شرکاء مدرسہ ڈسکورسز
انبیاءجب آتے ہیں تو وہ سعادت وبدبختی کے طریقوں کو بیان کرنے کے لیے آتے ہیں،اس لیے وہ ایک قوم کے لیے رحمت ،جبکہ دوسری قوم (نہ ماننے والوں کے لیے)عذاب کا سبب ہوتے ہیں۔یہی اللہ کی سنت اور طریقہ ہے۔ولن تجد لسنۃ اللہ تبدیلا۔
اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے جتنے بھی حدود مقرر کی ہیں وہ دو قسم کی ہیں:
1۔سیاست حکمیہ
2۔شرعیہ
دونوں قسمیں انسانوں کی مصلحت،اس دنیا کی بقا اور فساد کو دور کرنے کے لیے ہیں۔
پہلی قسم:
پہلی قسم کے القاء اور بیان کا ذریعہ صرف الہام اور لوگوں کی عقل ہے،کیونکہ اس وقت لوگوں کے درمیان کوئی شریعت نہیں ہوتی ،بلکہ اللہ تعالیٰ لوگوں کے دلوں میں حکمت کا الہام کردیتے ہیں اور لوگ اپنی عقل وحکمت کے ذریعے سیاست حکمیہ کی حدود مقرر کردیتے ہیں اورلوگ ہر شہر ،ملک اور جگہ میں اپنے مزاج،فطرت اور طبیعت کے موافق ”نوامیس“مقرر کرلیتے ہیں ۔نوامیس ”ناموس“کی جمع ہے جو خیر اور بہتری لیکر آتا ہے،جبکہ جاسوس صرف شر لیکر آتا ہے۔
ان نوامیس حکمیہ کو عقل کے ذریعے طے کیا جاتا ہے اور لوگ ان کو قرب الٰہی کا ذریعہ نہیں سمجھتے اور نہ ہی لوگوں کے ذہنوں میں جنت،جہنم اور حشر ونشر وغیرہ کا کوئی تصور اور علم ہوتا ہے۔
یہ لوگ علوم الہیہ یعنی توحید،باری تعالیٰ کی تعظیم وتقدیس اور صفات اور مثل وتشبیہ وغیرہ میں الگ الگ رائے رکھتے ہیں اور لوگوں کو درست فکرپر ابھارنے کی کوشش کرتے اور اسی میں مشغول رہتے ہیں۔پھر یہ لوگ نفس کی حقیقت میں غور وفکر کرتے ہیں کہ جب صورتی بدن مرجاتا ہے تو اس میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں ہوتی ،لہذا معلوم ہوا کہ مدرک اور محرک ایک اور اضافی چیز ہے۔اس اضافی چیز کو تلاش کرنے میں لگ جاتے ہیں اور اپنی عقل کے ذریعے اس کو پہچاننے کی کوشش کرتے ہیں،جس کے نتیجے میں یہ لوگ تنزیہ و تشبیہ کے درمیان متردد ہوجاتے اور اللہ تعالیٰ کی معرفت کے اثبات اور سلب کے درمیان سرگرداں ہوجاتے ہیں۔
ایسے وقت میں اللہ تعالیٰ نبی کو مبعوث کرتا ہے ،چونکہ نبی کی بعثت ممکن ہوتی ہے،اس لیے یہ لوگ انکار نہیں کرتے اور چونکہ وہاں نبی کی صداقت پر کوئی علامت بھی نہیں ہوتی،اس لیے یہ لوگ ایسی علامت کا مطالبہ کرتے ہیں اور پھراللہ تعالیٰ نبی کے ہاتھ پر معجزہ ظاہر کرتا ہے۔تو کچھ لوگ معجزہ کوضد وعناد کی نظر سے دیکھتے ہیں اور کچھ لوگ نظرِ انصاف سے ۔معجزہ میں دو امور پائے جاتے ہیں:
1۔یہ عام لوگوں کی قدرت میں نہیں ہوتا،لہذا یہ صرف رسول کے ہاتھ پر ظاہر ہوتا ہے۔
2۔معجزہ انسانو ں کی حس اور ہیئت دونوں کی قدرت سے خارج ہوتا ہے۔
جب رسول معجزہ لیکر آتا ہے تو منصف شخص اسے دیکھ کر اس کی تصدیق کرتا ہے اور ایمان لے آتا ہے،جبکہ جو اہلِ عقل غیر منصف ہوتے ہیں وہ ایمان نہیں لاتے اور نہ تصدیق کرتے ہیں۔
امام شعرانیؒ اپنے شیخ کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ ان کا کہنا ہے کہ ہم رسول کے حق میں معجزےکو شرط نہیں سمجھتے،کیونکہ معجزہ ممکنات میں سے ہے،لہذا جب رسول کسی ممکن امر کو لاتا ہے تو وہ اس وقت معجزہ کہلاتا ہے جب مخاطبین اس ممکن امر پر قادر نہ ہو،اگرچہ وہ امر فی نفسہ ممکن ہو۔پھر جب ہم ان لوگوں کو دیکھتے ہیں جن کے لیے معجزہ لایا گیا ہے تو یہ صرف ان کو ایمان پر ثابت قدم رکھنے کے لیے ہوتا ہے،لہذا ان کا یقین کمزور ہوتا ہے اور معجزہ پر موقوف ہوتا ہے،جبکہ ان کے علاوہ دیگر لوگوں کو معجزہ کی ضرورت نہیں ہوتی،بلکہ وہ اول وہلہ میں ہی ایمان لے آتے ہیں ۔رہے وہ لوگ جن کے نصیب میں ایمان نہیں ہوتا وہ نہ معجزہ کی وجہ سے ایمان لاتے ہیں اور نہ ہی بغیر معجزے کے۔
فرمایا ہر نبی ایسے امر سے معجزہ لیکر آتا ہے جو اس کی قوم میں معروف وغالب ہوتا ہے،مثلا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم میں جادو کا غلبہ تھا تو آپ جادو کا توڑ لیکر آئے۔عیسی ٰ علیہ السلام کی قوم میں طب کا چرچا تھا تو آپ اکمہ اور ابرص کو ٹھیک کرنے کا معجزہ لیکر آئے۔ہمارے نبی ﷺ کی قوم میں فصاحت و بلاغت پر فخر کیا جاتا تھا تو آپﷺقرآن مجید جیسا فصیح وبلیغ کلام و معجزہ لیکر آئے۔
دوسری قسم:
جو شریعت کے نام سے موسوم ہے،یہ صرف وہ ہے جو صادق ومصدوق شخصیت لیکر آتی ہے ،جس کی تائید معجزات سے ہوچکی ہوتی ہے اور یہ شخصیت ایسے اخبار الاہیہ لاتی ہے جس کے ادراک سے عقل قاصر ہوتی ہے۔اگر رسول ان باتوں کو لیکر نہ آتا تو محض عقل سے ان باتوں کا ادراک ناممکن تھا،جیسے موت،حشر ونشر،جنت اور جہنم کے احوال وغیرہ اور یہ کہ کس قسم کے اعمال سے اللہ راضی ہوتا ہے اور کونسے اعمال سے ناراض ہوتا ہے۔حالانکہ انبیاء کو لوگوں کی سعادت یا بدبختی میں کوئی اختیار نہیں ہوتا،بلکہ یہ دونوں طبقے باری تعالیٰ کے ہاں متعین ہیں۔
تمام انبیاء اجر کے حصول میں برابر ہیں،خواہ ان کی امت نے ان پر ایمان لایا ہو یا نہ لایا ہو،کیونکہ ہر نبی کی تمنا تھی کہ اس کی امت ایمان لے آئے،لہذا ان کی تمنا کی بنیاد پر سب کو برابر اجر ملےگا،البتہ امت کی کثرت وقلت کے اعتبار سے ایک نبی دوسرے نبی کچھ فرق رکھتا ہے۔
دنیا اور آخرت دونوں میں مکلفین پر عذاب آتا ہے،یہ ظاہر ہے،جبکہ غیر مکلفین پر دنیا میں عذاب آنے کے بارے علماء کی آراء مختلف ہیں،کیونکہ وہ مکلف نہیں ہیں:
بعض اہل کشف کی رائے یہ ہے کہ حیوانات بھی مکلف ہیں اوران میں بھی رسول ہوتے ہیں جو تکالیف الاہیہ لیکر آتے ہیں اور ان کا ادراک صرف اہل کشف کرسکتے ہیں،کیونکہ اللہ تعالیٰ تمام مخلوقات پر حجت قائم کرتے ہیں اور کسی کو بلاحجت عذات نہیں دیتے،بلکہ تطہیر کے لیے عذاب دیتے ہیں ۔اس پر انہوں نے کئی دلائل دیے ہیں ۔مثلا قرآنی آیات میں انسانوں کے علاوہ کے لیے بھی امت کا لفظ بولا گیا ہے،جیسے (ولکل امۃ)اور (وان من امۃ الا خلا فیہا نذیر)اور (وما من دابۃ فی الارض )۔۔اور حدیث میں آتا ہے (ان الکلاب امۃ من الامم) وغیرہ ۔۔۔لہذا ہر امت،خواہ چھوٹی ہو یا بڑی اس میں رسالت ہوتی ہے اور اس پر حجت قائم ہوتی ہے ،اس کے بعد اس پر عذاب آتا ہے۔
امام شعرانی ؒ فرماتے ہیں کہ جمہور کی رائے یہ ہے کہ حیوانات مکلف نہیں ہیں اور نہ ہی ان کی طرف رسول بھیجے جاتے ہیں،بلکہ بعض مالکیہ نے تصریح کی ہے کہ جو اس کا قائم ہو وہ کافر ہے۔
البتہ اعراف پر جو لوگ ہوں گے ،وہ سجدہ کرکے جنت میں داخل ہوجائیں گے ،اور روح کو عذاب اس لیے دی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے (الستُ بربکم)کا وعدہ لیا تھا اور اس وقت عقل موجود تھی۔
کمنت کیجے