Home » پاسکل کی الٰہیاتی وجودیت اور ہمارا تہذیبی آشوب (قسط نمبر 2)
شخصیات وافکار فلسفہ کلام

پاسکل کی الٰہیاتی وجودیت اور ہمارا تہذیبی آشوب (قسط نمبر 2)

پروفیسر عزیز ابن الحسن

آٹھ سال کی عمر میں ماں کی شفقت سے محروم ہونے، عمر کا بڑا حصہ بیماریوں میں گذارنے، اور چہل سال عمر عزیز کو نہ پہنچنے سے پہلے مر جانے والا پاسکل ایک مذہبی گھرانے کا فرد اور پیرس کی اعلی فیشن ایبل سوسائٹی میں رہنے والا تھا ۔ ایک مایہ ناز ریاضی دان و ماہر طبیعیات کے طور پر پاسکل عقل کی اہمیت کا بے طرح قائل تھا مگر اس نے محسوس کیا کہ خالص عقل اور محض منطق خدا کے وجود کا اثبات نہیں کرسکتی۔ پاسکل کا اصل کارنامہ یہ نہیں کہ اس نے عقل کی نارسائی کو مبرہن کیا بلکہ اس کا کمال یہ تھا کہ اس نے عقل کو ایمان کی تقویت کے لئے کھلا، اور اس میں صَرف کر کے، دکھایا۔ وہ اقبال کی طرح عقل کے غلام دل کو قبول نہیں کر سکتا تھا۔

خواطر (Pensées)پر ٹی ایس ایلیٹ (۱۸۸۸ء-۱۹۶۵ء) نے اس کے ۱۹۵۸ء کے ایڈیشن جو مقدمہ لکھا ہے وہ پاسکل اور اس کے ذہن کے ساتھ ساتھ ہمارے زمانوں کے الحاد اور تشکیک کی تشخیص کے لیے بھی بہت مفید ہے۔ ۱۱ خواطر (Pensées) کے عنوان سے خود نوشت روحانی سوانح کی طرح کے یہ اوراق دراصل قلم برداشتہ لکھے گئے شذرات تھے جو پاسکل نے مکمل کیے بغیر چھوڑ دیے۔ سانت بیو (Sante-Beuve) کے الفاظ میں یہ کتاب سیمنٹ کے بغیر ایک دوسرے کے اوپر رکھے پتھروں کے مینار کی طرح ہے۔ ابتدائی برسوں میں پاسکل کا حافظہ بہت تیز تھا جو بعد میں بیماریوں کے سبب کمزور ہو گیا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو شاید وہ یہ شذرات کبھی ضبطِ تحریر میں بھی نہ لاتا۔ موجودہ صورت میں بھی یہ کتاب فرانسیسی ادب اور مذہبی گیان دھیان کی تاریخ میں ایک شاہکار شے ہے۔ ۱۲

پندرہویں صدی کے متشکک فرانسیسی مفکر اور ادیب مونتیں (۱۵۳۳ء- ۱۵۹۲ء) کا مطالعہ پاسکل نے اس کا رد لکھنے کے لئے شروع کیا تھا۔ مگر ٹی ایس ایلیٹ (۱۸۸۸ء –۱۹۶۵ء) نے مونتیں کی حیرت انگیز و مہیب زود اثری کے بارے میں لکھا ہے کہ جب تک کوئی آدمی اسے اتنا سمجھ لے کہ خود کو اس پر حملہ کرنے کے قابل تصور کرنے لگے وہ، اس سے بہت پہلے ہی، خود اس کے زیر اثر آچکا ہوتا ہے کیونکہ مونتیں تو ایک دھند ، ایک گیس ، ایک سیال عنصر ہے، وہ گھات لگا کر حملہ کرنے والا قاتل ہے۔ وہ استدلال نہیں کرتا ، نفوذ کرتا ہے، غیر محسوس طور پر آپ کے اندر اترتا چلا جاتا ہے۔ یا اگر وہ استدلال کرتا ہے تب بھی آپ کو ہوشیار رہنا پڑتا ہے۔ اس کے پاس آپ کو منوانے کے لئے دلیل کے علاوہ بھی دیگر بہت سی خطرناک گھاتیں ہوتی ہیں۔ اگر آپ گزشتہ تین صدیوں کی فرانسیسی افکار کی روش کو سمجھنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے مونتیں کو جاننا اور بھی ضروری ہے۔ ۱۳

مونتینی تشکیک کی یہ نفوذی تاثیر پاسکل پر بھی اثرات چھوڑے بغیر نہ رہی تھی۔  مونتیں اگر کوئی عام سا متشکک ہوتا، یا حتیٰ کہ ہر دور کے سب سے بڑے متشکک والٹیئر کی طرح کا آدمی ہوتا، تب بھی پاسکل کا اس سے متاثر ہو جانا اس کیلیے باعثِ خفت ہوتا لیکن مونتیں کا فطری جوہر والٹیئر سے بھی بڑا تھا اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ کبھی پاسکل کو متاثر نہ کر سکتا۔ اس تأثر ریزی میں پاسکل اور مونتین کی تشکیکی نوعیت کے اشتراک کا بھی بہت بڑا حصہ تھا۔ اس پس منظر میں پاسکل کا مونتیں سے متاثر ہو جانا اتنا اہم نہیں تھا جتنا اس آسیب کے اثر سے سلامتی سے نکل آنا!

ہر سوچنے سمجھنے والے اور غور و فکر کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانے والے دماغ کی تشکیک اپنے ہی انداز کی ہوتی ہے: کسی کی تشکیک مسکت سوالوں کا سامنا کرنے پر رک جاتی ہے، کسی کی انکار پر ختم ہوتی ہے، کسی کی تشکیک اسے ایمان کی طرف لے جاتی ہے اور کوئی کوئی تشکیک ایمان ہی کا جز ہوتی ہے مگر ایمان اس پر حاوی آ چکا ہوتا ہے۔ پاسکل ایک ایسا ہی صاحب ایمان تھا جس کا ایمانی جذبہ ہمیشہ ایک طاقتور عقل کی معیت میں رہا۔ جس نے بلا جھجھک شک کے اس مہیب عفریت کا سامنا کیا جو ایمان سے جدا نہیں ہوتا۔ دوسری طرف مونتیں کی تشکیک کسی خاص دائرے تک محدود نہ تھی بلکہ ہم مرکز دائروں کی طرح اس نے تشکیک کی ہر اس صورت کو زبان دی(اور یہی اس کی شخصیت کی بڑائی کی ایک جہت ہے) جو کسی انسان کو کبھی پیش آسکتی ہے۔ لہٰذا پاسکل پر اگر مونتیں کے اثرات ہوئے بھی تو اسے اس کی کمزوری نہیں کہا جا سکتا۔ یہ دونوں کی تشکیک کا مقام اتصال تھا۔ عام لوگوں کی اکثریت بودی ہوتی ہے۔ غیرمتجسس، کھال مست اور جذباتی؛ لہذا انہیں نہ تو کوئی گہرا ارتیاب ہی پریشان کرتا ہے اور نہ وہ ایمان کی گہرائی میں اترتے ہیں۔ دونوں حالتوں میں وہ کسی بڑے معنی تک پہنچنے سے محروم رہتے ہیں۔

پاسکل کو انسانی مجبوریوں کا شدید احساس تھا اس بارے میں ہر قسم کی، اور بعض اوقات اپنی بھی، خوش فہمیوں کو مجروح کرتے اس کے تجزیوں کی بنا پر بعضوں نے اسے منکر ایمان/ بےاعتقاد بھی کہنے کی کوشش کی ہے، جس کی مایوسی نے اس کے لیے حقیقت، اور ایک آزاد انسان کی خواہ مخواہ کی عبادت سے حاصل ہونے والی سورمائی طمانیت کو خود اس کیلیے ناقابلِ برداشت بنا دیا تھا۔ تاہم اس کی مایوسیوں کے اسباب شخصی نہیں تھے بلکہ ایک صاحبِ دانش روح کی پرتجسس کشمش کے معروضی حاصلات تھے۔ جیسے خشک سالی اور سیاہ رات کی سی انقباضی کیفیات ہوں جو ایک سالک کو اپنے سفر کے دوران پیش آتی ہیں۔ ایسے متشائم حالات جو اگر کسی ناخالص اور کمزور روح کو پیش آجائیں تو خوفناک انجام پر منتج ہوں مگر پاسکل جیسی بڑی روح اس بحران سے باآسانی نکل گئی اور یہ بحران اس کے لیے سکینتِ ایمان کی تمہید بن گیا۔

اس سلسلے کے کچھ مسائل یہ تھے:

مسیحی علم کلام کے مطابق فرد کی شخصی قابلیت، انسان کے آزاد ارادے کے فطری اعمال اور فضل خداوندی (جس کے بارے میں نہیں معلوم کہ وہ کب اور کیسے روبہ عمل ہوتا ہے) مل کر اس کی نجات کو ممکن بناتے ہیں۔ گو مختلف ماہرین نے ان مسئلے پر بہت سا کلام کیا ہے مگر انسان کے آزاد ارادے اور فضل خداوندی کا یہ پراسرار تعلق ادراک میں تو کچھ آتا ہے مگر اس گتھی کو حتمی طور پر سلجھانا شاید ممکن نہیں۔ جیسا کہ ہوا کرتا ہے، دیگر بہت سے عقائدی معاملات کی طرح ’’ارادے‘‘ اور ’’فضل‘‘ میں سے کسی ایک طرف غیرمتوازن جھکاؤ بالعموم بدعت کی کسی نہ کسی صورت پر منتج ہوا کرتا ہے، اس بحث میں قدریہ (Pelagians) اگر انسانی اختیار کی برتری اور فضل کی تخفیف کے قائل ہوگئے تو دوسری طرف Calvinists نے ہبوط آدم کے ازلی گناہ کے تصور کے زیراثر ہر قسم کے انسانی اختیار کا انکار کرکے سب کچھ خدائی فضل کے سپرد کر دیا اور جبریہ کی فہرست میں شامل ہو گئے تھے۔

پاسکل کا جس مسیحی فرقے سے تعلق تھا، Jansenism، وہ اس تنازع میں سینٹ آگسٹائن کی ہمنوائی میں کچھ ’’فضل‘‘ والے مؤقف کا حامی تھا۔ مگر بدعت اور گمراہی کی کسی صورت کو بھی حتمی نہیں کہا جاسکتا وہ ہمیشہ نئے انڈے بچے دیتی رہتی ہے۔ مثال کے طور پر یہ عقیدہ کہ نیک اعمال کرنے اور زاہدانہ زندگی گزارنے والوں کو نجات کے حوالے سے کسی ’’بیمار تشویش‘‘ کا شکار نہیں ہونا چاہیے، ’’قدریت‘‘ ہی کی ایک صورت ہے، جو ’’فضل‘‘ کی انکاری اور اصلاّ ’’اختیاری اعمال‘‘ کو ہی حتمی نجات کا ضامن سمجھتی ہے۔ اس کے برعکس یہ آوازیں بھی اٹھتی رہتی ہیں کہ نیکی و اخلاقی زندگی گزارنے کے تمام مذہبی تصورات اگر ختم ہو جائیں تب بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جو ازل سے نیک طبیعت لے کے آئیں گے وہ نیک اعمال ہی کریں گے اور جو بدطینت ہوں گے وہ لامحالہ بد اعمال ہی ہوں گے۔ ظاہر ہے کہ یہ ’’جبریت‘‘ ہی کی ایک صورت ہے کیونکہ کسی کی نیک طینتی یا بدفطرتی اسی طرح غیر یقینی اور غیر اختیاری شے ہے جیسے فضل کا تصور۔ یہ مخمصہ پاسکل کے ساتھ بھی رہا! وہ سمجھتا ہے کہ ہبوط آدم کی وجہ سے انسانی فطرت میں جو ایک جوہری گراوٹ آ گئی ہے اس سے نکلنے کا روزن جو انسان کے لیے فضل کی صورت میں کھولا گیا ہے وہ اصل میں انسان کے لئے خدا کا ایک انعام ہے۔ ۱۴  مگر اس مسئلے پر ہم آگے کلام کریں گے۔

جینسنی مسلک (Jansenism) کا ایک مخلص پیروکار ہونے کی وجہ سے پاسکل کا رجحان اسی طرف ہونا چاہیے تھا اور وہ تھا بھی، مگر انسانی بے چارگیوں اور مجبوریوں کا جیسا احساس پاسکل کو تھا وہ محض ایک فلسفی اور ریاضی دان ہونے کی وجہ سے ممکن نہ تھا۔ بلکہ اس کے اندر ایک راہب اور ایک فنکار کی روح بھی تھی جسکی بدولت وہ اپنے ’’خواطر‘‘ میں انسانی بوالعبیوں کی کچھ پرجلال تصویریں پیش کرنے کے قابل ہوا۔ اس کی سطح  اور فکر و دانش کے سلگتے احساسات کی قوت والا آدمی بھلا عام انسان کے حالات و مشاغل، خیالات اور محرکات، خود رائی، خود پسندی، زعم و عُجب، شیخی خوری، اسکی بے ایمانی، خود فریبی، دھوکہ دہی، جذبات کی فریب کاری اور حقیقی خواہشات کی پستی جیسے تضادات سے کیسے صرف نظر کر سکتا تھا؟ اس نے انہیں بالکل نظر انداز نہیں کیا بلکہ ایک فلسفی و سائنسدان سے زیادہ ایک صاحبِ اسلوب ادیب کی سی جلالت شان کے ساتھ ان چیزوں کا اظہار کیا۔ “خواطر” کے غالباً ایسے ہی مقامات ہیں جو پاسکل کو مونتین کے قریب کرتے ہیں اور جن کی وجہ سے اس کے وجودیت پسند ( existentialist ) ہونے کا گمان ہوتا ہے۔ خود پسند مگر انانیتی شکستوں سے چُور انسان کے لئے اس نے ’’فضل‘‘ کی کھڑکی کھول کر اس کی نجات کے امکان بحال کیا تھا۔

صرف ۳۹ سال کی عمر میں انتقال کر جانے والے ایک آدمی کے اس مشاہدے اور اس کے متوازن بیان پر تو بس حیرت ہی کی جا سکتی ہے۔ ایسی خوبیوں کیلیے ایک ریاضی اورسائنسدان دان کی عظمت کی نسبت بلا شبہ کچھ زیادہ ہی پختگی درکار ہے۔ ایسی پختگی تو ایک صوفی ایک فنکار ہی کا نصیب ہوتی ہے۔ ذرا دیکھیے تو ’خدا سے منقطع انسان کے مصائب‘ پر غور و فکر نے پاسکل کے اندر کس آسانی سے روحانی گھمنڈ کی معصیت کو تقویت دی ہوگی مگر پھر کس مضبوطی سے اس نے انکسار قائم رکھا! اس روحانی کاوش اور کشمکش کے دوران اس نے اگرچہ اتنی ہی طاقت صرف کی جتنی وہ اپنے سائنسی سرگرمیوں میں کیا کرتا تھا لیکن اس کتاب میں وہ کہیں یہ کہتا محسوس نہیں ہوتا کہ ‘دیکھو میں ایک سائنسدان ہوں میں ایسے روحانی اسرار سے واقف ہوں جو تم پر کبھی نہیں کھل سکتے، میں سائنس کے راستے ایمان کی طرف لوٹا ہوں، لہٰذا تم لوگ جو کہ کبھی سائنس میں اتنا رسوخ حاصل نہیں کرسکتے، مجھے دیکھ کر تمہیں بھی ایمان لے آنا چاہیے’! ۱۵

پاسکل چونکہ ان معاملات کی نزاکت سے پوری طرح آگاہ تھا اس لیے اس نے اپنی سند اور تحکم (اتھارٹی) کو بالکل استعمال نہیں کیا بلکہ اسنے “خواطر” کے پہلے باب “Thoughts on Mind and on Style” میں ہی جیومیٹریائی/ ریاضیاتی منطقی ذہن اور وجدانی/ عملی ذہن کے طریقِ کار کے فرق سے بات سمجھائی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ریاضیاتی ذہن (اس میں عقل و منطق کو شامل سمجھئے) کے اصول بالکل واضح ہوتے ہیں مگر تجریدی انداز کے ہونے وجہ سے اور روز مرہ میں استعمال نہ ہونے کے سبب ان کی طرف توجہ مرکوز کرنے میں مشکل ہوتی ہے لیکن ذرا سی محنت سے یہ سمجھ میں بھی آ جاتے ہیں لیکن تیکنیکی اور فنی ہونے کی وجہ سے یہ ہر ایک کی دلچسپی کی شے نہیں ہوتے۔ اس کی برعکس وجدانی عملی یا لطیف ذہن ( اس میں دل کو شامل سمجھیے) کے اصول روزمرہ سماجی زندگی میں استعمال ہونے والے ہوتے ہیں  آنکھ کے سامنے ہوتے ہیں، بس انہیں دیکھنے والی صحتمند اور صالح آنکھ چاہیے۔ مگر چونکہ یہ اصول نہایت کثیر تعداد میں اور اتنے ہی لطیف نازک اور پھیلے ہوئے ہوتے ہیں کہ اس کثرت اور لطافت کے سبب ہی ان کے نظروں سے اوجھل ہو جانے کا امکان رہتا ہے لہذا ان اصولوں کو بکار لانے کے لئے ایک طرف نہایت ہوشیار آنکھ ضروری ہے تاکہ کوئی جزو نظرانداز نہ ہو اور دوسری طرف ایک درّاک ذہن بھی چاہیے تاکہ منطقی مغالطوں کے پیدا کردہ غلط نتائج تک پہنچنے سے بچا جا سکے۔ یہ گویا جز در جز شے کو دیکھتے ہوئے  پورے آفاق کو بیک آن و بیک نظر گرفت میں لانے کا فن ہے۔ تمام ریاضیاتی ذہن وجدانی و عملی لطافت کے حامل ہوسکتے تھے اگر ان کی نظر درست ہوتی، کیونکہ وہ اپنے جانے بوجھے اصولوں کی بدولت غلط استدلال نہیں کیا کرتے۔ اسی طرح تمام وجدانی ذہن ریاضیاتی ہو سکتے تھے بشرطیکہ وہ ریاضی کے مجرد اصولوں کو کام میں لا سکتے جن کے کہ وہ عادی نہیں ہوتے۔ مسئلہ یہ ہے کہ بعض وجدانی ذہن ریاضی کے مجرد اصولوں کو کام میں لانے کے اہل نہیں ہوتے اور ریاضیاتی ذہن بالکل سامنے کی چیزوں کو تب تک نہیں دیکھ پاتے جب تک ریاضیاتی مساواتوں میں انکا تجزیہ نہ کرلیں۔ وجدانی و عملی ذہن ایسے لطیف ارسامات کو محسوس کر لیتے ہیں جنہیں کی وضاحت مشکل اور ثبوت مشکل تر ہوتا ہے۔ مگر ریاضیاتی و منطقی ذہن کے لوگ عام روزمرہ کے محسوساتی وجدانی معاملات کو بھی ریاضیاتی تجرید میں ڈھال کر انہیں مضحکہ خیز بنا دیتے ہیں۔

پاسکل عقل و فہم کی بھی دو قسمیں بتاتا ہے: صحیح فہم کی مختلف اقسام ہوتی ہیں۔ بعض کو چند مخصوص معاملات میں صحیح تفہیم ہوتی ہے مگر دوسروں میں نہیں۔ وہاں یہ گمراہ ہوجاتی ہیں۔ بعض محض چند ایک مقدمات میں درست نتائج اخذ کر کے بہترین فیصلہ کرتی ہیں۔ اور بعضے صرف اسی صورت میں درست فیصلہ کرتی ہیں جہاں بہت سارے مقدمات ہوں۔ مثال کے طور پر سابق الذکر فہم والے ​​آسانی سے کوئی تکنیکی مہارت سیکھ لیتے ہیں کہ اسمیں مقدمات بہت کم ہوتے ہیں یہاں ان کے نتائج اتنے اعلیٰ ہوتے ہیں کہ صرف اعلی درجے کی باریک بینی ہی ان نتائج تک پہنچ سکتی ہے۔ اس کے باوجود یہ افراد شاید بڑے ریاضی دان نہیں ہوسکتے کیوں کہ ریاضی میں بہت بڑی تعداد میں مقدمات کی بنا پر نتیجہ اخذ کرنا ہوتا ہے۔ یہاں شاید ایک ایسی عقل کار فرما ہوتی  ہے جو بڑی آسانی سے چند مقدمات کے ساتھ تہہ کو پہنچ جاتی ہے مگر ان معاملات میں داخل نہیں ہوسکتی جہاں مقدمات زیادہ ہوتے ہیں۔

پس عقل کی دو اقسام ہیں: ایک قسم وہ جو نہایت صحت کے ساتھ دیے گئے مقدمات کے نتائج کی گہرائیوں میں اتر جاتی ہے۔ یہی صحیح (Precise) عقل ہے۔ دوسری وہ جو بہت سارے مقدمات کو ایک دوسرے میں مدغم کئے بغیر فہم کی گرفت میں لے آتی ہے یہ ریاضیاتی عقل ہے۔ ایک میں قوت اور قطعیت ہوتی ہے تو دوسری میں فہم اور سوجھ بوجھ ہے۔ ایک، دوسرے کے بغیر موجود ہوسکتی ہے۔ عقل مضبوط اور تنگ ہوسکتی ہے ، اور یہ جامع اور کمزور بھی ہوسکتی ہے۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ کند ذہن لوگ  نہ وجدانی ہوتے ہیں نہ ریاضیاتی۔ ۱۶

پاسکل کے نزدیک غیر ریاضیاتی، غیر عقلی اور غیر تجزیاتی ہونے کے بجائے غیر وجدانی اور احساسات سے عاری ہونا زیادہ بڑی ناکامی ہے۔ اس سارے پس منظر میں وجدانی ذہن کی مثال مونتین ہے جو تجریدات کے بجائے ٹھوس سماجی حقائق و انسانی مسائل پر نظر رکھتا ہے اور زندگی کی بوالعجبیوں کو سمجھتا ہے جبکہ ریاضیاتی ذہن کا نمونہ ڈیکارٹ ہے جو صرف اس وقت استدلال کر سکتا ہے جب اس کے سامنے واضح تعریفات، مفروضات اور اصول موضوعہ ہوں۔ مجرد ریاضیات کے بجائے ٹھوس انسانی حقائق کی بنیاد پر کام کرنے کا یہی امتیاز پاسکل کو اپنے معاصرین میں سے مونتین کے قریب اور ڈیکارٹ سے دور کرتا ہے۔ اس کا ذہن ڈیکاٹ کی طرح سائنسی، مگر اسکا جذبہ مونتین کی طرح التہابی تھا۔ ذہن اور جذبے کی اسی ہم آہنگی کی وجہ سے وہ مونتین کے برعکس ریاضیاتی سرگرمیوں میں بھی بے مثال تھا اور خدا شناسی میں بھی ڈیکارٹ کی نسبت کہیں زیادہ بااعتبار ہوا!

جیسا کہ اشارہ کیا گیا پاسکل کے زمانے کے مسیحی علم کلام کا ایک اہم مسئلہ جبر و قدر کے مابین توازن کی تلاش تھا۔ جبریت اور قدریت کے بین بین اس نے جو راہ نکالی وہ یہ تھی کہ ہبوطِ آدم کے لازمی مضمرات کے طور پر انسانی نہاد میں جو گراوٹ پیدا ہوگئی ہے، وہ صرف و محض اپنی استعداد کی بل بوتے پر اخروی نجات کے لئے نا کافی ہے اس لیے خدا کی مشیت میں انسان کےلئے جب کچھ اچھا کرنے کا فیصلہ ہوتا ہے تو وہ اپنے فضل سے انسان کے لیے نیکی کی راہ ہموار کر دیتا ہے جس کے بعد انسان کے گویا “اپنے” عمل سے اس کے لیے راہِ نجات وا ہوتی جاتی ہے۔ آدم اور اولادِ آدم آزاد اختیار کے مالک ہیں۔ آدم مائل بہ نیکی تھے لیکن اولادِ آدم مائل بہ شر رہتی ہے۔ مگر اس کے باوجود انسان کی نجات کیسے ممکن ہے اس کے لیے پاسکل کے قلمی نام سے لکھے گئے گئے اٹھارہ خطوط کے مجموعے The Provincial Letters (صوبائی خطوط) کے خط نمبر ۱۸ کو پڑھنا چاہیے جو سینٹ آگسٹائن کے تصور جبر اور فضل کا بہترین بیان ہے:

’’انسان ، اپنی فطرت کے مطابق ، ہمیشہ گناہ کرنے اور فضل کے خلاف مزاحمت کرنے کی طاقت رکھتا ہے اور اپنے طبعی فساد  کے وقت سے ہی اس کے اندر شہوت و مستی کی نبختی گہرائی ہوتی ہے جو مزاحمت کی اس طاقت کو لامحدود حد تک بڑھا دیتی ہے۔ اس کے باوجود جب خدا کی رضا ہو کہ اس کی رحمت انسان کو چھوئے تو انسان کی فطری آزادی کو متاثر کئے بغیر خدا کی قدرت کاملہ اسے وہ کرنے دیتی ہے جو وہ چاہے اور جس طرح وہ عمل کرے۔۔۔ یہ ہے وہ پر حکمت طریقہ جس سے خدا انسان کی آزادئ عمل پر جبر مسلط کئے بغیر اسے راہ دیتا ہے اور انسانی اختیار، جس میں خدائی فضل کی بالقوہ مزاحمت کرنے کی خو پائی جاتی ہے مگر وہ ہمیشہ ایسا نہیں کرنا چاہتا، اپنی آزادی سے، بنا چوکے، خدا کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے۔ جبر، تقدیر، انسانی اختیار، خواہش اور فضل خداوندی میں تطبیق کا یہ وہ اسلوب ہے جس کے مماثل آرا ہمیں پاسکل سے قبل اور بعد کے مسلمان صوفیاء میں بھی مل سکتی ہیں۔ ’’۱۷

ایلیٹ کا کہنا ہے کہ پاسکل دنیا داروں میں زاہد اور زاہدوں میں ایک دنیا دار آدمی تھا۔ اسے دنیا داری کا پورا علم تھا اور اس کے اندر ترک دنیا کے لیے ہمہ وقت جوش و جذبہ بھی کار فرما تھا۔ اس کی ذات میں یہ دونوں چیزیں ـــ زہد اور دنیاداری ـــ ایک کلیت کی صورت اکٹھا ہوکر اکائی میں ڈھل گئی تھیں۔ اس کا طریقِ کار ایک ایسے صاحب ایمان کا منہاج تھا جو عقل کو کسی طور پر معطل نہیں کرتا بلکہ اسے ایمان کی خدمت میں مطیع کر کے رکھتا ہے۔ ایک صاحب ایمان اور ایک ملحد میں ایک بنیادی فرق ہوتا ہے۔ ایک کامل صاحب ایمان آدمی بیرونی کائنات اور باطن کی اخلاقی دنیا کی تعبیر کسی غیر مذہبی نقطہ نظر سے کر ہی نہیں سکتا۔ اور یہ سب وہ عقل کی پوری روشنی میں کرتا ہے وہ عقل کو  معطل کر کے زندہ نہیں رہتا بلکہ زندگی اور کائنات کے ہر پہلو کی تعبیر عقل کی پوری معاونت کے ساتھ کرتا ہے۔ مگر ایک ملحد کے لیے یہ طریقہ کار خاصا غیر تسلی بخش ہوتا ہے۔ اسے جس وقت کائنات کی جو بھی تعبیر مطمئن کرے وہ اس کے ساتھ ہولیتا ہے۔ کائنات کی بے نظمی اسے پریشان نہیں کرتی۔ اسے کچھ اقدار کی پابندی بھی نہیں کرنی پڑتی لہذا بایں اعتبار تو وہ سکھی رہتا ہے مگر من کھنڈر کی ہولناکیاں اس کے لیے جب ناقابل برداشت ہو جائیں تو اس کا آخری سہارا خودکشی کے سوا کچھ نہیں ہوتا جبکہ پاسکل جیسے ریاضی دان کا طریقہ ایک صاحبِ ایمان کی سکینت مآبی اور ایمان کے آگے عقل کی اطاعت گزاری کا راستہ ہے ۔ اس کے برعکس متشککین و ملحدین کا جو طریقہ ہے اس کی نمائندگی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے والٹیئر (۱۶۹۴ء – ۱۷۷۸ء) نے کردی ہے۔ اس نے پاسکل کو رد کرنے کیلیے جو طریقہ اختیار کیا تھا اس نے ایمان کو جھٹلانے کا منہاج  ہمیشہ کے لئے متعین کر دیا ہے۔ ان کے بعد آنے والوں کو ان دونوں میں سے کسی ایک طریقے کا انتخاب کرنا ہوگا: بس پاسکل یا والٹیئر! پاسکل ان لکھنے والوں میں سے ہے جسے ہر نسل کو نئے انداز سے پڑھنا چاہیے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ تبدیل ہوتا ہے بلکہ یہ کہ ہم تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ یہ نہیں کہ اس کے بارے میں ہمارا علم تبدیل ہوتا ہے بلکہ یہ کہ دنیا تبدیل ہوتی ہے اور دنیا کے بارے میں ہمارے رویہ بدلتے رہتے ہیں۔ یہی وہ شے ہے جو الحاد و ایمان کی روز افزوں کشمکش میں پاسکل کو آج بھی ہمارے لیےبامعنی رکھے ہوئے ہے۔ ۱۸

اپنے ہمعصر پاسکل کی طرح ڈیکارٹ (۱۵۹۶ء – ۱۶۵۰ء) بھی خدا کا قائل تھا اور اس کی طرح یہ بھی سمجھتا تھا کہ خدا کے وجود کو عقلی استدلال سے ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ مگر پاسکل کے نزدیک خدا مقصود بالغیر نہیں بلکہ مقصود بالذات تھا جبکہ ڈیکارٹ کے بارے میں پاسکل کا خیال تھا کہ وہ خدا کو اس طرح نہیں مانتا تھا۔ اسی لیے اس نے خواطر میں ڈیکارٹ کے بارے میں جو چند ایک جملے ہیں ان میں اس کی کمزور ترین رگ پر انگلی رکھ دی ہے:

’’وہ جنہوں نے سائنس کو گہرے مطالعے کا موضوع بنایا ان میں سے ایک ڈیکارٹ ہے، ان کا ردّ ضروری ہے۔ میں ڈیکارٹ کو معاف نہیں کر سکتا اپنے سارے فلسفے میں تو وہ خدا کے بغیر ہی کام چلانے پر راضی رہا مگر صرف کائنات کو حرکت میں لانے کے لیے اسے خدائی ہاتھ کوجنبش کی اجازت دینا پڑی۔ اس سے آگے اسے خدا کی مزید کوئی ضرورت نہیں ہے۔’’ ۱۹

اسی طرح کانٹ (۱۷۲۴ء–۱۸۰۴ء) کا بھی کچھ ایسا ہی خیال ہے۔ اس کے نزدیک بھی عقل سے خدا کا وجود ثابت نہیں کیا جا سکتا لیکن اخلاقی زندگی کو بنیاد مہیا کرنے کے لیے خدا کے تصور کو وہ ضروری خیال کرتا ہے۔ ۲۰ گویا خدا کو صرف اس لیے مان لینا چاہیے کہ اس کی بدولت پاکیزہ اخلاقی زندگی بسر کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ کچھ ایسے ہی خیالات دستوئفسکی کے ایوان کرامازوف کی عقلیت پسندی بھی اسے سجھاتی ہے کہ ’اگر خدا نہ ہوتا تو اسے ایجاد کرنا پڑتا‘ کیونکہ ’باغی ہو کر جینا مشکل ہے‘۔

اس سارے پس منظر میں پاسکل کے تصور خدا کی معنویت، جواز اور اہمیت مزید واضح ہوتی ہے۔ خدا کو صرف اس لیے ماننا چاہیے کہ وہ ’ہے‘ اور وہ مقصود بالذات ہے۔ ڈیکارٹ کے خیال کے مطابق اگر خدا صرف کائنات چلانے کے لیے ضروری ہو، یا  کانٹ کی طرح انسان کی اخلاقی زندگی کے لئے خدا لازم ہو، یا اس لئے ضروری ہو کہ دوستوئفسکی کے ایوان کرامازوف کو بغاوت کی اذیت سے نجات مل سکے تو ان تصورات کے زائیدہ خدا کی حیثیت صرف ایک سہولت کار کی ہے۔ ایسے خدا کو ماننے میں تو آج کل مابعد جدید مارکسی بھی کوئی مذائقہ نہیں سمجھتے۔ گویا خدا نہ ہوا، یک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے والا سستا سا نشہ ہو گیا جو مشکل سوالات اور ضمیر کی خلش کو تھپکیاں دے کر سلانے کے کام آتا ہے۔ اس طرح کے تصور خدا میں خرابی یہ ہے کہ اگر کچھ لوگ اس کے بغیر بھی خوش و خرم زندگی زندگی گزار سکتے ہوں تو پھر ان کو خدا کی ضرورت ہی نہیں۔ آج کی سیکولر اخلاقیات کا حال بھی بس یہی کچھ ہے: یعنی اگر کسی کا خدا کے بغیر گزارا نہیں ہوتا تو وہ اپنا چوما چاٹا یعنی سجدہ ڈنڈوت وغیرہ کر لیا کرے لیکن روزمرہ کے مؤثراتِ زندگی اور نظمِ اجتماعی میں خدا کو ہرگز نہ گھسیٹے۔ ڈیکارٹ کہ جسے خدا کی ضرورت محض کائنات چلانے کے لئے پڑی، اور کانٹ کہ جسے خدا کی احتیاج صرف اخلاقی زندگی کے لئے محسوس ہوئی، ان دونوں کا تصور خدا مقصود بالغیر کے طور پر تھا۔ ان دونوں کے برعکس روح کی گہرائیوں تک ایک سچے انسان کے طور پر پاسکل کا خدا مقصود بالذات اور مطلوب فی الاصل تھا جو آفاق سے انفس تک اور وجود سے شعور تک ہر سطح کیلئے یکساں باعثِ سیرابی اور موجبِ شادابی ہے۔

ڈیکارٹ کے بارے میں مذکورہ بالا سخت ترین رائے دینے کے بعد اس سے اگلے پیرے میں ہی پاسکل نے ایسے سادہ لوحی سے باتیں کرنے والوں کا مضحکہ لنگڑے اور احمق کی تمثیل سے اڑایا ہے:

’’آخر ایسا کیوں ہے کہ ایک لنگڑا ہمیں دق نہیں کرتا مگر ایک احمق ہمیں بہت کَھلتا ہے؟ اس لئے کہ لنگڑا یہ جانتا ہے کہ ہم سیدھا چلتے ہیں مگر احمق یہ جتلاتا ہے کہ یہ ہم ہیں جو بیوقوف ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ہم احمق پر غصہ نہ کیا کرتے بلکہ اس پر ترس کھاتے۔’’

اسی بات کو وہ یوں آگے بڑھاتا ہے کہ اگر کوئی ہمیں بتائے کہ تمہارے سر میں درد ہے یا تم لنگڑے ہو تو ہم ناراض نہیں ہوتے، لیکن کوئی ہمیں کہے کہ تم غلط سوچتے یا غلط انتخاب کرتے ہو تو ہم ناراض ہوتے ہیں۔ کیوں؟ وجہ یہ ہے کہ ہمیں پورا یقین ہے کہ ہمیں سر درد نہیں ہے، لیکن اس درجے کا یقین ہمیں کسی شے کا انتخاب کرتے ہوئے نہیں ہوتا کیوں کہ ہم جیسی ہی عقل اور سوج بوجھ استعمال کرتے ہوئے کوئی دوسرا اس کے برعکس بھی انتخاب  کرتا ہے۔ یہ شے ہمیں اپنے موقف کے بارے میں تجسس، حیرت اور شک میں ڈالتی ہے اس لیے ہمیں اس پر غصہ آتا ہے لیکن سر درد یا اپاہچ ہونے کے معاملے میں ہمارے جذبات کبھی اس طرح کے تضاد یا عدم یقین کا شکار نہیں ہوتے! ۲۱

حواشی

۱۲۔    مزید تفصیل کے لیے درج ذیل کتاب دیکھیے جو Pensées ہی کا ایک آزاد ترجمہ معلوم ہوتی ہے:

Paul, C     Kegan, “Preface”, The     Thoughts     of     Blaise     Pascal,     translated     from     the     text     of     M. Auguste      Molinier, London  George     Bell      and      Sons, 1901, pp 5-8

۱۳۔

Eliot, T.S, “The     Pansees     of     Pascal”    , included     in      Selected      Essays,      London,     Faber     and      Faber      limited, 1976, p 409-410

۱۴۔   

https://plato.stanford.edu/entries/pascal/

Section     Nature      and      Grace,      Jan    29, 2022

۱۵۔ 

Eliot,     op. cit,     p. 414-15

۱۶۔ 

Pascal, Pensées, Section 1: “Thoughts     on      Mind      and      on      Style”

اس مبحث کی تفہیم کے لیے خواطر کی اصل عبارتوں کے ساتھ ساتھ پاسکل کی فکر پر Michael      Moriarty کی کتاب   Pascal      Reasoning      and Belief سے بھی استفادہ کیا گیا ہے ۔

Moriarty,     Michael,      Pascal       Reasoning      and      Belief,      Oxford       University      press,      Great      Britain,     2020,     pp 44ff

۱۷۔ 

Pascal,     Blaise,     The      Provincial      Letters,       tr. by Rev. Thomas      M’crie,      Hurd       And      Houghton,       New York,      459 Broome Street, 1866,      pp 448-49

۱۸۔ 

Eliot,     op.      cit.,     p 402

۱۹۔ 

I     cannot      forgive       Descartes.      In      all       his        philosophy      he       would      have       been       quite      willing      to      dispense        with      God.  but he      had       to      make       Him      give      a     fillip       to      set        the       world       in       motion;      beyond      this,       he      has      no     further      need      of      God

Pascal,     op.    cit,      para 76,77

ایک اور نسخے میں یہ مفہوم اس طرح ادا کیا گیا ہے:

I     cannot      forgive      Descartes.      In       his      whole      philosophy       he      would       like       to       dispense        with      God,      but      he      could not      help all     owing       Him       a     flick      of       the      fingers       to      set       the        world       in       motion,      after      which      he      had       no       more       use       for      God

۲۰۔ 

Frost,     S.E.,      The      Basic      Teachings       of       the       Great       Philosophers,       Perma       Giants,       New York,      1942,       p 132 ff

۲۱۔ 

Pascal,      op.      cit.,       para 80

بشکریہ بنیاد، لمز، لاہور 2022

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پروفیسر عزیز ابن الحسن صاحب شعبہ اردو، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ اردو میں بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں اور شعبے کے تحقیقی جریدے “معیار” کے مدیر ہیں۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں