Home » بنو قریظہ میں عصر پڑھنا
تفسیر وحدیث

بنو قریظہ میں عصر پڑھنا

ہمارے فاضل دوست لکھتے ہیں:
“بعض اوقات شارع کے نزدیک خود اپنے کلام کو ‘مختلف مفاہیم’ کا حامل بنانا پیش نظر ہوتا ہے۔”
اس کی مثال کے طور پر وہ فرماتے ہیں:
“وہ حدیث معروف ہے کہ نبی کریم ﷺ نے صحابہ کی ایک جماعت کو بنو قریظہ بھیجا اور فرمایا کہ: ‘تم میں سے کوئی شخص نماز عصر بنو قریظہ پہنچنے سے پہلے نہ پڑھے۔’
صحابہ کی ایک جماعت نے اس فرمان کے ظاہری الفاظ کو دیکھا، جبکہ بعض نے اس کی علت (سرعتِ انطلاق) کو مدنظر رکھا۔ فرمان میں چونکہ دونوں مفاہیم کی گنجائش تھی، اس لیے دونوں جماعتوں کی تصویب فرمائی گئی۔”
اسی بنیاد پر وہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ:
“جس ذات کا علم اولین و آخرین پر محیط ہے، ایسا کیوں نہیں ہو سکتا کہ وہ اپنے کلام کو حمال ذو وجوہ بنا دے تاکہ ہر زمان و مکان میں اس کی آفاقیت اور نئے مفاہیم کی گنجائش پیدا ہوتی رہے؟”
اس پوسٹ میں ہم اس روایت کا جائزہ لیں گے جو رسول اللہ ﷺ کے نزدیک کلام کو محتمل الوجوہ ماننے کے حق میں بطور استدلال پیش کی گئی ہے۔
روایت کا پس منظر
رسول اللہ ﷺ غزوۂ احزاب سے فارغ ہو کر واپس مدینہ لوٹے ہی تھے کہ جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے اور ہدایت دی کہ “بنو قریظہ”، جنہوں نے جنگ میں دھوکہ دے کر خود کو خدا کے عذاب کا مستحق بنا لیا تھا، ان پر سزا نافذ کی جائے۔
رسول اللہ ﷺ نے فوراً اس حکم پر عمل کرتے ہوئے تقریباً تین ہزار کے لشکر کو بنو قریظہ روانہ ہونے کا حکم دیا۔ بنو قریظہ کا فاصلہ مدینہ کے قریب تھا اور رسول اللہ ﷺ کے لیے کوئی اجنبی نہیں تھا۔ آپ نے اپنے گمان کے مطابق سفر کی مسافت اور وقت کا اندازہ لگا کر یہ حکم دیا کہ عصر کی نماز وہیں پہنچ کر ادا کی جائے۔
یہ حکم یقیناً اس غرض سے دیا گیا کہ لشکر جلد از جلد اپنی منزل پر پہنچے اور دورانِ سفر نماز کے لیے رکنے سے نظم میں خلل پیدا نہ ہو۔
روایات کے مطابق، راستے میں بعض صحابہ کو یہ محسوس ہوا کہ بنو قریظہ پہنچنے تک انتظار کیا گیا تو نماز قضا ہو سکتی ہے، لہٰذا انہوں نے راستے میں نماز ادا کر لی۔ دیگر صحابہ نے حکم کے ظاہری مفہوم کو مدنظر رکھتے ہوئے بنو قریظہ پہنچنے کے بعد نماز پڑھی۔
جب رسول اللہ ﷺ کے علم میں یہ بات آئی تو آپ نے کسی گروہ کی نکیر نہیں کی۔
فاضل دوست کے استدلال پر نقد:
فاضل دوست نے صحابہ کے رویے اور رسول اللہ ﷺ کے اس طرزِ عمل سے یہ استدلال کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے کلام سے دو مختلف مفاہیم اخذ کیے گئے، اور ان دونوں کی آپ ﷺ نے تصویب فرمائی۔ہمارے نزدیک یہ استدلال درست نہیں ہے۔اس لیے کہ یہ دونوں رویے ایک کلام سے دو مختلف مفاہیم اخذ کرنے کا معاملہ نہیں ہیں، بلکہ یہ ایک ہی حکم کے اندر موجود استثناء سے فائدہ اٹھانے کا معاملہ ہے۔ یہ استثناء حکم میں پہلے سے موجود تھا:
1. اگر کسی کو محسوس ہو کہ عصر قضا ہونے کو ہے، تو وہ نماز ادا کر لے۔
2. ورنہ نماز بنو قریظہ پہنچ کر ہی ادا کی جائے۔
یہ استثناء عقل کی بنیاد پر ہر حکم میں موجود ہوتا ہے۔ جب کوئی حکم صادر ہوتا ہے، تو اس کے ساتھ ہی کچھ عقلی مستثنیات اور تحدیدات بھی شامل ہوتی ہیں۔ یہ مستثنیات حکم کے بعد شامل نہیں کیے جاتے، بلکہ اس کے صدور کے وقت ہی اس کا حصہ ہوتے ہیں۔
مثال کے طور پر:
اگر کوئی استاد کہے کہ:
“کل تمام طلبہ آٹھ بجے پہنچیں، جو نہیں پہنچے گا اسے دس روپے جرمانہ کیا جائے گا۔”
اگر اگلے دن کوئی طالب علم اس وجہ سے نہ آ سکے کہ راستے میں حادثہ پیش آ گیا اور اسے اسپتال لے جانا پڑا، تو استاد اس پر جرمانہ نہیں کرے گا۔
کیا یہ کہا جائے گا کہ استاد نے اپنے حکم کی مختلف تعبیرات کو قبول کیا؟
ہرگز نہیں۔ یہ استثناء حکم کے ساتھ ہی شامل تھا، اور اس کی بنیاد عقل پر ہے۔
اسی طرح، اگر کوئی صحابی عذر کی بنا پر راستے میں نماز ادا کرتا اور بنو قریظہ دیر سے پہنچتا، تو کیا یہ رسول اللہ ﷺ کے حکم کی مختلف تعبیر ہوتی؟ نہیں۔
اصل بات
رسول اللہ ﷺ کا حکم درحقیقت یہ تھا کہ:
“تین ہزار کے لشکر کی نماز قضا نہ ہو، اور یہ لشکر جلد از جلد بنو قریظہ پہنچے۔”
اس میں یہ استثناء پہلے سے موجود تھا کہ اگر نماز قضا ہونے کا خوف ہو، تو راستے میں پڑھ لی جائے۔
یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے راستے میں نماز پڑھنے والے صحابہ کی نکیر نہیں فرمائی، کیونکہ انہوں نے حکم کے اندر موجود استثناء سے فائدہ اٹھایا تھا، نہ کہ حکم کی مختلف تعبیر اختیار کی تھی۔
نتیجہ:
یہ روایت رسول اللہ ﷺ کی بات کو محتمل الوجوہ بنانے کی دعوت نہیں دیتی، بلکہ یہ آپ ﷺ کے حکم میں پہلے سے موجود عقلی مستثنیات کو تسلیم کرنے کی رہنمائی کرتی ہے۔
یہ بات اس وقت قابلِ توجہ ہوتی جب بعض صحابہ رسول اللہ ﷺ کے واضح حکم کے باوجود لشکر کو بنو قریظہ کے بجائے مکہ لے جاتے، اور آپ ﷺ ان کی تائید فرماتے۔
لیکن یہاں ایسا نہیں ہوا۔

محمد حسن الیاس

محمد حسن الیاس علوم اسلامیہ کے ایک فاضل محقق ہیں۔انھوں نے درس نظامی کی روائتی تعلیم کے ساتھ جامعۃ المدینۃ العالمیۃ سے عربی ادب کی اختصاصی تعلیم حاصل کی۔معروف مذہبی اسکالر جاوید احمد غامدی کے شاگرد اور علمی معاون ہونے کے ساتھ ان کے ادارے میں تحقیقی شعبے کے ڈائریکٹر کے فرائض انجام دے رہیں۔

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں