Home » ہمارے ججوں اور وکلاء کے فہمِ شریعت کے مآخذ
سماجیات / فنون وثقافت فقہ وقانون

ہمارے ججوں اور وکلاء کے فہمِ شریعت کے مآخذ

بشکریہ        WENEWS

پہلے کچھ بنیادی اصول تازہ کرلیں۔

پاکستان اپنے آئین کی رو سے ’اسلامی جمہوریہ‘ ہے (دفعہ 1)؛ اس کا ’ریاستی مذہب‘ اسلام ہے (دفعہ 2)؛ یہاں کے نظام کا اصل الاصول یہ ہے کہ کائنات پر حاکمیت صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے اور پاکستان کے عوام کو عطا کردہ اختیارات ایک مقدس امانت ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود کے اندر رہ کر استعمال کرنا ہے (دیباچہ اور دفعہ 2-اے)؛ یہاں رائج تمام قوانین کو اسلامی احکام سے ہم آہنگ کرنا اور ان قوانین سے تمام ایسے امور ختم کرنا لازم ہے جو اسلامی احکام سے متصادم ہوں (دفعہ 227)؛ یہاں آئین اور تمام قوانین کی ایسی تعبیر لازم ہے جو آئین اور قوانین کو اسلامی احکام سے ہم آہنگ کرے (قانونِ نفاذِ شریعت 1991ء، دفعہ 4 اور ’راجا عامر خان بنام وفاقِ پاکستان‘ مقدمے، 2023ء میں سپریم کورٹ کے فل کورٹ بنچ کا فیصلہ )؛ اور بالخصوص نکاح، طلاق، وراثت اور دیگر ’شخصی امور‘ میں ’شریعت‘ ہی کو ’فیصلے کے قانون‘ کی حیثیت حاصل ہے (مسلم شخصی قانون (شریعت) کے نفاذ کا قانون، 1962ء، دفعہ 2)؛ شخصی امور میں مختلف فرقوں کے فہمِ شریعت کو آئینی تحفظ حاصل ہے (آئین کی دفعہ 227 کی توضیح) اور وفاقی شرعی عدالت سمیت کوئی عدالت ان امور میں مداخلت نہیں کرسکتی (’ڈاکٹر محمود الرحمان فیصل‘ مقدمے، 1994ء، میں سپریم کورٹ کا فیصلہ)۔

ان اصولوں کا لازمی تقاضا یہ تھا کہ ہمارے ججوں اور وکلا کو اسلامی احکام کی تفصیلی تعلیم دی جاتی اور ججوں اور وکلا کی ٹریننگ میں اسلامی قانون اور اس کے اصولوں کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ 5 سال کے ایل ایل بی کے نصاب میں ’اسلامی قانون‘ اور ’اصول فقہ‘ کے نام سے بس 2 ہی مضامین ہیں اور ان 2 مضامین میں بھی نصاب، نصابی کتب اور طریقۂ تدریس سب کچھ وہی ہے جو انگریزوں کے دور سے چلا آرہا ہے، اور اس وجہ سے عام طور پر ہمارے ججوں اور وکلا کا اسلامی قانون کے ساتھ بس اتنا ہی تعلق ہے جو انگریزوں کے دور کے ججوں اور وکلا کا تھا۔

اس لیے دیکھنا چاہیے کہ انگریزوں کے دور سے ’شریعت‘ کے نام پر ہمارے ججوں اور وکلا کو کیا پڑھایا جاتا رہا ہے؟

’ہملٹن کی ہدایہ‘

انگریزوں نے مسلمانوں کے ’شخصی امور‘ میں عدم مداخلت کی پالیسی اختیار کی تاکہ لوگ ان کے خلاف نہ اٹھیں۔ ابتدا میں مسلمان ’قاضیوں‘ سے دیگر اختیارات تو لے لیے لیکن شخصی امور میں ان کو فیصلے کرنے دیا، لیکن پھر قاضیوں کی جگہ ’جج‘ تعینات کیے، اور چونکہ ججوں کے پاس شریعت کا علم نہ ہونے کے برابر تھا، تو ان کی معاونت کےلیے ’مفتی‘ بھرتی کیے۔ اگلے مرحلے میں فقہ کی اہم کتابوں کا انگریزی میں ترجمہ کیا گیا، تو ججوں کا مفتیوں پر انحصار کم اور پھر ختم ہوا۔

ان تراجم میں سب سے اہم ترجمہ وہ تھا جو چارلس ہملٹن نے فقہِ حنفی کی مشہور کتاب ’ہدایہ‘ کا کیا۔ ’ہملٹن کی ہدایہ‘ آج تک ہماری اعلی عدلیہ کے ججوں کےلیے شریعت کے احکام کا بنیادی ماخذ ہے، لیکن یہ بات بہت سے لوگوں کے لیے حیران کن ہوگی کہ ہملٹن کو عربی زبان نہیں آتی تھی اور انہوں نے ہدایہ کے فارسی ترجمے کی بنیاد پر انگریزی ترجمہ کیا۔ گویا جسے ہملٹن کی ہدایہ کہا جاتا ہے یہ ہدایہ کے ترجمے کا ترجمہ (یعنی شوربے کا شوربہ) ہے۔ بات صرف اصل زبان سے عدم واقفیت ہی تک محدود نہیں ہے؛ ہدایہ ایک نہایت اعلی درجے کی قانونی کتاب ہے جس کے ایک چھوٹے سے جملے میں 5 صدیوں کی قانونی بحث کا خلاصہ ہوتا ہے۔ جس شخص کو اسلامی قانون کے مبادیات کا بھی علم نہ ہو، وہ اس قانونی کتاب کا درست فہم کیسے آگے منتقل کرسکتا ہے؟ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہدایہ تو شرح ہے اور اصل متن ’بدایۃ المبتدی‘ ہے (متن اور شرح دونوں امام مرغینانی کی تصنیف ہیں)۔ اس کتاب سے صحیح معنوں میں فائدہ اٹھانے کے لیے متن اور شرح میں فرق نہایت ضروری ہے، لیکن ہملٹن کے ترجمے میں یہ فرق مدّ نظر نہیں رکھا گیا۔

’بیلی کا ڈائجسٹ‘

دوسری اہم کتاب نیل بیلی کی ’ڈائجسٹ آف محمڈن لا‘ ہے جس میں بیلی نے ’فتاویٰ عالمگیریہ‘ اور بعض دیگر کتب کے منتخب ابواب کا ترجمہ کیا۔ بیلی نے ہملٹن پر یہ تنقید کی کہ انہوں نے متن اور شرح میں فرق نہیں کیا، لیکن خود بیلی کا مسئلہ یہ تھا کہ انہیں حنفی مکتبِ فکر کی کتب کی درجہ بندی (grading) یا مراتب (ranking) کا علم نہیں تھا۔ چنانچہ انہوں نے خود کو صرف فتاویٰ عالمگیری کے ترجمے تک محدود نہ رکھا، بلکہ مختلف ماخذ سے اقتباسات شامل کیے، اگرچہ وہ ماخذ کی نشان دہی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثلاً، نکاح کے باب کی پہلی سطر فتاویٰ عالمگیریہ سے نہیں، بلکہ ’کنز الدقائق‘ سے لی گئی ہے، جو کہ حنفی فقہ کا ایک ’متن‘ ہے؛ پھر اس میں ’کفایہ‘ سے ایک اقتباس شامل کیا گیا ہے، جو کہ ’ہدایہ‘ کی شرح ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ یہ اقتباسات ناقص ہیں یا ان کا ترجمہ غلط ہے؛ وہ ایک الگ بحث ہے؛ میرا مدعا صرف یہ ہے کہ بیلی نے مختلف درجے کی کتب کو خلط ملط کر دیا ہے، ایسی کتب جن کی حنفی فقہ میں مختلف حیثیت ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص سیشن عدالت، ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے فیصلے ایک ساتھ ملا دے۔

بیلی کا دوسرا سنگین مسئلہ ان کا انگریزی تعصب تھا جس کی وجہ سے ان کے لیے یہ سمجھنا مشکل تھا کہ ہدایہ تو کسی حکمران کا جاری کردہ قانون نہیں ہے لیکن اس کے باوجود اسے فتاویٰ عالمگیریہ پر، جسے ہندوستان کے حکمران کے حکم سے نافذ کیا گیا، فوقیت کیسے حاصل ہے؟ ’ہدایہ‘ کا متن ’بدایۃ المبتدی‘ دراصل دو پرانے متون پر مبنی ہے: ایک’قدوری ‘اور دوسرا ’الجامع الصغیر‘۔ اس دوسرے متن کے مصنف امام محمد ہیں جو براہِ راست امام ابو حنیفہ کے شاگرد تھے۔ اس لیے بدایہ کو ہمیشہ حنفی مکتبِ فکر کے مستند ترین متون میں شمار کیا گیا ہے۔ فتاویٰ عالمگیریہ، اگرچہ مغل بادشاہ کے حکم پر مرتب ہوئی، لیکن حنفی فقہ میں اس کا مرتبہ ہدایہ سے نیچے ہےاور فتاویٰ عالمگیریہ کے مرتبین پر ہدایہ میں درج نظائر (precedents) کی پابندی لازم تھی۔ چنانچہ اگر دونوں کتابوں میں کہیں اختلاف ہو، تو ترجیح ہدایہ کو حاصل ہوگی۔ بیلی اس بات کو نہیں سمجھ سکے اور اس پر حیرت کا اظہار کرتے ہیں کہ پہلے ہدایہ کا ترجمہ کیوں کیا گیا۔ ان کے خیال کے مطابق فتاویٰ عالمگیریہ کو ترجیح دی جانی چاہیے تھی، کیونکہ یہ بادشاہ کے حکم سے مرتب ہوئی۔ یہ دراصل ان کے انگریزی قانونی پس منظر کی عکاسی کرتا ہے، جس کے تحت وہ یہ سمجھتے تھے کہ قانون ہمیشہ ریاست کی طرف سے آتا ہے۔ ’غیر ریاستی قانون‘ کا تصور بیلی کے لیے بے معنی تھا۔

یہ انگریزی تعصب وہاں بھی نظر آتا ہے جہاں بیلی لکھتے ہیں کہ ان کے پیش رو سر ولیم میکناٹن نے           Principles          and            Precedents                of Moohammudan              Law کے نام سے کتاب لکھی، لیکن بیلی کے مطابق “precedent” کا لفظ فتاویٰ کے لیے مناسب نہ تھا کیونکہ ان کی انگریزی قانونی تربیت کے مطابق صرف عدالتوں کے فیصلے ہی ‘precedent’ کہلا سکتے تھے۔

’ملّا کا کوڈ‘

ہمارے ججوں اور وکلا کے فہمِ شریعت کا تیسرا اہم ماخذ ڈنشا فردون جی ملّا کی کتاب ’محمڈن لا‘ ہے جو ’ملا کا کوڈ‘ یا ضابطہ کہلاتا ہے۔ (بعض لوگ ڈی ایف ملّا کو واقعی کوئی مولوی سمجھتے ہیں، حالانکہ وہ ایک پارسی وکیل تھے۔) جب انگریزوں کی قائم کردہ عدالتوں نے ہملٹن کی ہدایہ، بیلی کے ڈائجسٹ اور بعض دیگر مآخذ کو سامنے رکھ کر مسلمانوں کے ’شخصی امور‘ میں فیصلے دینے شروع کیے، تو وکلا کو (اور ججوں کو بھی) ضرورت محسوس ہوئی کہ ان فیصلوں کا ریکارڈ رکھا جائے، ان کا خلاصہ بنایا جائے اور ان سے ’شریعت‘ کا جو حکم معلوم ہوتا ہے، اسے مستخرج (infer) کرکے ایک 2 سطور میں لکھا جائے۔ انگریزوں کے عدالتی نظام میں ویسے بھی ان فیصلوں کو ’نظائر‘ کی حیثیت حاصل تھی جن کی پابندی ماتحت عدالتوں پر لازم تھی۔ ملّا کا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے وکلا اور ججوں کی اس ضرورت کو پورا کیا اور بمبئی، مدراس، الہ آباد اور دیگر عدالتوں کے نظائر سے مسلمانوں کی شریعت کے احکام مستنبط کرکے ان کو انگریزی قانون کی دفعات کی صورت میں لکھا اور پھر ان کو مختلف ابواب کے عنوان دے کر مرتب کیا۔ یوں ’ملّا کا کوڈ‘ وجود میں آگیا، جو ایک صدی کے بعد بھی وکلا اور ججوں کے لیے بنیادی ماخذ کی حیثیت رکھتا ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ جن ججوں کے فیصلوں پر ملّا نے انحصار کیا، وہ خود شریعت میں مہارت نہیں رکھتے تھے، اور انہیں فقہاء کی کتب کے تراجم پر انحصار کرنا پڑتا تھا، وہ تراجم جو ہملٹن اور بیلی جیسے افراد نے کیے تھے جو اسلامی قانون کے ماہر نہ تھے۔ ایسے غیر معتبر تراجم پر انحصار کرتے ہوئے، برطانوی ہندوستان کے ججوں نے اسلامی قانون کو جیسا سمجھا، اسے فیصلوں میں لکھ دیا، اور ان فیصلوں سے ملّا نے ضابطہ تشکیل دیا، پھر وہ ضابطہ دیگر وکلا اور ججوں کےلیے اتنا مقدس ٹھہرا کہ آج بھی ہمارے جج فیصلوں میں یہ لکھتے نظر آتے ہیں کہ اسلامی شریعت کا ’مسلّمہ حکم‘ یہ ہے کیونکہ یہ بات ملا کے ضابطے میں لکھی ہوئی ہے! طرفہ تماشا یہ ہے کہ بعض اوقات وہ بات اسلامی شریعت کی رو سے بالکل غلط ہوتی ہے اور اس غلطی کا کھرا تلاش کریں، تو یا تو ہملٹن یا بیلی نے ترجمہ غلط کیا ہوتا ہے، یا انگریز جج نے ترجمے سے غلط حکم اخذ کیا ہوتا ہے، یا انگریز جج کے فیصلے سے ملّا نے غلط حکم مستنبط کیا ہوتا ہے، لیکن ہمارے جج کئی عشروں بعد بھی اس غلطی کو مسلسل دہراتے جاتے ہیں!

’انگریزی زدہ شریعت‘

خلاصہ یہ ہے کہ جسے ہمارے جج اور وکلا آج ’شریعت‘ کہتے ہیں، وہ دراصل ’انگریزی زدہ (Anglicized) شریعت‘ ہے جو اسلامی قانون کی کتابوں کے (غلط سلط) انگریزی ترجموں کی بنیاد پر ایسے ججوں کے فیصلوں سے ماخوذ ہے جن ججوں کی تعلیم و تربیت اسلامی قانون میں نہیں بلکہ انگریزی قانون میں ہوئی تھی، اور ان کے فیصلوں سے یہ احکام اخذ بھی ایسے وکلا نے کیے ہیں جن کی تعلیم و تربیت اسلامی قانون میں نہیں، بلکہ انگریزی قانون میں ہوئی تھی۔ اس انگریزی زدہ شریعت کے مظاہر ہمیں روزانہ اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں میں نظر آتے ہیں۔ مثلاً اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس بابر ستار کہتے ہیں کہ مسلمانوں کا نکاح تو بس ایک عام ’شہری معاہدہ‘ (civil contract) ہے اور اس وجہ سے جس شخص کی عمر 18 سال سےکم ہو، وہ نکاح نہیں کرسکتا کیونکہ وہ معاہدہ نہیں کرسکتا؛ یا لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد کہلون قرار دیتے ہیں کہ عدت کے دوران میں کیا گیا نکاح صرف ’بے قاعدہ‘ ہے لیکن ’غیر قانونی‘ نہیں؛ یا پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس روح الامین خان فیصلہ دیتے ہیں کہ شوہر کو اپنی بیوی کی جائیداد کسی اور کے نام منتقل کرنے کا حق حاصل ہے؛ یا سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس سید منصور علی شاہ بچے کی حضانت کے مقدمے کے فیصلے میں اس بین الاقوامی معاہدے کی تشریح میں تو کئی صفحے لکھ لیتے ہیں جس معاہدے کو ہمارے قانونی نظام کا حصہ بنانے کے لیے ابھی پارلیمان نے قانون سازی بھی نہیں کی، لیکن پورے فیصلے میں کسی ایک جگہ بھی شریعت کے کسی حکم کا تذکرہ نہیں کرتے۔

آزادی کے 78 سال بعد بھی ’اسلامی جمہوریۂ پاکستان‘ میں ’شریعت کا انگریزی زدہ فہم‘نافذ ہے، تو اس کی بنیادی وجہ ججوں اور وکلا کی تعلیم و تربیت کا ناقص نظام ہے۔ بار کونسل اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کے لیے اس مسئلے کا حل ممکن نہیں ہے کیونکہ وہ خود مسئلے کا حصہ ہیں!

پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق احمد شفاء تعمیر ملت یونیورسٹی اسلام آباد میں شعبہ شریعہ وقانون کے چیئرمین ہیں اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے ذیلی ادارہ شریعہ اکیڈمی کے ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔

(mushtaq.dsl@stmu.edu.pk)

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں