گل رحمان ہمدرد
شاگرد:آج کل قرآن کے ترجمہ کولیکر ڈاکٹر خضریاسین صاحب اور زاہد مغل صاحب کی کشمکش چل رہی ہے۔کس کا موقف آپ کو درست لگ رہا ہے؟یہ مسلہء اصل میں ہے کیا؟۔خضریاسین صاحب نے اس کو اتنا بڑا ایشو کیوں بنایا ہوا ہے؟
میں:دیکھیں ,خضریاسین صاحب جو بات کررہے ہیں وہ بچگانہ بات نہیں ہے بلکہ بہت ہی گہری بات ہے ۔اصولی طور پر ڈاکٹر خضریاسین کا موقف ہی درست ہے۔لیکن مسلہء یہ ہے کہ وہ اندھوں کے شہر میں آئینہ لیۓ پھر رہے ہیں۔فارسی شاعر نے کہا تھا کہ جہاں گوہر خریدنے کا رواج نہیں ہے میں نے ادھر اپنی دوکان کھول لی ہے اور گہر کی قیمت کی آواز دے رہا ہوں۔ے
در آں دیار کہ گوہر خریدن آئین نیست
دکاں کشودہ ام و قیمتِ گہر گویم
لوگوں کی ذہنی سطح اتنی بھی کم نہیں ہونی چاہیۓ کہ معمولی سی اصولی بات کو ایک اصول کے طور پر سمجھ نہ سکیں۔ویسے میری یہ پختہ راۓ ہے کہ مذہبیات کی دنیا میں خضریاسین بائیسویں صدی کے اسکالر ہیں۔اکیسویں صدی کے لوگوں میں کم ہی ہوں گے جو ان کی بات کو اصولی طور پر سمجھ سکیں۔
شاگرد: یعنی آپ کہہ رہے ہیں کہ مسلہء کو پہلے اصولی سطح پر سمجھنے کی کوشش کی جاۓ,عملی اطلاقات کی طرف بعد میں جانا چاہیۓ ؟
میں: جی ہاں,پہلے اصولی طور پر ان کے موقف کو سمجھنا چاہیۓ۔عملی اطلاق اور اس کی مشکلات کے حل کی طرف بعد میں جانا چاہیۓ۔
شاگرد:قرآن مجید کے ترجمہ کی اصولی حیثیت کا مسلہء کیا ہے؟کیا یہ کوئی سنگین معاملہ ہے؟خضریاسین صاحب کا موقف اصولی طور پر ہے کیا؟
میں:خضریاسین صاحب کا موقف یہ ہے کہ انسانی کتاب کا کسی ایک زبان سے کسی دوسری زبان میں ترجمہ ایک ”انسانی کلام“ کو دوسرے ” انسانی کلام“ میں منتقل کرنے کا معاملہ ہے۔یہ کوئی ایشو نہیں ہے۔دنیاکی کسی بھی انسانی کتاب کو ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔کیونکہ مصنف اور مترجم دونوں ہی انسان ہوتے ہیں۔ایسی صورتحال میں اصل کتاب بھی ”انسانی کلام“ ہوتی ہے اور ترجمہ بھی ” انسانی کلام “ ہوتا ہے۔قرآن مجید کا معاملہ یہ نہیں ہے۔ قرآن مجید انسانی کلام نہیں بلکہ “کلام اللہ” ھے، جبکہ اس کا ترجمہ “انسانی کلام” ھے۔ اگر یہ دونوں باتیں درست ہیں اور یقینا درست ہیں تو قرآن مجید کا ترجمہ صرف ایک زبان و بیان کا دوسری زبان و بیان میں انتقال نہیں ھے بلکہ یہ” الہی کلام“ کا ”انسانی کلام“ میں تحول convert ھے۔ یہ الوہیت کو انسانیت کا جامہ پہنانے کا عمل ہے۔یہ الوہی جملوں کا انسانی جملوں میں تبادل ہے۔جس کی سنگینی کا ادراک لازم ہے۔رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے غیرعرب اقوام کےلیۓ قرآن کا ترجمہ کرنے سے گریز کیا۔اسی طرح ان کے اصحاب نے روم وفارس کوفتح کیا,افریقہ اور چین تک پہنچے لیکن اِن اقوام کےلیۓ قرآن کا ترجمہ کرنے سے گریز کیا۔خضریاسین کے نزدیک یہ ایک شعوری عمل تھا۔کیونکہ کلام اللہ کے بالمقابل اخذِ ہدایت کےلیۓ متوازی انسانی کتاب تیار کرکے لوگوں کے ہاتھ میں تھما دینا کوئی ایسا عمل نہیں ہے جس کی تحسین کی جاۓ۔
انسانی تصانیف کا مترجم ایک انسانی زبان و بیان کو دوسرے انسانی زبان و بیان میں منتقل کرتا ھے۔ لیکن قرآن مجید کا مترجم ”الہی زبیان و بیان“ کو ”انسانی زبان و بیان“ میں منتقل کرتا ہے۔یہ روٹین میٹر ھے اور نا ہی یہ تحول نظرانداز کئے جانے کا مستحق ھے۔ ترجمہ کے مسلہء پر ڈاکٹر خضریاسین کے مخالفین کا موقف سطحی اور بچگانہ ہے۔
شاگرد:کیا ترجمہ سے متعلق قدماء میں کسی کا طرزعمل رہا ہے؟
میں: بالکل رہا ہے۔لیکن لوگوں کو نظر نہیں آرہا۔
شاگرد :کس کا طرزعمل رہاہے؟
میں:رسول اللہ ص اور ان کے تمام صحابہ کا یہی طرزعمل رہا ہے کہ انہوں نے عجمی اقوام کے لیۓ قرآن کا ترجمہ کرنے سے گریز کیا۔وہ افریقہ تک گیۓ اور چین تک پہنچے لیکن چینی زبان میں یاکسی دوسری زبان میں قران کا ترجمہ نہیں کیا۔کیا یہ محض اتفاق تھا یا یہ ایک شعوری عمل تھا؟۔ڈاکٹر خضریاسین کا موقف ہے کہ یہ ایک شعوری عمل تھا۔ورنہ مولانا وحیدالدین خان کو بیسویں صدی کے انڈیا میں بیٹھ کر یہ ادراک ہوتا ہے کہ قرآن کا دنیا کی تمام زبانوں میں ترجمہ دعوت دین کے مقصد کےلیۓ وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے تو رسول اللہ ص جن کا کا م ہی دعوتِ دین تھا کو اپنے زمانے میں سب سے پہلے اسی اہم کام کی طرف متوجہ ہونا چاہیۓ تھا۔عجمی اقوام کےلیۓ ترجمہ دعوتِ دین کی کنجی ہے۔لیکن رسول اللہ ص اس طرف متوجہ نہیں ہوۓ۔نا ہی صحابہ کرام متوجہ ہوۓ ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ عجمی اقوام کے لیۓ قرآن کا ترجمہ کرنے کا انتظام جو خلافت راشدہ کے بنیادی کاموں میں ہونا چاہۓ تھا ,لیکن وہاں بھی اس کاکوٸ انتظام نہ کیا گیا۔
امام ابنِ حجر الہیتمی اپنی کتاب ” الفقهية الكبرى“ میں لکھتے ہیں:
فَفِي كِتَابَتِهِ بِالْعَجَمِيَّةِ تَصَرُّفٌ فِي اللَّفْظِ الْمُعْجِزِ
ترجمہ: اس کتاب(قرآن ) کو عجمی زُبان میں لکھنا اس کے معجزاتی الفاظ کے اعجاز میں تصرف ہے۔
”قرآن کا کوئی بھی ترجمہ وتفسیر ایسی نہیں ہے جو قرآن کے صحیح مقصد اور اسپرٹ کو واضح کرسکے“
( بحوالہ افاداتِ آزاد,صفحہ 49,سنِ تحریر 25 مارچ 1940)
ابوالکلام کے قول کا مطلب یہ ہے کہ ہدایت کا جو مفاد قرآن کے متن سے وابستہ ہے اس کا حصول کسی ترجمہ سے ممکن نہیں ہے۔یہی خضریاسین صاحب کا بھی موقف ہے۔
یہاں ایک باریک سا مسلہء اور بھی ہے ۔اور وہ یہ کہ
جولوگ عربی نہیں جانتے،قرآن کاترجمہ اُن کےلیۓ ہدایت کا اولین سورس[ماخذِاول] ہے۔سوال یہ ہے کہ ترجمہ [جوکہ انسانی کلام ہے]سے ”الہامی ہدایت“ کا وہ مقصد حاصل ہوسکتا ہے جو خود قرآن[جوکہ تنزیل و وحی ہے]سے حاصل ہوسکتا ہے؟۔ آپ کا جواب ہاں میں ہوسکتا ہے لیکن خداکا جواب نفی میں ہے۔ سورہ المائدہ کی آیت 67 میں اللہ تعالیٰ نبی کریم ص کو تنبیہ کرتے ہوۓ فرماتا ہے :
يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ ۖ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ ۚ
یہی وجہ ہے کہ نبی کریم ص اور اُن کے اصحاب میں سے کسی نے اُس دور کی غیرعربی اقوام کےلیۓ اُن کی زبانوں میں قرآن کا ترجمہ کرنے سے گریز کیا۔ترجمہ قران جو کہ منزل من اللہ نہیں ہے کے بجاۓ خودقران کا ابلاغ کیا گیا جوکہ منزل من اللہ ہے کیونکہ اوپر کی اس آیت میں تاکید کی گٸ تھی کہ ”بلّغ ماأنزِ لَ الیک “ اور پھر مزیدتنبیہہ کی گئی تھی کہ
وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ
اگر قران کوچھوڑ کر ترجمہ پہنچاتے تو اس آیت کی رو سے رسالت کا ابلاغ نہ ہوتا۔اسلیۓ ڈاکٹر خضریاسین کہتے ہیں کہ امتیِ کا نصابِ تبلیغ بھی پیغمبر کی اتباع میں اس پر اترنی والی وحی (کتاب وسنت)کا ابلاغ کرنا ہے۔خدا کی کتاب کا ”انسانی ورژن“ تیارکرکے اپنی پراڈکٹ کا ابلاغ کرنا نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام کے پورے دور میں نہ کوٸ فارسی ترجمہ شاٸع کروایا گیا اور نہ ہی کوئی سندھی یا سنسکرتی ترجمہ۔لہذا اصولی طور پر خضریاسین کا موقف درست ہے۔میں حیران ہوتا ہوں کہ اتنی بنیادی بات لوگوں کو سمجھ کیوں نہیں آرہی۔
شاگرد:لیکن ڈاکٹر خضریاسین صاحب کے حلقے کے لوگ خود بھی تو ترجمہ کرتے رہتے ہیں؟
میں: یہ اطلاقی مسلہءہے۔اصولی طور پر خضریاسین صاحب کی بات درست ہے لیکن عملی طور پر دور حاضر کے مقتضیات ہیں جو ہمیں اس امر پر مجبور کررہے ہیں کہ ہم کوئی نہ کوئی راہ نکالیں۔ہم اگر ”عزیمت“ کی راہ نہیں اپنا سکتے تو ”رخصت“ کا فاٸدہ اٹھا کر متبادل راہ ضرور نکالیں لیکن ہم کو اپنے رخصتی آپشن کو avail کرتے ہوۓ اس میں موجود جو سنگین پرابلم ہے اس کا ادراک ہونا چاہیۓ۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ زاہد مغل صاحب اور حلقہء کراچی کے دیگر لوگ جدید ٹیکنالوجی کے وجود کے ہی مخالف ہیں۔یہ انکا اصولی موقف ہے جو اصول کی حد تک انہیں صحیح نظر آرہا ہے۔لیکن عملی طور پر زاہد مغل صاحب گاڑی بھی استعمال کرتے ہیں,اے سی اور ہیٹر بھی اور موباٸل و لیپ ٹاپ بھی۔حلقہ کراچی کے لوگوں سے جب ہم کہتے ہیں کہ آپ کے قول و فعل میں تضاد ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہمارا قول ہمارا اصولی موقف ہے جبکہ ہمارا عمل زمانے اور موجودہ حالات کی مجبوریوں کے تحت ہے ۔خضریاسین صاحب اور ان کے تلامذہ کا معاملہ بھی بالکل یہی ہے۔ترجمہ سے متعلق ان کے اصولی موقف کواصولی سطح پر ہی دیکھنا چاہیۓ۔جبکہ ترجمہ سے متعلق اس حلقے سےوابستہ لوگوں کے ذاتی عمل کو زمانے کی سخت مجبوری کے تناظر میں دیکھنا چاہیۓ۔
شاگرد:ہمیں عربی نہیں آتی ہم کیا کریں ؟
میں: آپ کے پاس دو راستے ہیں ۔ایک عزیمت کا راستہ ہے اور دوسرا رخصت کا ۔عزیمت کا راستہ یہ ہے کہ آپ عربی سیکھ لیں۔انگریزی اور فرانسیسی اور جرمن آپ سیکھ سکتے ہیں تو عربی کیوں نہیں سیکھ سکتے۔رخصت کا راستہ یہ ہے کہ حالات کی مجبوری کی وجہ سے عربی سیکھنا اگر آپ کےلیۓ ممکن نہیں تو ترجمہ سے استفادہ کریں ۔لیکن ترجمہ کی اصولی حیثیت ہر وقت آپکے پیشِ نظر رہنی چاہیۓ۔اصولی طور پر خضریاسین کا موقف ہی درست ہے لیکن حالات کے جبر کے تحت عملی طور پر ترجمہ موجودہ زمانے کی ناگزیر ضرورت بن چکا ہے۔یہ حالات کی مجبوری ہے۔حالات کی مجبوری کے تحت اٹھایا گیا اقدام اصولی موقف کو غلط ثابت نہیں کرتا۔اصولی موقف کو اصولی سطح پر ہی جج کرنا چاہیۓ جبکہ عملی مساٸل کو الگ سے ایڈریس کرنا چاہیۓ۔
دوسری بات یہ ہے کہ ترجمہ سے استفادہ کریں لیکن ترجمہ کو اخذِ ہدایت کےلیۓ ماخذِ اول نہ بنایا جاۓ,متلاشیانِ حقیقت کو اتنی استعداد اپنے اندر پیدا کرنی چاہیۓ کہ ترجمہ کو سیڑھی بنا کر ہدایت متنِ قرآن سے ہی اخذ کرسکیں۔تیسری بات یہ ہے کہ ترجمہ کو داٸمی آلہ کے بجاۓ تعلیمی مقصد کےلیۓ استعمال کیا جاۓ۔تعلیم کا مقصد ہوتا ہے سیکھنا۔یعنی طالب علم ترجمہ کے زریعہ متنِ قرآن کی تفہیم کرتا جاۓ ,یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آجاۓ کہ وہ ترجمہ سے بے نیاز ہوکر بغیر کسی ترجمہ کے قرآن سےاستفادہ کرنے کا اہل بن جاۓ۔یعنی ترجمہ کو اخذِ ہدایت کا مستقل سورس بنانے کے بجاۓ ترجمہ کو براۓ تعلیمِ قرآن استعمال کیاجاۓ۔اس طریقے سے ہم موجودہ زمانے کے عوام کی ضرورتوں کا لحاظ بھی کر پائیں گے اور خضریاسین صاحب کے ویلیڈ اصولی اعتراض سے بھی خود کو بچا سکتے ہیں۔
شاگرد: آپ تو تصوف سےمتاثر ہیں۔اسلام کی تمام ظاہری تعبیرات کو آپ نہیں مانتے۔پھر آپ خضریاسین کو اتنا سپورٹ کیوں کرتے ہیں؟
میں: واہ,بہت زبردست سوال کیا ہے آپ نے۔بات یہ ہے کہ آپکی یہ بات تو درست ہے کہ میں اسلام کی صوفیانہ تعبیر کو مانتا ہوں ۔اوراس پرمسلسل لکھتا رہتا ہوں۔لیکن اسلام کی ظاہری تعبیرات میں جب کوئی مکتب فکر کسی دوسرے مکتب فکر پر تنقید کرے تو میں تصوف کے مقاصد کو ذہن میں رکھتے ہوۓ اس کےتناظر میں کبھی ایک کبھی دوسرے مکتب فکر کی حمایت میں لکھتا رہتا ہوں۔حال ہی میں میں نے خالد جامعی صاحب پر مضمون لکھا اور ان سےمتعلق لوگوں کے ذہنوں میں موجود غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کی۔ مولانا ابوالکلام آزاد اور جاوید احمد غامدی صاحب و دیگر بہت سارے لوگوں پر میں لکھتا ریتا ہوں بشرط یہ کہ اگر میرے لکھنے سے تصوف کو کوٸ فاٸدہ پہنچتا ہو۔
شاگرد: تو خضریاسین صاحب کی حمایت کرنے سے تصوف کوکیافاٸدہ یہنچ سکتا ہے؟
میں:بھائی اسلام کی تاریخ میں اہل طریقت اور اہل شریعت کی کشمکش رہی ہے۔مولانا ابوالکلام آزاد ,جاوید ااحمد غامدی اور ڈاکٹر خضریاسین نے آکر اہل شریعت کی علمی روایت پر خودکش حملہ کیا ہے۔ایک لحاظ سے ان حضرات نے صوفیاء کے اس موقف کی تصدیق کی ہے کہ علماۓ شریعت نے مغز کو چھوڑ کر چھلکے پر قناعت کرلی تھی۔ان تین حضرات نے اوربعض دیگرحضرات نے اہل شریعت کی روایت کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔اہل طریقت والے ظاہر ہے علماۓ ظاہر کی آپس کی یہ کُشتی دیکھ کر خوش ہی ہوں گے۔
شاگرد: لیکن ڈاکٹر خضریاسین تو ترجمہ ,تفسیر,حدیث,فقہ,اسلامی نظام,علم کلام اور علم قراءت کے ساتھ ساتھ تصوف کی بھی جڑیں کاٹ رہے ہیں؟
میں:ان کی تنقید سے تصوف کو میں بچا سکتاہوں۔بلکہ ایک براہ راست ملاقات میں میں نے اپنا تصور تصوف ان کے سامنے تنقید کےلیۓ پیش کیا تو وہ اس کا رد نہںں کرسکے۔انہوں نے میری آراءسے اتفاق تو نہ کیا لیکن ردبھی نہ کرسکے۔تصوف کا مستقبل روشن ہے۔بلکہ مذہب کی صرف یہی تعبیرہے جس کا مستقبل مجھے روشن نظر آرہاہے۔اس کےعلاوہ مذہب کی جتنی بھی تعبیرات ہیں ان کا مستقبل مجھے زیادہ روشن نظر نہیں آرہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گل رحمان ہمدرد صاحب فلسفہ اور تصوف میں دلچسپی رکھنے والے اسکالر اور باچا خان یونیورسٹی چارسدہ میں فلسفہ کے استاد ہیں۔
کمنت کیجے