ڈاکٹر خوشتر نورانی ہندوستان سے تعلق رکھنے والے مصنف و محقق اور معروف علمی خانوادے کے ایک فرد ہیں۔ ان کے دادا علامہ ارشد القادری کا شمار چوٹی کے سنی (بریلوی) علماء میں ہوتا تھا۔ علامہ ارشد القادری کے خطوط کو ڈاکٹر خوشتر نورانی نے “برید مشرق” کے نام سے جمع کیے ہیں جن کو پاکستان میں ورلڈ ویو پبلشرز لاہور نے شائع کیا ہے۔ اس میں علامہ ارشد القادری کے ۲۳۹ خطوط شامل ہیں۔یہ مجموعہ خطوط تقریباً ۴۵ سال پر مشتمل ہے۔ پہلا خط ۱۹۵۶ اور اخری ۲۰۰۱ کا ہے۔
علامہ ارشد القادری صاحب کے خطوط کیساتھ اس کتاب میں ڈاکٹر خوشتر نورانی صاحب نے مختلف حواشی ،تعلیقات، ضمیمہ جات اور مکتوب الہیم کے تعارف سے اس کتاب کی اہمیت کو بڑھا دیا ہے اور نظر آتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے بہت محنت سے یہ کام سر انجام دیا ہے۔بلکہ مکتوب الہیم کے تعارف سے یہ ایک طرف ان شخصیات کے تذکرے کی کتاب بھی بن گئی ہے۔
خطوط کے آغاز سے پہلے ڈاکٹر خوشتر نورانی صاحب کا مقدمہ بھی پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ جس میں خطوط نگاری کی تاریخ اور اس کی اہمیت پر روشنی ڈالی ہے۔ اُردو میں مشاہیر کے خطوط جمع کرنے کی روایت تو کافی عرصہ سے جاری ہے مگر اس میں زیادہ تر ادبی شخصیات کے خطوط کو جمع کرنے کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے۔ علماء کے مکاتیب کو جمع کرنے کا رجحان اس طرح نہیں بڑھ سکا جیسا کہ ادبی شخصیات کے خطوط کو جمع کیا گیا۔ اس کی ایک وجہ ڈاکٹر صاحب نے یہ لکھی ہے کہ تقسیم کے بعد علماء نے ادب سے دوری اختیار کی۔ بہت سی شخصیات جن کا علمی قد بہت بلند تھا مگر ان کے مکاتیب کو مرتب نہیں کیا جا سکا، اگر یہ مکاتیب سامنے آ جاتے تو اردو کے علمی و لسانی اور تاریخی سرمائے میں اضافہ ہوتا۔ اس پر ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ یہ شکایت سے زیادہ محاسبہ کا محمل ہے۔
مذہبی شخصیات جن کے مجموعہ خطوط سامنے آئے ان کے بارے میں ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ ان پر مسلکی رنگ غالب ہے جس کی وجہ سے علمی حلقوں میں ان کی پذیرائی نہ ہو سکی۔ گو کہ مجموعہ مکاتیب کے حوالے سے باقی علماء کے مجموعے میری نظر سے نہیں گزرے مگر جہاں تک مسلکی رنگ کی بات ہے تو وہ ڈاکٹر صاحب کے ان مرتب کردہ خطوط میں بھی نظر آتا ہے۔
کتاب کا نام مولانا سید سلیمان ندوی کے خطوط جو انہوں نے برطانیہ میں اپنے احباب و رفقاء کو لکھے تھے ان کا نام انہوں نے “برید فرنگ” کا دیا۔ ڈاکٹر خوشتر نورانی صاحب نے اسی سے متاثر ہو کر علامہ صاحب کے خطوط کو “برید مشرق” کا نام دیا ہے۔
مقدمے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے علامہ ارشد القادری رح کا تعارف بھی پیش کیا ہے۔ علامہ صاحب کے والد مولانا شاہ عبد الطیف رشیدی رح عالم دین و صوفی بزرگ تھے۔ علامہ صاحب رح کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی ہوئی اس کے بعد منظر اسلام بریلی شریف اور مولانا شاہ عبد العزیز مراد آبادی رح کے زیر نگرانی جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں پڑھا۔ علامہ صاحب مولانا امجد علی اعظمی رح سے بیعت ہوئے جبکہ آپ کو خلافت مولانا شاہ ضیاء الدین مدنی رح اور شاہ فدا حسین عظیم آبادی رح سے ملی۔
ڈاکٹر صاحب نے اپنے دادا کی علمی و تحریکی زندگی کا عمدہ تعارف پیش کیا ہے اور ان کی جانب سے قائم ہونے والے مختلف اداروں اور تنظیموں کا ذکر کیا ہے جن میں ادارہ شرعیہ پٹنہ،مسلم متحدہ محاذ (رائے پور)، شرعی بورڈ (مبارک پور)، الانصار ٹرسٹ (بنارس) وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ عالمی تبلیغی تنظیم دعوت اسلامی اور ورلڈ اسلامک مشن کا بانی بھی آپ کو قرار دیا ہے۔ ورلڈ اسلامک مشن کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب کی بات تحقیق طلب ہے کیونکہ میری معلومات کے مطابق اس کا ڈھانچہ اور اس کا کام تو علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقی رح اور ڈاکٹر فضل الرحمان انصاری رح کرتے رہے۔ پھر علامہ شاہ احمد نورانی رح بھی اس کی بنیاد رکھنے والوں میں سے ہیں اور میری معلومات کے مطابق موجودہ تنظیم کے بانی علامہ نورانی رح ہی ہیں۔ علامہ ارشد القادری رح کا اس کی تعمیر و ترقی میں کردار واضح ہے مگر اس بنیاد پر ان کو بانی قرار دینا مزید تحقیق کا متقاضی ہے۔علامہ صاحب چونکہ تحریر کے میدان کے شہسوار تھے اس لیے اس تنظیم کا لائحہ عمل اور دستور آپ کے قلم سے مرتب ہوا ایسا ہی معاملہ دعوت اسلامی کا ہے۔ اس کی بنیاد میں مولانا شفیع اوکاڑوی رح، مفتی وقارالدین رح اور مولانا نورانی رح کا بھی کردار ہے، بلکہ امیر دعوت اسلامی مولانا الیاس عطار قادری صاحب بھی اس بات کا دعویٰ کر چکے ہیں کہ وہ اس تنظیم کے بانی ہیں۔ بہرحال دعوت اسلامی کی حد تو ڈاکٹر خوشتر نورانی صاحب کی بات سے اتفاق کیا جا سکتا ہے مگر ورلڈ اسلامک مشن کا بانی علامہ ارشد القادری رح کا ہونا پہلی بار نظر سے گزرا ہے۔ڈاکٹر صاحب نے اپنے تعارف میں علامہ صاحب کی کتب کی ایک فہرست بھی دی ہے جو کہ اب پاکستان میں بھی موسوعہ کی شکل میں شائع ہو چکی ہیں۔
علامہ ارشد القادری رح نے ورلڈ اسلامک مشن کے اغراض ومقاصد اور اس کا دستور اور دعوت اسلامی کا لائحہ عمل بھی لکھا جن کو بصورت ضمیمہ کتاب کے آخر میں شامل کیا گیا ہے۔
ان خطوط کو پڑھتے ہوئے بھی ہمیں علامہ ارشد القادری رح کا جو تعارف سامنے آتا ہے وہ ایک متحرک، مسلکی درد اور کام سے غرض رکھنے والے، دنیاوی امور سے واقف ایک مخلص اور حقیقت پسند سنی عالم کا ہوتا ہے۔
پہلا خط جو اس وقت کے بھارتی وزیراعظم جواہر لعل نہرو کے نام ہے اس وقت جمشید پور میں علامہ صاحب نے مدرسہ فیض العلوم کی بنیاد رکھی۔ علامہ صاحب نے نہرو صاحب کو دعوت دی کہ وہ اس مدرسے کے سنگ بنیاد کی تقریب میں شرکت فرمائیں۔ اس خط کے حاشیہ میں ڈاکٹر خوشتر نورانی صاحب نے مدرسہ فیض العلوم کی تاریخ کو مختصراً بیان کیا ہے کہ اس مدرسے کی بنیاد کھلے آسمان میں ایک درخت کے نیچے رکھی گئی اور پھر اللہ تعالیٰ نے اس کو ترقی دی اب یہ مشرقی ہند کا ایک مرکزی ادارہ ہے۔ جہاں دینی کے ساتھ عصری علوم کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ علامہ صاحب رح نے ۱۹۷۲ یہاں ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ قائم کیا تھا تاکہ یہاں کے مسلمان صنعتی تعلیم و تربیت حاصل کر سکیں۔
علامہ ارشد القادری رح کی مسلکی حمیت اور تصلب پر متعدد خط گواہ ہیں۔ مولانا ابوالوفا فصیحی رح کے نام خط میں آپ رح نے اس تشویش کا اظہار کیا ہے کہ رانچی میں بدعقیدگی بڑھتی جا رہی ہے اور وہ ان سے شکایت بھی کر رہے کہ اب تک انہوں نے کوئی سنی ادارہ قائم نہیں کیا۔ ان کے نام اور ایک اور خط میں یہ شکایت کر رہے کہ اہل سنت کی بساط علم و خطابت خالی ہوتی جا رہی ہے وہ ان کو اپنے کردار کا احساس دلا رہے ہیں۔
ایسے ہی ایک اور خط جو مفتی مصطفی رضا خان بریلوی رح کے نام ہے اس میں بھی مجلس مشاورت نامی تنظیم جو کہ علماء دیوبند و ندوہ کی نمائندہ تھی کے بارے میں کہتے ہیں کہ سنی (بریلوی) عوام کو اس کے فتنے سے دور رکھنے کے لیے زبانی جمع خرچ سے کام نہیں چلے گا بلکہ عملی طور پر ہمیں میدان میں اترنا پڑے گا۔
سنی (بریلوی مکتب فکر) میں تنظیمی انتشار اور آپسی خلفشار کے حوالے سے بھی علامہ صاحب رح نے متعدد علماء کے سامنے نوحہ پیش کیا ہے۔ اس حوالے سے ہند کی تاریخ میں اشرفی رضوی جھگڑا سب سے زیادہ درد ناک باب ہے۔ جہاں علماء کچھوچھہ کے ویڈیو کے اوپر ایک فتویٰ سے علماء بریلی کے اختلاف سے جو بات شروع ہوئی تو دونوں جانب سے باقاعدہ ایک دوسرے کی کردار کشی کی گئی۔ اس جھگڑے کی ابتداء اور تاریخ کے حوالے سے ڈاکٹر خوشتر نورانی صاحب نے بصورت حاشیہ ذکر کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے حاشیے سے ظاہر ہوتا ہے کہ پہلے زیادتی علماء بریلی کی جانب سے ہوئی جبکہ علامہ ارشد القادری رح کا خط جو علامہ مدنی میاں کے نام ہے اس سے لگتا ہے کہ مسئلہ کے اوپر علامہ ارشد القادری رح کو علامہ مدنی میاں صاحب کے موقف سے تحفظات تھے۔علامہ ارشد القادری رح نے فریقین میں ثالثی کا کردار ادا کرنے کی کوشش کی تو علامہ سید ہاشمی میاں نے علامہ ارشد القادری رح کو بھی فریق سمجھ لیا جس پر علامہ ارشد القادری رح مولانا ہاشمی میاں سے شکوہ کرتے نظر آتے ہیں۔ اس جھگڑے کی تفصیلات سے اگاہی نہ ہونے کی وجہ سے مزید بات کرنا مناسب نہیں مگر یہ افسوس ناک باب ہے۔ فروع و تحقیق کے اختلافات کا ایسا نتیجہ کچھ اچھا تاثر نہیں چھوڑتا۔
اس کے علاوہ شاہ بانو کیس، جمشید پور فسادات، بھاگل پور ہندو مسلم فسادات اور بابری مسجد کے حوالے سے ہند کی مسلم تاریخ کے حوالے سے علامہ صاحب رح کے خطوط اور پھر ڈاکٹر خوشتر نورانی کے ان پر تعلیقات بہت سی چیزوں پر راہنمائی ملتی ہے۔بلکہ بطور پاکستانی میرے لئے یہ چیزیں بہت مفید ثابت ہوئی ہیں کیونکہ ہند کے مسلمانوں اور ان کے مسائل کے بارے میں بالعموم ہماری معلومات محدود ہوتی ہیں اگر ملتی بھی ہیں تو وہ زیادہ تر پاکستانی لوگوں سے ملتی ہیں۔ ڈاکٹر خوشتر نورانی صاحب چونکہ خود بھارتی ہیں اس لیے ان کی معلومات اہمیت رکھتی ہیں.
علامہ صاحب رح کا ایک خط سابق عراقی صدر صدام حسین کے نام ہے۔ جب کویت پر حملے کے جواب میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے عراق پر حملہ کیا۔ اس خط میں علامہ صاحب رح صدام حسین کو مبارکباد پیش کر رہے ہیں کہ انہوں نے امریکہ جیسے متکبر دشمن کا غرور خاک میں ملا دیا۔ پھر صدام حسین کو انہوں نے ہندوستان کے سنی عوام کی حمایت کا بھی یقین دلایا کیونکہ سعودی حکمرانوں سے نظریاتی طور پر سنی دور ہیں جبکہ صدام حسین کے قریب۔ اس کے برعکس ہندوستان میں دیوبندی و سلفی علماء کی ہمدردیاں سعودی عرب کے ساتھ ہیں۔ علامہ صاحب رح بالغ النظر شخصیت تھے مگر جس طرح سے صدام حسین کی اس جنگ کو انہوں نے بیان کیا ہے وہ حقیقت سے زیادہ جذبات پر مبنی ہے۔ صدام حسین کے اس حملے نے عراق کو بہت نقصان پہنچایا اور پھر جواب میں امریکی حملے نے اس کے دفاعی نظام کو بھی بالکل مفلوج کر کے رکھ دیا۔ صدام کی چھیڑی اس جنگ پر میں علامہ غلام رسول سعیدی رح کے ایک مختصر تبصرے پر اکتفاء کروں گا۔
علامہ سعیدی رح لکھتے ہیں
“عراق نے ۱۹۹۱ میں امریکہ سمیت تیس ملکوں سے جنگ مول لی، اس کے نتیجے میں آٹھ دس دنوں میں امریکہ نے عراق پر قبضہ کرلیا اور اٹھارہ سال گزر گئے (علامہ صاحب کی یہ تحریر ۲۰۰۹ کی ہے) تاحال امریکہ کی فوجیں عراق میں موجود ہیں اور دن بدن عراق کی حالت خراب ہو رہی ہے، سو جہاد کی یہ قسم ممنوع ہے،کیونکہ اس سے مسلمانوں کے ہاتھ ذلت اور پسپائی کے سوا کچھ نہیں آئے گا” (نعمتہ الباری، جلد پنجم، ص-۸۲۵)
ویسے علامہ سعیدی رح کی بات میں بھی ایک کمزوری ہے کیونکہ امریکی افواج ۱۹۹۱ میں عراق پر قابض نہیں ہوئیں بلکہ ۲۰۰۳ کی جنگ میں ہوئی ہیں مگر مجموعی طور پر ان کی بات زیادہ درست معلوم ہوتی ہے کہ عراق کا یہ اقدام دانشمندانہ نہیں کہا جا سکتا۔
علامہ ارشد القادری رح کا صدام حسین کے اقدام کی حمایت کرنا فقط ان تک محدود نہیں ہے اس وقت پاکستان کی عوام میں بھی صدام حسین کو بطور ہیرو مانا گیا، اس وقت لوگوں نے اپنے بچوں کے نام صدام رکھے بلکہ اس وقت کے پاکستان کے آرمی چیف جنرل اسلم بیگ نے بھی صدام حسین کی حمایت کی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ صدام حسین کو کافی مقبولیت حاصل ہوئی مگر آج اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کا اقدام فائدے کی بجائے نقصان دہ ثابت ہوا.
علامہ صاحب رح کے خطوط میں سنی عوام و علماء کی بدنظمی اور چپقلش کے ساتھ ساتھ کام نہ کرنے کا ماتم جگہ جگہ نظر آتا ہے۔ مولانا محمد سعید کانپوری کے نام خط میں علامہ صاحب رح جب جنوبی ہند کے دورے پر تھے تو یہ ہی شکوہ کر رہے ہیں کہ اہلسنت کی طرف سے کوئی اجتماعی کام نہیں ہو رہا جبکہ دیگر فرقے بہت منظم اور اپنا کام کر رہے ہیں۔
ایک خط کے حاشیہ میں ڈاکٹر خوشتر نورانی صاحب نے علامہ صاحب رح کے جامعہ ازہر مصر کی سفر کی روداد لکھی وہاں کے ایک ذمہ دار سے جامعہ اشرفیہ مبارک پور کا ذکر ہوا تو انہوں نے بتایا کہ وہ ہند میں کسی ایسے ادارے کے وجود سے ناواقف ہیں بلکہ وہ ہند میں دارلعلوم دیوبند اور ندوۃ العلماء کے سوا کسی تیسرے مدرسے سے واقف نہیں تھے۔ علامہ صاحب رح نے مولانا یسین اختر مصباحی صاحب کی ذمہ داری لگائی تاکہ اشرفیہ کی اسناد کا جامعہ ازہر کی اسناد سے معادلہ ہو جائے مگر بقول ڈاکٹر خوشتر نورانی صاحب یہ کام پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکا۔
مولانا سید جیلانی میاں کھچوچھوی کے نام علامہ صاحب رح کا جمشید پور جیل سے لکھا خط کافی درد انگیز ہے۔علامہ صاحب رح نے لکھا کہ بیشک ہم دعویٰ کریں کہ ہندوستان کا سواد اعظم ہیں اور کروڑوں میں ہیں مگر ہم کروڑوں کی بھیڑ رکھتے ہوئے بھی جماعت نہیں ہیں۔
اس ہی سلسلے کا ایک خط مفتی شریف الحق امجدی رح کے نام بھی ہے جس میں اہلسنت کی پسماندگی اور حریفوں کی ترقی کا ماتم ہے اور علامہ صاحب رح نے اس تشویش کا اظہار کیا اگر حالات درست نہ ہوئے تو دیر یا سویر پوری دنیا ہمارے حق میں اسپین بن جائے گی۔
اس ہی سلسلے میں ایک اور جگہ اپنی تشویش کو مفتی عبدالواجد قادری رح کے نام خط میں بھی بیان کیا ہے کہ
“کام نہ ہونے کا شکوہ تو سبھی کرتے ہیں، لیکن کام کے افراد پیدا ہونے کی فکر کسی کو نہیں ہے۔ آج ہمارے اداروں سے میلاد خواں قسم کے جو افراد پیدا ہو رہے ہیں، کیا ان سے آج کی جدید دنیا کسی انقلابی خدمت کی امید کی جا سکتی ہے؟”
علامہ صاحب رح کا یہ اقتباس قابل غور ہے، جب تک اہلسنت اداروں سے بڑے پیمانے پر ٹھوس علمی شخصیات سامنے نہیں آئیں گی تب تک ہم دنیا کو اپنے مذہب و مسلک کی صیح تصویر نہیں پیش کر سکتے۔علامہ صاحب رح کا یہ خط ۱۹۹۴ کا ہے اب اٹھائیس سال گزر چکے ہیں، اس بات کا فیصلہ اہل علم نے کرنا ہے کہ کیا علامہ صاحب رح کی بیان کردہ صورتحال میں کوئی بہتری آئی یا حالات جوں کے توں ہیں۔ اس کے لیے تقابلی جائزہ کے طور پر حریفوں کے کام پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
علامہ صاحب رح جہاں جماعتی بدنظمی کا رونا روتے ہیں وہاں وہ کام کرنے والے لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتے بھی نظر آتے ہیں۔ جیسے مولانا یسین اختر مصباحی صاحب کی عربی تحریر کی تعریف کرتے ہیں ساتھ ہی ایک اور مکتوب میں وہ مولانا مصباحی کو جدید عربی لٹریچر کا مطالعہ کرنے کی ترغیب دیتے ہیں تو ساتھ ہی انگریزی زبان سیکھنے پر بھی زور دیتے ہیں۔ ایک اور خط میں علامہ صاحب رح مولانا مصباحی سے اس دکھ کا اظہار کرتے ہیں کہ جدید عربی سے محرومی کے باعث ہماری جماعت عرب ممالک سے کٹ گئی ہے۔
اس طرح مدیر اعلیٰ ‘قاری’ قاری محمد میاں مظہری کے نام خط میں جہاں انہوں نے جماعتی بدنظمی کی بات کی ہے۔ تو وہاں قاری مظہری صاحب کے ماہنامہ کی تعریف کی ہے اور ان سے ہفتہ وار اخبار جاری کرنے کی تجویز دی ہے، لیکن حقیقت پسندی کے تقاضے کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے علامہ صاحب رح نے لکھا ہے کہ جب تک اس کے لیے لوازم ضروریہ پوری نہ ہوں تب تک ہرگز ایسا قدم نہ اٹھائیں۔ مطلب پہلے زمینی حقائق کو دیکھ کر ایسا فیصلہ کریں۔
جامعہ اشرفیہ کے طلباء کے نام ان کا خط بھی ایک درد مندانہ اپیل ہے اور حافظ ملت کے ذہن میں اس یونیورسٹی کا خیال کیوں آیا اس حوالے سے علامہ صاحب رح نے اپنی گذارشات لکھی ہیں۔
جامعہ نظام الدین اولیاء دہلی علامہ صاحب رح کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔اس بارے میں ڈاکٹر خوشتر نورانی صاحب کا حاشیہ کافی معلومات افزاء ہے۔ ابتداء اس کی ضامن المساجد سے ہوئی جس کے لیے علامہ صاحب کا ایک خط بصورت درخواست پیر ضامن نظامی بخاری کے نام مجموعہ کا حصہ ہے۔
علامہ صاحب رح کی مسلکی تڑپ کیساتھ ملی مسائل پر بھی متحرک نظر آتے ہیں۔ ان کا شاہ خالد بن عبدالعزیز کے نام خط ایمانی غیرت کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ ایک خبر (انہدام گنبد خضرا) جس سے پوری مسلم دنیا اضطراب کا شکار ہو گئی اس کے بارے میں شاہ خالد سے تصدیق طلب کرتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ ان کی حکومت اس بارے میں کیا مؤقف رکھتی ہے۔
جمشید پور میں ۱۹۷۹ میں ہندو مسلم فسادات ہوئے، جہاں پر مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے، مسلمانوں کا جانی و مالی نقصان ہوا۔ آپ نے مسلمانان ہند کے نام ایک خط لکھا اور اپنے ادارے فیض العلوم جمشید پور میں ریلیف سنٹر قائم کیا اور مظلوم مسلمانوں کی مدد کی اپیل کی۔ ایک اور خط میں جمشید پور کے ائمہ مساجد سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ مسلمان شب برات پر آتش بازی سے پرہیز کریں کیونکہ شر پسند عناصر اس کو غلط روپ میں لیں گے جس سے مسلمانان جمشید پور کے لیے حالات مزید تنگ ہو جائیں گے۔
سعودی عرب، کویت اور عرب امارات کی حکومتوں نے ۱۹۸۲ میں اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کے ترجمہ قرآن کنزالایمان پر پابندی عائد کر دی۔ اس پابندی کے خلاف سنی علماء نے مختلف فورمز پر آواز اٹھائی اور مختلف ممالک میں سعودی سفراء سے ملاقات کی اور نجدی علماء سے مذاکرے کی پیشکش کی۔ اس پابندی کے خلاف آواز بلند کرنے کے لیے علامہ صاحب رح کا ایک خط مفتی اختر رضا خان بریلوی رح کے نام ہے جس میں علامہ صاحب رح نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ سعودی حکومت پاک و ہند کے سنی بریلوی مکتب فکر سے وابستہ لوگوں پر حج و عمرے کی پابندی عائد کر دے۔ اس لیے علامہ صاحب رح نے علامہ ازہری میاں رح کو مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنے پر زور دیا ہے اور ان سے درخواست کی کہ وہ اپنے بھائی رحمانی میاں (مولانا ریحان رضا خان بریلوی) سے اختلاف کو بالائے طاق رکھ کر میدان عمل میں آئیں۔ازہری میاں اور رحمانی میاں کے مابین اختلاف بھی ایک اور تکلیف دہ معاملہ ہے جس کا علم مجھے یہ کتاب پڑھ کر ہوا۔ بہرحال علامہ صاحب رح کا یہ خط بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ہاتھ پر ہاتھ رکھنے والے شخص نہیں تھے بلکہ عملی قدم اٹھانے پر یقین رکھتے تھے۔ پھر ہند میں سعودی سفیر کے نام خط میں بھی علماء بریلی اور علماء نجد کے مابین مذاکرات کی پیشکش پر شکریہ ادا کیا ہے۔ اس میں توسل اور میلاد کے مسئلہ پر علماء نجد سے بات کی ہے کیونکہ اس میں باقی اہل اسلام کے علماء بھی علماء نجد سے متفق نہیں ہیں۔
سعودی یا دیگر عرب علماء میں سنی (بریلوی مکتب فکر) کا تاثر و تشخص اس وقت مجروح ہوا جب شیخ احسان الہی ظہیر نے “البریلویہ” نام کی کتاب لکھی۔ اس میں بریلوی مسلک کی جو تصویر کشی کی گئی ہے وہ بہت خطرناک ہے اور ان کے عقائد ونظریات کو شرکیہ کہا گیا۔ اس کتاب کے جواب میں علامہ عبد الحکیم شرف قادری رح نے عربی میں “من عقائد اہل السنہ” جس کا اردو ترجمہ “عقائد و نظریات” کے نام سے بھی موجود ہے لکھی۔ ایسے ہی اس کے جواب میں اردو کتاب “البریلویہ کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ” کے نام سے علامہ شرف قادری رح لکھی۔ علامہ ارشد القادری رح نے علامہ شرف قادری رح کی کتاب “من عقائد اہل السنہ” کی خوب تعریف و توصیف کی ہے اور علامہ شرف قادری رح کی حوصلہ افزائی کی ہے۔
مولانا عامر عثمانی جو کہ دیوبند سے “تجلی” کے نام سے ماہنامہ نکالتے تھے کے نام بھی علامہ ارشد القادری رح کا ایک طویل مکتوب ہے۔ یہ خط دراصل مولانا عثمانی کے علامہ صاحب رح کی کتاب “زلزلہ” پر ان کے تبصرے کے جواب میں ہے۔ علامہ قادری رح نے مولانا عثمانی کے فراخ دلانہ تبصرے پر ان کا شکریہ ادا کیا ہے۔ پھر مولانا عثمانی کی تصوف پر تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے مکار اور جاہل صوفیاء کے غلط کردار کی بنیاد پر تصوف کو شریعت کا دشمن کہنا درست نہیں ہے۔مولانا عثمانی کے نام یہ خط کافی دلچسپ ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ دونوں صاحبان میں پہلے بھی قلمی رابطہ قائم تھا، کوشش کر کے اگر ان مراسلوں کو جمع کر لیا جائے تو یہ ایک دلچسپ دستاویز بن سکتی ہے۔
بابری مسجد کا جب سانحہ ہوا تو اس وقت علامہ صاحب رح یورپ میں تھے۔ ہالینڈ سے ایڈیٹر ماہنامہ اشرفیہ مولانا مبارک حسین مصباحی کے نام خط میں اپنے جذبات کو انہوں نے یوں بیان کیا ہے۔
“۶ دسمبر کا دن آیا۔ٹھیک اس وقت جب ہندوستان میں صبح کے دس بج رہے ہوں گے۔ بی بی سی نے یہ وحشت ناک خبر سنائی کہ مسجد پر حملہ شروع ہوگیا۔ اترپردیش اور مرکزی حکومت کی یقین دہانیوں کے نتیجے میں اس خبر کے بعد بھی ہم پرامید تھے کہ کچھ ہی دیر کے بعد یہ خبر ہم ضرور سنیں گے کہ مرکز سے بھیجی ہوئی چالیس ہزار فوج اور اتر پردیش کی پولیس نے حملہ آوروں کو منتشر کر دیا۔ لیکن جب ایک ہی خبر بار بار سننے میں آئی کہ حملہ بغیر کسی مزاحمت کے جاری ہے۔ تو دل ڈوبنے لگا۔ آخری خبر سننے کے بعد کہ بابری مسجد زمین دوز کر دی گئی، ہماری سانس رک گئی اور ہم ایک سکتے کی کیفیت سے دوچار ہوگئے، یقین نہیں آرہا تھا کہ کیا انہونی بات بھی ہو سکتی ہے؟ مگر ہو گئی. چند لاکھ جنونیوں کی سرکشی پر نہ سپریم کورٹ بند باندھ سکا اور نہ مرکزی حکومت آڑے آئی۔ قانون کی بالادستی کا جنازہ ہے اس دھوم سے اٹھا کہ ساری دنیا نے اس کا سوگ منایا”
اس خط میں جہاں اس افسوسناک واقعے پر نوحہ بیان کیا گیا ہے وہاں مسلمانوں کی سادگی کا بھی بیان ہے کہ وہ حکومت کی یقین دہانیوں پر اس امید میں تھے کہ پولیس اور فوج حملہ آوروں کو منتشر کر دے گی۔ حالانکہ یہ کوئی اچانک رونما ہونے والے واقعہ نہیں تھا بلکہ اس کو باقاعدہ منصوبہ بندی سے سر انجام دیا گیا۔ یہ ہند کی مسلم تاریخ کا ایک دلخراش سانحہ تھا، جس پر بھارت میں انصاف کرنے والے اداروں نے بھی انصاف کا خون کیا ہے۔
علامہ صاحب رح نعت گو شاعر بھی تھے ان کی نعتیہ شاعری کے حوالے سے ایک مکتوب جو پروفیسر فاروق احمد صدیقی صاحب کے نام ہے سے ان کے نعتیہ اشعار پر اپنے تبصرے کا اختتام کروں گا
ان کے روضے پہ بہاروں کی وہ زیبائی ہے
جیسے فردوس پہ فردوس اتر آئی ہے
مل گئی ہے سربالیں جو قدم کی آہٹ
روح جاتی ہوئی شرما کے پلٹ آئی ہے
پاؤں چھو جائے تو پتھر کا جگر موم کرے
ہاتھ لگ جائے تو شرمندہ مسیحائی ہے
پوچھتے ہیں وہ لحد میں میرے آقا کا پتہ
ماسوا انکے میری کس سے شناسائی ہے
لوح محفوظ کی تحریر بھی پڑھ لیتا ہوں
ان کے جلووں میں نظر جب سے نہا آئی ہے
ان کے ناموس پہ اب کون ہے مرنے والا
ویسے کہنے کو تو ہر اک تمنائی ہے
سر جھکانے کے لیے کیا یہ نہیں ہے کافی؟
ایک سرکش نے فلک پر جو سزا پائی ہے
سر پ سر کیوں نہ جھکیں ان کے قدم پر ارشد
اک غلامی ہے تو کونین کی آقائی ہے
یہ کتاب مجھے ڈائریکٹر ورلڈ ویو پبلشرز مقصود احمد کامران صاحب نے ڈاکٹر خوشتر نورانی صاحب کے کہنے پر تحفتاً ارسال کی جس پر میں دونوں احباب کا تہہ دل سے مشکور ہوں۔ امید ہے میری گذارشات کو تحفے کے جواب کے طور پر قبول کیا جائے گا۔
کمنت کیجے