مولانا مودودیؒ نے سقوط حیدر آباد کے تناظر میں مسلمان قوم کے مزاج کا جو نفسیاتی تجزیہ کیا ہے، اس کے کچھ کلیدی جملے ہیں جو پورے تجزیے کا نچوڑ پیش کرتے ہیں۔ ان راہنما جملوں کو ہم الگ کر کے محفوظ کر لیتے ہیں، کیونکہ یہ ایک مزمن مرض کی تشخیص کرتے ہیں اور ملت کی صورت حال کو سمجھنے میں مستقل طور پر کارآمد ہیں۔
مولانا کا تجزیہ دو نکات پر مبنی ہے۔ ایک نکتے میں تو وہ اپنے فہم اور بصیرت کے مطابق وہ درست راستہ تجویز کرتے ہیں جو مسلمانوں کو اختیار کرنا چاہیے۔ چنانچہ لکھتے ہیں:
’’دانش مندی کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان کشمکش، مزاحمت اور جنگ کے بجائے اپنے مستقبل کے لیے کوئی ایسی راہ تلاش کرتے جس میں وہ کامل تباہی سے بچ بھی سکتے اور آئندہ اپنی اخلاقی ودینی حالت کو بہتر بنا کر کوئی نتیجہ خیز جدوجہد کرنے کے مواقع بھی انھیں حاصل رہتے۔“
تاہم تجزیے کے زیادہ اہم نکات اس سوال پر مرتکز ہیں کہ مسلمان درست حکمت عملی کا انتخاب کیوں نہیں کر پاتے، اور یہ کہ ان کی ذہنی صورت حال میں عوام اور خواص کا کوئی فرق نہیں ہے، اور یہ کہ ان کو غلط سمت میں دھکیلتے رہنے والے عناصر اور ذمہ دار کردار کون سے ہیں۔ فرماتے ہیں:
’’انھوں نے اپنی رہنمائی کے لیے ایسے لوگوں کو پسند کیا جو اندھے جوش، کھوکھلے نعروں، جھوٹی توقعات، غلط امیدوں، بے بنیاد آرزووں اور بے زور لاف وگزاف کے ذریعہ سے ان کے غرور نفس کو فی الوقت تسکین دے سکیں۔“
’’محض عوام الناس ہی نہیں، ہمارے اچھے خاصے تعلیم یافتہ لوگ اور ذمہ دار منصب رکھنے والے اصحاب تک جھوٹی امیدوں اور غلط توقعات کے قلعے بنا کر بیٹھ گئے۔“
’’ہم کبھی اس طرح کی ٹھوکریں کھانے اور چوٹیں سہنے سے نہیں بچ سکیں گے جب تک کہ خود اپنی ان غلطیوں کو محسوس نہ کریں جن کی بدولت یہ پے در پے زکیں ہمیں اٹھانی پڑ رہی ہیں۔“
’’ہم اپنے نفس کو یہ اطمینان دلانا چاہتے ہیں کہ ہم خود تو سب کچھ ٹھیک ہی کر رہے تھے، صرف فلاں کی غداری اور فلاں کی بے وفائی نے ہم کو اس حادثہ سے دوچار کر دیا۔ درحقیقت یہ وہ افیون کی گولیاں ہیں جو ہر چوٹ کے بعد ہم اس لیے کھایا کرتے ہیں کہ ہمیں اپنی خامیوں کا تلخ احساس نہ ہونے پائے۔“
’’آج اس جمہوریت کے دور میں عوام کا وہی مقام ہے جو پہلے بادشاہوں کو حاصل تھا۔ …… اب مصاحبوں کا زمانہ نہیں ہے۔ ان کی جگہ اب گمراہ کن اخباروں اور بے لگام خطیبوں اور الکشن کے کھلاڑیوں اور دنیا پرست مولویوں نے لے لی ہے۔ پہلے بگڑے ہوئے عوام ان کو پسند کر کے ابھارتے ہیں، پھر یہ ابھر کر عوام کو اور زیادہ بگاڑتے چلے جاتے ہیں۔“
مولانا کے اس تجزیے کی صداقت اور گہرائی کو ہم ماضی کے واقعات پر بھی اطلاق کر کے جانچ سکتے ہیں، لیکن یہ عموماً مشکل ہوتا ہے۔ زیادہ موثر یہ ہوگا کہ اگلے دنوں میں جو مزید مشکل حالات unfold ہونے والے ہیں، ہم اس تجزیے کی روشنی میں دیکھتے چلے جائیں کہ ہمارا قومی مزاج ان میں کیسے ابھر کر سامنے آتا ہے۔
کمنت کیجے