مولانا مفتی محمدنوید لاہوری
انسان کے بارے میں ایک قدیم مذہبی تصور پایاجاتاہے ،جس میں انسان روح، نفس اور جسم کے مجموعے کانام ہے ،اور اس کو آسمانی ہدایت کی ضرورت ہے ، جس کا مرکز اللہ کی ذات ہے ،اور وہ اسی کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اپنا ماویٰ و ملجا اسی کو جانتے ہیں ۔خود اس انسان کو انتہائی کمزور تصور کیاجاتاہے کہ جواپنے وجود اور بقاء دونوں میں ہی ایک مافوق ہستی کا محتاج ہے ،اور اس دنیا کو فانی اور اخروی زندگی کے لیے پیش خیمہ اور مقدمہ سمجھتے ہیں ،یہ تصور تمام الہامی مذاہب میں قدر مشترک ہے ۔اس تصور انسان کے مطابق ، انسان کی حقیقی عظمت اور بڑائی یہی ہے کہ وہ اپنے خالق ومالک کو برتروبالا تسلیم کرے اور اپنے آپ کو اسی کے سپرد کردے ،اور اس کے دیئے ہوئے احکام کے سامنے ایسے سرتسلیم خم کردے جیسے کہ ایک ایساغلام کہ جس کی اپنی کوئی حیثیت نہیں وہ اپنے آقا کے سامنے سرتسلیم خم کرتاہے ۔اس مذہبی تصور انسان کو تسلیم کرلینے سے اس کےذہن ونفسیات پر ایک اثر پڑاکہ احترام ِ انسانیت کا ایک ایسا تصور قائم ہوا کہ جو بہت سارے حدود قیود میں محدود ومقید تھا،اوراپنے محدود اور مقید تصور کی وجہ سے ان حدود قیود کو تسلیم کرلیناانسان کے لیے کوئی مشکل نہیں تھا۔بلکہ اس سے بھی بڑھ کر صورت حال یہ تھی کہ انسان کے عجز کو تسلیم کرنے ہی میں عزت اور فضیلت سمجھی جاتی تھی ۔اس وجہ سے انسانی جان ، مال اور انسانی اختیارات سب ایک خاص دائرے تک محدود تھے ۔لہذا ایک انسان ایک دوسرے سے تعلق کی مختلف نوعیتوں میں یہ تصور واضح نظر آتا تھا، جیسے کہ آقا اور غلام کاتعلق، زوجین کے آپس کے تعلق کی صورت حال ، مردوزن میں تفاوت اور برتری کا مسئلہ ، ذمہ داریوں کی حدود ،حلال و حرام غذاؤں کا مسئلہ ، حلال وحرام کاروبار کا مسئلہ اور حلال اور حرام ذرائع آمدنی کے مسائل ۔یہ چند مثالیں ہیں کہ جن میں ایک خاص تصور کی وجہ سے عملی رویہ اپنایاجاتا تھا اوران سب باتوں میں اسلامی طرز عمل کو حکم خداوندی سمجھ کر عمل کیاجاتا تھااور کبھی اس پرسوال نہیں اٹھایاجاتاتھا۔
دوسری طرف جدیدمغرب نے بھی انسان کا ایک تصور پیش کیاکہ جس میں انسان کوکسی خارجی رہنمائی کی ضرورت نہیں ہے،وہ روحانیت سے خالی صرف جسمانی حقیقت کا نام ہے ، جس میں وہ ایک مطلق العنان ، آزاد ، خود مختار کی حیثیت سے رہناچاہتاہے ، بلکہ اس سے بھی بڑھ کراپنے آپ کو کائنات کی سب سے طاقت ور اور بااختیار مخلوق سمجھتاہے ۔ان دونوں تصورات کے اپنے اپنے مسائل ہیں ،مثلا مسلم ممالک خاص طور پاکستان میں اگر کوئی عورت ملازمت کرتی ہے تو اس کے پیچھے اس کا تصورانسانی آزادی کانہیں بلکہ نظریہ ضرورت ہوتا ہے ،جبکہ مغرب جوعورت ملازمت کرتی ہے اس کے پیچھے اس عورت کانظریہ آزادی اور خود مختاری ہوتاہے ۔ان دونوں کےدرمیان اس جوہری فرق کی وجہ سے ان دونوں کے نتائج بھی بالکل مختلف ہوں گے ۔ اگر نظریہ ضرورت کو مدنظر رکھیں تو اس کے اوپر سوالات پیدا نہیں ہوتے ، اور نہ ہی اس کا اثر دیگر شعبہ جات کی طرف جاتاہے کہ جس کی وجہ سے وہ دوسرے مقامات پر اپنی خود مختاری کا مطالبہ کرے ، وہ اپنی وراثت پر اور دیگر جنسی امتیاز پر مبنی قوانین پر راضی ہے ، مگریہی صورت حال اگر مغرب میں ہوتو وہاں کی عورت جنسی امتیاز پر مبنی تمام قوانین کو چیلنج کرے گی حالانکہ بظاہر دیکھنے میں دونوں کا عمل ایک ہی ہے،لیکن ان دونوں میں جوہری فرق یہ ہے کہ یہاں عورت کو اجازت نظریہ ضرورت کے تحت دی گئی ہے اور وہاں نظریہ خود مختاری کے تحت اس نظریہ خود مختاری کو ہیومن ازم کا نام دیا جاتا ہے ، جس کو اردو زبان میں انسان دوستی یا انسان پسندی کہا جاتا ہے ۔میرا یہ مقالہ درحقیقت ہیومن ازم کو بیان کرنے والی ایک کتاب On Humanism پر تفصیلی تبصرہ ہے، جو Richard Norman نے2012 میں مکمل کی ہے ۔مصنف 7 اکتوبر 1943 میں پیدا ہوئے ہیں اور ابھی تک حیات ہیں ، مصنف کینٹ یونیورسٹی میں فلسفہ اخلاق (Moral Philosophy) کے پروفیسر ہیں، ان کی اس کتاب کے علاوہ بھی چند اور کتب بھی ہیں ۔ زیر نظر کتاب ہیومن ازم کا تفصیلی تعارف ہے ۔
ہیومن ازم پر جامع تبصرہ
Richard Normen نے اپنی کتاب On Humanism پانچ ابواب پر مشتمل ہے جن میں پہلا باب موضوع کے تعارف ، دوسرےباب میں سائنس کومذہب پرترجیح دیتے ہیں ، تیسرے باب میں انسانی وقار وتوقیر بیان کرتے ہیں جبکہ چوتھے باب میں ایک سیکولر معاشرے کے اخلاقیات پر بات کرتے ہیں اور پانچویں باب میں زندگی کا معنی اور مقصد بیان کرتے ہیں۔مصنف کے اپنے بیان کے مطابق کہ انھوں نے جو بات اجمالا پہلے دو ابواب میں بیان کی ہے بقیہ ابواب میں اسی کی تفصیل ہے ۔
اس کتاب میں مصنف نے بنیادی طور پر یہ مقدمہ قائم کیا ہے کہ انسان کو زندگی گزارنے کے لیے کسی مذہب کی ضرورت نہیں ہے،[1] بلکہ انسان خود ہی اپنے لیے کوئی قانون وضع کرسکتا ہے ، اور جو بھی نظام انسان وضع کرے گامصنف کے نزدیک وہی ہیومن ازم ہوگا۔ہیومن ازم ،مصنف کے نزدیک ایک ایسا فکری نظام ہے جو کہ انسانی معاشرہ اور فرد کا باہمی تعلق اورا ن دونوں کا کائنات کے ساتھ تعلق کو صحت مند اصولوں پر استوار رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے ، اس کا بنیادی وصف انسانی وقار اور انسانی صلاحیتوں کا ایسا تصور ہے جن کو بروکار لاکر انسان اپنے جملہ مسائل کو خوش اسلوبی کے ساتھ حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس سارے عمل کے دوران انسان کو کسی بھی مافوق ہستی کی ضرورت نہیں ہے ۔
یہاں مافوق ہستی سے مراد ذات باری تعالیٰ ہے ، اور کسی ایسی ذات کی ضرورت نہ ہونے کی وجہ مصنف کے نزدیک یہ ہے کہ اس کے نزدیک کسی مابعد الطبعیاتی یا الہیاتی ذات کا کوئی وجود ہی نہیں ہے ، اگر ہے بھی تو انسانی عقلی نظام ( جس کی بنیاد سائنس ہے )میں انسان کو اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔یہ بات مصنف بیسوی صدی کے ایک مصنف کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ انسان کو اپنی زندگی گزارنے کے لیے اپنےاو پر کسی قانون ساز قوت کی ضرورت نہیں ہے بلکہ یہ خود ہی اپنی ضرورت کے تحت قانون بنائے گا ، اور اسی کو مصنف نے ہیومن ازم قرار دیا ہے ، چنانچہ مصنف Jean Paul Sartre(1905-1980) کی بیان کردہ تعریف نقل کرتے ہیں اور کہتے ہیں :
this is humanism because we remind man that there is no legislator but himself [2]
اور آگے چل کر بڑی وضاحت سے کہہ دیا کہ دنیا میں سرے سے کسی خداکا کوئی وجود ہی نہیں ہے ، جو کچھ بھی ہے وہ انسان خود ہی ہے ۔مصنف نے اپنے دعوے کی بنیاد ان تما م دلائل پر رکھی ہے کہ جو اس زمانے میں انکار مذہب پر دیئے جاتے تھے ، مثلا وہ برٹین رسل کے لیکچرز جن کامجموعہ Way I am not Christine کے نام سے شائع ہوا ان میں سے ایک اقتباس نقل کرتے ہیں جس میں وہ مذہب بیزاری کااعلان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سائنس ہمیں سب کچھ پڑھا سکتی ہے ،ہمیں کسی آسمانی ہدایت کی پر اعتماد کی ضرورت نہیں ہے ، انسان چرچ کی بنائی ہوئی دنیا کی بجائے خود اس دنیا کو اپنے رہنے کے لیے بنا سکتا ہے ۔شاید اس میں رسل کا اشارہ گلیلیو(۱۵۶۴-۱۶۴۲) کے بیان کردہ حرکت زمین کے مسئلے کی طرف اشارہ تھا کہ جس میں دنیا کا مرکز زمین کی بجائے سورج کا ہونا بتایا تھا،اور زمین کو ساکت ہونے کی بجائے سورج کے گرد حرکت کرنے والی بتایاتھا ، اس تحقیق کو چرچ نے اپنے مسلمہ عقائد کے خلاف جان کر اس کو ملحد قرار دیدیا، اس کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ،اور اس کی تحریروں پر مکمل پابندی لگائی گئی ۔اسی لیے رسل کہتا ہے کہ سائنس ہمیں سب کچھ پڑھا سکتی ہے ہمیں کسی آسمانی رہنمائی پر اعتماد کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور انسان چرچ کی بنائی ہوئی کائنات کی بجائے خود اپنے لیے اس دنیا کو بنائے ۔ مصنف کے نزدیک موجودہ ہیومن ازم کا آغاز بھی پندرہویں صدی میں ہوا کہ جب مغرب میں مذہب بیزاری قوت پکڑ رہی تھی ، جس کا سبب مسیحیت کا ظلم وجبر تھا ۔
مصنف نےصرف انہیں باتوں کو دین سمجھا کہ جن میں اس کے نزدیک چرچ نے زیادتی کابازار گرم کررکھا تھا اور اس دنیا میں انسانوں کے تمام مسائل کا حل صرف اسی بات میں سمجھا کہ کسی طرح چرچ کی غلامی سے نکل آئے اور مصنف کے نزدیک چرچ کی غلامی سے نکلنے کا مطلب مطلقا مذہب سے آزاد ہونا تھا، مصنف تمام مسائل کا حل اسی میں سمجھتے ہیں کہ کسی طرح چرچ سے چھٹکارا مل جائے اور اسی بات کو ایک آفاقی حقیقت کے طور پر تسلیم کرتے ہیں اور اسی کی بنیاد پر ہیومن ازم کا سارا مقدمہ قائم کرتے ہیں اور کہتے ہیں :
As human being we can find from our own resources that shared moral values which we need in order to live together , and the means to create meaningful and fulfilling lives from ourselves and that the rejection of religious belief .
اس ساری تفصیل کو سامنے رکھتے ہوئے دوباتیں قابل ذکر ہیں پہلی بات یہ کہ مسیحیت میں پاپائیت کی شکل میں ظلم کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مذہب کی حقیقت بھی وہی تھی کہ جو اس دور میں پاپائیت نے پیش کی تھی ، اور دوسری بات یہ ہے کہ اس موقع پر مذہب کے خلاف تحریک چلانے کی بجائے اہل مذہب کے خلاف اصلاحی تحریک چلانے کی ضروت تھی ، اس سارے معاملے کو ہیومن ازم کی بنیاد قرار دے کر اسی کو اصل سمجھ لینا کوئی عقل مندی نہیں ہے ۔ کیونکہ مذہب نے کبھی بھی یہ دعوی نہیں کیا کہ دنیا میں ہر کسی کوکامل انصاف ملے گا ، بلکہ اس کے نزدیک تو یہ دنیا دارالامتحان ہے ، لہذا عین ممکن ہے، بلکہ مشاہدہ بھی ہے کہ یہاں بہت دفعہ طاقت ور ظالم سزا سے بچ جاتا ہے اور کمزور مظلوم ، ظلم کی چکی میں پستہ رہتا ہے ، درحقیقت یہی وہ واقعات ہیں کہ جن کی بنا پر اہل مذہب آخرت کے وجود پر استدلال کرتے ہیں، یعنی اس دنیا میں کامل انصاف کا ملنا ناممکن ہے اور جہاں پوری طرح ، ہر کسی کو کامل انصاف ملے گا وہ یوم آخرت ہے ،اور انہیں باتوں کو انکار مذہب کی بنیاد بنانا کسی طرح بھی قرین قرین قیاس نہیں ہے ۔
یہاں یہ بات بھی اہمیت رکھتی ہے کہ مصنف کے نزدیک انکار مذہب کا مطلب ،مذہب کی علی الاطلاق مخالفت نہیں ہے ، کیونکہ مصنف کے اپنے بیان کے مطابق انسانی تباہی کی وجہ صرف مذہب ہی نہیں ہے بلکہ ان کے نزدیک اور بھی بہت سارے اسباب ہیں اور ساتھ ہی وہ مذہب میں پائی جانے والی اچھی باتوں کا اقرار بھی کرتے ہیں جیسے کہ غلامی کا خاتمہ ، معاشرتی حقوق ، غربت اور قحط کے خلاف مذہبی جدوجہد وغیرہ ، اس لیے ان کے نزدیک انکار مذہب کا مطلب محض ترک مذہب ہے ناکہ مخالفت مذہب۔
دوسرے باب میں مصنف رسل کی قائم کردہ بنیاد کہ انسان کو کسی آسمانی ہدایت کی ضرورت نہیں ہے اور سائنس ہی ہر مسئلے کی رہنمائی کے لیے کافی ہے ، اس کو مزید آگے بڑھاتے ہیں اورمذہب اور سائنس کے درمیان ایک تقابل پیش کرکے سائنس کو مذہب پر ترجیح دیتے ہیں وجہ ترجیح میں دوباتیں مدنظر رکھتے ہیں ایک وجود باری تعالی کا انکار یعنی مصنف کے نزدیک خدا کا سرے سے کوئی سے کوئی وجود ہی نہیں ہے تو اس کی طرف منسوب کسی بھی مذہب کو کیسے تسلیم کیا جائے اور دوسرا نکتہ یہ اختیار کرتے ہیں کہ مذہب اور سائنس دونوں کی بنیاد تجربے پر ہے مگر ان دونوں تجربات میں فرق یہ ہے کہ مذہب ایک شخص واحد کا ذاتی تجربہ ہے جس کومحض اعتماد کی بنا پر تسلیم کرلیا جاتا ہے ، جبکہ سائنس کی بنیاد ایسے تجربات پر ہے جن کو سائنٹیفکلی پرکھاجاسکتا ہے ، بلکہ اس کو پرکھنے کے لیے پوری سائنس کی کمیونٹی موجود ہے ، اگر وہ اس کو قبول کرلیتی ہے تو اس کو سائنسی اصول کا درجہ دیدیاجاتاہے اوراگر وہ اس کو قبول نہیں کرتی تو اس کو رد کردیاجاتا ہے ، اسی وجہ سے مصنف سائنس کو مذہب پر ترجیح دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مذہبی بیانات کوتسلیم کرنے کے لیے اہل مذہب کی دلیل وجود باری تعالیٰ کو تسلیم کرنا پڑے گا ، جس کو مصنف تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے ،بلکہ مصنف مذہبی دلائل کو بے بنیاد قرار دیتے ہیں ، لیکن مصنف اپنے موقف میں اس حد تک مخلص ہے کہ وہ سائنس کو بھی واحد منبع علم کے طور پر تسلیم نہیں کرتا ، بلکہ اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ ہمارے بہت سارےایسے سوالات ہیں کہ جن کے جواب سائنس کے پاس نہیں ہیں ۔(p:55)
حالانکہ مصنف کا آج یہ دعوی کرنا کہ مذہب کسی شخص واحد کا ذاتی تجربہ ہے جس کو لوگوں نے عقیدت کے ساتھ قبول کرلیا ہے ، یہ تاریخی اعتبار سے کوئی قابل قبول بات نہیں ہے ، کیونکہ یہ وہی سوال ہے کہ جو اس زمانے کے مشرکین اور اہل کتاب کے ذہنوں میں آیا تھا اور انھوں نے اسی بات کا تجربہ کرنے کے لیے نبی کریم ﷺ سے مختلف سوالات بھی کیے جن کے ان کو تسلی بخش جواب ملے جس کی واضح مثال سورہ کہف وغیرہ کا نزول ہےاور ساتھ ہی نبی کریم ﷺ کو بھی اللہ نے اس قسم کے سوالات کےپیش آنے کے وقت ولا تقولن لشئی انی فاعل ذالک غدا کی آیت نازل فرمائی ۔ ان دو کے علاوہ بھی قرآن مجید میں متعدد آیات ایسی ہیں کہ جن میں غیر مسلموں کے سوالات نقل کیے گئے ہیں، اور ان کا جواب یا ان کی اصلاح کی گئی ہے ۔ان باتوں کی موجودگی میں یہ کہنا کہ مذہب شخص واحد کا ذاتی تجربہ ہوتا ہے جس کو چیک نہیں کیا جاسکتا ، بالکل ہی بے بنیاد بات ہے ۔
مصنف سائنس کو مذہب پر ترجیح دینے کے بعد تخلیق کائنات کے متعلق تمام سوالات کو حل کرنے کے لیے ڈارون کے نظریہ ارتقاء کا سہارا لیتے ہیں اور اسی پر پورا اعتماد کرتے ہیں ۔حالانکہ انصاف کا تقاضا یہ تھا کہ جو اعتراضات ڈارون کے نظریے پر کیے گئے تھے ان کو بھی نقل کرتے اور ان اعتراضات کے موجودگی میں اس نظریے کو قبول کرنے کی کوئی معقول وجہ بیان کرتے ، مصنف کا صرف اتنا کہہ دینا کہ چونکہ اس وقت یہ یونیورسلی بائیلوجینز نے اس کو قبول کرلیا ہے اس لیے میں بھی اس کو قبول کرتا ہوں (p:46) اور مذہب کو یہ کہہ کر چھوڑدیتا ہے کہ اس کی کوئی بنیاد ہی نہیں ہے(p:55) یہاں تک کتاب کے ابتدائی تین ابواب پر تبصرہ ہے ، اس سے آگے کے ابواب میں مصنف اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں اگر کائنات میں کسی مافوق ہستی کا وجود ہی نہیں ہےتو دنیا میں اخلاقیات اور قانون وغیرہ کی کیا بنیادیں ہیں ؟
چوتھے باب میں مصنف اس خدا کے بغیر والی دنیا میں اخلاقیات کے موضوع پر کلام کرتے ہیں کہ جس میں کوئی خدا نہیں ہے اس میں مصنف کا موقف یہ ہے کہ جن اخلاقیات کو خدا کی طرف منسوب کیا جاتا ہے وہ درحقیقت وہ اخلاقی اقدار ہیں کہ جو انسان کے متعلق ہیں لہذا جب کسی چیز کو اچھا یا برا کہاجاتا ہے وہ چیز اپنی ذات میں اچھی یا بری نہیں ہوتی بلکہ وہ انسان کا ذاتی تجربہ ہوتا ہے ،اور انسان کو جن اخلاقی اقدار کی ضرورت ہے ان کا الہامی ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ انسان اپنی ضرورت کے مطابق خود ہی اپنے لیے اخلاقیات طے کرسکتا ہے ۔
مصنف کے بیان سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان کے نزدیک اخلاقیات انسان کے لیے کوئی خارجی چیز نہیں بلکہ انسان کی داخلی کیفیت ہے جو ہر کسی میں پائی جاتی ہے اور اسی کی مدد سے انسان اپنے لیے اخلاقی قانون وضع کرسکتا ہے ، یہاں یہ مسئلہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس کائنات سے خدا کے وجود کو ہٹا دیا جائے تو یہاں کی اخلاقی اقدار زیادہ سے زیادہ کچھ معاشرتی روایات کا درجہ رکھیں گی ،اور ان کی کوئی معروضی حیثیت نہیں ہوگی لہذا اگر معاشرتی روایت تفریح کی خاطر قتل انسان کی اجازت دیدے تو یہ بھی اخلاق کا حصہ بن جائے گا ۔لہذا خدا کا تصور ہی بنیادی طور پر تمام اخلاقیات کی بنیاد ہوگاکیونکہ ذات باری تعالیٰ کائنات اور انسان کی داخلی کیفیت سے ماوراء ہے اور وہ ہر قسم کی علاقائی ، نسلی اور طبقاتی تقسیمات سے خارج ہے ، لیکن اگر معاشرتی دباؤ یا اتفاق رائے سے کوئی اخلاقی اصول طے کربھی لیے جائیں تواس سے اور بھی مسائل کھڑے ہوجائیں گےکیونکہ یہ طریقہ اخلاق کی اپنی معروضی حیثیت ختم کردے گااور اس میں علاقائی حیثیت داخل کردے گا، جس کی وجہ سے اور بہت سارے مسائل کھڑے ہوں گے جیسے کہ ہیروشیما اور ناگا ساگی کے حادثات کی مثالیں موجود ہیں ۔اسی لیے اہل مذہب کے نزدیک اخلاقی ذمہ داریوں کا مطلب کسی کی ذاتی پسند یا ناپسند نہیں ہے بلکہ اس کے بارے میں ہدایت اور رہنمائی انسانوں کو خارج سے ملتی ہے۔اخلاقیات کے پس منظر میں اسلام کا الوہیاتی نظریہ بنیادی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ اللہ کی ذات علیم وخبیر اور حکیم ہے اس کا کوئی بھی حکم حکمت اور انسانی مصالح سے خالی نہیں ہوسکتا۔
مصنف کے مذہب پر تبصرے سے اس کی مذہبی علمی روایت سےناواقفیت واضح طور پر نظر آتی ہے کیونکہ مصنف کا یہ کہنا ہے کہ اس کو وہ مذہبی لوگ پسند ہیں کہ جو مذہب کی کوئی عقلی توجیہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، اس کا مطلب یہ ہے کہ مصنف کے نزدیک مذہب کی وہ بات قابل قبول ہوگی کہ جس کو وہ عقل کے مطابق سمجھے گا، اور حجیت عقل کا مسئلہ اور عقل و نقل کے درمیان تعارض اور تطبیق وغیرہ یہ وہ مسائل ہیں جو مسلمانوں کی علمی روایت میں باقاعدہ زیر بحث رہے ہیں اور ان پر متقدمین متکلمین کی تفصیلی مباحث موجود ہیں،عین ممکن ہے کہ اگر مصنف کی نظر سے وہ مباحث گزری ہوتی تو اس کا یہ موقف نہ ہوتا۔لیکن ڈارون کے نظریہ ارتقاء کو مصنف قبول کرتے ہیں اور اس پر ہونے والے عقلی اعتراضات کو اہمیت نہیں دیتے ، حالانکہ وقت کے گزرنے کے ساتھ بعد والوں نے ان اعتراضات کو قبول کرکے ان کی نئی توجیھات کرنے کی بھی کوشش کی ہے ۔
پانچویں بابThe Meaning of Life And Need For Sturies
اس باب میں مصنف زندگی کا مطلب اور اس کے پس منظر میں عوامل کو بیان کرتے ہوئے یہ بیان کرتے ہیں کہ کس طرح ایک ہیومنسٹ آدمی بامقصد زندگی گزار سکتا ہے ،تاکہ وہ کائنات میں اپنے مقام کی تعیین کرسکے ۔ اس میں بھی مصنف کہتے ہیں کہ یہ سارا مضمون ان کی ذاتی آراء پر مشتمل ہے اور اس کے ساتھ ہی مصنف اس بات کا بھی اقرار کرتے ہیں کہ انسانی فہم کے جنتے بھی ذرائع ہمارے اردگرد موجود ہیں وہ سب ملا کر بھی اس کائنات کے بارے میں پیدا ہونے والے تمام سوالات کا شافی جواب تلاش نہیں کیا جاسکتا۔ ان پیدا ہونے والے سوالات کے شافی جواب تلاش کرنے کے لیے بقول مصنف انسان کو طرح طرح کی کہانیوں کی ضرورت ہے تاکہ وہ ان کہانیوں میں سے اپنی زندگی کا مقصد تلاش کرسکے ،اور کائنات میں اپنے مقام کی درست تعیین کرسکے۔ بنیادی طور پر مصنف کا مقصد اس اعتراض اور تنقید کا جواب دینا ہے جو اہل مذہب کی طرف سے ان سیکولرز پر کی جاتی ہے کہ بغیر مذہب کے زندگی بے مقصد رہ جاتی ہےمصنف کہتے ہیں کہ جو کام کہانیاں سنا کر مذہب کرتا ہےوہی کام آرٹ کرتا ہے ۔ بقول مصنف۔۔۔
I want now to address this criticism that without religiouns belief , Human life lackes meaning purpose. I shell argue that the art and espacialy letrature and other narrative arts can and do fill this role which religioun claims exclusively to fill
مصنف آرٹ کو مذہب کے متبادل کے طور پر پیش کرنے پر ہی بس نہیں کرتے بلکہ ان وہ اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر دعوی کرتے ہیں کہ آرٹ انسانی زندگی کا وہ خلا بھی پر کردیتا ہے جو مذہب نہیں کرپاتا[3]۔اس بارے میں ان کہنا یہ ہے کہ آرٹ انسان کو زندگی گزارنے کے لیے صرف رہنما مواد ہی فراہم نہیں کرتا بلکہ زندگی گزارنے کے طریقے بھی سکھائے جاتے ہیں ۔
Letrature and the other Arts are valuable not just as self –Caontained pusuite but because of the why in which they can help us in thinking about how we should live … (p:140-141)
گویا مصنف کے نزدیک مذہب محض ایک عقیدے کا نام ہے جس میں عملی اسوہ نام کی کوئی چیز نہیں ہے ، حالانکہ پورا قرآن مجید انبیاء اور غیر انبیاء کے واقعات سے بھرا ہوا ہے اور ان واقعات کو بیان کرنے کی غرض و غایت خود قرآن کے مطابق اپنے ماننے والوں کو ناصرف تسلی دیناہے بلکہ ایک جامع رہنمائی دینا بھی ہے ، کہ تم ان واقعات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنا دعوتی پلان بناؤ ۔اس کے باوجود یہ کہنا کہ مذہب صرف رہنمائی کا مواد دیتا ہے کوئی عملی اسوہ نہیں دیتا ، یہ مصنف کی مذہب کے ناقص مطالعے کی علامت ہے ۔مصنف اپنے دعوے پر مختلف انگلش ادیبوں کی تحریروں کے حوالے بھی پیش کرتے ہیں کہ کسی نے ٹریجی متعارف کروائی اور کسی نے کوئی دوسری انسانی حس کو ڈرامائی شکل میں پیش کیا ۔حالانکہ اگر مذہبی لٹریچر کا مطالعہ کیا جائے تویہی سب کچھ حقیقی واقعات کی شکل میں مل جائے گا۔
مذہب کے حوالے سے مصنف نے جو دوسری غلطی کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ ان کے نزدیک مذہب کائنات کی ایک ایسی توجیح کرتا ہے جو لازما خیر کے ساتھ اختتام پذیر ہوتی ہے ، جبکہ یہ بات پہلے گزر چکی ہے کہ یہ دنیادارالامتحان ہے نہ کہ دارالجزاء ،اس لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ یہاں ہر معاملے کا اختتام خیر پر ہی ہو، عین ممکن ہے کہ یہاں معاملہ ظلم پر ختم ہوجائے اور ظالم ہی فتح یاب ہو اور مظلوم ، مظلوم ہی رہے ، اہل مذہب کے نزدیک مذہب جس معنی میں خیر پر منتھی ہوتا ہے اس سے مراد یہ دنیا نہیں ہے بلکہ یوم آخرت ہے ، کہ جس میں کسی پر ایک ذرہ برابر بھی ظلم نہیں ہوگا، کقولہ تعالیٰ : فمن یعمل مثقال ذرۃ خیرا یرہ ، ومن یعمل مثقال ذرۃ شرا یرہ ۔۔الایۃ
مصنف مذہب کے حوالے سے جو ایک اور غلطی کررہے ہیں وہ یہ ہے کہ ان کے نزدیک مذہب انسان کو وہ قطعیت اور حتمیت مہیا کرنے کا دعوی کرتا ہےجو ہمارے لیے تجربے میں لانا ناممکن ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مذہب کی چندتوجیہات یہ تصور پیش کرتی ہیں مگر تمام توجیحات یہ تصور پیش نہیں کرتیں۔ مذہب کے سرسری مطالعے سے یہ بات واضح ہے کہ خدا کے نزدیک دنیا میں بدی کا ایک سبب انسانی اعمال ہیں اور انسان کو بارہا اس کی ترغیب دی گئی ہے کہ اپنے اعمال سے بھلائی کے فروغ کا سبب بنے اس کے ساتھ اس امر کا کوئی قطعی وعدہ نہیں ہے کہ اگر تم خیر کروگے تو لازما خیر ہی پھیلے گا، کیونکہ کائنات کا نظام قطعا انسانی مرضی کے تابع نہیں ہے، بلکہ اس میں اور بہت ساری قوتیں کارفرما ہیں چنانچہ امکانیت کا یہ تصور مذہب میں ہمیشہ سے اہمیت رکھتا ہے ۔
تتمہ کلام:
کتاب پر تبصرے کے بعد مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بطور تتمہ کے اسلامی نظریہ انسان پر بطور خلاصہ مختصر سا کلام پیش کیا جائے ۔اسلامی نظریہ انسان میں بنیادی نظریہ وجود باری تعالیٰ کا ہے جو واجب الوجود ذات ہے یہ ہیومن ازم کے قائلین اس دعوے پر قائم ہیں کہ انسان کے کسی بھی مذہب کو اختیار کرنے سے پہلے انسان ہونا ضروری ہے ۔ سوال یہ ہے کہ بندے کا مذہب سے تعلق سے پہلےاس کے انسان ہونے کا کیا مطلب ہے ؟ کیونکہ کوئی بندہ خواہ مسلم ہو یا یہودی ہو یا مسیحی ہو ، اس کا سب سے پہلے ذات باری تعالیٰ پر ایمان ہوگا، اس مذہب میں باقی سب احکام و شرائع اسی کے تابع ہوں گے ، جن کا مدار تصور الہ ہوگا، لیکن وہ مذہب کہ جس میں خدا ہی کا تصور نہیں ہے اس میں کس بات کا اقرار کرنا ہوگا ؟کیونکہ ہیومن ازم میں انسان کے بارے میں یہ تصور پایا جاتا ہے کہ وہ آزادہے کسی مافوق ہستی کو تسلیم نہیں کرتا ، جبکہ مسلمان ہونے کا مطلب ہی یہ ہے کہ بندہ اپنے آپ کو ایک مافوق ہستی کے حکم کا پابند سمجھے اور اس کی پیروی کرنے میں اپنی نجات جانے ، کیونکہ انسان کی حقیقی عظمت یہ ہے کہ وہ اپنے خالق کو پہچان کر اس کی منشاء کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال لے ، اگر ایسا نہیں کرتا تو قرآن کے بیان کے مطابق وہ انسانی مرتبہ سے گر کر حیوانات سے بھی ابتر حیثیت میں چلا جاتاہے ، کیونکہ ذات باری تعالی ٰ واجب الوجود ہستی ہے اور تمام مخلوق ممکن الوجود ہیں ، اور درجہ امکان میں انسان ، حیوان اور نباتات سب برابر ہیں ، اس کو امکانی صورتوں میں سے انسان کی صورت دیدی ،اور انسانی شکل ملنا یہ محض مشیۃ ایزدی کے سبب تھا، اس لیے انسان اپنی تخلیق ہی میں اس ذات باری تعالیٰ کا بندہ ہے ، اس بنیادی نظریے میں انسان کی حقیقت بڑی واضح ہے ، جب انسان اپنی حقیقت خدائی واسطے کے بغیر بیان کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے پاس کوئی بھی معقول راستہ باقی نہیں رہتا اور وہ اپنے آپ کوبزعم خود ، آزاد اور خود مختار مخلوق کی شکل میں پیش کرتا ہے ، حالانکہ اس مذہب کی حالت یہ ہے کہ ان کے پاس کوئی بھی آفاقی حقیقت موجود نہیں اور نہ ہی کوئی بنیادی قانون ، جس کو قرآن نے کہا ہے ؛
ایحسب الانسان ان یترک سد ی ، الم یک نطفۃ من منی یمنی ، ثم کان علقۃ فخلق فسوی ، فجعل منہ الزوجین الذکر والانثی ، الیس ذالک بقادر علی ان یحیی الموتی ۔۔۔۔۔۔ الایہ
اس تفصیل کے بعد جب مذہبِ انسانیت کی بات کی جاتی ہےتو اس بات کا مطلب ذات باری تعالیٰ کے انکار کے علاوہ کوئی اور نکلتا ہی نہیں ہے ۔ البتہ اس میں ایک مسئلہ باقی رہ جاتا ہے کہ یہ بندہ اس بات کا اقرار کرتا ہے یا انکار کرتا ہے ، اگر اقرار کرے تو اس کا اقرار اس کو اسلام کے دائرے میں داخل کردے گا اور اگر انکار کرے گا تو اس کا انکار اس کو اسلام کے دائرے سے خارج کردے گااور یہی اسلام اور کفر کی بنیادی حقیقت ہے ۔جب انسان کی حقیقت واضح ہوگئی تو اس سے آگے کے مراحل بھی بآسانی طے ہوجائیں گے کہ جن میں خالق کے اوامر اور نواہی کی پیروی اور خالق کے سامنے جواب دہی کا تصور اور اس کی جانب سے جزا اور سزا کی حقیقت شامل ہیں ۔
اللہ کی ذات انسان سے جس چیز کا مطالبہ کرتی ہے اس کا طریقہ بھی دیتی ہے اور بڑے واضح لفظوں میں اعلان کرتی ہے ؛
ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ وھو فی الآخرۃ من الخاسرین ۔
یعنی دنیا میں اپنایا ہوا میرا اخلاق اور زندگی کے قائم کردہ معیارات اللہ کے ہاں تبھی معتبر ہوں گے کہ جب وہ اللہ کے عطا کردہ قانون کے مطابق ہونگے ورنہ وہ مردود اور ناقابل قبول ہونگے ۔ہیومن از م کی حقیقت واضح ہوجانے کے بعد ہیومن رائٹس کی حقیقت بھی واضح ہوجاتی ہے کہ ہیومن رائٹس سے کیا مراد ہے ؟ مغرب کے نزدیک ہر وہ چیز بنیادی انسانی حقوق میں شامل ہے کہ جس کا انسان تقاضہ کرے ، خواہ وہ کوئی بھی کام ہو، لیکن اسلام کی نظر میں بنیادی انسانی حقوق میں وہی چیزیں داخل ہوں گی کہ جو اللہ کی طرف سے طے کردہ ہیں ، ان میں کسی علاقے کے رواجات یا کسی انسانی تنظیم کے پاس یہ اختیار نہیں ہوگا کہ وہ انسانی حقوق طے کرے ۔اس پس منظر کے ساتھ عدل وانصاف کا مفہوم مسلمانوں اور ہیومنز کے درمیان بالکل ہی الگ ہوگا، ان لوگوں کا اصرار اس پر ہوگا کہ بنیادی انسانی حقوق وہی معتبر ہیں جو انھوں نے طے کیے ہیں اور اگر دنیا کا کوئی بھی ملک یا روایت ان کے وضع کردہ حقوق کو تسلیم نہیں کرے گا تو وہ اسے ظلم وجبر شمار کریں گے ۔
خلاصہ کلام کا یہ نکلا کہ ان تمام مسائل کی بنیاد تصور الہ ہے ، اگر وہ موجود ہے تو تصور انسانیت کامل ہے اور اگر تصور الہ موجود نہیں ہے تو بقیہ مسائل کو حل کرنا آسان ہے اور اگر بنیادی ہی خالی ہے تو اس پر مکالمے کی عمارت کیسے قائم ہوسکتی ہے ؟
حواشی
[1] مصنف کی مذہب سے مراد الہامی مذاہب ہیں ،اور ان میں سے بھی خاص طور پر مسیحی مذہب ، کیونکہ ہیومن ازم کے تعارف میں مصنف ایک اٹالین فلاسفر Giovanni Pico Della Mirandola کا ذکر کرتے ہیں جو کہ مسیحی ہیں اور وہ بھی بائبل ہی کے حوالے سے انسانی عظمت کو بیان کرتے ہیں ، مصنف اپنی کتاب میں متعدد بار اہل مذہب کا ذکر کرتے ہیں مگر جب مثال پیش کرتے ہیں تو بائبل ہی کا حوالہ دیتے ہیں ، قرآن یا یہود کی مقدس کتاب کا ذکر نہیں کرتے ۔اور مزید یہ بات بھی اہمیت رکھتی ہے کہ مصنف کے نزدیک مذہب کے انکار کا مطلب مذہب کی مخالفت نہیں ہے بلکہ مذہب کے اندر پائے جانے والے تعصبات کی مخالفت ہے ۔
[2] Page,06, On Humanism
[3] ایک ضروری وضاحت یہ ہے کہ مصنف آرٹ کا لفظ عمومی معنی میں استعمال کررہے ہیں جس میں اس کی تمام قسمیں شامل ہیں ، یعنی فلم ، ادب وغیرہ
کمنت کیجے