Home » اسلام اور عیسائیت کی کشمکش
ادیان ومذاہب تاریخ / جغرافیہ مطالعہ کتب

اسلام اور عیسائیت کی کشمکش

طلحہ نعمت ندوی

راقم کو ابھی قریب میں دو اہم کتابوں کے مطالعہ کا موقع ملا ،جن کا قدر مشترک یہودیوں اور عیسائیوں کی اسلام دشمنی اور اسلام کے خلاف ان کی سازشیں اور اس کی طویل تاریخ ہے ،دونوں کے مصنفین پاکستانی ہیں اور علوم اسلامیہ پر عالمانہ نظر رکھنے کے ساتھ مغرب کے مزاج ومذاق سے پوری طرح واقف ہیں ،اور اقبال کی زبان میں مشرق ومغرب کے میخانے ان کے دیکھے ہوئے ہیں۔
اول الذکر کتاب فلسطین اور بین الاقوامی سیاسیات ہے جس کے مصنف مولانا پروفیسر حبیب الحق ندوی نےدارالعلوم ندوۃ العلماء کے فاضل ،اورسندھ یونیورسٹی کراچی کے استاد ہونے کے علاوہ امریکہ کی مشہور ہاروڈ یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی تھی ،وہاں ایک مدت گذار کر اہل مغرب کو قریب سے دیکھا تھا ،پھر ڈربن یونیورسٹی ساؤتھ افریقہ میں تاحیات تدریسی خدمت انجام دیتے رہے اور ۱۹۹۸ میں وفات پائی ۔
دوسری کتاب اسلام اور مغرب تعلقات ہے جو مشہور علمی شخصیت ڈاکٹر محمود احمد غازی کے قلم سے ہے ،ڈاکٹر صاحب کی علوم اسلامیہ پر بھی بہت گہری نظر تھی ،اور مغربی ملکوں کے باربار دورے اور وہاں قیام کی وجہ سے ان کو قریب دیکھنے کا موقع ملا تھا ۔
دونوں کتابوںکے مطالعہ سے مجموعی طور پر جو تاثر ات ذہن میں آئے وہ یہ تھے کہ عیسائیوں نے ہر صورت میںاور اپنے سیکڑوں داخلی اختلافات کے باوجود اسلام کو اپنا حریف سمجھا ،اور عیسائیت کے تحفظ ہی نہیں اس کے فروغ میں بھی سرگرم عمل ہے ،اور اس کے لئے تبلیغ کا طریقہ بھی اختیار کیا ارو جبر وتشدد کا بھی ۔اسلام کی ابتدائی دو تین صدیوں تک وہ عسکری مقابلہ سے تو باز رہے لیکن اسلام کے خلاف اندرونی سازشوں میں کمی نہیں کی ،اور اس کے خلاف پروپیگنڈا بھی کرتے رہے ۔اس کے برعکس مسلمانوں کے بیشتر سلاطین کے پیش نظر اپنے مفادات زیادہ رہے ۔
یہ بھی سچ ہے کہ صلیبی جنگ میں شکست کے بعد اہل صلیب نے اپنے مذہب کے فروغ کے لیئے دیگر وسائل کے ساتھ تبلیغ اور مشن کا راستہ بھی اپنایا ،اور جس خلوص کے ساتھ وہ اس مشن میں لگے رہے ،اتنے اہتمام کے ساتھ مسلم دنیا میں فریضہ تبلیغ کی ادائیگی کی طرف توجہ نہیں رہی اور نہ اپنے دین کا فروغ اس حدتک ان کے پیش نظر رہا ۔اسلام نے اپنے دور آغاز ہی سے یہود ونصاریٰ کے ساتھ جس رواداری کا مظاہرہ کیا تھا اس کی مثال خود ان کے ہم مذہب سلاطین وحکام کے یہاں مفقود تھی ،فلسطین کی فتح کے بعد ان کو اپنے مقدسات کی زیارت کی پوری آزادی حاصل تھی ،لیکن اس کا صلہ ان کی طرف سے ہمیشہ سازشوں ہی صورت میں ملا۔دوسری طرف مسلمانوں نےفریضہ تبلیغ کی اہمیت نہیں سمجھی ،بلکہ اس سے زیادہ وہ کفر اور اہل کفر کی تذلیل وتوہین کو اصل سمجھتے رہے،جیسا کہ عہد وسطیٰ کے مسلم ادبیات سے واضح ہے ،جب کہ خود رسول پاک علیہ السلام نے اہانت کفر سے زیادہ تبلیغ دین پر توجہ فرمائی تھی ،کاش ہمارے سلاطین اس حقیقت کو بروقت سمجھتے اور حکومت کی طرف سے اس کا نظم کرتے ۔
صلیبی جنگ کے اسباب ومحرکات کا جائزہ متعدد مورخین نے کسی حد تک لینے کی کوشش کی ہے لیکن ابھی بھی تحقیق کا حق باقی ہے ،آخر وہ کیا اسباب تھے جنہوںنے صلیبیوں کو تین صدیاں اسلام کے تحت گذارنے کے بعد اسلام کے خلاف آمادہ جنگ کردیا ،اگرچہ اس سے قبل بھی مسیحی اسلامی جنگیں ہوتی رہی تھیں اور اندلس سے لے کر مراکش تک متعدد اہم معرکے ہوچکے تھے ،۱۰۹۵ء مطابق ۴۸۷ھ میں پوپ کی پہلی تقریرسے پہلی صلیبی جنگ کی تیاری شروع ہوئی ،اور پورے یورپ کو متحد کیاگیا ۔اس کے اسباب یہ بتائے جاتے ہیں کہ یروشلم میں مسیحی زائرین پر ظلم ہونے لگا تھا ،لیکن خود عیسائی مورخین جن میں ایڈورڈ گبن سرفہرست ہے جس کی تاریخ زوال روما بہت ہی اہم ماخذ ہے ،اس کا انکار کرتے ہیں ۔دو تین جنگوں کے بعد یروشلم پر قبضہ میں کامیابی اور پھر نوے سال کے بعد صلاح الدین کی اس کی بازیابی کے بعد پھر اس کے قبضہ کی مسلسل کوششیں ہوتی رہیں ،ادھر اندلس سے مسلمانوں کو نکالنے کی سازشیں بھی ہوتی رہیں ۔
پندرہویں صدی اس اعتبار سے بہت اہم تھی کہ اس میں عالم اسلام اور مسیحی دنیا کی فتح وشکست کے کئی اہم واقعات پیش آئے ،چنانچہ ۱۴۵۳ ء میں قسطنطنیہ فتح ہوا ،پوپ پالس دوم نے ۱۴۶۴ء میں آخری صلیبی جنگ کی کوشش کی ،اس میں شکست کے بعد اہل یورپ کی ہمت ٹوٹ گئی لیکن پروفیسر حبیب الحق ندوی کے بقول ان میں روح صلیب زندہ رہی اور ۱۹۶۷ کو سقوط بیت المقدس اسی روح کی عملی تعبیر تھی ۔۱۴۹۲ء میں غرناطہ کے سقوط کے ساتھ اندلس بلکہ یورپ کے وسط سے مسلمانوں کا مکمل انخلاء ہوگیا ،اس کے بعد اہل یورپ نے استعماری کوششیں شروع کیں ،اور اسی کے ساتھ مشنری اور تبلیغی مشن کا آغاز بھی کیا ۔اس سے قبل سقوط بغداد اور تاتاری حملوں میں عیسائیوں کی درپردہ کوششیں کسی طرح کم نہیں تھیں ۔
چنانچہ اس کے بعد اہل یورپ دنیا کی تلاش میں نکلے ،اور اپنی عیاری وچالبازی سے بہت سے ملکوں پر قبضہ کیا ،ایشیا اور افریقہ میں اپنی نوآبادیاں قائم کیں ،بالخصوص مشرق وسطی کی طرف توجہ کی ،لیکن سلطنت عثمانیہ کی وجہ سے یہاں انہیں بہت زیادہ کامیابی نہیں مل سکی ،البتہ مشرق میں چین وروس میں وہ خاموشی سے اپنا کام کرتے رہے ،دوردواز مسلم علاقوں میں بھی جہاں مسلم ثقافت مضبوط نہیں تھی انہوں نے اپنی تبلغی کوششوں کے ذریعہ عیسائیت کو فروغ دیا ،مسلمانوں کے یہاںاہل کتاب خواتین سے شادی کی گنجائش تھی ،مسیحی یورپ نے اس سہولت سے بھی فائدہ اٹھایا اور امراء وسلاطین کے درباروں میں اپنی خواتین کے ذریعہ اپنے مذہب کے فروغ واستحکام کی کوششیں کرتے رہے ،اس کے ساتھ ہی اٹھارہویں صدی کے آغاز سے ان کے استعماری نظریہ نے عملی رنگ اختیار کرلیا ،اور وہ تقریبا ایشیا وافریقہ کے بڑے حصہ پر قابض ہوگئے ،اور یہاں اپنی فکر اور تہذیب کے ساتھ اپنا مذہب بھی نافذ کرنے کی کوشش کی ۔
ڈاکٹر محمود احمد غازی نے بھی اپنے مختلف خطبات اور مقالات کے ذریعہ ان کے عزائم پر روشنی ڈالی ہے ،چنانچہ انہوں نے اپنی تقریر عیسائیت کے بین الاقوامی عزائم میں بتایا ہے کہ یورپ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ غیر جانب دار ہے ،لیکن وہ مکمل جانب دار ہے ،آپس میں ہزار دشمنی اور مذہب بیزاری کے باوجود وہ اسلام دشمنی ہی نہیں عیسائیت کے فروغ میں بھی متحد ہوکر سرگرم ہے ،مسلم ممالک میں عیسائیت کا فروغ اس کا خاص مطمح نظر ہے ،انہوں نے بتایا ہے کہ یورپ کا ایک بہت تعلیم یافتہ آدمی پاکستا ن کے ایک معمولی سے دور افتادہ دیہات میں آکر اپنے مذہب کے فروغ میں اپنی زندگی گذاردیتا ہے جس کی مثال ہماری قریب کی تاریخ میں نہیں ملتی ۔انہوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ عیسائیوں نے انیسویں صدی کے آغاز میں جب اپنی تبشیری مہم تیز کی اور استعمار کے ساتھ اس پر بھی پوری طاقت صرف کردی تو انہیں سمجھ میں آیا کہ تین اسباب ایسے ہیں جو مسلمانوں میں عیسائیت کے فروغ میں رکاوٹ بن رہے ہیں ،لہذا انہوں نے ان تینوں کو ختم کرنے کی کوشش کی ۔پہلی رکاوٹ سلطنت عثمانیہ تھی ،جو عیسائی پادریوں کے مقابلہ کے لئے علماء کی حوصلہ افزائی بھی کرتی تھی اور عیسائیت کے فروغ پر پابندی بھی لگاتی تھی ،انہوں نے سلطنت عثمانیہ کوتوڑنے میں پورا زور صرف کردیا اور آخر سازشوں کے ذریعہ اس میں کامیاب ہوئے ۔دوسری وجہ ارتداد کی سخت سزاتھی جو مسلمانوں میں عیسائیت کے فروغ میں بہت بڑی رکاوٹ بن رہی تھی ،انہوں نے اس کو موضوع بحث بنا کرا س کو ختم کرانے کی کوشش کی، یہاں تک مسلمانوں کے علمی حلقہ میں اس سلسلہ میں متعدد رجحانات پیدا ہوگئے ،اور مسلمانوں کو باور کرایا گیا کہ تبدیل مذہب کی سزا اتنی سخت نہیں ہے ۔تیسری وکاوٹ علماء سے مسلم معاشرہ کا تعلق تھا ،چنانچہ انہوں نے مسلمانوں کے در میان علماء کو بدنام کرکے ان کو عام مسلم معاشرہ سے کاٹنے کی کوشش کی ۔ڈاکٹر غازی کے بقول اس کے باوجود وہ مسلمانوں کو عیسائیت کی طرف لانے میں بہت زیادہ کامیاب نہیں ہوئے تو غیر مسلموں کی طرف توجہ کی ،اور مسلمانوں میں الحاد کو فروغ دینے کی کوشش کی ،اور آزاد خیال مسلمانوں کو آگے بڑھایا اور ان کی حوصلہ افزائی کی ۔
ڈاکٹر صاحب نے یہ بھی بتایا ہے کہ قرآن پاک میں اولین دو سورتیں سورہ بقرہ اور سورہ آل عمران سب سے پہلے کیوں ہیں ،اس کی توجیہ مختلف مفسرین نے الگ الگ کی ہے ،لیکن غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ سورہ بقرہ یہودیوں اور سورہ آل عمران کا بیشتر حصہ عیسائیوں کے تذکرہ پر مشتمل ہے ،اور یہ شاید اس طرف اشارہ ہے کہ امت مسلمہ جب اپنا بین الاقوامی کردار اداکرنے کے لئے کھڑی ہوگی تو ان دونوں مذاہب کی طرف سے اسے سخت رکاوٹیں پیش آئیں گی ،اس لئے ان کے مزاج اور ان سازشوں سے باخبر رہنے کی ضرورت ہے ،انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ مسلمانوں کی پوری تاریخ اس کی گواہ ہے اور ایسا لگتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی آمد تک ان کی سازشوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔
پھر انہوں نے بتایا ہے کہ وقتا فوقتا ان کے یہاں اجتماعات میں اس پر غور کیا جاتا ہے کہ آخر عیسائیت کے فروغ میں کیا چیزیں رکاوٹ بن رہی ہیں ،ان کا جائزہ لیا جاتا ہے ،اور خاموشی سے ان کو دور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ،یہ وہ تنظیمی کوششیں ہیں جن پر ہم مسلمان بھی سنجیدگی سے غورکرسکتے ہیں،انہوں نے بین الاقوامی اسلامی نظام کے لئے تجارت کو ایک اہم وسیلہ کے طور پر استعمال کرنے کا مشورہ دیا ہے، اور اس کے لئے عہد نبوی کی مثالیں بھی دی ہیں ،اور بتایا ہے کہ مسلم ممالک بین الاقوامی اورعالمی تجارت میں اپنے قومی مفادات پیش نظر رکھ کر اور آپس میں مربوط ہوکر بہت سے مسائل کوحل کرسکتے ہیں ،تیسری دنیا کے کئی پلیٹ فارم ایسے ہیں جن کی قیادت مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے ،کاش مسلمان یہ سمجھ سکتے کہ ہم مجموعی طور پر ایک ہوکر اپنے تمدن اور معاشی وعسکری قوت کو کس طرح بڑھاسکتے ہیں ،کاش وہ یہ سمجھ سکتے کہ ولن ترضی عنک الیھود ولا النصاریٰ حتی تتبع ملتھم ایک حقیقت ہے ،کاش وہ یہ سمجھ سکتے کہ ان کے ذاتی مفاد کا تحفظ بھی قومی مفادات کے تحفظ ہی میں مضمر ہے اور دعوت وقوت ہی اصل ہتھیار ہے۔

منتظمین

ا کمنٹ

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں