سوال
اگر خدا زمان اور مکان سے ماورا ہے اور زمان ومکان اس کی تخلیق ہے تو یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ خدا کی ذات ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی؟ ہمیشہ کا تصور بھی تو زمان پر مبنی ہے، اگر زمان ہی نہ ہو تو ہمیشہ کا وجود کیسے متصور ہوسکتا ہے؟
جواب
یہ سوال زمان کے کامن سینس تصور پر مبنی ہے اور کامن سینس کے اعتبار سے درست ہے۔ امام غزالی نے لکھا ہے کہ زمان یا مکان کو محدود تصور کرنا یعنی یہ تصور کرنا کہ زمان کی کوئی ابتدا ہے اور اس سے پہلے زمان نہیں تھا، یا مکان کی کوئی حد ہے اور اس حد سے آگے مکان کا وجود نہیں، یہ counter-intuitive ہے، یعنی کامن سینس کے لیے ایسا تصور کرنا ممکن نہیں۔ زمان اور مکان کے محدود ہونے کا تصور دراصل عقلی استدلال کے ذریعے سے بالواسطہ قائم کیا جاتا ہے۔ مثلاً چونکہ لامحدود زمان اور لامحدود مکان کا تصور لامتناہی کے تصور کو مستلزم ہے اور انسانی عقل لامتناہی کے تصور کو قبول نہیں کرتی، اس لیے اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ زمان اور مکان لامحدود نہیں، بلکہ محدود ہیں۔
لیکن اس وضاحت کے باوجود کامن سینس کے لیے کسی بھی چیز کے وجود کو زمان سے الگ کر کے تصور کرنا ناممکن ہے۔ اگر زمان کے تخلیق ہونے سے پہلے بھی خدا موجود تھا تو موجود ہونے کا تصور وقت یا زمان کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ اسی لیے ہمیں اس حالت کو بیان کرنے کے لیے بھی ’’پہلے’’ کی تعبیر اختیار کرنی پڑتی ہے جو وقت کو بیان کرتی ہے۔ انسانی زبان میں ایسا پیرایہ ہی موجود نہیں جو زمان کے تصور کے بغیر کسی چیز کے وجود کو بیان کر سکے۔
کامن سینس کی اس مشکل کے پیش نظر بعض مسلم ومسیحی ماہرین الہیات نے زمان یا وقت کے مختلف تصورات قائم کرنے کا طریقہ اختیار کیا ہے۔ مثلاً ایک صورت ’’ابدیت’’ یا ’’سرمدیت’’ ہے جو خدا کا زمان ہے۔ یہ بیک آن ہے، یعنی اس میں آنات کے یکے بعد دیگرے وجود میں آنے کا پہلو نہیں ہے اور نہ وہ محل تغیر ہے۔ اس کے مقابلے میں خدا کا تخلیق کردہ زمان ہے جس کا تعلق مخلوقات سے ہے۔ یہ زمان بیک آن نہیں ہے، بلکہ مرحلہ بہ مرحلہ وجود میں آتا ہے اور اسی وجہ سے تغیر کے امکان کو متضمن ہے۔ علت ومعلول کا ضابطہ بھی جس صورت میں اس زمان میں ظاہر ہوتا ہے، وہ ابدیت یا سرمدیت پر قابل اطلاق نہیں ہے۔
یہ تفریق، جیسا کہ اس وضاحت سے معلوم ہوا، عقلی اور تصوراتی سطح پر ہے۔ یہ ہمارے تجربے میں نہیں آ سکتی اور نہ اس کی کُنہ کو جاننا ہمارے لیے ممکن ہے۔ یہ مختلف تصورات اور ان کے باہمی تعلق کو بامعنی بنانے کے لیے قائم کی جاتی ہے۔ (مولانا فراہیؒ نے اس کو یوں بیان کیا ہے کہ زمان دراصل اللہ تعالیٰ کی صفت بقا سے مُنتزع ایک تصور ہے، یعنی مذہبی تصور میں اصل چیز خدا کا، عدمِ وجود یا زوال وفنا سے پاک ہونا ہے۔ اسی سے ہم ذہنی طور پر زمان کا تصور انتزاع کر لیتے ہیں۔)
زمان کی مختلف کیٹگریز میں فرق صرف الہیات کے ساتھ خاص نہیں۔ فلسفے میں اور جدید سائنسی نظریات میں بھی مختلف فکری ضرورتوں کے لیے اس سے کام لیا جاتا ہے۔ مثلاً ارسطو کے فلسفے میں محرک اول کا چونکہ تغیر سے ماورا ہونا ضروری ہے، اس لیے وہ زمان سے بھی ماورا ہے۔ اسی طرح جدید سائنس میں جو نظریے یہ فرض کرتے ہیں کہ کائنات کے وجود میں آنے اور فنا ہونے کا عمل لامتناہی زمانے سے ہو رہا ہے اور ہمیشہ ہوتا رہے گا، ان میں بھی لامتناہی زمان (eternality) میں اور اُس وقت (local time) میں جو کسی کائنات کے ظہور کے ساتھ وجود میں آتا ہے اور پھر اسی کے ساتھ ختم ہو جاتا ہے، فرق ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ کائناتوں کے ساتھ پیدا ہونے والا وقت، مقامی اور محدود ہوتا ہے، جبکہ کائناتوں کے ظہور اور فنا کا یہ سارا عمل جس زمان میں ہو رہا ہے، وہ ابدی اور لامتناہی ہے۔
اسی نوعیت کا فرق ابن تیمیہ بھی ملحوظ رکھتے ہیں جو نوعی اعتبار سے عالم کے قدیم ہونے کے قائل ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی صفت خلق ہمیشہ سے فعال ہے اور کوئی لمحہ ایسا نہیں تھا جب خدا خلق نہ کر رہا ہو۔ اسی پہلو سے وہ زمان کو بھی قدیم کہتے ہیں جس میں خلق کا یہ عمل ہو رہا ہے، تاہم یہ زمان دیگر حوادث کی طرح ’’مخلوق’’ اور فانی ہے، جبکہ خدا کی ذات کے ساتھ زمان کا جو تصور وابستہ ہے، وہ ’’ازل’’ ہے، جو مخلوق زمان سے الگ ہے۔
واللہ اعلم بالصواب




کمنت کیجے