Home » دلیل حدوثِ عالم:علم کلام کی بنیاد
کلام

دلیل حدوثِ عالم:علم کلام کی بنیاد

علمِ کلام کے نظامِ فکر میں ‘دلیلِ حدوثِ عالم’ محض ایک نظریاتی مقدمہ نہیں، بلکہ وہ اساسی ستون ہے جس پر پورے استدلالی قصر کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ یہ متکلمین کی فکری کاوشوں کا نقطۂ آغاز، اور ان کے عقلی منہاج کی سب سے مؤثر و فیصلہ کن برہان سمجھی جاتی ہے۔

متکلمین کا مستقل موقف یہ رہا ہے کہ یہ دلیل ایک ایسی محکم اور فیصلہ کن عقلی حجت ہے، جس کے ذریعے وہ منکرینِ خدا کو اس کی ہستی پر محض عقل کی بنیاد پر قائل کر سکتے ہیں۔ ان کے خیال میں یہی وہ واحد راہِ استدلال ہے جو وحی کے انکار کی صورت میں بھی خالص عقل کے ذریعے وجودِ باری تعالیٰ کو مدلل اور یقینی طور پر ثابت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

یہ دلیل اس مفروضے پر قائم ہے کہ چونکہ کائنات حادث ہے — یعنی اس کا ایک آغاز ہے اور یہ مسلسل تغیر پذیر ہے — اور ہر حادث کے لیے محدث کا ہونا ضروری ہے، لہٰذا یہ کائنات بھی کسی محدث کی تخلیق ہے، اور وہ محدث خدا ہے۔

پہلی نظر میں دلیل ایک سادہ، مربوط اور عقلی منطق پر مبنی مقدمہ محسوس ہوتی ہے، جسے علمِ کلام کے مدافعین انسانی عقل کے لیے خدا کے وجود کا “عقلی شاہکار” قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ وہ استدلال ہے جو وحی کے انکار کی صورت میں بھی محض عقل کی بنیاد پر حقیقتِ مطلقہ تک رسائی کا امکان پیدا کرتا ہے۔

اسی لیے علمِ کلام کو ایک ایسا فکری منہج تصور کیا گیا ہے جو عقل و برہان کے ذریعے مذہب کی ترجمانی کرتا اور الحاد و انکارِ وحی کے مقابل ایک مضبوط فکری و استدلالی دفاع فراہم کرتا ہے۔

اس تصور کو واضح کرنے کے لیے متکلمین نے اسے ایک منطقی قیاس (syllogism) کی شکل دی ہے، جو صغریٰ اور کبریٰ پر مشتمل دو مقدمات پر مبنی ہے اور اسی سے اس کا نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے۔

اگرچہ یہ استدلال بظاہر معقول محسوس ہوتا ہے، لیکن اس قیاس کی صحت اور قوت کا انحصار ان مقدمات کی قطیعت پر ہے، بالخصوص صغریٰ پر، کیونکہ اگر یہ مقدمہ — کہ کائنات حادث ہے — ہی محلِ نزاع ہو یا محض ایک ظنی مفروضہ ہو، تو پھر اس پر استوار پورا استدلال اپنی عقلی بنیاد کھو بیٹھتا ہے۔ ایسے میں نہ صرف نتیجہ منطقی طور پر لازمی نہیں رہتا، بلکہ وہ صرف ایک ممکنہ استدلالی تعبیر یا غیر قطعی مفروضہ بن کر رہ جاتا ہے۔

کائنات حادث ہے — اس دعوے کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس کا فکری پس منظر جانیں، تاکہ یہ واضح ہو سکے کہ یہ دعویٰ علمِ کلام کی روایت میں کیسے داخل ہوا۔

جب اس تصور کی فکری اساسات کا سنجیدہ تجزیہ کیا جائے، تو یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ اس کی فکری تشکیل براہِ راست اسلامی نصوص سے نہیں، بلکہ یونانی فلسفے—بالخصوص ارسطو اور رواقیوں کے عقلی تصورات—سے خاصی ہم آہنگی رکھتی ہے۔

ارسطو نے اپنی مابعدالطبیعاتی تعبیر میں موجودات کو دو بنیادی اقسام میں تقسیم کیا: جواہر اور اعراض۔ جوہر ایسی شے ہے جو اپنی ذات میں قائم ہو سکتی ہے، جیسے انسان، پتھر یا درخت؛ جبکہ عرض وہ صفت یا حالت ہے جو صرف کسی جوہر کے ساتھ وابستہ ہو کر وجود میں آتی ہے، جیسے رنگ، حرکت یا حرارت۔

رواقی فلاسفہ نے ارسطو کی اس تقسیم کو زمانی تسلسل اور تغیر کے مفہوم کے ساتھ جوڑتے ہوئے یہ نظریہ پیش کیا کہ تمام اشیاء زمانے کی گردش میں مسلسل تغیر پذیر ہیں، اور یہی تغیر ان کے حادث ہونے کی علامت ہے۔ اسلامی علمِ کلام کے ابتدائی معماروں، بالخصوص معتزلہ، نے اس فلسفیانہ مقدمے کو قبول کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا کہ چونکہ اعراض ہر لمحہ تبدیلی کا شکار ہوتے ہیں، اور اعراض اپنی نوعیت میں حادث ہیں، لہٰذا وہ جواہر جن میں یہ اعراض حلول کریں، وہ بھی لازماً حادث قرار پائیں گے۔

یوں کائنات کو جواہر و اعراض کا ایک مرکب تصور کرتے ہوئے، اس کی زمانی تغیر پذیری کو اس کے حادث ہونے کی دلیل بنایا گیا، اور نتیجتاً ایک ایسے محدثِ حقیقی کے وجود کو عقلی طور پر لازم قرار دیا گیا جس نے اس عالم کو وجود بخشا۔

بعد ازاں اشاعرہ نے بھی اسی کلامی فریم ورک کو اختیار کیا، تاہم ان کی تعبیر میں ایک نیا زاویہ شامل ہو گیا۔ ان کے نزدیک اعراض محض تغیر کا شکار نہیں ہوتے، بلکہ ہر لمحہ از سرِ نو تخلیق کیے جاتے ہیں۔ وہ اس تصور کی تائید قرآنِ مجید کی اس آیت سے کرتے ہیں کہ: “کُلَّ یَومٍ ہُوَ فِی شَأن” — یعنی “اللہ ہر آن ایک نئی شان میں ہوتا ہے”۔ اشاعرہ نے اس قرآنی مفہوم کو فلسفیانہ سانچے میں ڈھالتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا کہ ہر عرض ہر لمحہ ایک تازہ تخلیق کے ذریعے وجود میں آتا ہے، اور یہی مسلسل تخلیق کائنات میں وقوع پذیر ہر تبدیلی کو براہِ راست فعلِ الٰہی کا مظہر بنا دیتی ہے۔

چنانچہ متکلمین، بالخصوص معتزلہ اور اشاعرہ، نے حدوثِ عالم کے اس استدلال کو اپنی کلامی فکر کی اساس بنا کر، اسی کے ذریعے وجودِ باری تعالیٰ کو عقلی سطح پر ثابت کرنے کی کوشش کی۔ تاہم، جو دلیل ان کے نزدیک استدلالی قطعیت کی حامل تھی، اسے مسلم فکری روایت کے بعض جلیل القدر مفکرین نے نہ صرف اصولی تنقید کا نشانہ بنایا، بلکہ اس کے منطقی ڈھانچے اور استدلالی بنیادوں پر سنجیدہ اعتراضات بھی اٹھائےہیں۔

دلیلِ حدوثِ عالم پر جو اہم علمی تنقیدات سامنے آئیں، ان میں تین مفکرین کا نام قابلِ ذکر ہے: ابن رشد، ابن تیمیہ اور ابن قیم۔ ان کی تنقیدات محض اس استدلال کے اجزاء تک محدود نہیں، بلکہ یہ علمِ کلام کے استدلالی منہج کی فکری کمزوری اور اصولی انحراف کو بنیاد سے چیلنج کرتی ہیں۔

ان میں سرِفہرست اندلس کے جلیل القدر فلسفی ابن رشد ہیں، جنہوں نے اس دلیل کا منطقی تجزیہ کرتے ہوئے اس کے اساسی مقدمے ہی پر بنیادی سوالات اٹھا دیے۔

ابن رشد کے نزدیک اس دلیل کا انحصار ایک ظنی اور غیر یقینی مقدمے پر ہے— یعنی یہ دعویٰ کہ “کائنات حادث ہے”۔ ان کے بقول، یہ مقدمہ کسی قطعی دلیل پر مبنی نہیں، بلکہ محض گمان، ظن اور عمومی مشاہدے سے اخذ کیا گیا ہے۔ ان مطابق، برہان یعنی فیصلہ کن دلیل صرف ان مقدمات پر قائم کی جا سکتی ہے جو یقینی اور قطعی ہوں۔ چونکہ یہاں پیش کیا گیا مقدمہ ظنی ہے، اس لیے اس پر قائم پورا استدلال بھی قطعی نتائج فراہم کرنے سے قاصر ہے۔

اس موقف کو وہ اپنی مشہور کتاب “تهافت التہافت” میں یوں بیان کرتے ہیں:

“قولهم: إن العالم قد ثبت أنه محدث، وكل محدث فله محدث، فهو إذاً ذو صانع — فنقول لهم: أنتم لم تثبتوا حدوث العالم ببرهان، وإنما أثبتموه بمقدمات مشهورة أو مسلّمة، وهي ظنية لا تفيد اليقين. والبرهان لا يكون إلا من مقدمات يقينية.”
(تهافت التهافت، ج 1، ص 88)

‘ان کا یہ کہنا کہ ‘عالم حادث ہے، اور ہر حادث کا کوئی محدث ہوتا ہے، لہٰذا عالم کا بھی کوئی خالق ہے’ — ہم ان سے کہتے ہیں کہ تم نے عالم کے حادث ہونے کو برہان کے ذریعے ثابت نہیں کیا، بلکہ مشہور یا مسلمہ مقدمات سے ثابت کیا ہے، جو کہ ظنی ہیں اور یقین پیدا نہیں کرتے۔ جبکہ برہان صرف یقینی مقدمات سے حاصل ہوتا ہے۔'”

علم کلام میں پیش کیے جانے والے دلائل کی نوعیت کیا ہے؟ ان کے نزدیک علمِ کلام میں پیش کیے جانے والے اکثر استدلالات نہ تو معیاری یقینی اصولوں پر مبنی ہوتے ہیں اور نہ ہی بدیہی مقدمات پر؛ بلکہ یہ عموماً عوامی مقبولیت، مشہور مفروضات اور ظنی قیاسات سے اخذ کیے جاتے ہیں۔

وأكثر ما يغلب على صناعة الكلام استعمال القياس الجدلي، والقياس الخطبي، وأما القياس البرهاني فقليل في كلامهم.”
(فصل المقال، ص 65)

‘علمِ کلام میں غالب طور پر جدلیاتی (مناظرانہ) اور خطابی (تقریری و اثر انگیز) قیاسات کا استعمال ہوتا ہے۔ جہاں تک برہان (قطعی و یقینی) قیاس کا تعلق ہے، تو وہ ان کی گفتگو میں بہت کم پایا جاتا ہے.

ابن رشد کے مطابق، کسی مقدمے کو قطعی حیثیت اسی وقت حاصل ہو سکتی ہے جب اسے ہر پہلو سے، مختلف زمانی و مکانی سیاق میں، بارہا جانچا اور پرکھا جائے۔اور کائنات کے حادث ہونے کو قطعی طور پر ثابت کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس کا ہر لمحے، ہر زاویے اور ہر حالت میں مشاہدہ کریں — اور چونکہ انسانی ادراک کائنات کے کل زمانی و مکانی دائرے کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے، اس لیے ایسا مشاہدہ فی الواقع ممکن ہی نہیں۔

اس نکتے کو ایک سادہ مثال سے یوں سمجھا جا سکتا ہے: اگر کوئی شخص صرف ایک بار کسی درخت کو پھولوں سے لدے ہوئے دیکھے اور یہ دعویٰ کر دے کہ یہ درخت ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے، تو اس کا یہ قول محض جزوی مشاہدے پر مبنی ہوگا، اور اسے قطعی علم کا درجہ نہیں دیا جا سکتا۔ لیکن اگر وہی شخص اس درخت کو ہر موسم، ہر وقت اور مختلف حالات میں مشاہدہ کرے، تو تب جا کر وہ اس کی حقیقی فطرت کے بارے میں کوئی معتبر رائے قائم کر سکتا ہے۔

اسی اصول کو جب کائنات پر منطبق کیا جائے، تو یہ حقیقت نہایت وضاحت سے سامنے آتی ہے کہ صرف تغیر پذیر مظاہر کے محدود اور جزوی مشاہدے کی بنیاد پر یہ دعویٰ کرنا کہ پوری کائنات بذاتِ خود حادث ہے، نہ صرف عقلی اعتبار سے محلِ نظر ہے بلکہ منطقی اور استدلالی سطح پر بھی انتہائی کمزور بنیاد رکھتا ہے۔

چونکہ انسان اپنے حواس، تجربے اور ادراک کی حدود کے باعث کائنات کے مکمل زمانی و مکانی دائرے کا احاطہ نہیں کر سکتا، اس لیے اس کا کلی اور ازلی حادث ہونا بذاتِ خود ایک ظنی اور غیر یقینی دعویٰ ہے جو وجودِ باری تعالیٰ جیسے قطعی اور مابعدالطبیعی حقیقت کے اثبات کے لیے کسی طور پر قابلِ اعتماد یا معتبر بنیاد فراہم نہیں کرتا۔

چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

“الطرق التي سلكها المتكلمون في إثبات الصانع طرق ضعيفة، لا تفيد اليقين، لأنها مبنية على مقدمات غير ضرورية.”
(الكشف عن مناهج الأدلة، ص 36)

‘متکلمین نے خالق کے اثبات کے لیے جو طریقے اختیار کیے ہیں وہ کمزور ہیں، اور یقین پیدا نہیں کرتے، کیونکہ وہ غیر ضروری مقدمات پر مبنی ہیں۔’

اسی ظنی مفروضے کی فکری کمزوری کو نمایاں کرتے ہوئے،شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ نے بھی دلیلِ حدوثِ عالم پر نہایت گہری اور اصولی نوعیت کی تنقیدات پیش کیں۔

ابن تیمیہ نے دلیلِ حدوثِ عالم کو صرف فلسفیانہ اور عقلی بنیادوں پر ہی نہیں، بلکہ شرعی اصولوں کی روشنی میں بھی چیلنج کیا ہے۔ ان کے نزدیک کائنات کا حادث ہونا بذاتِ خود ایک مفروضہ ہے، جس کا نہ کوئی قطعی عقلی اثبات ممکن ہے اور نہ ہی وحی سے اس کی کوئی صریح تائید حاصل ہوتی ہے۔

ان کے بقول، یہ دعویٰ دراصل ایک ظنی اور غیر یقینی تصور پر مبنی ہے، جو نہ عقلِ سلیم کی قطعیات میں شمار ہوتا ہے، اور نہ ہی کتاب و سنت سے اس کا کوئی واضح ثبوت فراہم ہوتا ہے۔ اسی مفروضے پر تنقید کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:

“القول بأن العالم حادث من حيث الزمان قولٌ لا دليل عليه، بل هو من الأمور المظنونة الظنية” (درء تعارض العقل والنقل، ج 1، ص 50)

“کائنات کے زمانہ میں حادث ہونے کا دعویٰ ایک ایسا دعویٰ ہے جس کی نہ کوئی قطعی دلیل ہے اور نہ ہی یہ حقیقت ہے، بلکہ یہ محض ایک گمان اور غیر یقینی مفروضہ ہے۔”

ابن تیمیہ اس مفروضے کی بنیاد پر سوال اٹھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم نے نہ تو کائنات کے آغاز کا کوئی مشاہدہ کیا ہے، اور نہ ہی اس کی ابتدائی حالت کا کوئی قطعی تجربہ حاصل ہے۔ ان کے نزدیک یہ تسلیم کرنا کہ کائنات کا کوئی آغاز تھا، ایک محض مفروضہ ہے، جس کی کوئی حسی یا تجرباتی شہادت موجود نہیں۔ چنانچہ وہ واضح طور پر لکھتے ہیں:

“وإذا قلنا إن للعالم بداية، فهذا القول لا يوجد له دليل حسّي ولا عقلي، وإنما هو من الأمور التي لا يمكن الجزم بها.” (درء تعارض العقل والنقل، ج 1، ص 54)

ترجمہ: “اور اگر ہم کہیں کہ کائنات کی کوئی ابتدا ہے، تو اس کا نہ کوئی حسی دلیل ہے نہ ہی عقلی، یہ صرف ایک مفروضہ ہے جس کا کوئی قطعی علم نہیں۔”

ان کے مطابق ہم صرف کائنات کے تسلسل کو دیکھ سکتے ہیں، اور اگر ہم اسے مسلسل وجود کی حالت میں مانیں، تو اس میں “آغاز” کی ضرورت کو ثابت کرنے کا کوئی طریقہ ہمارے پاس نہیں ہے۔

ابن تیمیہ نے یہ وضاحت بھی کی کہ اگر ہم کائنات کے “آغاز” کا دعویٰ کرتے ہیں، تو ہمیں اس کے ہر پہلو کو تجربہ اور مشاہدہ کے ذریعے ثابت کرنا پڑے گا، جو ممکن نہیں۔ اس لیے یہ مفروضہ محض غیر یقینی ہے، اور اس پر استدلال کرنا بھی غلط ہے۔

وہ بیان کرتے ہیں:

“إثبات بداية العالم يحتاج إلى دليل عقلي أو سمعي لا يوجد في الكتاب والسنة.” (درء تعارض العقل والنقل، ج 1، ص 52)

ترجمہ: “کائنات کی ابتدا کو ثابت کرنے کے لیے ایک عقلی یا سمعی دلیل کی ضرورت ہے، جو کتاب اور سنت میں نہیں پائی جاتی۔”

ان کے مطابق اگر کائنات کو ہم ہمیشہ سے موجود سمجھیں، تو یہ اس بات کو رد نہیں کرتا کہ اللہ کی تخلیق ازلی ہے اور اس کا سلسلہ ہمیشہ جاری ہے۔ اس کے برعکس، یہ تسلسل اللہ کی قدرت اور تخلیق کا مظہر ہے، اور اس کے مطابق، کائنات کا “آغاز” کسی مخصوص لمحے میں نہیں ہو سکتا۔

اسی تصور کو امام ابن تیمیہ کے شاگردِ رشید، امام ابن قیم نے مزید وضاحت کے ساتھ بیان کیا اور اس مفروضے کو صراحت کے ساتھ رد کیا کہ حوادث کا تسلسل کسی ازلی کائنات کا ثبوت ہے۔ ان کے نزدیک، یہ تسلسل دراصل اللہ کی ازلی اور مسلسل تخلیق کا مظہر ہے، نہ کہ عالم کی قدامت پر کوئی قطعی دلیل۔ اس مفہوم کو وہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:

“وأما قولهم: لو كانت الحوادث لا أول لها لزم قدم العالم، فباطل، لأن دوام الحدوث غير قدم العالم” (شفاء العليل، ص 121)

“اور جہاں تک ان کا یہ کہنا ہے کہ اگر حوادث کا کوئی آغاز نہ ہو، تو کائنات قدیم ہوگی، یہ باطل ہے کیونکہ حوادث کا تسلسل کائنات کی قدامت کو ثابت نہیں کرتا۔

اس نکتے کو ہم ایک سادہ مثال سے یوں سمجھ سکتے ہیں کہ اگر ہم ایک دریا کو دیکھتے ہیں جس کا پانی مسلسل بہہ رہا ہے، تو ہم صرف اس کے بہاؤ کا مشاہدہ کرتے ہیں، لیکن اس بہاؤ سے یہ نتیجہ نکال لینا کہ یہ دریا فلاں نقطے پر وجود میں آیا تھا، محض ایک قیاسی مفروضہ ہوگا — کیونکہ ہم نے اس کا آغاز نہ دیکھا ہے، نہ مکمل بہاؤ کا احاطہ کر سکتے ہیں۔

اسی طرح، کائنات میں تغیر کا مشاہدہ ہمیں اس کے مسلسل عمل کا تو پتا دیتا ہے، مگر اس کی بنیاد پر اس کے “آغاز” کو ثابت کرنا منطقی طور پر درست نہیں۔ جب تک ہم کائنات کے کل زمانی و مکانی دائرے کا تجربہ نہ کر سکیں — جو انسانی عقل اور حواس سے ماورا ہے — تب تک اس کے حادث ہونے کا دعویٰ محض ظن اور گمان پر قائم رہے گا، اور خدا کے وجود جیسے قطعی دعوے کے لیے یہ دلیل ایک غیر معتبر بنیاد فراہم کرے گی۔

ابن قیم اس تصور کو بھی دوٹوک انداز میں رد کرتے ہیں جو دوامِ حوادث(تغیرات کے تسلسل کو) قدامتِ عالم، یعنی کائنات کے ازلی اور خودبخود موجود ہونے سے جوڑتا ہے۔ ان کے نزدیک، یہ دعویٰ کہ چونکہ حوادث کا سلسلہ لا متناہی ہے، لہٰذا کائنات بھی قدیم ہے، ایک قطعی طور پر مغالطہ انگیز مفروضہ ہے۔

ابن قیم کے بقول، اس تسلسل کی اصل حقیقت کائنات کی قدامت نہیں، بلکہ اللہ کی تخلیق کے ازلی، مسلسل اور لامتناہی ہونے کا مظہر ہے۔ ان کے نزدیک نہ تو اللہ کے فعل کے لیے کسی مخصوص لمحۂ آغاز کی ضرورت ہے، اور نہ اس کی فعلیت کسی حد، ابتدا یا انجام کی پابند ہے۔

ان کے نزدیک، حوادث کا تسلسل یا اشیاء میں تبدیلی کا مسلسل جاری رہنا اس بات کا قطعی ثبوت نہیں کہ خود کائنات ازل سے موجود ہے؛ بلکہ یہ اس حقیقت کی علامت ہے کہ اللہ کا تخلیقی عمل اور اس کی فعّال قدرت ازل سے متحرک ہے۔

یوں کائنات کا تسلسل، کائنات کی ازلیت پر نہیں بلکہ خالق کے ازلی فعل اور قدرتِ تخلیق کی دائمی حرکت پر دلالت کرتا ہے۔

وہ کہتے ہیں: اللہ کے صفت خلاقیت میں نہ کوئی نقطۂ آغاز ہے اور نہ کوئی انجام، بلکہ یہ تسلسل بذاتِ خود اس کی ربوبیت، قدرت اور ازلیت کا مظہر ہے۔ یہی مسلسل فعلیت اس بات کا اعلان ہے کہ کائنات کی تخلیق ایک محدود لمحے کی بات نہیں، بلکہ ایک غیر محدود، مسلسل اور ماورائے زمان تخلیقی نظام کا عکس ہے۔

وہ لکھتے ہیں:

“إن حوادث العالم ليست في الزمان، بل في فعالية الخالق، ولذلك لا يجوز اعتبارها قديمة لأن الخالق دائم الوجود والأفعال.” (شفاء العليل، ص 120)

“عالم کی تبدیلیاں زمانے میں نہیں ہیں، بلکہ وہ خالق کی فعلیت میں ہیں، اور اس لیے ان کو قدیم نہیں سمجھا جا سکتا کیونکہ خالق ہمیشہ موجود اور اس کے افعال دائمی ہیں۔”

یہ حدوث عالم کے نظریے پر ہمارے علم کا تبصرہ ہے.

اس تجزیے سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ علمِ کلام کی وہ عقلی ترکیب، جسے متکلمین نے خدا کے وجود پر ایک قطعی اور حتمی برہان کے طور پر پیش کیا، دراصل ایک تاریخی اور جدلیاتی جستجو کا حاصل تھی— ایسی فکری کاوش جو عقلی یقین کے بجائے موروثی قیاسات اور نظری مقدمات پر استوار تھی۔ دلیلِ حدوث کی منطقی ساخت بذاتِ خود اس کی کمزوری کا نمایاں مظہر ہے: اس کا پہلا مقدمہ — یعنی یہ کہ کائنات حادث ہے — نہ تو بدیہی ہے اور نہ ہی مسلم، بلکہ ایک متنازع نظریہ ہے جو اپنے اثبات کے لیے مستقل استدلال کا محتاج ہے۔ جب قیاس کی بنیاد ہی غیر قطعی ہو، تو اس پر کبریٰ کی عمارت استوار کرنا استدلال کو لزومی کے بجائے احتمالی بنا دیتا ہے۔ نتیجتاً، جو چیز ایک قطعی برہان کے طور پر پیش کی گئی، وہ صرف ایک فکری امکان یا مفروضاتی تعبیر بن کر رہ جاتی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ایسا استدلال صرف خاص ذہنی مفروضات میں معنی خیز محسوس ہوتا ہے، عمومی انسانی فطرت یا بدیہی شعور میں نہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ استدلال کا پہلا مقدمہ کسی ایسی حقیقت پر مبنی ہوتا جو عقلِ انسانی کے لیے بدیہی ہو — ایسی صداقت جو اپنی شہادت آپ ہو، اور جس کے ادراک کے لیے کسی خارجی دلیل یا قیاس کی ضرورت نہ ہو۔ اگر صغریٰ کو کسی مسلم، غیر متنازع اور فطری حقیقت پر استوار کیا جاتا، تو اس پر کبریٰ قائم کر کے ایک لازمی اور قطعی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا تھا۔ لیکن صورتِ حال اس کے برعکس ہے: دلیل کا پہلا زینہ ہی ظنی، محلِ نظر اور فکری اختلاف کا شکار ہے۔ چنانچہ یہ پورا استدلال ایک ایسی عمارت کی صورت اختیار کر لیتا ہے جس کی بنیاد ہی میں عقلی کمزوری موجود ہے — نہ اسے عقلِ عام کا سہارا حاصل ہے، نہ فطرتِ سلیم کا اعتماد؛ اور نہ ہی اس کا نتیجہ اپنے دعوے کی قطعیت کو ثابت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

یہی وہ مقام ہے جہاں سے علمِ کلام کے پورے منہج پر سوال پیدا ہوتا ہے، کیونکہ جب اس کا مرکزی استدلال ہی اپنی عقلی بنیاد سے محروم ہو، تو اس علم کی مجموعی فکری ساکھ بھی متزلزل ہو جاتی ہے۔

محمد حسن الیاس

محمد حسن الیاس علوم اسلامیہ کے ایک فاضل محقق ہیں۔انھوں نے درس نظامی کی روائتی تعلیم کے ساتھ جامعۃ المدینۃ العالمیۃ سے عربی ادب کی اختصاصی تعلیم حاصل کی۔معروف مذہبی اسکالر جاوید احمد غامدی کے شاگرد اور علمی معاون ہونے کے ساتھ ان کے ادارے میں تحقیقی شعبے کے ڈائریکٹر کے فرائض انجام دے رہیں۔

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں