Home » “نبی کی ضرورت کیوں؟ اشاعرہ، ماتریدیہ اور معتزلہ کا طریقہء بحث”
اسلامی فکری روایت کلام

“نبی کی ضرورت کیوں؟ اشاعرہ، ماتریدیہ اور معتزلہ کا طریقہء بحث”

ڈاکٹر زاہد مغل

آخر عقل کے ہوتے ہوئے انسان کو نبی کی ضرورت کیوں ہے؟ یہ جدید ذہن کا اٹھایا ہوا کوئی انوکھا سوال نہیں ہے بلکہ قدیم سوال ہے۔ علم کلام کی تقریبا سب کتب میں نبوت کی ابحاث کے تحت ھندوستان سے تعلق رکھنے والے “براھمہ ” فرقے کے اعتراض پر بحث ملتی ہے جس کا حاصل بعینہہ یہی بات تھی۔ یہ لوگ خدا کے وجود کے قائل مگر نبوت کے منکر تھے۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ نبی کی بات یا عقل کے مطابق اور اس کے ذریعے قابل ادراک و فہم ہوگی اور یا اس کے خلاف اور نا قابل فہم ہوگی۔ پہلی صورت میں نبی کی ضرورت نہیں کیونکہ عقل کے مطابق نبی جو بھی بات بیان کرے گا عقل اسے جاننے کے لئے از خود کافی ہے، اور دوسری صورت میں بھی نبی کی ضرورت نہیں کیونکہ جو بات خلاف عقل ہو وہ لائق عمل نہیں اور جسے عقل سے سمجھنا ممکن ہی نہ ہو وہ بات نبی کے بتانے سے بھی معلوم نہ ہوسکے گی۔ الغرض ان کے مطابق انسان کو عقل عطا کردئیے جانے کے بعد نبی بھیجنا ہر دو صورت عبث ہے۔ اس اعتراض کا جواب معتزلہ، ماتریدیہ و اشاعرہ مباحث تحسین و تقبیح سے متعلق اپنے نظام فکر کے مطابق دیتے ہیں۔

اپنے مخصوص تصور حکمت کے تحت اشاعرہ کا جواب یہ تھا کہ ناقد کا اعتراض حسن و قبح کے عقلی ہونے کے مفروضے پر مبنی ہے جو اپنی بنیاد ہی میں غلط تصور ہے۔ حسن و قبح کا مطلب افعال پر خدا کی جانب سے ثواب و عقاب کا فیصلہ صادر ہونا ہے اور اس کا علم بدون وحی ممکن نہیں۔ لہذا یہ تقسیم ہی غلط ہے کہ نبی کا بیان کردہ حکم (حسن و قبح) یا عقل کے بیان کردہ حسن و قبح کے احکام کے مطابق ہوگا اور یا ان کے خلاف، اس لئے کہ اعمال کا حسن و قبح (بمعنی اعمال پر ثواب و عقاب) صرف نبی کے قول سے متحقق ہوتا ہے۔ چونکہ انسانی سطح پر قائم شدہ اخلاقی قضایا خدا کی بارگاہ میں لاگو نہیں لہذا ان کی بنیاد پر خدا کے ارادے کی نہ تحدید کی جاسکتی ہے اور نہ ہی تعیین۔ یوں اشاعرہ اس اعتراض کو اس کی جڑ سے اکھاڑ دیتے ہیں۔ علامہ باقلانی (م 403 ھ) نے اس جواب کو صراحت کےساتھ بیان کیا ہے۔

تاہم معتزلہ و ماتریدیہ کے لئے اپنے مخصوص تصورات حکمت میں جواب کا یہ نہج ممکن نہیں تھا کیونکہ وہ حسن و قبح کے تصورات کو حکم کے تابع نہیں بلکہ مستقل آبجیکٹو حقائق سمجھتے ہیں جن میں سے بعض کے علم کی یقینی بنیاد انسانی عقل میں موجود ہے اور اسی عقلی ادراک کی بنا پر انسانی عقل ارادہ خداوندی کی تحدید و تعیین کرسکتی ہے۔ علامہ صابونی ماتریدی (م 580 ھ )، جو اکثر و بیشتر امام ابو معین نسفی (م 508 ھ) کی تفصیلی آرا کا منظم انداز میں نیز نپی تلی عبارات کی صورت خلاصہ پیش کرتے ہیں، اس اعتراض کے جواب میں کہتے ہیں کہ انسانی عقل میں بحیثیت مجموعی محاسن کی جانب رغبت اور قبائح سے نفرت پائی جاتی ہے لیکن عقل ان سب اصولوں کی تفصیلات و تعیینات کو نہیں جان سکتی۔ مثلاً شکر منعم حسن ہے یہ اصول عقل پہچانتی ہے، لیکن منعم کا شکر ادا کرنے کا وہ کونسا طریقہ ہے جس سے انسان اس ذمہ داری سے عہدہ برآں ہوسکتا ہے یہ عقل نہیں جانتی۔ اس کی مثال یوں ہے جیسے شارع ایک مجمل حکم بتائے تو پھر اس کا بیان بھی لاتا ہے تاکہ مکلف اپنی ذمہ داری ادا کرسکے۔ اسی طرح انسانی عقل میں محاسن و قبائح کا اجمالی ادراک موجود ہونے سے نبی کے بیان کی ضرورت ختم نہیں ہوتی۔ یہاں اصل نکتہ یہ ہے کہ ناقد کا اعتراض اس فالس ڈائیکاٹمی پر مبنی ہے کہ ایک معاملہ یا عقل سے معلوم ہوسکتا ہے اور یا نہیں ہوسکتا، جبکہ تیسرا امکان یہ بھی ہے کہ بعض پہلووں سے وہ قابل فہم اور بعض سے ناقابل فہم ہو، اس دوسرے پہلو سے نبی کی ہدایت کی ضرورت ہو۔ چنانچہ علامہ صابونی کہتے ہیں کہ حکم عقلی کے اعتبار سے امور تین طرح کے ہیں:واجب، محال اور ممکن۔ واجب اور محال کو عقل جان سکتی ہے لیکن ممکنات کے وسیع دائرے سے متعلق امور کے بارے میں عقل ہر دو جانب کے مابین معلق ہو جاتی ہے اور ہر جانب عاقبت حمیدہ و ذمیمہ کا کوئی پہلو دیکھتے ہوئے متردد رہتی ہے، لہذا بذریعہ نبی ان امور کے بیان کی ضرورت ہوتی ہے جو عقل پر یہ واضح کردے کہ صحیح معنی میں عاقبت حمیدہ کس میں ہے۔ یوں نبی کی بات عاقل کے لئے تاکید، غافل کے لئے تنبیہ اور غبی کے لئے تیسیر کا پہلو لئے ہوتی ہے۔ چونکہ خدا مالک ہے، لہذا یہ جائز ہے کہ وہ ممکنات سے متعلق اپنی رعایا کے لئے اپنی حکمتوں کے پیش نظر احکام مقرر کرے۔

قاضی عبد الجبار معتزلی (م 415 ھ) کے ہاں یہ بحث دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ بھی اس اعتراض کا جواب معتزلی نظام فکر کی رو سے انہی خطوط پر دیتے ہیں کہ بعض اعمال کے حسن و قبح کا بذریعہ عقل ادراک ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ عقل سب امور میں خدا کی جانب انسانی ذمہ داریوں کو بیان کرنے کے لئے کفایت کرنے والی ہے۔ ان کے نزدیک بھی یہ بات قرین قیاس ہے کہ عقل کسی بات کو مرغوب یا مباح سمجھے جیسے زنا لیکن شارع اسے حرام قرار دے، اسی طرح عقل کے لئے یہ جاننا ممکن نہیں کہ مثلا نماز کے لئے طہارت ضروری ہے وغیرہ۔ چنانچہ شریعت کے مقرر کردہ طریقے مکلفین کے احوال، اوقات کے اختلاف اور افعال کی شرائط سے متعلق ہوتے ہیں جنہیں عقل نہیں جان سکتی۔ تاہم ضرورت نبوت کے اس پہلو کو آپ لطف اور انسانوں کے مصالح کے مخصوص نظریات کے تحت بیان کرتے ہیں۔

مسلم فلاسفہ کی روایت میں ضرورت نبوت کو انسان کے مدنی الطبع ہونے کے پہلو اور اس کے تقاضوں کی روشنی میں بیان کیا جاتا ہے۔ چھٹی صدی ہجری و مابعد کلامی کتب میں ان مختلف پہلووں کو یکجا کرکے بیان کرنے کا رجحان پیدا ہوا۔

ان مباحث سے معلوم ہوتا ہے کہ جدید دور میں بعض علما و محققین کی جانب سے جن بعض تصورات کو “نئے خیالات یا اپچ” کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، اپنی وضع میں وہ کوئی نئے خیالات نہیں بلکہ اسلامک تھیالوجی میں پہلے سے میسر خیالات کی بازگشت ہیں۔ مثلا اس قسم کے خیالات کہ اچھائی و برائی سے متعلق اصول بطور استعداد یا پوٹنشل انسانی فطرت میں الہام شدہ ہیں اور نبی ان امور کی تفصیلات بیان کرکے انسانوں کی راہنمائی کرتے ہیں، یا ان امور کی تذکیر کرتے ہیں، یا جہاں فیصلہ کرنے کی واضح بنیاد نہ ہونے کی وجہ سے غلطی کا امکان ہو وہاں راہنمائی کرتے ہیں وغیرہ، اپنی اصل میں یہ قدیم خیالات ہیں۔

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
zahid.siddique@s3h.nust.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں