Home » تھیوری آف سیکولرآئزیشن کے تین اہم انڈیکیٹرز : جوشے کاسانو
شخصیات وافکار فلسفہ

تھیوری آف سیکولرآئزیشن کے تین اہم انڈیکیٹرز : جوشے کاسانو

اطہر وقار

جوشے کاسانوا سیکولرازم و سیکولررایشن سٹڈیز کے حوالے سے اتھارٹی سمجھے جاتے ہیں انہوں نے چند سال پہلے سیکولررایشن تھیوری کے تین اہم انڈیکیٹرز بیان کیے تھے:

مذہبی اعتقادات اور پرٹیکسز کا زوال ۔

مذہب و مذہبیت کو پرائیویٹ سپیس یعنی فرد کی ذاتی زندگی تک محدود و مقیم کرنا ۔
اور
مذہب کے مقابلے میں ایک متوازی سپیس دنیاوی زندگی کے مختلف ریاستی ،معاشی اور علمی و سائنسی شعبہ جات کے لیے کھڑا کرنا ، جہاں مذہب کا عمل دخل نہ ہو یا کم از کم وہ ان شعبوں سے متعلقہ نہ ہو یا ایڈریس نہ کرے ۔

درج بالا تین عوامل ایسے ہیں جو اگر کسی سماج میں بڑھ رہے ہیں یا بڑھائے جا رہے ہیں تو کہا جا سکتا ہے کہ وہ سماج سیکولررایز ہو رہا ہے ۔
اس تناظر میں جب بھی مسلم سماج میں تجدد پسندوں کی تحریر و تقریر کو دیکھا جائے تو وہ اپنے دینی تناظر و تعبیرات کے بیان میں یا حتی کہ مختلف مذہبی فکر و فرقہ جات کی تنقیدات میں ہمیں ان درج بالا تین عوامل کو فروغ دیتے نظر آتے ہیں جیسے جب بھی ہم غامدی صاحب کی دینی تعبیرات دیکھتے ہیں تو وہ ہمیں ریاستی و سماجی و علمی امور میں ایک differentiation قائم کرتے ہوئے نظر آتے ہیں یا پھر اسے اجتماعی زندگی سے انسان کی نفسی و ذاتی سپیس تک محدود کر رہے ہوتے ہیں ،
حالانکہ ذاتی و مجرد نفسی سپیس کا واہمہ و خود فریبی بھی لبرل جدیدیت کا پیدا کردہ ہے لیکن ایسا کرتے ہوئے وہ تو اپنے تئیں دین کی خدمت سرانجام دے رہے ہوتے ہیں لیکن یہ سیکولررایشن کو فروغ دینے جیسا عمل ہے۔
ماضی میں پرویز احمد صاحب بھی ساری زندگی یہی کام کرتے رہے تھے ۔
اسی طرح مرزا انجینئر صاحب جو بظاھر مذہبی فرقوں پر حرفیت پسندانہ تنقید فرما رہے ہوتے ہیں اور دین کو خالص بیان کر رہے ہوتے ہیں وہ بھی یہ سب کرتے ہوئے فقہی تعبیرات کی پرٹیکسز کے زوال کا مقدمہ پیش کر رہے ہوتے ہیں اور فقہ و تصوف کے مقابلے میں جو دینیت پیش کر رہے ہوتے ہیں اس میں ریاستی امور ،معیشت اور سماجی سطح ہمیں سیکولر differential کے لیے امکانات نظر آتے ہیں ،شاید یہی وجہ ہے کہ حرفیت پرست سکالرز فقہی تعبیرات میں ٹھیٹھ تعبیرات رکھنے کے باوجود ماڈرنٹی کے لبرل مظاہر کو بہت آسانی سے ہضم کر لیتے ہیں ۔
سیکولررایشن کے درج بالا عوامل میں مزاحمت ہمیں تاریخی تناظر میں دو جگہ ہی نظر اتی ہے کہ ایک تو اہل فقہ علماء کرام جو مختلف ریاستی و سماجی و سیاسی شعبہ جات میں دین و مذہب کی متعلیقیت قائم کرنے سے کمیٹڈڈ ہیں یا پھر مولانا مودودی رحمہ اللہ جیسے دینی تحریک کے سکالرز جنہوں نے سب سے بڑھ درج بالا تین سطحوں پر اپنے قول و فعل کے ذریعے سے سیکولررایشن کے تینوں مظاہر کے حوالے سے علمی و عملی جدوجھد کی ہے اور ان تینوں سیکولررایشن کے عوامل کے خلاف مزاحمت بھی کی ہے۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں