Home » سماجیات افتا – ایک مکالمہ
اسلامی فکری روایت سماجیات / فنون وثقافت فقہ وقانون

سماجیات افتا – ایک مکالمہ

 

مولانا مشرف بیگ اشرف/شیخ الحدیث مولانا مفتی محمد زاہد

[گزشتہ دنوں ایک سوال اہل علم کے سامنے رکھا گیا تھا کہ
سائل کہتا ہے کہ اصحاب اموال کے لیے تو مفتیان کرام اپنے طبقے کی مخالفت مول لے کر اور جہاں تہاں سے بھی فقہی گنجائشیں ملتی ہوں، لے کر بھرپور اجتہادی صلاحیت کا مظاہرہ کرنے اور اسلامک فنانس کی عظیم الشان عمارت کھڑی کرنے کے لیے آمادہ ہیں، لیکن بے چارے عام آدمی کے لیے زکوٰۃ کے نصاب یا ادائیگی کی شرائط یا زکوۃ کے استحقاق سے متعلق چھوٹے موٹے فقہی اجتہادات کرنے ہوں تو وہاں ساری اجتہادی صلاحیت کیوں کند ہو جاتی ہے اور ساری فقہی احتیاطیں عام آدمی کے لیے کیوں سنبھال لی جاتی ہیں؟
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی علیہ الرحمہ نے بے چاری حلیلہ عاجزہ کے لیے حنفی مسلک سے ہٹ کر فسخ نکاح کی گنجائش نکالی تو پتہ نہیں کتنی قیود اور شرائط لگانی پڑیں اور کتنے جواز اور عذر پیش کرنے پڑے۔ لیکن کاروباری معاملات کے متعلق ارادہ فرمایا کہ مذاہب اربعہ میں جہاں سے بھی کسی مسئلے میں رخصت اور سہولت ملتی ہو، اس پر مبنی فقہی احکام کا مجموعہ مرتب کر دیا جائے تاکہ لوگوں کو تجارت کی نئی صورتوں میں مشکل پیش نہ آئے۔ ایسا کیوں؟
اس پر دو اہل علم نے اپنے ملاحظات پیش کیے ہیں جو ذیل میں درج ہیں۔ (عمار ناصر) ]
———————–
مولانا مشرف بیگ اشرف
ہمارے ہاں یہ بات بعض احباب کرتے رہتے ہیں کہ موجودہ دور میں سارا اجتہاد وہاں ہوتا ہے جہاں مالدار لوگوں کو نفع ہو جہاں خدا کے غریب بندے کی بات ہو تو افتا اسے صبر کی تلقین کرتا نظر آتا ہے۔ اس پر مزید اشاروں کنایوں میں اور بسا اوقات صراحت کے ساتھ یہ حاشیہ بھی  چڑھتا ہے کہ اس کے ساتھ اصحاب افتا کا نفع وابستہ ہے جو ظاہر ہے کہ ایک عامیانہ سا تبصرہ ہے اس مفروضے کو مان لینے کے بعد۔ چونکہ ہمارے معاشرے میں غربت بہت زیادہ ہے، اس لیے اس طرح کی بات لوگوں کے دلوں کو چھوتی ہے۔ نیز ویسے بھی “غربت” کا لفظ ہی لوگوں کو اپنے طرف کرنے کے لیے کافی ہے۔ “غربت کاڑد”!
ابھی مولانا عمار خان ناصر صاحب نے بھی یہ سوال بعض لوگوں کی طرف سے نقل فرمایا ہے۔ جن لوگوں کا بھی تجزیہ ہے ظاہر ہے کہ نہ انہوں نے ہمارے معاشرے میں موثر عناصر کی طرف غور کیا حتی کہ ان کا جو دعوی ہے کہ: “مالی امور میں گنجائش دینا اور غیر مالی امور میں نہ دینا” اس فوری تاثر کی تصدیق وتکذیب پر بھی انہوں نے اپنا وقت صرف کرنے کو ضروری نہیں سمجھا۔ نہ انہوں نے فتوے کی حرکیات پر کوئی روشنی ڈالنے کی کوشش کی کہ اس سے اندازہ ہو کہ اس سے نفع کن لوگوں کو ہوتا ہے۔
اس پر ہم تفصیل سے بات کر سکتے ہیں۔ لیکن سر درست آپ یہ دیکھیے کہ اس مشاہدہ کی بنیاد ہی پر مندرجہ ذیل سماجی سوالات ہیں:
۱: کیا مالی معاملات کا تعلق صرف “سرمایہ دار” سے ہے یا جب ان میں گنجائش دی جاتی ہے، تو اس سے معاشرہ کا متوسط یا غریب طبقہ بھی فائدہ اٹھاتا ہے؟
۲: وہی مالدار طبقہ جس کی خوشنودی کے لیے مالی معاملات میں اصحاب افتا گنجائش دیتے ہیں، انہیں زندگی کے دیگر شعبوں میں کیوں چھوڑ دیتے ہیں؟ مثلا کیا سفر میں نماز جمع کرنے کی ضرورت صرف “بندہ مزدور”کو پیش آتی ہے یا اس مالدار کو بھی پیش آتی ہے جو اس مزدور سے زیادہ سفر کرتا ہے؟
اسی طرح، اگر غریب بندہ غائب ہو جائے تو کیا محض اس کی جورو کو “حیلہ ناجزہ” کی ضرورت پیش آتی ہے یا اگر کوئی امیر بندہ غائب ہو جائے تو اس کی بیگم کو بھی اس کی نیاز ہے؟
۳: انگریزوں کی غلامی میں رہنے، دینی ودنیاوی تعلیم میں خلیج کے پیدا ہونے، نیز صاحب حیثیت لوگوں کا دنیاوی تعلیم اور غریب طبقے کا دینی تعلیم کے لیے مختص ہو جانے سے ہمارے معاشرے میں دینداری اور غربت کو یکساں کر دیا گیا۔ جو دیندار ہے وہ غریب ہی ہو گا۔
تاہم ہمارے معاشرے میں جو عوام کی سطح پر محنتیں ہوئیں، اس کے نتیجے میں خوشحال گھرانوں کے بچوں نے مدارس اور دینی تعلیم کا رخ کیا اور اس صورت حال میں تبدیلی آنا شروع ہوئی۔ لیکن ابھی تک یہ نفسیات ختم نہیں ہوئی اور کئی لڑکے جو کالج یونیورسٹی سے دینی علوم کی طرف آئے انہیں اس کا سامنا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں “مالدار دیندار” یا “صاحب حیثیت دیندار” کے لیے ایک قسم کا “حقد” پایا جاتا ہے۔ اور ابھی تک یہ معاملہ برقرار ہے۔ اور یہ “حقد” دیندار طبقے ہی میں پایا جاتا ہے، باہر نہیں۔
سوال یہ ہے کہ جو لوگ “اجتہاد کے لیے وقت کھپانے کو مالداری اور احتیاط کو غربت” کے ساتھ جوڑ رہے ہیں کیا وہ اس نفسیات سے پوری طرح آزاد ہیں اور کیا وہ ایک ایسے موضوعی مقام پر کھڑے ہیں کہ انہیں سماجی ونفسیاتی عوامل سے پورا طرح پاک فرض کر لیا جائے؟
۴: جس وقت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب نے مالی معاملات میں آسانی کا کہا تھا ظاہر ہے کہ نہ اس وقت کوئی اسلامی بینکاری کا نظام وجود میں آیا تھا اور ظاہر ہے کہ نہ مالی معاملات مالدار لوگوں ہی کے ساتھ خاص تھے کہ کہا جائے کہ وہ محض مالدار لوگوں کے لیے ایک آسانی وضع کر رہے تھے۔
اگر مثلا حضرت سے منی آرڈر بھیجنے کے لیے گنجائش پیدا کی تھی تو ظاہر ہے کہ اس سے فائدہ وہ غریب لوگ بھی اٹھاتے تھے جو اپنے علاقوں سے دور رہتے تھے اور پیچھے گھر کو پیسے ارسال کرتے تھے۔

اس لیے، حضرت تھانوی کی مثال اس صورت حال میں محض anachronistic ہے۔

“امیر کے لیے اجتہاد اور غریب کے لیے احتیاط” کے بیانیے کاایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہاں اجتہاد کو ایک مذہب چھوڑ کر دوسرے مذہب کی رائے اختیار کرنے کے ساتھ خاص کیا گیا ہے جبکہ اجتہاد اس سے زیادہ وسیع تصور رکھتا ہے۔ ایک مذہب میں رہتے ہوئے بھی اجتہادہوتا ہے اور یہ اجتہاد زیادہ وسعت علم کا متقاضی ہے اور اس کے لیے مختلف پہلووں کا ہم آہنگ بنانا زیادہ دقت طلب ہے۔ بسا اوقات کئی نسلوں میں جا کر یہ ہم آہنگی حاصل ہوتی ہے۔ اس کے برعکس، مذہب غیر پر فتوی دینا، ہمارے فقہی نظام میں، ضرورت کے تحت ہے۔ اور یہ اتنا مشکل کام بھی نہیں۔ لیکن نجانے کیوں ہمارے ہاں اجتہاد میں “مذہب غیر” پر فتوے ہی کو اصل بنیاد قرار دیا جاتا ہے اور وہ اجہتاد جو فقہی نظام کے اندر ہوتا ہے اسے اہمیت نہیں دی جاتی۔ نیز فتوے کے سماجی نقطہ نگاہ سے، یہ تفریق بالکل لغو ہے کیونکہ اس زاویے سے صرف یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ کسی رائے سے معاشرے میں مشکلات آ رہی ہیں اور اسے کس طرح بدلنے سے آسانی پیدا ہو سکتی ہے قطع نظر اس بات سے کہ مذہب غیر پر فتوی دیا جائے یا مذہب میں رہتے ہوئے اجتہاد کیا جائے۔
نیز فتوے کا نظام کچھ اس نوعیت کا ہے کہ عام بندے پر اس کا اثر جاننے کے لیے امداد الفتاوی کے فتاوی یا ہدایہ میں مذکور راجح اقوال جان لینا کافی نہیں۔ بلکہ ہر شرعی حکم کے ساتھ شرط، سبب ومانع کا ایک نظام جڑا ہوا ہے جنہیں “احکام وضعیہ” کہتے ہیں۔ شریعت کا نظام اس طرح کا ہے کہ جب کسی حکم کے نتائج سخت ہوں ، تو وہاں احکام وضعیہ کی ایک مضبوط باڑ لگا دی جاتی ہے جس کے نتیجے میں اس حکم کی تطبیق مشکل ہو جاتی ہے اور اس کی سختی میں کمی آ جاتا ہے۔اس کے لیے،بعض حضرات “فتوی کلیہ” اور “فتوی جزئیہ” کی تعبیر بھی برتتے ہیں۔ اس کی سامنے کی مثال حدود کی ہیں کہ ان کے لیے شرائط اتنی کڑی ہیں کہ حدود ثابت کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔اس لیے، اگر کوئی بندہ واقعی سنجیدگی سے یہ جاننا چاہتا ہے کہ مفتی بہ آرا کے نتیجے میں معاشرے کے “غریب ومسکین بندے” پر کیا اثر پڑ سکتا ہے اس کے لیے صرف متذکرہ بالا کتب کو دیکھنا ہی کافی نہیں کہ ہمارے معاشرے کا “غریب بندہ” ،غریب تو درکنار امیر بندہ بھی ،ان کتابوں کو نہیں کھولتا۔ بلکہ معاشرے میں اس کا کسی صاحب علم سے تعلق ہوتا ہے جن کے پاس وہ اپنا مسئلہ لے جاتا ہے اور وہ ان سے مختلف سوالات پوچھ کر جواب دیتے ہیں۔ اس دور میں، فوری رابطے کے ذرائع میسر آنے کے نتیجے میں، یہ کام بہت آسان اور سلاست آگیں ہو گیا ہے۔اگر فرصت ہوئی تو بعد میں اس کی ایک مالی مثال کو منطبق کر کے دکھایا جائے گا۔
تاہم یہاں ہم کچھ ایسے اجتہادات کا تذکرہ کرتے ہیں جس میں پہلے سے طے شدہ رائے کو تبدیل کیا گیا اور وہ کسی بھی طرح “کاروباری” لوگوں کے ساتھ خاص نہ تھے۔
۱: حنفی فقہ میں حرمت مصاہرت کا مسئلہ سب کو معلوم ہے کہ اس سے بہت سخت نتائج سامنے آتے ہیں۔ اس حوالے سے کئی دار الافتا حنفی موقف پر فتوی نہیں دیتے۔
اور تو اور ڈاکٹر مفتی عبد الواحد صاحب جیسی شخصیت نے، جو حنفی مذہب سے باہر جانے پر سخت تنقید کرتے تھے، اس معاملے کی حساسیت وشدت کو محسوس کیا اور اس میں گنجائش پیدا کی۔ لیکن انہوں نے اپنے تئیں کوشش کی کہ مذہب کے اصولوں میں رہتے ہوئے جن نصوص کو مذہب کی بنا قرار دیا گیا ان میں اجتہاد نو کریں۔ ان کی رائے کا نتیجہ یہ تھا کہ جہاں پہلے ہی سے حرمت ثابت ہو وہاں “حرمت مصاہرت کے اسباب” موثر نہیں ہوں گے ۔ تاہم نکاح سے پہلے کے تعلق میں یہ حرمت موثر ہو گی۔ اس کے نتیجے میں کافی وسعت پیدا ہوئی اور معاشرے میں جو مسائل جنم لیتے ہیں ان کا حل کافی حد تک ہو جاتا ہے۔ حضرت کی رائے ان کے مقالات میں تفصیل سے موجود ہے۔نیز یہاں ڈاکٹر صاحب کی رائے پڑھیے تو اندازہ ہو گا کہ مذہب کے اصولوں میں رہتے ہوئے اجتہاد کتنا دقت طلب کام ہے۔
سماجی نقطہ گاہ سے، یہ خالص نکاح سے وابستہ معاملہ ہے کوئی مالی معاملہ نہیں ۔ لیکن اس کے باوجود اس پر اجتہاد نو ہوا۔
۲: ہماری روایتی فکر میں پردے کا تصور واضح ہے ۔ چہرے کے پردے کا تصور بھی ڈھکا چھپا نہیں ۔ اسی طرح، بہنوئی دیور وغیرہ سے پردہ کا تصور بھی عیاں ہے۔ لیکن مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ تعالی نے ہمارے ہندوستان کے خاندانی نظام کے پیش نظر یہ گنجائش دی کہ گھر میں کام کاج کے وقت چہرے کو نہ ڈھانپنے کی گنجائش ہے کہ اس سے بہت حرج ہو گا۔میں نے عام علما کو اسی رائے پر فتوی دیتے دیکھا۔جس دور میں، حضرت تھانوی نے یہ فتوی دیا اس دور میں اس کی حساسیت کو شاید آج محسوس کرنا مشکل ہو۔
۳: کیا کان میں دوا ڈالنے سے روزہ ٹوٹتا ہے؟ ہماری روایت کے مطابق ٹوٹ جاتا ہے اور اس کی بنیاد یہ تھی کہ کان سے معدے میں براہ راست منفذ ہے۔ لیکن جدیدعلم تشریح کے مطابق ایسا نہیں۔ اس حوالے سے اجتہاد ہوا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مفتی عبد الواحد صاحب جو خود میڈیکل ڈاکٹر تھے اور اس بات سے واقف تھے انہوں نے اس رائے کو نہیں بدلا۔ ان کی کتاب “مریض ومعالج کے احکام میں” اس پر تفصیل موجود ہے۔انہوں نے اس بات کو تسلیم فرمایا کہ کان سے معدے کو کوئی براہ راست منفذ نہیں ہے ، لیکن انہوں نے حنفی مذہب میں وہ اصول اختیار کیا جس کے مطابق کان خود ایک مستقل جوف ہے۔
اس کے برعکس، دار العلوم کراچی کے حضرات نے اس رائے کو بدل دیا کہ چونکہ اس رائے کی بنیاد اس دور کے علم تشریح پر تھی، اس لیے اسے بدل دینا چاہیے۔ کئی دار الافتا اسی رائے کو اختیار کر کے فتوی دے رہے ہیں۔ یہ کوئی مالی معاملہ نہیں۔ نیز اس پر فتوی دینے میں جو وقت صرف ہوا وہ شاید ہی کسی “سرمایہ دار” کو نفع پہنچاتا لیکن اس رائے کو بدلا گیا اور مخالفت کے باوجود بدلا گیا۔ آج کے ڈاکٹر مفتی عبد الواحد صاحب کے متبعین سابقہ  رائے ہی پر اصرار کرتے ہیں۔
بہر کیف، یہ اجتہاد ہی ہے جو مذہب کے اندر ہوا۔ واضح رہے کہ یہاں کوئی ضرورت پیش نہیں آئی تھی لیکن مناط کے بدلنے سے رائے بدلی گئی۔
۴: اس دور میں، عدالتی خلع کا مسئلہ ہمارے سامنے ہے۔ ہمارے بعض دار الافتا اسے شرعی قانو ن میں کالعدم گردانتے ہیں۔ لیکن دار العلوم کراچی کے دار الافتا اور دیگر بعض اہل افتا اسے “تعنت” وغیرہ کے تصور کے تحت ، کچھ تفصیل کے ساتھ، تسلیم کرتے ہیں۔ حتی کہ مفتی سعید صاحب (ندوہ ، چھتر) جو فقہی آرا میں بہت وسعت رکھتے ہیں وہ بھی اسے تسلیم نہیں کرتے۔ میں نے خود انہیں ایسے فیصلوں کو شرعی لحاظ سے،کالعدم گردانتے ہوئے سنا۔
۵: اسی طرح، “زوجہ غائب” کا مسئلہ ہے کہ حنفی نظام میں ایسی خاتون تقریبا بڑھاپے تک انتظار ہی کریں ۔لیکن ہمارے ہاں مالکیہ کی رائے پر فتوی دیا جاتا ہے۔
یہاں برسبیل تذکرہ یہ کہنا مناسب ہے کہ زوجہ غائب کے لیے یہ گنجائش دینا حضرت تھانوی کی خصوصیت نہیں۔ علامہ حصکفی سے پہلے ہی سے اس پر فتوی حنفی دائرے میں دیا جاتا رہا ہے۔ اس پر بعض لوگوں نے صرف یہ اعتراض کیا کہ جب مالکی قاضی موجود ہے تو ایسی خاتون کو مالکی قاضی کے پاس مقدمے کے لیے بھیج کر فیصلہ کروا لیا جائے۔ تاہم علامہ شامی نے اس کا جواب دیا کہ یہ بحث وہاں ہے جہاں مالکی قاضی نہ ہو اوروہاں بلاشبہ اس کی ضرورت ہے اور آپ اسی رائے کی تائید کرتے ہیں۔ضرورت کے وقت مذہب غیر یا قول ضعیف پر فتوی دینا ہمارے نظام فقہ میں بہت پہلے ہی سے چلا آرہا ہے ۔ اس میں کچھ انوکھا نہیں۔ تاہم اس میں بحث ہو سکتی ہے کہ ضرورت کہاں ہے؟ حضرت تھانوی کی خصوصیت ہندوستان کے اس خاص ماحول میں اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے اسے منظم وقانونی دفعات کی صورت میں پیش کرنا، نیز مالکی فقہا سے خط وکتابت کے ذریعے ان کی ارا کی حدود وقیود کا جاننا تھا کہ اس دور میں مالکی مذہب کی کتابیں ہندوستان میں باآسانی میسر نہ تھیں۔ علامہ شامی اس حوالے سے فرماتے ہیں:
«قلت: ونظير هذه المسألة عدة ممتدة الطهر التي بلغت برؤية الدم ثلاثة أيام ثم امتد طهرها فإنها تبقى في العدة إلى أن تحيض ثلاث حيض. وعند مالك تنقضي عدتها بتسعة أشهر. وقد قال في البزازية: الفتوى في زماننا على قول مالك. وقال الزاهدي كان بعض أصحابنا يفتون به للضرورة. واعترضه في النهر وغيره بأنه لا داعي إلى الإفتاء بمذهب الغير لإمكان الترافع إلى مالكي يحكم بمذهبه، وعلى ذلك مشى ابن وهبان في منظومته هناك، لكن قدمنا أن الكلام عند تحقق الضرورة حيث لم يوجد مالكي يحكم به»«حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي» (4/ 296)
۶: اسی طرح، حنفی فقہ میں حیض کے مسائل میں رنگوں کی تفریق کو تسلیم نہیں کیا گیا جبکہ دوسرے بعض فقہی مذہب میں کیا گیا ہے۔ احناف کے ہاں بالکل سفیدی حاصل ہونے تک حیض باقی رہتا ہے۔ لیکن عملی طور سے، بعض جگہوں پر رنگوں کا اعتبار کرنے سے سہولت ہو جاتی ہے۔ اس کی سب سے بڑے ضرورت، حج یا عمرے میں پیش آتی ہے کہ خاتون کو حیض آ جاتا ہے جبکہ وہ حالت احرام میں ہوتی ہیں اور وہ عمرہ نہیں کر سکتیں۔ اگر طواف کریں، تودم واجب ہوتا ہے۔اور اتنی دیر میں واپسی کا سمے آ جاتا ہے۔ اس پر کم از کم، قوام الدین کاکی کے دور سے یہ رائے چلی آ رہی ہے (اور وہ فخر الائمہ سے یہ رائے نقل کرتے ہیں)کہ ایسی صورت میں اگر ان رنگوں کا لحاظ کرنے سے سہولت ہو تو اسے اختیار کیا جائے ۔مثلا عام طور سے، حیض کے آخری دنوں میں رنگ تبدیل ہونا شروع ہو جاتا ۔ اگر احناف کا قول لیا جائے، تو جب تک بالکل سفیدی نہ ہو تو طواف نہیں ہوسکتا۔ لیکن دوسرے بعض اقوال کی بنیاد پرحیض جلدی ختم ہو جاتا ہے۔ یہ شامی میں موجود ہے اور ہمارے ہاں عوام الناس کو فتوی دیتے ہوئے ایک مفتی اس پر عمل کرتا ہے۔ لیکن یہ کسی خاص صورت میں فتوی دینا ہے جسے فتوی جزئیہ کہتے ہیں اگرچہ اسے مذہب کا مفتی بہ قول نہیں قرار دیا جاتا۔
اصل بات یہ ہے کہ افتا کا شعبہ ہمارے معاشرے کی رگوں میں بیٹھا ہوا ہے اور معاشرے کے کئی طبقات کے ساتھ اس کا قریبی تعلق ہے۔ اور Ivory Towers میں بیٹھ کر اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ محض فقہ کی کتابوں کو بنیاد کر اس شعبے کے سماجی پہلو کا اندازہ نہیں ہو سکتا۔
اس کے علاوہ بھی کئی مثالیں ہیں جہاں مفتی بہ قول کو چھوڑ کر یا مذہب غیر پر فتوی دیا جا رہا ہے جیسے کسی بندے کا اپنے حق کوخلاف جنس سے زبردستی وصول کرنا۔ وقف کے باب میں توفقہائے کرام یہاں تک کہتے آئے ہیں کہ جس رائے سے وقف کو نفع ہو اسے اختیار کیا جائے اور اس پر عمل بھی ہوتا آرہا ہے۔ یہ سب وقف کی اہمیت کے پیش نظر رہا ہے۔ظاہر ہے کہ جہاں ارباب افتا کو غور کرنا چاہیے کہ فقہی نظام مسلمانوں کے ہاں کیسے چلتا رہا وہاں یہ واضح ہے کہ عوام الناس کی مشکلات کے پیش نظر اجتہاد کا ہونا، خواہ وہ مذہب غیر کی صورت میں ہو یا ایک فقہی مذہب کے نظام کے اندر ہو، ایک مسلسل عمل ہے اور کبھی نہیں رکا۔اس میں کاروباری وغیر کاروباری کی کوئی تخصیص نہیں رہی، اسی طرح مالی وغیر مالی کی بھی تخصیص نہیں رہی۔
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو احباب یہ اعتراض کرتے ہیں کہ “اجتہاد کا من وسلوی صرف امیر کے لیے، غریب کے لیے صبر” ان کے اعتراض کی کیا وجہ ہے؟ بظاہر دو وجوہ سمجھ آتی ہیں:
۱: ہمارے معاشرے میں افتا کا جو عمل جاری ہے وہ اس کا براہ راست مشاہدہ نہیں کرتے ۔ اور براہ راست مشاہدہ نہ ہونے کی صورت میں استنباط سے کام لیا جاتا ہے اور اس میں ہمیشہ گیپ ہوتا ہے۔
۲: دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ احباب مخصوص مثالیں پیش کرتے ہیں جیسے زکاۃ کا نصاب۔اور ان کا خیال ہے کہ یہ مسائل بھی ایسے ہیں کہ ان میں رائے بدلنے کی ضرورت ہے جبکہ ارباب افتا  یا ان میں سے بعض یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ یہ ضرورت نہیں پائی گئی۔اس کے نیتجے میں، ان احباب کو یہ احساس اجاگر ہوتا ہے کہ “غریب بیچارہ ہرجگہ پس رہا ہے”۔یہ جذبہ جتنا بھی اعلی ہو لیکن ہے جذبہ ہی۔پر عجیب بات یہ ہے کہ یہ حضرات دوسری طرف اجتہادی اختلاف میں برداشت اور نیت پر حملے نہ کرنے پر بھی زور دیتے ہیں۔
اگر فقہی آرا جتہادی ہیں کہ ان میں اختلاف ہوسکتا ہے، تو کیا سماجی مطالعہ ومشاہدہ اجتہادی نہیں!
یہاںواضح رہے کہ اس بحث میں سماجی پہلو پیش نظر ہے۔ اس لیے، کسی رائے کو نقل کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ مجھے اس سے اتفاق بھی ہو۔
———————–
شیخ الحدیث  مولانا مفتی محمد زاہد
یقیناً ہمارے مراکزِ افتا بہت خلوص اور محنت سے کام کر رہے ہیں اسی طرح ان کی اپروچ پر سوالات بھی خلوص سے ہی اٹھائے جا رہے ہیں، بد گمانی البتہ بری چیز ہے خواہ وہ اہلِ افتا کے بارے میں ہو یا سوال اٹھانے والوں کے بارے میں۔ آپ کی ذکر کردہ مثالیں مجموعی مسائل اور فیصلوں کی رفتار کے اعتبار سے بہت تھوڑی بھی ہیں اور بعض ممثل لہ پر منطبق بھی نہیں ہو رہیں۔
حرمت مصاہرت کے مسئلے میں ایک مفتی صاحب نے میرے ایک مقالے کا اردو خلاصہ شائع کردیا تھا، بر صغیر کے بعض چوٹی کے اداروں کی طرف سے انھیں خاصی ڈانٹ کا سامنا کرنا پڑا۔ میں نے نوے کی دہائی میں اس طرف متوجہ کیا تھا لیکن دار العلوم کراچی تک اس کے مطابق فتویٰ دینے کے لیے تیار نہیں تھے۔ کافی دیر بعد صرف زبانی مسئلہ بتانے کی گنجائش نکالی تھی، اب تازہ ترین صورت حال معلوم نہیں۔ کم از کم اس مسئلے کا کریڈٹ تو مجھ جیسے غامدی کو دینا چاہیے تھا۔
آج کل تعنت کی بنیاد پر عدالتی فیصلے صادر ہی نہیں ہوتے شقاق کی بنیاد پر ہوتے ہیں، چاہے تعنت وغیرہ ہو یا نہ ہو۔ شقاق کے مجتہد فیہ مسئلہ ہونے کی وجہ سے قضائے قاضی کو نافذ قرار دینے کا فتویٰ سب سے پہلے جامعہ امدادیہ ہی نے دیا ہے۔ دار العلوم کراچی بھی شقاق کو تا حال وجہ فسخ یا وجہِ خلع تسلیم نہیں کرتا، تعنت وغیرہ کو بنیاد بناتا ہے جس پر جج نے کوئی بات ہی نہیں کی ہوتی۔
نصابِ قربانی پر مفصل تحریر میں نے 1995 کے لگ بھگ لکھ کر اہلِ افتا کو بھیجی تھی جو کچھ عرصہ پہلے سرد خانے سے نکلی ہے مگر فیصلہ اب بھی نہیں ہوا۔
حرمین میں وتر کا سادہ سا مسئلہ ہے۔ مفتی محمد مجاہد ؒ نے مفصل تحریر لکھ کر بھیجی تھی مگر دار العلوم کراچی سے فتویٰ ممانعت کا ہی جاری ہوتا رہا۔ اب چند سال پہلے ایک عربی تحریر میں حضرت مفتی رفیع عثمانی رح کی جواز کی رائے ظاہر کرکے اس پر عمل کرنے کی اجازت دی گئی ہے. لٹکے ہوئے مسائل کی فہرست بیان کی جائے تو پورا رسالہ تیار ہوسکتا ہے۔
سوال یہ ہے کیا مالیاتی اداروں کے مسائل میں بھی یہی رفتار ہوتی ہے؟ یہ الزام لگانا تو غلط ہے کہ یہ فرق مال کے لالچ پر مبنی ہے۔ آپ نے اسی پر بات کی ہے اور آپ نے یہ دفاع کرکے اچھا کیا تھا مگر اصل سوال دونوں قسم کے مسائل میں رفتار اور اپروچ کے فرق کا ہے، اس سوال کی نفی کے لیے زور لگانا کہ یہ فرق سرے سے ہے ہی نہیں یا بہت معمولی ہے یہ بات بنتی ہوئی نظر نہیں آتی.
———————–
مولانا مشرف بیگ اشرف
اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر دے کہ آپ تے تفصیل سے روشنی ڈالی اور آپ کے کریڈٹ کا بالکل اعتراف ہے۔
۱: ظاہر ہے کہ جب یہ سوال اٹھا تو اس پر بہت سے تبصرے آنا شروع ہوئے۔ اس لیے، یہ بات واضح کرنا ضروری تھی اور ظاہر ہے کہ آپ جیسے صاحب علم کے سوال اٹھانے پر یہ بات کبھی ذہن میں نہیں آئی کہ آپ اسے مال کی حرص وغیرہ پر محمول کرتے ہیں۔
۲: جہاں تک تعلق ہے ان مسائل میں توسع یا رائے بدلنے کا تو یہ ہماری علمی روایت میں مسلسل چلا آیا ہے۔ بالکل اس تحریر سے بھی دراصل یہی بات ثابت ہوتی ہے۔ اس لیے، اس توسع پر “غامدی صاحب” کا نام لینا دراصل یہ کہنا ہے کہ  ہمارے پچھلی روایت “غامدی صاحب” کے منہج پر تھی۔
عام طور سے، جو بھی بدلے ہوئے حالات میں اجتہاد یا بات کرتا ہے، اسے اصولی طور سے، کسی بھی درجے میں، متجدد دکھانا اتنا مشکل نہیں۔ حالات ہی اتنی تیزی سے بدل رہے ہیں۔ ڈاکٹر یوسف قرضاوی مرحوم اکثر یہ شعر پڑھتے تھے:
الليالي من الزمان حبالى : مثقلات يلدن كل عجيبة
ویسے بھی رد غامدیت پر جو کچھ میں نے فیس بک پر پڑھا ہے، نوے فیصد سے زیادہ ایسا ہے کہ اس کی زد ہماری اپنی روایت پر پڑے اور مجھے اس نے کبھی متاثر نہیں کیا۔
۳: آپ نے یہ پہلو اجاگر کیا کہ ان آرا کو قبول کرنے میں کتنے کٹھن راستے سے گزرنا پڑا اور کتنا وقت لگا۔ ظاہر ہے کہ یہ درست ہے۔ لیکن یہ بھی آپ پر مخفی نہیں کہ اسلامی بینکاری کا یہی حال ہے۔ آپ نے جن امور کا تذکرہ کیا ان میں تو پھر بھی کچھ لچک پیدا ہوئی ہے۔ لیکن اسلامی بینکاری وغیرہ معاملات میں شدت ابھی تک قائم ہے۔ اسے “مجتہد فیہ” مسئلہ بھی ماننے کے لیے ایک اچھا خاصا طبقہ تیار نہیں۔ وہ اس پر “حرام” ہونے کا فتوی لگاتا ہے۔ اور اصول فقہ میں “حرام” کا کیا مطلب ہے وہ کسی بھی فقہ کے طالب علم سے مخفی نہیں۔
۴: باقی یہاں میں دوبارہ یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ضروری نہیں کہ ہر مسئلے میں ہر صاحب علم کو یہ لگے کہ رائے بدلنے کی ضرورت ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ بذات خود ایک اجتہادی معاملہ ہے۔
۵: البتہ آپ نے جو رفتار کے فرق کی بات کی، وہ وقیع ہے اور اس کے اسباب مختلف ہیں۔ اور کم از کم پچھلی دو صدیوں کا ہماری سیاسی، سماجی اور علمی منظر نامے میں اس کو دیکھنا ضروری ہے۔
جزاكم الله خيرا!

مشرف بیگ اشرف

مولانا مشرف بیگ اشرف روایتی دینی علوم کے استاذ ہیں اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے فلسفہ وعقیدہ میں ڈاکٹریٹ کر رہے ہیں۔

m.mushrraf@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں