پاکستان میں حالیہ دنوں کم عمر بچیوں کی شادی سے متعلق پارلیمان نے ایک قانون پاس کیا ہے جو اب وقافی سطح پر ایکٹ کی صورت میں نافذ العمل ہوچکا ہے۔ پاکستان کے مذہبی حلقوں، بالخصوص جمعیت علماء اسلام اورپاکستان کے آئینی ادارے اسلامی نظریاتی کونسل، نے اس قانون سازی کو قرآن و سنت کے منافی قرار دیا۔ ہماری نظر میں اس قانون پر شروع ہونے والی بحث کوئی نئی بات نہیں، بلکہ یہ ایک دہائیوں پرانا مسئلہ ہے، جو وقتاً فوقتاً ہر اس قانون پر اٹھ کھڑا ہوتا ہے جس میں مذہب اور ریاست کے درمیان تعلق کی تشریح درکار ہو۔ یہ مسئلہ دراصل آئین میں موجود ایک ابہام سے متعلق ہے۔
ڈاکٹر فضل الرحمن مرحوم نے کئی دہائیاں قبل1971 میں لکھے گئے اپنے ایک مقالے The Ideological Experience in Pakistan میں اس ابہام کی نشاندہی کی تھی جو آج بھی برقرار ہے۔ ان کے مطابق، پاکستان کے آئین اور ریاستی قانون سازی کے تصور میں بنیادی خرابی یہ ہے کہ اس میں “اسلامی قانون” کی کوئی جامع اور واضح تعریف موجود نہیں۔ آئین محض یہ کہتا ہے:
“ No law shall be en acted which is repugnant to the injunctions of Islam as laid down in the Holy Qur’an and Sunnah.”
“کوئی ایسا قانون نافذ نہیں کیا جائے گا جو قرآن و سنت میں بیان کردہ اسلام کی ہدایات کے منافی ہو۔”
یہ جملہ بظاہر مذہبی ہم آہنگی کی علامت معلوم ہوتا ہے، لیکن حقیقت میں یہ جدیدیت پسندوں اور قدامت پسندوں کے درمیان ایک خاموش معاہدے کا نتیجہ ہے۔ جدیدیت پسند چاہتے تھے کہ سیکولر بنیادوں پر قانون سازی کی جا سکے، جبکہ قدامت پسند اس بات پر زور دیتے تھے کہ قرآن و سنت کے متنی احکام ہر صورت محفوظ رہیں۔
ڈاکٹر فضل الرحمن کے مطابق، یہ دونوں مؤقف ایک دوسرے سے “ناقابلِ مفاہمت” تھے، اور ان کے درمیان یہ سمجھوتہ ایک جعلی یکجہتی پیدا کرتا ہے، جو قانون سازی کو ہر بار ایک نئے مذہبی بحران سے دوچار کر دیتی ہے۔
جب بھی کوئی قانون چاہے وہ خواتین کے حقوق سے متعلق ہویا تعلیم و وراثت سے متعلق ، کی قانون سازی کی بات آتی ہے، تو مذہبی حلقے اس کے خلاف قرآن و سنت کے منافی ہونے کا فتویٰ دے دیتے ہیں۔ اور جب اسلامی نظریاتی کونسل (جس کا یہ کام ہی نہیں) جیسا آئینی ادارہ بھی یہی مؤقف اختیار کرلے، تو یہ بحث مزید پیچیدہ ہو جاتی ہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے “اسلامی قانون” کو متنی (textual) احکام تک محدود کر دیا ہے، جبکہ اسلام کی فقہی روایت ایک اجتہادی اور ارتقائی فریم ورک کی حامل ہے۔ لیکن نہ تو ہم نے اس روایت کو آج کی ریاستی ساخت میں سنجیدگی سے برتا، نہ ہی اجتہاد کو ادارہ جاتی شکل دی۔
اس کے نتیجے میں، ہر نئی قانون سازی “اسلام بمقابلہ ریاست” کی ایک تازہ بحث کو جنم دیتی ہے اور یہ تنازع آئینی ابہام کی کوکھ سے جنم لیتا ہے۔
ڈاکٹر فضل الرحمن ہمیں پچاس سال پہلے متنبہ کرگئے تھے کہ جب تک ہم اسلامی قانون کی تعبیر و اطلاق کے اصولوں کو واضح، ہم آہنگ اور علمی بنیادوں پر طے نہیں کرتے، تب تک ہر قانون سازی متنازع بنتی رہے گی اور ریاست و مذہب کے درمیان خلیج بڑھتی رہے گی۔
یہ محض ایک قانونی یا مذہبی مسئلہ نہیں، یہ ریاستی پالیسی کی فکری بنیاد کا سوال ہے، جس کا جواب دینا اب مزید مؤخر نہیں کیا جا سکتا۔
ریاستی و مذہبی قوانین میں تصادم کا سبب : ڈاکٹر فضل الرحمن کی نظر میں

کمنت کیجے