یہودی بائبل کا پہلا صحیفہ “پیدائش” کائنات کی تخلیق کے ذکر سے شروع ہوتا ہے۔ زمین و آسمان اور دیگر مخلوقات کے بعد انسان کی تخلیق کا ذکر آتا ہے۔ اس کے بعد انسان کے جنت سے زمین پر جانے کی بات آتی ہے۔ پھر انسان کی نسل پھیلتی اور انسانوں میں اچھے اور برے لوگوں کی کشمکش شروع ہوتی ہے۔ پھر نوح علیہ السلام کے طوفان کا تذکرہ آتا ہے۔ طوفان سے بچنے والوں میں سام، حام اور یافث کی اولاد کی بات ہوتی ہے۔ پھر سام کی اولاد میں بات ابراہیم علیہ السلام کی طرف آتی ہے۔ پھر ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں بات اسحاق علیہ السلام اور پھر ان کے بیٹے یعقوب علیہ السلام کی طرف آجاتی ہےجنھیں اسرائیل کا لقب ملا۔ یہاں سے بات یعقوب علیہ السلام کی اولاد ، یعنی بنی اسرائیل، کی طرف بڑھتی ہے جو یوسف علیہ السلام کے مصر میں اقتدار کے حصول اور پھر بنی اسرائیل کے مصر میں آنے تک پہنچ جاتی ہے۔ یہاں پہلا صحیفہ ختم ہوجاتا ہے۔ دوسرا صحیفہ “خروج” تقریباً چار صدیوں بعد کی کہانی سے شروع ہوتا ہے جب مصر میں بنی اسرائیل پر فرعونوں کی جانب سے ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں اور پھر موسیٰ علیہ السلام سے خدا کا کلام ہوتا ہے۔ فرعون کے ساتھ کشمکش کے نتیجے میں بالآخر فرعون اپنے لاولشکر سمیت غرق ہوجاتا ہے اور بنی اسرائیل مصر سے ہجرت کرکے ‘سرزمینِ موعود’ کی طرف سفر شروع کرتے ہیں۔ اس کے بعد بائبل میں اگلے ڈیڑھ ہزار سال کی جو تاریخ بیان ہوئی ہے ، وہ خدا، بنی اسرائیل اور سرزمینِ موعود کے محور پر قائم ہے۔ خدا کی جانب سے انبیاء آتے ہیں، وہ بنی اسرائیل کو خدا کا پیغام سناتے ہیں، بنی اسرائیل خدا کی مانتے ہیں تو ‘دودھ اور شہد ‘ کی سرزمین میں ان پر نعمتوں کی بارش ہوتی ہے؛ وہ خدا کی نافرمانی کرتے ہیں تو نعمتوں کا سلسلہ رک جاتا ہے اور ان کا فساد انتہا کو پہنچتا ہے تو انھیں سرزمینِ موعود سے نکال دیا جاتا ہے؛ پھر ان کی طرف خدا کی جانب سے انبیاء آتے ہیں ، پھر انھیں توبہ کی تلقین کرتے ہیں، وہ پھر خدا کی طرف لوٹتے ہیں اور پھر انھیں سرزمینِ موعود کی طرف واپسی کا موقع مل جاتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے کائنات کی ساری قوتیں بس اسی فارمولے پر عمل پیرا ہیں؛ جیسے یہی کائنات کا مقصد وجود ہو، جیسے سورج اسی لیے طلوع و غروب ہوتا ہو، رات دن کا آنا جانا اسی لیے لگا رہتا ہے، بارش اسی لیے برستی ہے، فصل اسی لیے اگتی ہے، ژالہ باری اسی لیے ہوتی ہے، قحط سالی اسی لیے ہوتی ہے، جنگیں اسی لیے لڑی جاتی ہیں، خون اسی لیے بہایا جاتا ہے، غلام اور باندیاں اسی لیے بنائی جاتی ہیں، غرض سب کچھ بس اسی لیے ہوتا ہے کہ خدا چاہتا ہے کہ اس کی چہیتی مخلوق، بنی اسرائیل ، اس کی پسندیدہ زمین کے ٹکڑے، بلاد الشام، میں سکونت پذیر ہوکر اس کی عبادت میں لگی رہے۔ اسی مقصد سے نوح علیہ السلام کے ساتھ میثاق کیا گیا ، پھر ان کی نسل میں ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ میثاق کی تجدید کی گئی، پھر یہ میثاق کوہِ طور پر نزولِ تورات کے ساتھ انتہاے کمال کو پہنچ گیا۔
مسیحیوں نے یہودی بائبل کے متن کو تو تقریباً جوں کا توں قبول کیا (بعض جزوی تبدیلیاں دوررس اہمیت کی حامل ہیں لیکن ہم ان پر فی الحال بحث نہیں کریں گے)۔ تاہم انھوں نے اس متن کی تعبیر یکسر مختلف طریقے سے کی۔ سینٹ پال نے جب بنی اسرائیل سے باہر “غیر قوموں” کو مسیح کا پیغام پہنچانے کا فیصلہ کیا تو یہ اس کہانی کا ٹرننگ پوائنٹ تھا۔ اس نے بائبل کے پیغام کو ایک خاص انسانی نسل ، بنی اسرائیل، کے بجاے پوری انسانیت کےلیے عام کردیا۔ کہانی کے ابتدائی حصے وہی رہے: کائنات کی تخلیق، انسان کی تخلیق، زمین پر انسان کی آمد، نوح علیہ السلام کا میثاق، ابراہیم علیہ السلام کا میثاق اور موسی علیہ السلام پر تورات کا نزول، لیکن یہ سب کچھ اب “عہدِقدیم” قرار پایا۔ اب مسیح کی مصلوبیت کے ذریعے ایک “عہدِ جدید” ہوا جو صرف بنی اسرائیل تک محدود نہیں رہا بلکہ پوری انسانیت کےلیے ہوا۔ جنت میں انسان سے سرزد ہونے والی غلطی کو اب “اصل گناہ” قرار دیا گیا جس کی پاداش میں انسان مسلسل تکلیفوں میں مبتلا رہا اور یہ گناہ اتنا مؤثر رہا کہ ہر ہر انسان اس کے اثرات بھگتتا رہا؛ اس سے خلاصی کی ، اس کے “کفارے “کی ایک ہی صورت تھی اور وہ یہ کہ خدا خود اپنے بیٹے کو انسانوں میں بھیجے ، وہ تکلیفیں اٹھائے اور پھر اسے مصلوب کیا جائے تو اس کی مصلوبیت انسانوں کی نجات کا باعث ٹھہرے!
تمام مخلوقات میں بنی اسرائیل کی خصوصی حیثیت ہو، یا تمام مخلوقات میں انسان کی خصوصی حیثیت ہو، دونوں صورتوں میں یہود و نصاری میں اس بات پر اتفاق پایا گیا کہ خدا کا کائنات میں اس خصوصی سیارے ، زمین، اور اس پر موجود مخلوق کے ساتھ خصوصی تعلق ہے۔ یہ بات اس نظریے کی بنیاد بن گئی کہ زمین کائنات کا مرکز ہے ؛ پھر آگے ایک فریق نے بنی اسرائیل کو ہی مرکز مانا اور دوسرے نے انسان کو۔
جب مزید ڈیڑھ ہزار سال بعد مختلف عوامل کے نتیجے میں یورپ میں مذہب کے خلاف بغاوت ہوئی اور خدا کو علم کی بحث سے ہی خارج کیا گیا، بائبل علم کا ماخذ ہی نہیں رہا، تو ایک اہم موڑ اس کہانی میں تب آیا جب گلیلیو نے دکھایا کہ سورج زمین کے گرد چکر نہیں لگارہا بلکہ زمین سورج کے گرد گھوم رہی ہے۔ اس کے بعد زمین کائنات کا مرکز نہیں رہی، انسان کی خصوصی حیثیت ختم ہوگئی اور خدا تو ویسے بھی گفتگو سے باہر قرار پایا۔ اب کائنات ، زمین اور پھر اس زمین پر موجود جاندار و بے جان اشیا کے متعلق نئے نظریات تراشنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ ان نئے نظریات کی کثرت ، تنوع اور اختلاف کے باوجود ان میں یہ قدر مشترک موجود رہا کہ زمین اور انسان کو مرکزی حیثیت حاصل نہیں ہے۔ اگلی چند صدیوں میں اس “تنویری” فکر کے نتیجے میں جتنے فلسفے وجود میں آئے ، جتنی سائنسی تحقیقات کی گئیں اور جن میں بہت سی باتوں کو آج “مسلمات” کی حیثیت سے پیش کیا جاتا ہے، ان کی تہہ میں، ان کی جڑ میں یہ بنیادی مفروضہ کارفرما ہے ۔
سوال یہ ہے کہ اسلامی نقطۂ نظر سے اس مفروضے کی کیا حیثیت ہے؟
کائنات بہت وسیع ہے۔ جو کچھ ہمیں نظر آتا ہے، جو کچھ ہم اب تک معلوم کرچکے ہیں، اس سے کہیں زیادہ وہ کچھ ہے جو ہماری نظروں سے اوجھل ہے، جو ہمیں معلوم نہیں ہے۔ اس حقیقت پر نظر ہو تو انسان کو عجز اور تذلل کی راہ اختیار کرنی چاہیے۔ قرآن کریم نے بارہا اس پہلو سے استدلال کیا ہے کہ یہ متکبرین خود کو کیا سمجھ بیٹھے ہیں؟ ان کی حقیقت ہی کیا ہے؟ حقیر پانی سے پیدا کیے گئے؛ اور جب پیدا کیے گئے تو کتنے کمزور تھے؛ جن کو علم کا تکبر ہے، وہ کچھ بھی نہیں جانتے تھے؛ علم ہو یا دولت ، سب کچھ دیا تو اللہ نے ہی ہے اور وہ لے بھی سکتا ہے؛ وہ چاہے تو پھر ضعف میں مبتلا کردے، پھر ارذل العمر میں دھکیل دے ، پھر سب علم و حکمت یوں چھین لے کہ کچھ بھی یاد نہ رہے؛ یہ متکبرین آکر پوچھتے ہیں کہ کون گلی سڑی ہڈیاں پھر سے زندہ کرے گا؛ کہہ دو کہ وہی جس نے پہلی دفعہ پیدا کیا تھا؛ جس نے پہلی دفعہ ان میں جان ڈالی تھی؛ جس نے زمین و آسمان پیدا کیے ہیں، اس کےلیے تمھارا دوبارہ زندہ کھڑا کرنا کیا مشکل ہے؟
ہاں، لیکن قرآن یہ بھی بتاتا ہے کہ کائنات کتنی ہی وسیع ہو، مخلوقات کا تنوع اور ان کی کثرت کتنی ہی حیران کردینے والی ہو، سکتے میں ڈالنے والی ہو، انسان کو اللہ تعالیٰ نے خصوصی حیثیت بہرحال دی ہے۔ اس نے وہ ذمہ داری اٹھائی ہے جسے اٹھانے کی سکت آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں میں بھی نہیں تھی، اسے اللہ تعالیٰ نے زمین میں ایک محدود پیمانے پر ، ایک محدود مدت کےلیے، ایک خاص حد تک، صاحبِ اقتدار و اختیار بنا کر بھیجا ہے اور پھر اس نے واپس اللہ کے پاس جاکر اس مدت کے متعلق جو اس نے اس دنیا میں گزاری، اس اختیار کے متعلق جس کا اس نے استعمال کیا، اللہ کو جوابدہی کرنی ہوگی۔ اسی وجہ سے اسے اللہ کی مخلوقات میں ایک خاص حیثیت حاصل ہے۔ تبھی تو فرشتوں کو حکم ملا کہ آدم علیہ السلام کو سجدہ کریں۔ انسان اگر اس امتحان میں کامیاب ہوا تو ابدی خوشیاں اس کی ہوئیں، ورنہ شدید ترین سزا کا مستحق ہوگا۔ سورۃ البقرۃ کی تلاوت کرتے ہوئے ذرا آدم علیہ السلام کے واقعے کے اس پہلو پر تو غور کیجیے:
و اذ قال ربک انی جاعل فی الارض خلیفۃ ۔
و اذ قلنا للملٰئکۃ اسجدو لآدم۔
فاما یاتینکم منی ھدی ، فمن تبع ھدای ، فلا خوف علیھم و لاھم یحزنون۔ و الذین کفروا و کذّبوا بآیٰتنا اولٰئک اصحٰب النار، ھم فیھا خٰلدون۔
پھر آگے بنی اسرائیل کے ساتھ تفصیلی مکالمے میں جو پہلے پارے کے اختتام تک جاری رہتا ہے، مختلف پیرایوں میں یہ بات واضح کی ہے کہ بنی اسرائیل پر اللہ نے جو خصوصی انعام کیا تو وہ ایمان اور عمل صالح کے ساتھ مشروط تھا؛ وہ اللہ کے ساتھ باندھا گیا عہد پورا کریں گے، تو اللہ بھی ان کے ساتھ اپنا عہد پورا کرے گا؛ اللہ کے سامنے حسب نسب کسی کام آنے والا نہیں ہے؛ کامیابی ایمان اور عمل صالح پر ملے گی:
یٰبنی اسرآئیل اذکروا نعمتی التی انعمت علیکم ، و اوفوا بعھدی اوفِ بعھدکم و ایّای فارھبون۔
و اتقوا یوماً لا تجزی نفس عن نفس شیئاً و لایقبل منھا شفاعۃ و لایؤخذ منھا عدل و لا ھم ینصرون۔
و قالوا لن یدخل الجنۃ الا من کان ھوداً او نصاریٰ، تلک امانیھم، قل ھاتوا برھانکم ان کنتم صٰدقین۔ بلیٰ، من اسلم وجھہ للہ ، و ھو محسن، فلہ اجرہ عند ربہ، و لاخوف علیھم و لاھم یحزنون۔
پھر اس بات پر بھی نظر رہے کہ قرآن کریم نے آدم علیہ السلام کی اولاد کی تکریم اور “بہت سی مخلوقات” پر ان کی خصوصی فضیلت کا اعلان کیا ہےاور بتایا ہے کہ کیسے اللہ تعالیٰ نے بحر و بر پر اسے برتری عطا کی ہے اور کیسے اسے پاک رزق دیا ہے :
ولقد کرّمنا بنی آدم و حملنٰھم فی البرّ و البحر و رزقنٰھم من الطیبٰت و فضلنٰھم علی کثیر ممن خلقنا تفضیلاً۔
اس پہلو سے قرآن کریم نے بارہا متعدد اسالیب میں مختلف پیرایوں میں یہ بات بھی واضح کی ہے کہ زمین و آسمان کا سارا انتظام کیسے اس نے یوں متوازن بنایا ہے کہ اس نے انسان کےلیے ماحول سازگار بنا دیاہے، کیسے وہ ہوائیں چلاتا ، بادل اٹھاتا ، بارش برساتا، فصل اگاتاہے، کیسے دن کے بعد رات اور رات کے بعد دن لاتا ہے تاکہ انسان رزق بھی تلاش کرے اور آرام بھی کرے۔ پہلے پارے میں اس پہلو سے ان آیا ت پر غور کریں:
الذی جعل لکم الارض فراشاً و السمآء بنآءً و انزل من السمآء مآءً فاخرج بہ من الثمرات رزقاً لکم۔
اس نے “تمھارے لیے” زمین کو بچھونا بنادیا، آسمان کو چھت بنادیا، آسمان سے پانی برسایا جس سے اس نے “تمھارے لیے “رزق نکالا۔
بلکہ آگے اس سے زیادہ عموم کے ساتھ تصریح کی کہ زمین سب کچھ اس نے “تمھارے لیے” بنایا:
ھو الذی خلق لکم ما فی الارض جمیعاً ۔
لیکن کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سب کچھ انسان کےفائدے کےلیے بنایا ہے؟ کیا انسان کی مصلحت ہی اس کائنات کی تخلیق کا واحد مقصد ہے؟ کیا اس طرح خدا سے انسان کی اہمیت بڑھ نہیں جاتی؟ خدا انسان کا بھلا چاہنے کےلیے ہے یا انسان خدا کا فیصلہ ماننے کےلیے ہے؟
یہ بحث تو اصلاً علمِ کلام کی ہے لیکن اصولِ فقہ سے بھی اس بحث کا گہرا تعلق ہے۔
“حاکم” کون ہے؟ “محکوم علیہ” کون ہے؟ کیا احکامِ شرعیہ “معلول “ہوتے ہیں؟ “علت” اور “سبب” میں فرق کیا ہے؟ کیا حکم کا “تعدیہ” صرف “علت” کی بنا پر ہوتا ہے یا “حکمت” پر بھی ہوسکتا ہے؟ “علت” اور “حکمت” کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ شریعت کا مقصود اصلی کیا ہے؟ اس مقصود اصلی کے علاوہ دیگر ضمنی مقاصد بھی ہیں یا نہیں؟ ان مقاصد کا آپس میں تعلق کیا ہے؟ “تکلیف” کیا ہے؟ کیا “تکلیف ما لا یطاق” عقلاً ناجائز ہے یا سمعاً؟ اشیا میں اصل کیا ہے؟ “اباحت” ، “تحریم”یا “توقّف”؟ حکم شرعی کا ماخذ کیا ہے؟ کیا وحی کے علاوہ کسی اور طریقے سے اللہ کا حکم معلوم ہوسکتا ہے؟
یہ اور اس طرح کے دیگر کئی سوالات ہیں جن پر بحث کے بعد ہمارے متکلمین اور اصولیین نے کچھ بنیادی باتیں طے کی ہیں اور وہی مسلمانوں کے تصورِ جہاں کی بنیاد بنی ہیں۔
مثال کے طور پر کئی اصولیین نے سورۃ البقرۃ کی آیت : ھو الذی خلق لکم ما فی الارض جمیعاً ، سے استدلال کیا ہے کہ لکم، “تمھارے لیے”، میں لام انتفاع کےلیے ہے جس سے معلوم ہوتاہے کہ ہر چیز حلال ہے جب تک اس کی حرمت کی دلیل نہ ہو۔ تاہم یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ زمین میں موجود بہت سی چیزیں اللہ نے حرام بھی کی ہیں ، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت اپنے عموم پر قائم نہیں رہی ہے، بلکہ مخصوص منہ البعض ہے۔ مزید یہ کہ انتفاع کی صورت صرف کھانے پینے ہی کی تو نہیں ہے۔ حرام جانوروں سے دیگر فوائد بھی لیے جاسکتے ہیں، جیسے مثلاً وہ بوجھ ڈھونے کے کام بھی آسکتے ہیں۔ پھر “تمھارے لیے” سے یہ کیسے معلوم ہوتا ہے کہ تمھارے کھانے پینے کےلیے؟ یا یہ کیسے معلوم ہوا کہ وہ تمھارے لیے مطاع کی گئی ہیں؟ بعض چیزیں انسان کے کنٹرول میں نہیں ہوتیں لیکن ان کا کچھ نہ کچھ فائدہ اسے ہوتا ہے۔
اس بحث میں یہ سوال بھی اٹھایا جاتا ہے کہ جب حکم کا ماخذ اللہ تعالیٰ کی وحی ہے، تو جب وحی نہیں تھی تب کیا حکم تھا؟ کیا اس وقت سب کچھ جائز تھا؟ امام غزالی اس کی نفی کرتے ہیں کیونکہ “جائز ہونا”، یعنی اباحت، بھی تو حکم شرعی کی قسم ہےاور حکم شرعی تو وحی سے معلوم ہوتا ہے۔ تو کیا سب کچھ حرام تھا؟ بعض اہل علم نے یہ استدلال کیا ہے کہ کائنات میں جو کچھ بھی ہے اللہ کا ہے، اور مالک کی مرضی کے بغیر اس کی ملکیت میں تصرف ناجائز ہوتا ہے۔ امام غزالی پھر نشان دہی کرتے ہیں کہ کسی شے کا ناجائز، یعنی حرا، ہونا بھی تو حکم شرعی ہے جو وحی سے معلوم ہوتا ہے۔ تو پھر جب وحی نہیں آئی تھی تو اس وقت حکم کیا تھا؟ امام غزالی کہتے ہیں کہ اس وقت حکم توقّف کا تھا، یعنی جب تک وحی نہ آئے کسی کام کو جائز یا ناجائز نہیں قرار دیا جاسکتا۔ یہاں صدر الشریعہ کا اٹھایا گیا یہ نکتہ بھی قابلِ غور ہے کہ جب ہم مانتے ہیں کہ پہلے انسان ہی نبی تھے اور روزِ اول سے ہی وحی کی رہنمائی انسان کو میسر رہی تو پھر ماننا پڑے گا کہ ابتدا سے ہی بعض چیزیں جائز اور بعض ناجائز رہی ہیں ۔
امام غزالی نے توقّف کی جس طرح توضیح کی ہے، وہ صرف اس فرضی صورت حال میں ہی مدد نہیں دیتی جب ابھی وحی نہیں آئی تھی، بلکہ ہمارے سامنے درپیش کسی بھی نئے مسئلے میں جب ابھی ہمیں شریعت کا حکم معلوم نہ ہوا ہو، تو ہمیں نہ اسے جائز قرار دینا چاہیے، نہ ہی ناجائز ، بلکہ اسے جائز یا ناجائز قرار دینے کے معاملے میں تب تک توقّف اختیار کرنا چاہیے جب تک اس کے متعلق شریعت کا حکم کم از کم ظن کی حد تک معلوم نہ ہوجائے۔ یقین کا درجہ حاصل نہ بھی ہو تو عمل کےلیے ظن کافی ہوتا ہے۔ ہاں، جب قرآن و سنت پر غور کے تمام طریقے آزمانے اور حتی الوسع پوری کوشش کرنے کے باوجود ہمیں اس شے کے ناجائز ہونے کی دلیل نہ ملے ، تو پھر “ھو الذی خلق لکم ما فی الارض جمیعاً” اور اس نوع کی دیگر آیات سے استدلال کرتے ہوئے اسے جائز مانا جاسکتا ہے۔ حنفی فقہاے کرام جب “اباحتِ اصلیہ” سے استدلال کرتے ہیں تو وہ اس نوعیت کا استدلال ہوتا ہے، یعنی آخری دلیل، نہ کہ پہلی دلیل۔
اب ہم اس بحث کے آخری سوال پر پہنچ گئے ہیں۔
کیا کسی شے یا کسی کام کے جائز یا ناجائز ہونے کےلیے یہ دلیل دی جاسکتی ہے کہ اس سے انسان کو فائدہ ہے یا نقصان؟
واضح رہے کہ یہ سوال ہم اس صورت میں اٹھا رہے ہیں جب کسی شے کے جواز یا عدم جواز کےلیے نص میں تصریح موجود نہ ہو۔ تاہم اس سوال کے جواب کا انحصار اس امر پر ہے کہ کیا انسان کی مصلحت شارع کا مقصود ہے؟ کیا ہر حکم شرعی کے متعلق یہ دعوی کیا جاسکتا ہے کہ اس کے ذریعے انسان کو کوئی فائدہ پہنچتا، یا اس سے کوئی نقصان دور ہوتا ، ہے؟ اس سوال پر بحث کریں گے تو ظاہر ہے کہ یہ سوال بھی سامنے آئے گا کہ فائدے اور نقصان سے مراد کیا ہے ؟ کیا صرف مادی فائدہ و نقصان، یا اخلاقی فائدہ و نقصان بھی مصلحت کے اس تصور میں شامل ہے؟ پھر اگر کسی کو مادی فائدہ اور کسی کو مادی نقصان ہو تو اس صورت میں کیا حکم ہوگا؟ نیز اگر ایک ہی شخص کی بات ہورہی ہے اور اس کےلیے اس شے ، یا اس کام ، میں فائدہ بھی ہو اور نقصان بھی ہو، تو کس پہلو کو ترجیح حاصل ہوگی، بالخصوص جہاں فائدہ اور نقصان برابر کی سطح کا ہو؟
اس بحث کا ایک پہلو یہ ہے کہ ہم مانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ حکیم ہے اور حکیم کا کوئی حکم حکمت سے خالی نہیں ہوتا؛ ہم مانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ عبث اور لغو سے منزّہ ہے؛ ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ انسانی عقل نارسا ہے؛ وہ مصلحت، فائدہ ، نقصان پہچاننے میں غلطی کرسکتی ہے؛ وہ حکمت سمجھنے میں ٹھوکر کھاسکتی ہے؛ اس لیے حکمت سمجھ میں نہ بھی آئے تو ماننا چاہیے کہ حکم میں حکمت ہے ضرور۔ لیکن یہاں بات اس سے آگے کی ہورہی ہے۔ کیا حکم اور مصلحت میں وہی تعلق ہے جو علت اور معلول ، سبب اور مسبب میں ، cause اور effect میں ہوتا ہے؟
معتزلہ کا موقف تقریباً یہی تھا اور امام رازی نے تفصیل سے واضح کیا ہے کہ یہ بات کیوں تسلیم نہیں کی جاسکتی ۔ یہ بات مانی جائے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ترتیب میں انسان کی اہمیت بڑھ جاتی ہے، شریعت سے بھی ، بلکہ خدا سے بھی! پھر ماننا پڑے گا کہ خدا پر واجب ہے کہ وہ ایسا کرے یا ویسا کرے۔ پھر خدا کی وحی کی تاویل کا دروازہ چوپٹ کھل جاتا ہے کیونکہ ذرا کوئی بات انسان کی مزعومہ مصلحت سے متعارض نظر آئی، جھٹ سے اس کی تاویل کردی۔پھر انسان کی مصلحت کو قرآن و سنت کی نصوص پر فوقیت حاصل ہوجاتی ہے!
اس مقام پر المحصول میں امام رازی نے مصلحت اور حکم شرعی کا تعلق تقریباً اسی پیرایے میں واضح کیا ہے جس میں ان سے قبل امام غزالی نے تھافت الفلاسفۃ میں سبب اور مسبب کا تعلق واضح کیا تھا۔ امام غزالی نے بڑی خوبصورتی سے واضح کیا تھا کہ آگ کو جلانے کا سبب صرف اس وجہ سے مانا جاتا ہے کہ ہم آگ کو جلنے کے عمل ہی دیکھتے آئے ہیں اور چونکہ ہمارے سامنے کبھی اس کے برعکس ہوا نہیں تو اس لیے ہم نے فرض کیا ہوا ہے کہ آگ ہوگی تو جلائے گی ضرور، حالانکہ آگ ہو اور وہ جلائے بھی نہ، یہ ماننا عقلاً محال نہیں ہے۔ ہاں، ہم دیکھتے آئے ہیں کہ آگ ہوتی ہے تو وہ جلاتی ہے، اس لیے ہم اس مشاہدے پر بھروسا کرتے ہوئے دنیوی امور کے متعلق فیصلے کرتے ہیں اور کرنے چاہئیں۔ تقریباً اسی انداز میں امام رازی واضح کرتے ہیں کہ شریعت کا جو بھی حکم ہوتا ہے، اس میں انسان کا کوئی فائدہ ہوتا ہے، یا اس سے انسان کا کوئی نقصان دور ہوتا ہے؛یہ فائدہ یا نقصان مادی بھی ہوسکتا ہے اور اخلاقی بھی؛ ہاں، مصلحت اور حکم ساتھ ساتھ نظر آتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ مصلحت ہی اس حکم کا باعث اور سبب ہے۔
ہمارے استاد محترم پروفیسر عمران احسن خان نیازی صاحب نے بہت خوبصورت مثال دی ہے کہ ایک بڑی فیکٹری ہے جس میں بہت ساری مشینیں ہیں اور بہت سارے افراد کام کررہے ہیں؛ اس فیکٹری کے مالک نے یہ مشینیں اور یہ افراد اپنے پیشِ نظر مقاصد کےلیے کام پر لگائے ہیں لیکن وہ مشینوں کابھی خیال رکھتا ہے اور مزدوروں کو بھی تنخواہ اور بونس دیتا ہے اور جو فیکٹری کے مقاصد کی تکمیل میں زیادہ سرگرمی دکھائے تو زیادہ بونس بھی دیتا ہے؛ مزدوروں کا بونس اور فیکٹری بنائے جانے کے مقاصد ساتھ ساتھ نظر آئیں گے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ فیکٹری ان مزدوروں کو بونس دینے کےلیے بنائی گئی ہے۔
بہت خوب تجزیہ فرمایا ہے