ڈاکٹر محمد رحمان
اتفاق یا چانس کا لفظ عام طور پر ایسی صورت حال میں بولا جاتا ہے جہاں ہمیں سبب کا پتہ نہ ہو اور ہم کسی ایونٹ کے ممکنہ نتیجے کی پیشگوئی نہ کر سکیں ۔ ملحدین یہ مانتے ہیں کہ سب کچھ قدرتی قوانین کے تحت ہو رہا ہے لیکن ان قدرتی قوانین کے باوجود ہو سکتا ہے کہ ہم کسی ایونٹ کے سبب کا تعین نہ کر پائیں اور اس ایونٹ کےممکنہ نتیجے کی پیشگوئی کرنے سے قاصر ہوں۔
اتفاق یا چانس کی بحث دو شعبوں میں اہم ہے پہلی بائیولوجیکل ایولوشن اور دوسری کوانٹم میکینکس میں۔
ایولوشن کی اگر بات کریں تو یہاں پر میوٹیشن اگرچہ رینڈم ہیں لیکن یہ غیر یقینیت کوانٹم میکینکس والی غیر یقینیت سے مختلف ہے ۔
اس فرق کو اس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ reductionist ایپروچ کے تحت ڈی این اے (مالیکول کی سطح پر) میں تبدیلی کیمسٹری طے کرے گی اور کیمسٹری کے عوامل آگے فزکس کے قوانین طے کریں گے چونکہ مالیکول کی سطح پر کوانٹم میکینکس کے اثرات نظر انداز کیے جا سکتے ہیں چنانچہ یہاں کلاسیکل میکینکس استعمال کر کے پیشگوئی کی جا سکتی ہے ۔ اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اگر ہم پیشگوئی کر سکتے ہیں تو پھر ہم میوٹیشن کو رینڈم (اتفاقی ) کیوں کہتے ہیں ؟ اسکی وجہ یہ ہے کہ اگرچہ مالیکیول کی سطح پر ہم کلاسیکل میکینکس استعمال کرتے ہیں جو deterministic ہے یعنی ہم اس سطح پر پیشگوئی کرنے کے قابل ہیں اور ہم ایک ایونٹ کے لیے اسباب کی لڑی بنا سکتے ہیں لیکن اگر متعدد ایونٹس کو اکٹھا کریں یعنی ہر ایونٹ کی اسباب کی لڑی کو یکجا کرنے کے بعد وہ کس طرح کے نتائج دیں گی ان کا حساب کتاب لگانا انسان کے بس کے باہر کی بات ہے اسی لیے میوٹیشن ہمیں رینڈم محسوس ہوتی ہیں ۔ مختصر یہ کہ یہاں پر لاگو ہونے والے قوانین deterministic ہیں لیکن صورت حال اتنی زیادہ پیچیدہ ہے کہ نتائج کی پیشگوئی ممکن نہیں چنانچہ یہ سب ہمیں اتفاقی نظر آتا ہے ۔ اگر ہم کوئی اتنا پاورفل کمپیوٹر بنالیں جو یہ سب حساب کتاب لگا سکے تو پھر یہ چیز اتفاقی نہیں رہے گی۔ یہاں پر ایک استشنائی صورتحال موجود ہے کہ بعض میوٹیشنز ریڈیو ایکٹیویٹی کی وجہ سے ہوتی ہیں اور ریڈیو ایکٹیویٹی میں کونسا ایٹم کب تقسیم ہوگا یہ چیز کوانٹم میکینکس بتاتی ہے چنانچہ اس صورت میں غیر یقینیت سے چھٹکارا ممکن نہیں ہو گا۔ رینڈم میوٹیشن سے اوپر نیچرل سلیکشن وغیرہ کی سطح پر بھی بہت سارے عوامل ایک دوسرے کے ساتھ نبرد آزما ہونے کی وجہ سے سب کے اسباب کی لڑیاں آپس میں کس طرح تعامل کرتیں ہیں انکا حساب کتاب ناممکن کی حد تک مشکل ہے اس لیے ہمیں وہ چیز اتفاقی محسوس ہوتی ہے ۔
اسکے مقابلے میں کوانٹم میکینکس کی سطح پر جس غیر یقینیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہاں پر غیر یقینیت سے چھٹکارا ممکن نہیں ۔ اگرچہ ایک وقت آئن سٹائن وغیرہ نے hidden variable theory وغیرہ کے ذریعے یہ مفروضہ دیا تھا کہ کوانٹم میکینکس ایک نامکمل تھیوری ہے۔ کل اس سے بہتر تھیوری دریافت کر کے غیر یقینیت سے چھٹکارا مل جائے گا لیکن اب یہ مفروضہ غلط ثابت ہو چکا ہے اور اکثریت یہی سمجھتی ہے کہ کوانٹم میکینکس کی سطح پر پائی جانے والی غیر یقینیت سے چھٹکارا ممکن نہیں۔ اوپر میوٹیشن وغیرہ کے کیس میں ہم نے دیکھا تھا کہ وہاں کی غیر یقینیت کو انسانی لاعلمی کہا جاسکتا ہے جس سے پاورفل کمپیوٹر کی ایجاد سے چھٹکارا ممکن ہو سکتا ہے لیکن یہاں کی غیر یقینیت کوانٹم میکینکس کی اپنی خاصیت ہے جس سے چھٹکارا ممکن نہیں ۔
یہ پس منظر تشکیل کرنے کے بعد اب ہم اتفاق اور مذہبی نکتہ نظر پر بات کر سکتے ہیں ۔ پہلے اگر کائنات کی تخلیق کی بات کریں تو وہاں (پڑھے لکھے) ملحدین یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ سب کچھ اتفاقی طور پر ہو رہا ہے بلکہ وہ کہتے ہیں کہ سب کچھ قدرتی قوانین کے تحت ہو رہا ہے جیسے ہاکنگ کہتا ہے کہ اگر لا آف گریویٹی (یہاں اسکی مراد موجودہ قوانین نہیں بلکہ مستقبل کی ایسی تھیوری ہے جو گریویٹی اور کوانٹم میکینکس کو یکجا کر سکے) موجود ہو تو یہ کائنات وجود میں آ سکتی اور خالق کی ضرورت نہیں رہتی ۔ یعنی اس جگہ پر اتفاق کا لفظ استعمال نہیں ہو گا کیونکہ سب کچھ قوانین قدرت کے تحت ہو رہا ہے ۔ یاد رہے کہ کوانٹم میکینکس کے انفرادی ایونٹس ،جیسا ہم نے اوپر بات کی ، غیر یقینیت رکھتے ہیں لیکن جب سارے ایونٹ کی اوسط کی جاتی ہے تو ہم تمام عوامل کی بہت پریسائز طریقے سے پیشگوئی کر سکتے ہیں یعنی کوانٹم میکینکس کے انفرادی ایونٹس میں غیر یقینی کے باوجود کائنات کی تشکیل میں استعمال ہونے والے عوامل کی پیشگوئی ممکن ہے ۔ چنانچہ اگر آپ کو ابتدائی حالات کا پتہ ہے اور اور اس جگہ ہونے والے قوانین قدرت کا پتہ ہے تو آپ یہ حساب کتاب لگا کر بتا سکتے ہیں کہ دس سال پہلے کیا ہوا تھا دس ارب سال پہلے کیا ہوا تھا اور اگر ساری چیزیں عین اسی طرح چلتی رہیں تو دس ارب سال بعد کیا ہوگا۔ اس جملے سے غلط فہمی پیدا ہو سکتی ہے کہ انسان مستقبل جان سکتے ہیں لیکن یہ بات صرف اصولی طور پر ہے۔ عملی طور پر تمام قوانین قدرت کا علم اور پھر انکی بنیاد پر اتنا پیچیدہ حساب کتاب ناممکن ہے ۔
گفتگو تھوڑا دوسری طرف نکل گئی لیکن مختصر یہی ہے کہ کائنات کی تخلیق میں اتفاقی کچھ نہیں ہو رہا اور سب کچھ قدرتی قوانین کے تحت ہے جس میں کوانٹم میکینکس کی اندرونی غیر یقینیت کے باوجود تمام عوامل کی پیشگوئی اصولی طور پر ممکن ہے ۔
اب ہم زندگی کی تخلیق اور تنوع میں اتفاق کی طرف آتے ہیں یہاں کافی چیزیں تو پہلے ہی واضح ہو چکی کہ ایولوشن میں نظر آنے والی غیر یقینیت انسانی لاعلمی کا نتیجہ ہے اور اگر کوئی پاورفل کمپیوٹر ایجاد کر لیا جائے تو اسباب کی ساری لڑیوں کا ایک دوسرے کے اوپر اثر معلوم کر سکے تو یہ چیز بھی اتفاقی نہیں رہے گی ۔ ایک اور چیز یاد رہے کہ سائنس میں ترقی کے بعد سائنس دان ایسے عوامل کی نشاندھی کر رہے جہاں ایولوشن (ساری ایولوشن کی بات نہیں ہو رہی) بھی غیر سمتی نہیں بلکہ goal directed ہے۔
اب بات کرتے ہیں کہ اس اتفاق کی موجودگی کو مذہبی نکتہ نظر سے کیسے دیکھ جا سکتا ہے تو یہاں پر Ian Barbour نے ایولوشن کے نکتہ نظر سے بہت اہم پہلو پر بات کی ہے کہ یہ غیر یقینیت عین وہ جگہ ہے جہاں خدا اپنا جلوہ دکھاتا ہے ۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ اگر ہر چیز deterministic ہو تو معجزات کی گنجائش نہیں بچتی(یہ ملحدین کا دعویٰ ہے)۔ ہودبھائی صاحب جیسے صاحب علم بھی یہ تو کہتے ہیں کہ “ہوسکتا ہے کہ کائنات بنانے کے وقت خدا نے یہ قوانین وضع کر دئیے ہوں لیکن ایک بار یہ نظام چل پڑا تو اسکے بعد خدا کی مداخلت کی گنجائش نہیں رہتی “۔ لیکن Ian Barbour اینڈ کمپنی کے مطابق نظام میں غیر یقینیت عین وہ جگہ ہے جہاں خدا مداخلت کرتا ہے ۔
جدید علم الکلام کے ماہر مسلمان سائنسدان Basil Altaie ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے کوانٹم میکینکس کے Heisenberg uncertainty principle کی تشریح اشعری فریم ورک کے occasionalism کے تحت کرتے ہیں ۔ uncertainty principle کی تفصیلات میں جائے بغیر آپ یہ سمجھ لیں کہ اصول ایک بہت محدود مدت کے لیے قوانین کے معطل ہونے کی اجازت دیتا ہے۔ یہیں سے کوانٹم میکینکس میں غیر یقینیت کا آغاز ہوتا ہے جیساکہ اس اصول کے نام سے ظاہر ہے۔ اوپر ہم گفتگو کر چکے کہ یہ غیر یقینیت انسانی لاعلمی کی وجہ سے نہیں بلکہ اندرونی خاصیت ہے جس سے چھٹکارا ممکن نہیں چنانچہ یہ وہ جگہ ہے جہاں مداخلت کرکے خدا اپنا جلوہ دکھاتا ہے۔ قوانین قدرت ہمیں ایک طے کردہ پیٹرن کے تحت عمل پیرا نظر آتے ہیں کیونکہ وہاں ہم عوامل کی اوسط مقدار سے ڈیل کرتے ہیں لیکن Heisenberg uncertainty principle کی وجہ سے پائی جانے والی اندرونی غیر یقینیت یہ موقع فراہم کرتی ہے کہ انفرادی ایونٹس اس طے کردہ پیٹرن سے مختلف ہو سکیں جسے ہم اپنی زبان میں خرق عادت کہتے ہیں ۔
ساری گفتگو کو مختصر کریں تو جن اتفاقات کے پیچھے چھپ کر ملحدین خدا کے وجود کی نفی کرتے ہیں یہ عین وہ جگہ ہے جہاں خدا طے کردہ پیٹرن میں تبدیلی کرتا ہے یعنی معجزات وقوع پذیر ہوتے ہیں ۔
سائنس خدائی مداخلت کو ڈیٹیکٹ نہیں کر سکتی اس لیے سائنس خدائی مداخلت کا نہ اقرار کرسکتی ہے نہ انکار لیکن سائنس کے جن قوانین کو بنیاد بنا کر معجزات کا انکار کیا جاتا ہے انہی قوانین کے اندر معجزات کی possibility رچی بسی ہے۔
کمنت کیجے