بعض لوگوں کو لگتا ہے کہ وجود باری کی دلیل، جیسے کہ دلیل حدوث، شاید نرا کوئی علمی نکتہ ہے جس کا دین کے مقدمے سے تعلق نہیں۔ یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ اثبات ذات باری کی بحث میں مرکزی نکتہ مدعی نبوت کی تصدیق کی ہم آہنگ دلیل کی فراہمی ہے۔ ایک شخص کا یہ دعوی کرنا کہ خدا نے اسے اپنا نمائندہ بنایا ہے جس کی تکذیب پر ابدی عقاب مرتب ہوگا ایک خبر ہے، ایک ایسی خبر جس کی دلیل خود اس کا دعوی نہیں ہوسکتا بلکہ اس کی دلیل اس کے اس دعوے سے خارج سے ہی آئے گی۔ اگر اس کی سچائی کی دلیل ایک خاص خدا کے تصور کو مقدم طور پر لازم قرار دیتی ہے تو پہلے وہ خدا ثابت کرنا ہوگا پھر اس کے دعوے کی تصدیق کی بات آئے گی۔ خود اس کے دعوے کو خدا کے ہونے کی دلیل نہیں بنایا جاسکتا کہ “چونکہ قرآن میں (یعنی مدعی نبوت کی خبر میں) یہ کہا گیا ہے کہ خدا ایسا اور ویسا ہے تو اس لئے وہ ایسا ہے”۔ یہ ایک سرکلر دلیل ہے جو علم کی دنیا میں نہیں چل سکتی کہ “خدا کیسا ہے” یہ ہمیں اصلاً نبی کی خبر سے معلوم ہوا ہے اور نبی اپنے دعوے میں سچا ہے یہ اس خاص صفات والے خدا کی بنیاد پر ثابت ہوا ہے۔ نبوت اور اس کے ثبوت کی دلیل (یعنی معجزہ) ایک ایسے خدا کو فرض کرتی ہے جو علیم، قدیر و مرید ہو تاکہ پہلے قدم پر کسی کو اپنا نمائندہ بنانے کا اس کا اختیاری فعل ثابت ہوسکے اور دوسرے قدم پر مدعی نبوت کے ساتھ اس کے کلام کا امکان اور تیسرے قدم پر بصورت خرق عادت اس کی تصدیق کی دلیل کا ظہور۔ دلیل حدوث وہ دلیل ہے جو ایک فاعل مختار (یعنی قادر، مرید و علیم خدا) ثابت کرتی ہے۔ علامہ ابن سینا و علامہ ابن رشد جیسے مسلم فلاسفہ جس ارسطوی قدم عالم کی بات کرتے ہیں اس کے ذریعے ان صفات والا خدا ثابت نہیں ہوتا بلکہ ارسطو کی “علت اولی” ثابت ہوتی ہے اور بس جس سے امور کا صدور بطریق طبع و لزوم ہوتا ہے جس میں اسے کوئی حقیقی اختیار حاصل نہیں، اس دلیل سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ خدا قادر و مرید بھی ہے جو کسی کو مبعوث کرسکتا ہے، اس سے کلام کرسکتا ہے، اس کی سچائی کی دلیل میں معجزہ دکھا سکتا ہے وغیرہ۔ اسی لئے ان فلاسفہ نے نبوت اور معجزے کی الگ ڈھب پر تشریحات کیں۔ ایسا اس لئے کہ اگر عالم قدیم ہے تو یہ کسی کے فعل کا اثر نہیں ہوسکتا کیونکہ فعل کا اثر قدیم نہیں ہوسکتا۔ جو قدیم ہو وہ صرف ہوتا ہے اس کا عدم محال ہے، اس لئے فلاسفہ کو مجبورا کہنا پڑا کہ یہ عالم واجب لغیرہ ہے اور ان کے علمیاتی نظام فکر میں حس میں موجود اس عالم کے امکان (contingency) کو ثابت کرنے کا طریقہ مسدود ہوجاتا ہے۔ اگر عالم قدیم ہے تو یہ ماننا بالکل قرین از قیاس ہے کہ یہ اپنی مخصوص صفات کے ساتھ بطور حقائق از خود ایسا ہے اور ان مخصوص صفات کے لئے اسے کسی علت کی احتیاج نہیں۔ اور اگر بالفرض اس قدیم عالم کو کسی علت کی احتیاج ہے بھی تو وہ کوئی بااختیار ہستی نہیں جو نیست کو ہست کرنے اور ممکن الوجود موجودات کو لاحق مخصوص صفات کی تخلیقی توجیہہ بن سکے، وہ بس سورج کی مانند ایک علت ہے جس سے غیر اختیاری طور پر روشنی کا صدور ہورہا ہے، زیادہ سے زیادہ اتنا ہے کہ اسے اس صدور کا شعور ہے۔ اس وجوبی صدور ہی کو فلاسفہ اپنی لفاظی سے خدا کے شایان شان اختیار کا عنوان دے ڈالتے ہیں تاکہ خدا کے لئے ارادے و اختیار کی نفی کے الزام سے بھی بچ سکیں حالانکہ یہ بات واضح ہے کہ وجوب اور اختیار متضاد چیزوں کو جمع کرنا ہے۔
اس لئے متکلمین کے لئے دلیل حدوث نبی کے قدموں تک پہنچنے کی ہم آھنگ دلیل کی بحث ہے، امام غزالی نے “تھافت الفلاسفة” میں علامہ ابن سینا وغیرہ پر جو نقد کیا ہے اس کا مرکزی نکتہ یہی ہے کہ قدم عالم پر مبنی تمہارے ارسطوی ماڈل سے خدا کے فاعل ہونے کا معنی غیر مفہوم ہوجاتا ہے اور تم ایک ایسی علت کا نام فاعل رکھ رہے ہو جو اس کی ضد ہے، اسی لئے آپ نے اس مسئلے میں ان پر سختی کی ہے۔ امام رازی کتاب “المطالب العالیة” میں کہتے ہیں کہ فلاسفہ کی طرح جن لوگوں کے بقول اس عالم کا الہ ایک ایسی ذات ہے جو موجب ہے نہ کہ فاعل مختار ان پر نبوت کے اثبات کا دروازہ بند ہوگیا۔ یاد رکھنا چاہئے کہ مذہبی نظام فکر میں ٹیڑھ اکثر و بیشتر غلط علمیاتی فریم سے آیا کرتا ہے، مغرب کے اکثر فلاسفہ سیکولر نہیں تھے بلکہ مذہبی لوگ تھے لیکن انہوں نے علمیات ایسی کھڑی کی جو بالاخر مذہب کے لئے زہر ثابت ہوئی۔ امام غزالی نے فلاسفہ کے ماڈل میں پیوست اس علمی غلطی کے خطرے کو بھانپ لیا تھا۔ لہذا اس بحث میں اصلاً سٹیک پر کیا چیز ہے وہ ضرور مد نظر رہنا چاہئے۔
رہے ہمارے دور کے وہ مفکرین جن کے بقول وجود باری کی دلیل پر سرے سے بحث کی ضرورت نہیں اور صرف نبی کی خبر سے سب علمی امور طے کئے جاسکتے ہیں، ایسے لوگ حشویہ گروہ کے منہج سے متاثر ہیں جن کے نمائندوں کو نہ ماضی میں علمی مسائل کا ادراک حاصل تھا اور نہ آج ہے۔
کمنت کیجے