…
ہراسانی محض جنسی نوعیت کے کسی محرک کا نتیجہ نہیں ہوتی، یہ طاقت اور فائدہ کشی کی نفسیات سے پھوٹتا رویہ ہے جو کئی صورتوں میں ظاہر ہوتا ہے۔ فریق مخالف کی حق تلفی،اس کی خلاف مرضی اس سے فائدہ مندی یا لذت اندوزی کے بعد اسے ایسے خوف زدہ کرنا کہ وہ حرف شکایت زبان پر نہ لا سکے، ہراسانی کہلاتا ہے۔ طاقت اور فائدہ اٹھا سکنے کی پوزیشن میں بیٹھا شخص دوسرے فریق کی کمزور پوزیشن یا ممکنہ طور پر اسے کمزور پوزیشن میں ڈال سکنے کی توقع پر ہراسانی کرکے اپنا مفاد پورا کرتاہے۔ ہراسانی محض جنس مخالف سے کیا جانا والامعاملہ نہیں، یہ درحقیقت طاقت ور اور کمزور کے درمیان طاقت اور مفاد کا معاملہ ہے جس کی ایک صورت مرد و عورت کے درمیان ہراسانی کا مسئلہ ہے۔
ہراسانی کے معاملات کو ثابت کرنا ایک مشکل کام ہے۔ اس کے سد باب کے لیے یہ ضروری ہے کہ فیصلہ کن اتھارٹی طاقت اور مظلومیت دونوں کا دباؤ قبول کیے بغیرمبنی پر عدل فیصلہ کیا کرے۔جہاں کمزور فریق کو طاقت ور کے استحصال سے بچانا ضروری ہے وہاں طاقت ور فریق کو کمزور کی مظلومیت کے کارڈ کے غلط استعمال سے بچانا بھی اس کا وظیفہ ہے۔
تعلیمی اداروں کے حوالے سے بات کی جائےتو نج کے اداروں میں رفقائے کار کے درمیان ہراسانی کا رویہ کم ہے۔ اس کی وجہ انتظامیہ کا اپنے ادارے کی شہرت کے بارے میں حساس ہونا اور اس بنا پر ہراسانی کے واقعات پر فوری ردعمل اور کارروائی کرنے کا رجحان ہے جو ممکنہ ہراسانی کے لیے حوصلہ شکن ہے۔ تاہم یہاں بھی جو افراد اپنی جڑیں مضبوط کر لیتے، زیادہ باختیار ہو جاتے یا وہ خود مالکانہ اختیارات رکھتے ہیں، عام طور پر وہی ہراساں کرتے ہیں۔ جب کہ اپنے بقا کی جنگ لڑتا ملازم ہراسانی کی طرف کم ہی متوجہ ہو پاتا ہے۔
تاہم، یہاں طلبہ کی طرف سے اساتذہ کو ہراساں کرنے کا رجحان خطرناک حد تک زیادہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ طلبہ کو گاہک سمجھا جاتا ہے اور کاروبار کا اصول ہے کہ گاہک کبھی غلط نہیں ہوتا۔ یہ طلبہ کو طاقت ور فریق بناتا ہے۔ بے روزگاری کی وجہ سے ان اساتذہ کے لیے ملازمت ان کی بقا کا مسئلہ ہوتا ہے جس سے یہ کم زور فریق بن جاتے ہیں۔
طلبہ انھیں مختلف طریقوں سے ہراساں کرتے ہیں۔ وہ ان پر آوازیں کستے، ان کی کلاس میں غیر سنجیدہ حرکتیں کرتے، ان کے کپڑوں پر سیاہی پھینکتے، مخالف جنس کے اساتذہ کو ذو معنی اور کبھی فحش اشارے کرتے اور ان کی جھوٹی سچی شکایتیں انتظامیہ کو لگاتے ہیں۔اساتذہ کوطلبہ کی طرف سے ہراسانی برادشت کرنا پڑتی ہے یا ملازمت چھوڑنا پڑتی ہے۔ انتظامیہ کا عمومی رجحان طلبہ کا ساتھ دینے کا ہے۔ مبنی بر انصاف فیصلے استثنائی ہوتے ہیں۔
اس کے برعکس سرکاری تعلیمی اداروں میں طلبہ کو اساتذہ کی طرف سے ہراساں کیا جاتا ہے۔ سبب یہی ہے کہ یہاں طلبہ کے مقابلے میں اساتذہ زیادہ بااختیار ہوتے ہیں۔ ان میں سے جن کی ملازمت مستقل ہوتی ہے وہ اس معاملے میں زیادہ حوصلہ مند ہوتے ہیں۔ طلبہ کی سالانہ کارکردگی کے نتائج استاد کی صواب دید پر منحصر ہوتے ہیں۔ یہ سب عوامل استاد کو طاقت ور اور طلبہ کو کم زور فریق بنا دیتے ہیں۔ چنانچہ طلبہ کی طرف سے اپنی کارکردگی سے متعلق اپنی مرضی کی رپورٹ حاصل کرنے، انھیں بطور آلہ دیگر کار رفقا ئےکار کے خلاف استعمال کرنے کے لیے ان کے گریڈز اور امتحانی نتائج کے حوالے سے انھیں خوف زدہ کیا جاتا ہے۔ اپنے رفقائے کار سے رقابت کا نشانہ بھی ایک دوسرے کے شاگردوں کو بنایا جاتا ہے۔ امتحانی نتائج سے لے کر تحقیقی مقالہ جات میں کئی طرح سے طلبہ کو پریشان کر کے انا کی تسکین کا سامان کیا جاتا ہے۔ طلبہ کا استاد سے محض اختلاف راے کرنے پر بھی یہ ہتھیار استعمال کیے جاتے ہیں۔ ذہین طلبہ کا یہ مسئلہ ہوتا ہے کہ وہ سوال اور اختلاف کیے بنا نہیں رہتے۔ اکثر اساتذہ اسے اپنی ہتک سمجھ لیتے ہیں، خصوصا شعبہ اسلامیات کے اساتذہ میں اختلاف راے برداشت کرنے کا مادہ بہت کم پایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم اقلیتی مذاھب کے حامل طلبہ اپنی مسلکی شناخت تک چھپانا بہتر سمجھتے ہیں تاکہ اساتذہ کا مسلکی تعصب ان کے گریڈز پر اثر انداز نہ ہو۔ جنسی ہراسانی کے واقعات بھی ہوتے ہیں اور ایسے موقع پر طلبہ کو خاموش رہنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
ہراسانی کے مسائل پہلو دار ہیں۔ لیکن اس وقت تک پوری دنیا کا غالب رجحان مردوں کے ہاتھوں خواتین کو ہراساں کیے جانے کے رویے اور واقعات کی طرف متوجہ ہے جب کہ خواتین کی طرف سے مردوں کو ہراساں کرنا بھی خاصا عام ہے مگر یہ پہلو اب تک نمایاں نہیں ہو سکا۔
زندگی کےزیادہ تر شعبہ جات میں مردوں کا غلبہ ہے، عورت کم زور فریق ہے، اس لیے ہراساں کرنے کے لیے وہ آسان ہدف ہے۔ اس معاملے میں لیکن افسوس ناک رویہ یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ عدالتوں کے برعکس جو ہراسانی کے مقدمے میں عورت کی حمایت کا رجحان رکھتی ہے، ہماری جامعات فریق غالب کا ساتھ دیتی ہیں چاہے وہ فریق غالب مرد ہوں یا خواتین۔ انتظامیہ کی طرف سے کوشش کی جاتی ہے کہ بات کو دبا لیا جائے اور متاثرہ فریق کو سمجھوتے پر مائل کر لیاجائے یا آخری درجے میں خود متاثرہ فریق کی کردارکشی کر کے اسے نامعتبر بنا دیا جائے۔ یہ رویے ہراسانی کے رویوں کی حوصلہ افزائی کا سبب بنتے ہیں۔
دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ طاقت کی بساط کے فریق یعنی مرد و عورت کو ایک دوسرے کی جگہ تبدیل کر کے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہراسانی کے قطب کا رخ اب بھی وہی رہا یعنی یہاں بھی طاقت ور فریق (عورت) کمزور فریق (مرد) کو ہراساں کرتا پایا جاتا ہے۔
جنسی ہراسانی کی تاریخ کا ایک اولین ماخذ ہمارے پاس حضرت یوسف علیہ السلام کا قصہ ہے جسے بائیبل اور قرآن مجید دونوں میں بیان کیا گیا ہے۔ حضرت یوسف مصر کے گورنر، پوطیفار کی بیوی زلیخا اور بعد ازاں اس کی ہم جلیس خواتین کے ہاتھوں ہراساں کیے گئے اور اسی کشمکش کے نتیجے میں انھیں زندان میں کئی برس قید رہنا پڑا۔ فیصلہ کن اتھارٹی مصر کا گورنر، زلیخا کا خاوند، پوطیفار تھا، جس کے سامنے حضرت یوسف علیہ السلام شواہدکی بنیادپر اپنا مقدمہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے، مگر پوطیفار نے بھی وہی کیا جو عموماً کیا جاتا ہے: اپنے خاندان کے ظاہری وقار کو بچانے کے لیے حضرت یوسف علیہ السلام کو ان کی بے گناہی کے باوجود جیل میں ڈال دیا۔ ان کے دامن عصمت پرتہمت کا داغ لگا رہا یہاں تک کہ مصر کے بادشاہ کے ایک خواب کی معقول تاویل سجھانے کا موقع آپ کو ملا۔ اس پر عنایت کرتے ہوئے اس نے خود حضرت یوسف کوجیل سے رہائی کا پروانہ عطا کیا ۔ لیکن حضرت یوسف نے عزیمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ کہہ کر باہر آنے سے انکار کر دیا کہ پہلے ان پر لگی تہمت کی تفتیش کی جائے ۔ وہ اپنے دامن پر لگے اس دھبے کے ساتھ محض بادشاہ سلامت کے مراحم خسراوانہ کا احسان لیے جیل سےباہر نہیں آنا چاہتے۔ آخر جب غیر جانب دارانہ تفتیش ہوئی اور حضرت یوسف بے گناہ قرار پائے تو آپ جیل سے باہر تشریف لائے۔ان عورتوں کے اس مکر کو مصر کے گورنر نے ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا تھا:
{إِنَّ كَيْدَكُنَّ عَظِيم} [يوسف: 28]
تمھارے فریب بڑے غضب کے ہوتے ہیں۔
خواتین کی جامعہ میں پڑھانے کے دوران میں راقم کو یہ احساس ہوا کہ یہاں مرد کمزور اور عورت طاقت ور فریق ہے اور ہراسانی طاقت ور فریق کا حق ہے۔ یہاں مردوں کی کمزور اقلیت خواتین کی طرف سے ہراسانی اور اپنی کردار کشی کے مسلسل خدشے کا شکار رہتے ہیں۔ یہاں ہراسانی عورت کا بہت موثر ہتھیار ہے۔ یہ تو اس وقت بھی مؤثر ہوتا ہے جب عورت مظلوم ہو، یہاں تو یہ فریق غالب بھی وہی ہے۔ مردوں کو دفاع پر مجبور کر دینے کا یہ سہل ترین اور زود اثر نسخہ ہے۔ یہاں سزا، خطائے نظر سے پہلے اور عتا ب، جرم سخن سے پہلے وارد ہو جاتا ہے۔ جامعہ کی انتظامیہ پوطیفار کی طرح ہر ایسے معاملے میں عورت کے حق میں پہلے سے فیصلہ کیے بیٹھی ہے۔ ایسے میں مرد حضرات کی عزتِ عرفی اور عزتِ نفس میں سے کوئی ایک ہی بچ پاتی ہے۔ انھیں سمجھوتے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اس صورت حال میں مردوں کے پاس اس کے سوا کوئی آپشن نہیں رہتا کہ نظر چرا کے چلیں، جسم و جاں بچا کے چلیں۔
مردوں کےہاتھوں ہراساں ہونے والی خواتین کو یہ توقع بہرحال ہوتی ہے کہ اگر ان کا ادارہ طاقت ور فریق یعنی مرد کے ساتھ کھڑا ہے تو عدالت سے انصاف ملنے کی امید ہوتی ہے جو عورت کے ساتھ کھڑی ہے۔ لیکن خواتین کے ہاتھوں مردوں کی ہراسانی جب خواتین کے زیر انتظام ادارے میں ہو تو مرد حضرات کو نہ اپنے ادارے سے انصاف ملنےکی کوئی امید ہوتی ہے اور نہ عدالت سے، جو پہلے ہی عورت کے ساتھ کھڑی ہے۔ ملازمت کی نزاکت اور معاش کی مجبوریوں کی وجہ سے مرد حضرات ایسے مسائل کو ادارے سے باہر کسی اور فورم پر لانے سےبھی گریزاں ہوتے ہیں۔
مثلا ہمارے ہاں ایک خاتون رفیق کار نے کافی ہنگامہ خیزی مچا کر مرد حضرات کے دفتر کے لیے یہ حکم جاری کروایا جب کوئی خاتون ان کے دفتر میں موجود ہو تو دروازہ کھلا رکھا جائے۔ کچھ عرصہ بعد وہی خاتون ایک اپنے رفیق کار مرد کے ساتھ ایک کمرہ بطور مشترکہ دفتر شیئر کرنےلگ گئیں۔ سربراہان کو جب توجہ دلائی گئی کہ اب دروازہ مستقل طور پر کھلا رہنا چاہیے تو جواباً اسے نظر انداز کرنے کا کہا گیا۔ جب کہ کمرے میں “محبوس” مرد ہر دن اس حالت میں گزارتا ہے “عزت” کا جانا ٹھہر گیا، صبح گئی یا شام گئی۔
نفسیاتی اور جذباتی مسائل جو ہمارے ہاں گھریلو، معاشی اور سماجی ناآسودگیوں کی وجہ سے عام پائے جاتے ہیں، وہ خواتین میں بھی عجیب پیچیدہ رویوں کا سبب بنتے ہیں۔خواتین کے کچھ مخصوص نوعیت کے حیاتیاتی اور نفسیاتی رویے، شادی میں تاخیر یا گھریلو ناآسودگی کی وجہ سے پیدا ہونے والے رجحانات پیشہ ورانہ ماحول میں بھی اپنا رنگ دکھاتے ہیں۔ خود سکینڈل بننے اور بنانے کی خواہش بھی مردوں کو ہراساں کرنے کی کئی صورتیں پیدا کر لیتی ہے۔ جہاں مردوں کی طرف سے توجہ ملنے کی وجہ سے سکینڈل بنا لیے جاتے ہیں، وہاں ان کی طرف سے گریز کے رویے سے اپنی ہتک کا احساس (جسے ہم زلیخائی احساس ہتک کہہ سکتے ہیں) بھی انھیں مردوں کو ہراساں کرنے پر ابھارتا ہے۔ یعنی دامن اگر یوسف کا بھی ہو تو یہاں داغ تہمت سے بچنا مشکل ہے۔ افسوس مگر یہ ہے کہ اب کسی وائس چانسلر کو کوئی خواب بھی نہیں آتا کہ کسی غیر جانب دارانہ تفتیش کا امکان پیدا ہو سکے۔
کمنت کیجے