Home » توہینِ مذہب مقدمات کےلیے انکوائری کمیشن: مسئلہ کیا ہے؟ (1)
سماجیات / فنون وثقافت فقہ وقانون

توہینِ مذہب مقدمات کےلیے انکوائری کمیشن: مسئلہ کیا ہے؟ (1)

ایک فریق کا الزام ہے کہ کچھ لوگ ”توہینِ مذہب کا کاروبار“ کرتے ہیں اور ذاتی نفع کےلیے لوگوں کو ”توہینِ مذہب کے مقدمات میں پھنسانے“ کا کام ایک گینگ کی صورت میں کرتے ہیں۔ دوسرے فریق کا کہنا ہے کہ جن لوگوں کے خلاف اس نے توہینِ مذہب کے مقدمات دائر کیے ہوئے ہیں، یا شکایات درج کی ہوئی ہیں، وہ واقعتاً توہین کے مرتکب ہوئے ہیں اور ان میں کئی ایک کو عدالتیں سزائیں سنا چکی ہیں، جبکہ کئی ایک کے خلاف مقدمات مختلف مراحل میں جاری ہیں۔
دوسرے فریق کے حق میں یہ بات جاتی ہے کہ اگر مقدمات غلط درج کرائے گئے ہیں، یا شکایات بے بنیاد ہیں، تو دونوں صورتوں میں قانون اپنا راستہ نکال سکتا ہے؛ غلط مقدمات دائر کرانے والوں کے خلاف قانون میں پہلے ہی سے دفعات موجود ہیں؛ بے بنیاد شکایات درج کرانے والوں کے خلاف بھی قانونی کارروائی کا راستہ کھلا ہے۔ جن ملزمان کا دعویٰ ہے کہ انھیں پھنسایا گیا ہے، یا ان کے خلاف مقدمہ یا شکایت بے بنیاد ہے، تو وہ قانون میں مذکور راستہ کیوں اختیار نہیں کرتے؟
اس کے جواب میں یہ کہا جاتا ہے کہ توہینِ مذہب کا الزام ہمارے معاشرے میں بہت سنگین معاملہ بن جاتا ہے اور جس پر یہ الزام لگے، کوئی اس کا مقدمہ لڑنے کےلیے تیارنہیں ہوتا، نہ ہی عدالتیں اس کی فریاد سنتی ہیں، وہ برسوں جیل میں سڑتے رہتے ہیں، برسوں بعد ان کا مقدمہ ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ تک پہنچ جاتا ہے تو کسی حد تک تخفیف کا امکان پیدا ہوجاتا ہے، لیکن تب تک عمر بیت چکی ہوتی ہے۔ بہت سوں کو ماوراے عدالت قتل یا تشدد کا نشانہ بنا دیا جاتا ہے، بلکہ ان کا مقدمہ لڑنے والوں کو بھی گستاخ قرار دے کر نشانہ بنایا جاتا ہے۔
تاہم معاشرے کی یہ انتہائی بھیانک تصویر پیش کرنے والے یہ حقیقت نظر انداز کردیتے ہیں کہ انھی ملزمان کےلیے اس وقت کئی وکیل اسلام آباد ہائی کورٹ میں مقدمہ لڑ رہے ہیں، تو سوال یہ ہے کہ یہ وکیل تحقیقاتی کمیشن بنانے کےلیے اپنا پورا زور صرف کرنے کے بجاے ان ملزمان کے لیے، جو ان کے بقول جھوٹے مقدمات میں پھنسائے گئے ہیں، مقدمات لڑ کر انھیں عدالتوں سے بری کیوں نہیں کروالیتے، اور پھر پھنسانے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کیوں نہیں کرلیتے؟ وہ سیدھا راستہ اختیار کرنے کے بجاے کمیشن کے قیام پر ہی اصرار کیوں کررہے ہیں؟
پھر عدالت میں کارروائی صرف کمیشن بنانے یا نہ بنانے تک محدود رکھنے کے بجاے مختلف مقدمات کی تفصیلات بیان کرنے کی طرف کیوں لے جائی گئی؟ کیا رٹ درخواست کی سماعت میں عدالت کو حقائق کے متعلق سوالات میں جانا چاہیے تھا؟ بالخصوص ایسے مقدمات میں جو ماتحت عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں یا جن پر فیصلہ کیا جاچکا ہے، اور جو اپیل میں اسی عدالت میں آنے ہیں؟ کیا اس مقدمے میں ہائی کورٹ کے فیصلے، بلکہ اس کے ریمارکس سے بھی، ماتحت ججوں کا ذہن متاثر نہیں ہوگا؟
اس سلسلے میں یہ عذر کوئی عذر نہیں ہے کہ عدالت کو دوسرے فریق نے ان تفصیلات میں جانے پر مجبور کردیا کیونکہ عدالت کو کسی سے بھی مجبور ہونا نہیں چاہیے تھا، بلکہ اسے ہر حال میں قانون اور اپنی حدود کی پابندی کرنی چاہیے تھی۔
یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ جو کچھ کمیشن نے کرنا تھا، وہ آپ نے ہائی کورٹ میں ہی کردیا، تو کمیشن کے پاس کرنے کو کیا رہ جائے گا؟
دوسرے فریق کی حماقتوں کا بھی کوئی شمار نہیں۔ اس مقدمے میں اصل، اور واحد، سوال یہ تھا کہ کمیشن بنایا جائے یا نہیں۔ دوسرے فریق کو اسی سوال تک ساری کارروائی محدود رکھنی چاہیے تھی، لیکن پتہ نہیں کس نے اسے یہ مشورہ دیا کہ وہ مختلف مقدمات کی تفصیلات عدالت کے سامنے رکھے؟ کیا ان کا خیال یہ تھا کہ اس طرح وہ جج کو معاملے کی سنگینی سے آگاہ کرکے اسے کمیشن بنانے سے روکنے پر قائل کرسکیں گے؟ یا ان کا خیال یہ تھا کہ اس طرح وہ فیکٹ فوکس اور پہلے فریق کے دلائل عدالت کی جانب سے لائیو نشر کیے جانے سے پیدا ہونے والی صورتحال کو اپنے حق میں بہتر کرسکیں گے؟
بہرحال وجہ جو بھی ہو، فریقین اور جج اس مقدمے میں وہاں تک گئے جہاں ان کو قانون کے مطابق جانا نہیں چاہیے تھا اور اب گھوم پھر کر بات واپس اس اصل سوال پر آگئی ہے کہ پھنسانے کے الزامات کی صداقت معلوم کرنے کےلیے کمیشن بنایا جائے یا نہیں؟ انگریزی میں کہتے ہیں:        back        to        square        one، یعنی واپس پہلے خانے میں!
کمیشن بنائے جانے کے خلاف بنیادی اعتراض یہ کیا جارہا ہے کہ پہلے بھی بہت سے کمیشن بنائے جاچکے ہیں جن کا کوئی فائدہ نہیں ہوا، تو یہ کمیشن بھی ”مٹی پاؤ“ کی پالیسی پر عمل کےلیے ہوگا۔ اسی پہلو سے یہ اعتراض بھی کیا جاتا ہے کہ کمیشن بنانے کا نقصان یہ ہوگا کہ جن ملزمان کے خلاف توہینِ مذہب کے مقدمات دائر کیے گئے، یا شکایات درج کی گئی ہیں، وہ ضمانت پر رہا ہو کر، یا موقع سے فائدہ اٹھا کر، ملک سے فرار ہوجائیں گے۔ یہ اعتراض بھی کیا جاتا ہے کہ کمیشن کے پاس عدالتی اختیارات نہیں ہوتے، جبکہ جے آئی ٹی کے پاس ایسے اختیارات ہوتے ہیں۔
ان اعتراضات پر بات سے پہلے اس قانون پر ایک نظر ڈال لیجیے جس کے تحت وفاقی حکومت کوئی انکوائری کمیشن بناسکتی ہے۔ پہلے اس موضوع پر جو قانون تھا، وہ نسبتاً کمزور اور ڈھیلا ڈھالا سا تھا، لیکن 2017ء میں جو قانون بنایا گیا ہے، پاکستان کمیشنز آف انکوائری ایکٹ، وہ خاصا مفصل ہے اور اس پر ایک نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ بالا اعتراضات بہت کمزور ہیں۔
دفعہ 3 میں قرار دیا گیا ہے کہ وفاقی حکومت کسی بھی ایسے معاملے پر جو قطعی عوامی اہمیت کا ہو، انکوائری کمیشن بنا سکتی ہے جس کے سربراہ اور ارکان کی تعیناتی کا اعلامیہ باقاعدہ طور پر سرکاری گزٹ میں شائع کیا جائے گا۔ کمیشن کے کام کےلیے اعلامیہ میں شرائطِ کار (terms        of         reference/TORs) طے کیے جائیں گے۔ نیز اس کے پاس وہ سارے اختیارات ہوں گے جو اس قانون میں مذکور ہیں۔ کمیشن کا کام پورا کرنے کےلیے مدت کا تعین وفاقی حکومت اسی اعلامیہ میں کرے گی۔ اس مدت میں مزید اضافہ کمیشن کے چیئرمین کی درخواست پر وفاقی حکومت کرسکے گی۔ کمیشن وفاقی حکومت کو حتمی رپورٹ دے دینے کے بعد تحلیل ہوجائے گا۔
دفعہ 4 میں طے کیا گیا ہے کہ کمیشن کے پاس وہ سارے اختیارات ہوں گے جو مجموعۂ ضابطۂ دیوانی کے تحت دیوانی عدالت کے پاس ہوتے ہیں، اور ان اختیارات میں خصوصاً کسی کو بلانے، اس کی حاضری یقینی بنانے، بیانِ حلفی وصول کرنے، گواہوں اور دستاویزات کا معائنہ کرنے کےلیے کمیشن بھیجنے اور کسی دفتر سے سرکاری ریکارڈ یا اس کی نقل منگوانے کے اختیارات ذکر کیے گئے ہیں۔
دفعہ 5 میں کمیشن کو یہ اختیار بھی دیا گیا ہے کہ کسی شخص کے بیانِ حلفی دینے سے، یا سوال کا جواب دینے، یا دستاویز پر دستخط سے انکار پر اس کے خلاف مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی متعلقہ دفعات کے تحت کارروائی کےلیے مجسٹریٹ کو کارروائی کےلیے کہے اور مذکورہ مجسٹریٹ پھر اس شخص کے خلاف مجموعۂ ضابطۂ فوجداری کے تحت کارروائی کرے گا۔
دفعہ 6 نے کمیشن کو کسی جگہ کی تلاشی اور دستاویزات قبضے میں لینے کا اختیار بھی دیا ہے۔
دفعہ 7 کے تحت کمیشن پولیس کو تفتیش کا حکم بھی دے سکتا ہے۔
دفعہ 8 نے کمیشن کو کسی شخص کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی کے وہ اختیارات بھی دیے ہیں جو ہائی کورٹ کو حاصل ہیں۔
دفعہ 9 کے تحت کمیشن ان دستاویزات کی وصولی کا اختیار بھی رکھتا ہے جو کوئی شخص اسے پیش کرنا چاہتا ہے کیونکہ اس کی راے میں وہ کمیشن کے کام کے ساتھ متعلق ہے۔
یہاں تک وہ اختیارات ہیں جو اس قانون کی رو سے قائم کیے گئے کسی بھی کمیشن کو حاصل ہوتے ہیں۔ دفعہ 10 کے تحت وفاقی حکومت کمیشن کو مزید اختیارات بھی دے سکتی ہے جن میں خصوصاً یہ اختیارات قابلِ ذکر ہیں:
• مجموعۂ ضابطۂ فوجداری کے تحت فوجداری عدالت کے اختیارات؛
• کمیشن کی معاونت کےلیے انتظامی محکموں کے افسران اور ماہرین پر مشتمل خصوصی ٹیموں کی تشکیل کا اختیار؛
• بین الاقوامی سطح پر اور بین الاقوامی اداروں سے دستاویزات اور شواہد کی وصولی کےلیے خصوصی ٹیموں کی تشکیل؛ اور
• کسی دوسرے ملک کی عدالت سے کسی دستاویز یا ثبوت کے جائزے میں معاونت کےلیے درخواست۔
اس کے علاوہ دفعہ 11 کا صراحت کے ساتھ کہنا ہے کہ کمیشن کی تمام کارروائی کو عدالتی کارروائی کی حیثیت حاصل ہوگی۔
دفعہ 14 میں قرار دیا گیا ہے کہ تمام انتظامی ادارے کمیشن کی معاونت کے پابند ہوں گے۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ دفعہ 15 میں تصریح کی گئی ہے کہ کمیشن کی رپورٹ، خواہ عبوری ہو یا حتمی، اسے عوامی سطح پر شائع کیا جائے گا۔ حتمی رپورٹ کی اشاعت کےلیے 30 دن کی مدت بھی مقرر کی گئی ہے۔ البتہ کمیشن رپورٹ کو، یا اس کے کچھ حصے کو ’عوامی مفاد‘ میں خفیہ رکھنے کا کہہ سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کمیشن کی ہر رپورٹ پبلک ہوگی، سواے اس رپورٹ کے، یا اس کے اس کے حصے کے، جسے خود کمیشن خفیہ رکھنے کا کہے۔
دفعہ 16 میں کہا گیا گیا ہے کہ کمیشن میں پیش ہونے والے افراد کے بیانات پر ان کے خلاف کوئی مقدمہ قائم نہیں کیا جاسکے گا، سواے جھوٹی گواہی کے مقدمے کے اور وہ بھی تب جب کسی شخص نے کمیشن کے سامنے بیان میں کسی سوال کا جواب دیتے ہوئے جھوٹ بولا ہو۔
اس انتہائی جامع قانون کے ہوتے ہوئے کیسے یہ کہا جاسکتا ہے کہ کمیشن بے اختیار ہوگا، جبکہ جے آئی ٹی، یعنی مختلف ایجنسیوں کی مشترک تفتیشی ٹیم بہت با اختیار ہوگی؟ اس سوال پر مزید غور کےلیے جے آئی ٹی بنانے کا قانون بھی دیکھ لیتے ہیں۔

پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق احمد شفاء تعمیر ملت یونیورسٹی اسلام آباد میں شعبہ شریعہ وقانون کے چیئرمین ہیں اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے ذیلی ادارہ شریعہ اکیڈمی کے ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔

(mushtaq.dsl@stmu.edu.pk)

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں