و دینی بحث میں الجھنا نہیں ہے اور نہ ہی اس توقع یا امید کے ساتھ یہ مضمون لکھ رہا ہوں کہ وہ اس کا جواب مرحمت فرمائیں، وجہ یہ ہے ؛ میں جانتا ہوں جو لکھیں گے جواب میں۔ یہ مضمون خالصتاً علمی اور انتقادی نوعیت کا ہے۔ ڈاکٹر مشتاق صاحب ہی نہیں دیگر روایتی علما اس طرح کے علمی انتقاد میں تربیت یافتہ ہیں اور نہ ان کے وہم و گمان میں یہ خیال کبھی آ سکتا ہے کہ مروج و متداول معتقدات میں مخفی کفر کو ایمانی لبادے سے باہر نکالنے کا طریقہ صرف اور صرف علمی انتقاد ہے۔ اس علمی انتقاد کی تربیت اہل المورد میں نظر آتی ہے اور نہ اہل مدرسہ میں پائی جاتی ہے۔
“فتنہ انکار حدیث” کا نعرہ وہ فتنہ ہےجو مستشرقین کے خلاف مستغربین نے برپا کیا ہے۔ مستشرقین مغرب کے وہ علما تھے جو مشرق کے تہذیبی مطالعات کی طرف اپنی مخصوص عزائم کے ساتھ متوجہ ہوئے تھے اور مستغربین مشرقی علما کا وہ گروہ ہے جو مستشرقین کے حاصل مطالعہ کو رد کرنے یا قبول کرنے کے لیے ردعمل کی نفسیات کے ساتھ اٹھا ہے۔ استغراب دراصل ردعمل ہے، مستقل بالذات ڈسکورس نہیں ہے۔ رد عمل جس نفسیاتی کیفیت کا پیدا کردہ ہوتا ہےاس میں جوابی عمل معیاری نہیں ہوتا اور نہ معیاری رہنا چاہتا ہے۔ جب جوابی عمل بے لگام ہو جائےتو وہ خود ایک فتنہ ہوتا ہے۔ ردعمل کی نفسیات فعال ہو تو جوابی عمل متوازن کبھی نہیں رہتا اور مسلم علما کے مذکورہ بالا دونوں گروہ اس مصیبت میں مبتلا ہیں۔ فتنہ انکار حدیث کا نعرہ علم و ایمان کے لیے خود ایک فتنہ بن چکا ہے جس نے مسلم علما کے عقل پر پردہ ڈال دیا ہے۔ یہ اسی فتنے کا اثر ہے کہ حدیث اور سنت کو ایک بنا دیا گیا ہے۔ حالانکہ سنت اورحدیث دو مختلف چیزیں ہیں۔سنت منزل من اللہ اعمال ہیں۔جس طرح قرآن منزل من اللہ ہے اسی طرح یہ اعمال جو گنتی میں چند ہی ہیں بھی منزل من اللہ ہیں۔اسکے برعکس حدیث راوی کا قول ہے جس میں وہ رسول کی طرف کوئی قول یا فعل ”منسوب“ کرتا ہے۔مسلمانوں کی علمی تاریخ میں ایک بار بھی لفظ “حدیث” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و عمل کے لیے نہیں بولا گیا اور نہ ہی اہل زبان نے اس لفظ کو اس مفہوم و مدلول کے لیے وضع کیا ہے۔ علم حدیث جب مستقل علم کی حیثیت سے سامنے آیا تو لفظ “حدیث” اس میں بطور اصطلاح استعمال ہوا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ اصطلاح کا مفہوم و مدلول بگڑ جائے یا بگاڑ دیا جائے تو علم و عمل کی کائنات الٹ پلٹ جاتی ہے۔ پچھلی صدی میں جو مذہبی ادب حدیث کے رد یا دفاع میں تخلیق ہوا ہےوہ مستغربین کی اسی نفسیات کا پیدا کردہ ہے جو علم کو متوازن نہیں رہنے دیتا۔ حدیث کے رد و قبول میں دو گروہ پیدا ہو گئے ہیں۔ دونوں گروہ کان سنبھالے بغیر کوے کے پیچھے دوڑ رہے ہیں۔ دونوں کے نزدیک حدیث کا مفہوم و مدلول ایک ہی ہے اور وہ علم حدیث سے ماخوذ ہے اور نہ مستفاد ہے۔ دونوں یہ سمجھتے ہیں کہ حدیث “قول الرسول” ہے۔ حالانکہ وہ “قول الرسول” نہیں ہے۔ ایک گروہ نے تو کمال کر دیا ہے، وہ کہتا ہے کہ حدیث نہ صرف قول الرسول ہے بلکہ حدیث پر ایمان و عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر واجب تھا، اس لیے کہ حدیث ان کے نزدیک منزل من اللہ وحی ہے۔ یہ گروہ وہ ہے جو فتنہ انکار حدیث کی رٹ لگاتا رہتا ہے اور یہ رٹ خود اب ای فتنے کی صورت اختیار کرچکی ہے۔ ڈاکٹر مشتاق صاحب وغیرہ اسی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ذیل میں چند معروضات ختم نبوت کے دفاع کے لیے پیش کر رہا ہوں۔ اس لیے کہ حدیث کو دین اور دینی حجت ماننا نبی اور غیر نبی کے فرق کو ختم کرنے کی ناپاک کوشش ہے۔
پہلی بات یہ کہ مسلمانوں کی پوری علمی تاریخ میں لفظ “حدیث” جب سے علم حدیث کی اصطلاح کے طور پر استعمال ہوا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قول، فعل اور عمل کے لیے کبھی استعمال نہیں ہوا۔ ہمیشہ منسوب الی الرسول قول و عمل کے لیے بولا گیا ہے، نہیں، بات صرف یہی ختم نہیں ہوتی، حدیث کے لیے متعین و مشخص راوی اتنا ہی ضروری ہے جتنا منسوب الی الرسول قول و عمل ضروری ہے۔ حدیث کا مفہوم و مدلول سند اور متن دو اجزا پر مبنی ہوتا ہے۔ متن کے بغیر سند اور سند کے بغیر متن “حدیث” نہیں ہے اور نہ کہلاتا ہے۔ لیکن اس وقت علم حدیث سے ناواقف حضرات حدیث کو منسوب الی الرسول قول کے بجاۓ قول الرسول سمجھ رہے ہیں جو غلط ہے بلکہ فتنہ ہے۔ پورے یقین و اطمینان کے ساتھ یہ بات کی جا سکتی ہے کہ آج روئے زمین پر ایک حدیث بھی ایسی نہیں ہے جو منسوب الی الرسول قول و عمل کے بجائے قول الرسول، فعل الرسول اور تقریر الرسول ہو۔ آج جتنی کتب احادیث مروج و متداول ہیں ان میں ایک حدیث ایسی نہیں ہے جو کسی متعین و مشخص صحابی کی روایت ہو ۔ تمام احادیث دو سے لے کر دس راویوں کی سند پر مشتمل ہیں۔ سند کے تمام راوی یکساں اہم ہوتے ہیں چاہے وہ صحابی ہو یا غیر صحابی۔ صحابی کا سقوط سند کے لیے اتنا ہی نقصان دہ ہے جتنا تابعی یا تبع تابعی کا ہوتا ہے۔ الا یہ کہ آپ کسی تابعی کی مراسیل قبول کرنے کی جانب مائل ہوں تو یہ اور بات ہے۔ تدلیس سند کا سقم ہے، بعض اوقات آپ اس سقم کو اپنے استاد یا استاد کے استاد پر اعتماد کی وجہ سے خاطر میں نہیں لاتے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ سند سقیم نہیں ہے۔ مرسل و مدلس ایک ہی شے ہیں دونوں میں فرق وضعی ہے، حقیقی نہیں ہے۔ چنانچہ یہ تصور باطل ہے کہ حدیث کا رد و قبول عدالت صحابہ پر حرف گیری ہے۔ علم حدیث میں سند کا ہر راوی دو صفات کا حامل ہو یہ ضروری ہے۔ ایک یہ کہ وہ متعین و مشخص ہو اور دوسرا وہ امام فن کی نظر میں مقبول ہو۔ لہذا یہ تصور سراسر باطل اور گمراہ کن ہے کہ حدیث قول رسول ہے یا فعل رسول ہے یا تقریر رسول ہے۔ حدیث متعین و مشخص راوی کا وہ قول ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف منسوب قول و عمل حکایتاً بیان ہوا ہے۔ علاوہ ازیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف منسوب قول و عمل کی مستقل بالذات کوئی دینی حیثیت ہے اور نہ علمی حیثیت ہے، اس کی علمی حیثیت سو فیصد منحصر اور borrowed ہے۔ حدیث کی دینی حیثیت کا تعین اس کی علمی حیثیت پر منحصر ہے۔ پہلے مرحلے میں ہم حدیث کی علمی حیثیت متعین کرتے ہیں اور پھر اسے اپنی مرضی کی دینی حیثیت دیتے ہیں۔
غامدی صاحب اور ڈاکٹر مشتاق صاحب دونوں کا یہ تصور گمراہ کن ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم دین کا مبداء ہیں۔ دین کا مبداء کتاب و سنت یعنی “رسالات من اللہ” ہیں۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مخاطب و مکلف ہیں اور بالکل اسی طرح مخاطب و مکلف ہیں جیسے امتی مکلف و مخاطب ہیں۔ آپ علیہ السلام کا امتیازی وصف یہ ہے کہ آپ علیہ السلام دین کے بلاواسطہ مکلف و مخاطب ہیں اور امتی آنجناب علیہ السلام کی اطاعت و اتباع میں مکلف و مخاطب ہے۔ امتی دین کا بلاواسطہ مکلف و مخاطب نہیں ہے، وہ بالواسطہ یا بواسطہ رسول اللہ علیہ السلام مخاطب و مکلف ہے۔ لہذا امتی پر واجب ہے کہ کتاب وسنت کی وہی اطاعت و اتباع کرے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہے۔ غامدی صاحب اور ڈاکٹر مشتاق صاحب دونوں امتی کو کتاب و سنت کا بلاواسطہ مکلف و مخاطب مانتے ہیں۔ دونوں میں فرق یہ ہے کہ ڈاکٹر مشتاق صاحب اور دیگر روایتی مذہبی علماء ائمہ اربعہ کو کتاب و سنت کا بلاواسطہ مکلف و مخاطب مانتے ہیں اور امتیوں پر ائمہ اربعہ کی اطاعت و اتباع واجب مانتے ہیں جبکہ غامدی صاحب خود کو اور اپنے اساتذہ کو کتاب و سنت کا بلاواسطہ مکلف و مخاطب مانتے ہیں اور لوگوں کو اپنی اور اپنے اساتذہ کی اطاعت و اتباع کی دعوت دیتے ہیں۔ یہ بات جو بیان کی گئی ہے، اسے لکھنا مذکورہ حضرات کے بس میں نہیں ہے اور نہ ہی اس کا انکار ان کے بس کی بات ہے۔ یہ ایک جملہ معترضہ ہے لیکن یہاں بیان کرنا ضروری تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حدیث کی نسبت سب کے سب گمراہ کن معتقدات اسی عقیدے کی بائی پراڈکٹ ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور امتی کی دینی حیثیت بگاڑنے میں معاون ہوئے ہیں۔
ڈاکٹر مشتاق صاحب روایتی علماء کی طرح سنت و حدیث کو ایک شے سمجھتے ہیں۔ سنت اور حدیث کا مفہوم و مدلول لغتاً ایک ہے اور نہ اصطلاحاً ایک ہے۔ اسی طرح “سنت” کا وہ مفہوم جو غامدی صاحب نے لیا ہے، اس لحاظ سے بے اصل ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصی رائے اور صوابدید کا نتیجہ بن جاتا ہے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت میں آپ علیہ السلام کی رائے اور صوابدید کا ادنی امکان آپ علیہ السلام کی رسالت کی خالص الوہیت آلودہ کر دیتا ہے۔ آنجناب علیہ السلام پر جو کچھ اللہ کی طرف سے نازل ہوا ہے وہی دین ہے، وہی رسالات من اللہ ہیں وہی نبوت ہے۔ آپ علیہ السلام نے اسے پوری دیانت کے ساتھ انسانوں تک پہنچا دیا ہے۔ اس ابلاغ نبوت میں جس دیانت داری کا مظاہرہ محمد رسول اللہ علیہ السلام نے کیا ہے، ایک مسلمان پر واجب ہے کہ ابلاغ نبوت میں اسی دیانت داری کا مظاہرہ کرے۔
مسلمانوں کی علمی تاریخ میں یہ جو کہا گیا ہے کہ “السنۃ قاضیۃ علی الکتاب ” اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ قرآن مجید میں جن مناسک عبادت کا حکم دیا گیا ہے ان کی وہی اطاعت فرض ہے جو سنت کی شکل میں رسول اللہ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے تعلیم فرمایا ہے اور وہ آج بھی الامۃ میں مروج و متداول ہے۔ آپ الصلوۃ کا مفہوم و مدلول لغت سے اخذ نہیں کر سکتے اور نہ عرب محاورے سے لے سکتے ہیں۔ حدیث اور سنت کو ایک سمجھنا مسلمانوں کی علمی روایت کے غیرمحتاط مطالعے کا نتیجہ ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ علم حدیث کے ائمہ نے فقط اس راوی سے حدیث قبول کی ہے جو “متبع سنت” ہوتا تھا۔ اب اگر سنت اور حدیث ایک شے ہیں تو راوی کے لیے متبع سنت ہونے کی قید کیا معنی رکھتی ہے؟ جو شے اپنے ثبوت کے لیے راوی کی محتاج ہے وہی راوی میں پہلے نہ پائی جائے تو وہ حدیث کا راوی نہیں ہو سکتا۔ ان علماء سے پوچھا جائے آپ اپنے بیان کردہ تصور کا علمی تجزیہ کیوں نہیں کرتے تاکہ آپ کے تصورات کی علمی حقیقت کھل سکے؟ ان کا جواب ہوتا ہے کہ ایک ہزار سال سے جس پر عمل ہو رہا ہے وہ بات کیسے غلط ہو سکتی ہے؟
فقہ میں سنت کا مفہوم اور ہے اور ڈاکٹر مشتاق صاحب وغیرہ کا تصور سنت اور ہے۔ اسی طرح علم حدیث میں جسے حدیث کہا جاتا ہے وہ اور شے ہے اور ڈاکٹر مشتاق صاحب وغیرہ کے ہاں وہ اور شے ہے۔ فقہ میں سنت کا تصور اعمال کی درجہ بندی کے لیے مستعمل ہوتا ہے۔ مثلاً سنت وہ عمل ہے جو نہ فرض ہے، نہ واجب ہے اور نہ ہی مباح و مستحب ہے بلکہ فرض و واجب اور مباح و مستحب کے مابین ایک درجہ ہے۔ سنت وہ عمل ہے جو فرض و واجب سے نیچے ہے اور مباح و مستحب سے اوپر ہے۔ فرض و واجب وہ اعمال ہیں جو شارع جل مجدہ کا واجب التعمیل حکم ہیں اور سنت اس کے مساوی ہے اور نہ متوازی ہے۔ اسی طرح مستحب و مباح وہ اعمال ہیں جو کیے جائیں تو اچھا ہے اور نہ کیے جائیں تو ان پر مواخذہ نہیں ہو گا۔ مگر ڈاکٹر مشتاق صاحب کا تصور سنت وہ ہے جو فرض پر متصرف ہوتا ہے اور مامور من اللہ میں ترمیم و تنسیخ کا اہل ہے۔ یہ تصور سنت فرض کے اوپر فرض ہے اور واجب کے اوپر واجب ہے۔ چنانچہ ڈاکٹر مشتاق صاحب کا تصور سنت ایک طرف حدیث کے ہم معنی ہوتے ہوئے لفظ حدیث جو ایک اصطلاح ہے اس کے اصطلاحی مفہوم و مدلول کو دھندلا دیتا ہے اور دوسری طرف سنت کے فقہی مفہوم و مدلول کو بگاڑ دیتے ہیں ۔ گویا ڈاکٹر مشتاق کا تصور سنت نہ لغتاً درست ہے اور نہ اصطلاحاً بامعنی ہے اور نہ ہی فقہی نکتہ نظر سے ہم آہنگ ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا تصور سنت فقہا کا بیان کردہ تصور سنت سے ہم آہنگ ہے اور نہ تصور حدیث ائمہ حدیث کے تصور حدیث سے کوئی تعلق رکھتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا تصور اپنا ممتاز و منفرد تشخص رکھتا ہے کہ وہ فرض و واجب سے کم تر نہیں بلکہ فرض و واجب پر حکم ہے اور فرض و واجب پر فیصلہ کن فوقیت رکھتا ہے۔ علمی اعتبار سے ڈاکٹر صاحب خود کو علم حدیث کے تابع رکھنا چاہتے ہیں اور نہ ائمہ فقہ کی پیروی اپنے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔ دیانت داری کی بات یہ ہے کہ ڈاکٹر مشتاق صاحب کا تصور سنت و حدیث ان کا خانہ زاد تصور ہے۔ وہ کسی علمی تجزیے پر مبنی ہے اور نہ کسی علمی تجزیے کے آگے کھڑے ہونے کے قابل ہے۔ روایتی علما کا یہ مشترکہ المیہ ہے کہ وہ کتاب و سنت کے متعلق اپنی غیرمفید اور ناقص ترین تجزیے پر مبنی اپروچ کی طرف پلٹ کر دیکھنا پسند نہیں کرتے۔ جس کا اثر یہ ہے کہ وہ جو علمی کام کرنا چاہتے ہیں وہ نہ علمی ہوتا ہے اور نہ دینی اعتبار سے مفید ہوتا ہے۔ سرتاسر گمراہی اور اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے دوری کا سبب ضرور ہوتا ہے۔
علم الروایۃ میں نقل کی دو قسمیں بیان ہوئی ہیں۔ ایک “نقل الفرد المشخص عن الفرد المشخص” ہے۔ یہ انتقال خبر و عمل کی وہ نوع ہے جس کا نتیجہ “حدیث” ہے۔ اس روایت میں اعتبار کا دارو مدار ناقل یا راوی ہوتا ہے اور وہ متن مدار اعتبار نہیں ہوتا جسے نقل کیا جاتا ہے۔ احادیث کے جتنے مجموعے اس وقت موجود ہیں، ان کی قبولیت اور عدم قبولیت کا دارومدار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب قول و عمل پر نہیں ہے بلکہ حدیث کے رد و قبول کا مدار راوی ہے جو اسے روایت کرتا ہے۔ ایک حدیث جو ایک فرقے کے نزدیک انتہائی اعلیٰ درجے کی ہوتی ہے دوسرا فرقہ اسے محض اس لیے قبول نہیں کرتا ہے کہ وہ ان راویوں سے مروی ہے جن کے متعلق وہ سمجھتے ہیں کہ وہ قابل اعتبار نہیں ہیں یا کم از کم اتنے قابل اعتبار نہیں جتنے وہ ہیں جن کی وساطت سے ان تک دوسرا متن پہنچا ہے۔ “نقل الفرد المشخص عن الفرد المشخص” کو شخصی روایت بھی کہا جاتا ہے۔ تمام متون حدیث شخصی روایت سے مروی ہیں اور ہم تک شخصی روایت کے وسیلے سے ہی پہنچے ہیں۔ نقل کی دوسری قسم “نقل الکافۃ عن الکافۃ” ہوتی ہے۔ یہ وہ نوع ہے جس کے وسیلے سے کتاب و سنت نقل ہوئے ہیں۔ یہ “نقل االامۃ من حیث الامۃ” ہے۔ نقل کی اس نوع میں متن و مناسک یا سنن کا مدار اعتبار الامۃ ہے اور الامۃ کے زمانی مکانی وجود کا دارومدار متن و مناسک یا کتاب و سنت پر ہے۔ اس کامطلب یہ ہے کہ کتاب و سنت کی وجہ سے الامۃ موجود فی الخارج حقیقت ہے۔ کتاب و سنت محو ہو جائیں یا کر دیئے جائیں تو الامۃ کسی شے کا نام نہیں ہے۔ یہاں تواتر ، تسلسل اوتعامل فرد یا گروہ کا معتبر نہیں ہے، یہاں “تواتر” الامۃ من حیث الامۃ کا تواتر ہے، یہاں “تعامل” الامۃ من حیث الامۃ تعامل ہے اور “تسلسل” بھی وہی معتبر ہے جو الامۃ من حیث الامۃ کا تسلسل ہے۔ یہاں سنت کے مقابل بدعت آتی ہے۔ حدیث سنت کا بیان نہیں ہےبلکہ سچ یہ ہے کہ حدیث الامۃ من حیث الامۃ کے مناسک دین میں اختلاف کا بیان ہے۔ “سنت” امم عالم میں الامۃ کی شناخت ہے اور بدعت ایک فرقے کو دوسرے فرقے سے ممتاز کرتی ہے، حدیث بدعت کی معاون ہے، سنت کی معاون نہیں ہے۔ “سنت” الامۃ کی تہذیبی شناخت ہے اور “بدعت” فرقے کی تہذیبی شناخت ہے، ہر فرقے نے اپنی تہذیبی شناخت حدیث سے یہی مان کر لی ہے کہ حدیث دین ہے۔ نقل الکافۃ عن الکافۃ کے ذریعہ جو مناسک دین یا مناسک عبادت منتقل ہوئے ہیں، وہ نہ تو فرقوں کو شناخت دیتے ہیں اور نہ ہی فرقوں کے نزدیک وہ مستقل بالذات تنزیل من رب العالمین ہیں۔ کم از کم کتاب و سنت کی ترکیب میں لفظ “سنت” حدیث کے ہم معنی نہیں ہے اور نہ فقہی معنی میں سنت اس سنت کے مفہوم و مدلول سے کوئی تعلق رکھتی ہے جس میں لفظ “سنت” کتاب کے ساتھ آیا ہے ۔ جس طرح “کتاب” منزل من اللہ ہے اسی طرح “سنت” منزل من اللہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر دونوں کی اطاعت واجب تھی۔ آپ علیہ السلام قیام سے پہلے رکوع نہیں کر سکتے تھے، اس لیے کہ یہی اللہ کی طرف سے واجب تھا ۔ آپ علیہ السلام جن امور میں وحی خداوندی کے منتظر رہتے تھے اور اپنی مرضی سے ان میں مداخلت کے مجاز نہ تھے، وہ سب منزل من اللہ ہیں۔
دین اور دینی حجیت کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ اکثر یہ لفظ بغیر سوچے سمجھے بولا جاتا ہے۔ دین اور دینی حجیت صرف اور صرف وہ امور ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر واجب تھے اور آپ علیہ السلام کی اطاعت و اتباع میں امتی پر واجب ہیں۔ ایسا کوئی بات امتی کے لیے دین اور دینی حجت نہیں ہے جو اولاً رسول اللہ علیہ و السلام کے لیے دین اور دینی حجت نہ ہو۔ حجیت حدیث کا وہ مفہوم جو ڈاکٹر مشتاق صاحب وغیرہ لیتے ہیں اس میں سب سے پہلے وہ رسول اللہ علیہ السلام کو بائی پاس کرتے ہیں۔ جن احکام و اعمال میں امتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت و اتباع میں نہیں ہے، وہ دین ہیں اور نہ دینی حجت ہیں۔ حدیث اگر دینی حجت ہے تو اس پر سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایمان لانا ضروری ہے۔ کسی بھی دینی معنی کے لیے واجب ہے کہ سب سے پہلے وہ اپنی حجیت کی سند رسول اللہ علیہ السلام سے لے۔ لہذا حدیث کو دین میں شامل کرنے کا مطلب ہے کہ ہم رسول اللہ علیہ السلام کے واجبات دینیہ میں اسے شامل کر رہے ہیں۔اگر کسی نے یہ جسارت دکھانی ہے کہ اپنے فقہی امام کے اجتہادی حاصلات کو رسول اللہ علیہ السلام کے لیے واجبات ایمانیہ کا حصہ بنا سکتا ہے تو یہ اس کی طرف ایک علمی خیانت ہےوہ کرتا پھرے۔ ہمیں اس کا جوابدہ نہیں ہونا البتہ جب وہ اپنی اس علمی خیانت کو دین اور دینی حجت بناتا ہے تو ہم اسے اس کی اجازت نہیں دے سکتے ۔
آخری اور انتہائی اہم بات جس کے جواب کا میں کبھی منتظر نہیں رہا اور نہ اللہ تعالیٰ مجھے میرے آخری سانس تک اس کا منتظر رکھے، وہ یہ ہے کہ حدیث قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے ، قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حیثیت دینا اور اس کے ذریعے کتاب و سنت میں ترمیم و تنسیخ جائز مانناصرف اسی وقت ممکن ہے جب دونوں قال کے فاعل پر یکساں ایمان بالغیب ہو۔ ایک مسلمان کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اس ایمان بالغیب میں کسی غیرنبی کو شامل کرے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات شریف کے ساتھ خاص ہے۔ غیرنبی سے نبوت کا مفاد صاحب ایمان کے لیے شرف قبولیت حاصل نہیں کرسکتا۔ہم صحیح حدیث کو صحیح ، حسن کو حسن ، ضعیف کو ضعیف اور موضوع کو موضوع مانتے ہیں۔ ہم ائمہ فن کے ان فیصلوں کو تہہ دل سے قبول کرت ہیں۔ لیکن موجودہ زمانے کے علماء کے اس فتنے کو قبول نہیں کرتے کہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو قال رسول اللہ کا درجہ دے کر تنزیل من رب العالمین میں اس کے ذریعے کمی بیشی کریں۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں