افکارِ جدیدیت کے تحت نیچر اور انسانی زندگی کے ہر ہر پہلو کو بالکل نئے انداز میں سوچا اور پھر عمل میں لایا گیا ہے، اور اس طرح سامنے آنے والی سوچ اور عمل کا ماقبل جدیدیت کی اوضاعِ فکر اور زندگی سے قریب یا دور کا کوئی تعلق یا نسبت نہیں ہے۔ جدیدیت کے ذیل اور ضمن میں آنے والی تبدیلیوں کا بہت بڑا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ دنیا اب کسی بھی معنی میں بدیہی نہیں رہی۔ دنیا کی تمام نئی تشکیلات جدیدیت کے نظری وسائل سے تخلیق کی گئی ہیں اور ان تک عقلی رسائی کے بغیر قابلِ فہم نہیں ہیں۔ عین یہی امر مسلم شعور کے لیے حیرت انگیز اور ناقابل فہم ہے، اور ماقبل جدیدیت دنیا کی طرح مسلم شعور جدیدیت کے پیدا کردہ ”مظاہر“ کو بدیہی سمجھ کر ہر طرح کی ججمنٹ دیتا چلا آیا ہے۔ فطرت اور دنیا میں جدیدیت کے پیدا کردہ مظاہر نظری وسائل کے بغیر قطعی ناقابل رسائی اور ناقابل فہم ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جدیدیت کے پیدا کردہ سسٹم کی گرفت سے آزاد نیچر اور دنیا کے مظاہر اب بھی بدیہی ہیں، یعنی بدیہی نیچر اور دنیا اب مکمل طور پر marginalize ہو چکی ہے اور غیر اہم ہے۔ مسلم نظری شعور کی موت جدیدیت کی پیدا کردہ دنیا کے بدیہی ہونے پر اصرار سے واقع ہوئی ہے اور مسلم شعور جدید دنیا تک کوئی علمی رسائی نہیں رکھتا۔
انسان کو مکمل طور پر redefine کرنے کے لیے جدیدیت کے افکار کا ایک بڑا حصہ وجودی افکار کے زیر عنوان ترتیب پایا ہے، اور دنیا کو بدلنے کے لیے جدیدیت نے تہذیبی افکار کے زیر عنوان نئی تشکیلات مکمل کی ہیں، جبکہ مادی فطرت پر کنٹرول کے لیے سائنسی علم کی تشکیل کی گئی ہے۔ فکر کے یہ تینوں دھارے باہم پیوست ہیں لیکن جانکاری اور تفہیم کی خاطر ان کو الگ الگ زیربحث لانے کی ضرورت ہے۔ جدیدیت کے وجودی افکار سے پیدا ہونے والے سوالات اور مسائل سے مسلم ذہن کسی حد تک شناسائی پیدا کر لیتا ہے اور الوہی ہدایت کی براہ راست رہنمائی میں ان سے بہت حد تک نبردآزما ہونے میں کامیاب بھی ہو جاتا ہے، مثلاً انسان کیا ہے؟ وہ کہاں سے آیا ہے اور کہاں جائے گا؟ انسانی زندگی کی معنویت کیا ہے اور کیا وہ موت سے مر جائے گا یا زندگی کسی اور سطحِ وجود پر جاری رہے گی؟ اخلاقیات اور عقیدے کے بارے میں جدید سوالات کا تعلق بھی اسی زمرے سے ہے۔ ہم عصر مسلم شعور جدید معرضِ علمی میں ان سوالات کا سامنا کرنے کے وسائل پیدا نہیں کر سکا، لیکن دینی ہدایت سے جڑا رہنے کی وجہ سے وہ جدیدیت کے پیدا کردہ ان سوالات کو کند کرنے اور اپنے ایمان کو بچانے میں بہت حد تک کامیاب ہو جاتا ہے ۔
جدیدیت کے پیدا کردہ سائنسی اور تہذیبی افکار نے نیچر اور دنیا کو مکمل بدل دیا ہے، اور ان سے پیدا ہونے والے عمل نے مسلم شعور اور عمل کو روند ڈالا ہے۔ ان سائنسی اور تہذیبی افکار کا دائرہ نیچر، معیشت، سیاست، کلچر اور تعلیم و علم کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ جدید معیشت سائنسی علم اور ٹکنالوجی کے بغیر ناقابل تصور ہے، اور جدید ریاست، طاقت کی ایک ایسی نئی تشکیل ہے جس کو سمجھنے میں مسلم شعور ابھی تک مکمل ناکامی سے دوچار ہے۔ تہذیبِ مغرب اپنے تمام تر پہلوؤں میں اور اپنے ہر انسانی اور تہذیبی مظہر میں دنیا ہی کی ایک نئی تشکیل ہے، جو positive ہے، مادی ہے اور کنکریٹ اور مجرد دونوں جہتوں کو محیط ہے۔ سائنسی علم اور ٹکنالوجی سے پیدا ہونے والا معاشی عمل تہذیب مغرب کی مادی اساس اور اس کی طاقت اور خوشحالی کا سرچشمہ ہے۔ جدید ریاست اس معاشی عمل کے ہم قدم رہتے ہوئے سائنسی علم اور ٹکنالوجی میں پیشرفت کو کنٹرول کرتی ہے۔ آزادی اور حریت کا سیاسی تصور ساورنٹی کے سیاسی تصور میں ڈھل کر جدید ریاست کا قوام وجود بن جاتا ہے۔
یہ سوال بیک آن ہے کہ ایمانیات میں جڑیں رکھنے والا علم کیا اور کیسا ہو گا اور جدیدیت کی پیدا کردہ دنیا کے بارے میں اس کا موقف کیا ہو گا؟ لیکن کوئی بھی تہذیب جو علم اور عمل سامنے لاتی ہے تاریخ اسے محفوظ رکھتی ہے۔ اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو مسلم ذہن گزشتہ دو سو برس میں جدیدیت اور مغرب کے سامنے علم اور عمل میں کوئی بھی تہذیبی وسائل سامنے نہیں لا سکا۔ اس کی بڑی وجہ یہ رہی ہے کہ تاریخی مؤثرات کے زیرِ اثر فکر اور عمل کی جہت سے جدیدیت مسلم شعور میں اپنی تنصیب مکمل کر چکی ہے اور وہ خودآگاہ جہات سے محروم ہو کر جدیدیت کا آلۂ کار بن چکا ہے۔ اسی باعث مسلم شعور شریعت کو بھی سیکولر قانون پر محمول کرتا ہے اور انہیں وجودی طور پر ایک ہی سمجھتا ہے، اور ترکِ شریعت کی تزویرات میں جان کی بازی لگائے ہوئے ہے۔ گزشتہ دو سو سال میں سب سے بڑا تشبیہی تحول عقیدے اور شریعت کے بارے میں تصورات میں واقع ہوا ہے، اور ایسے علمی مباحث اب عام ہیں جو عقیدے اور شریعت کو جدید مادی علوم کی سطح پر لے آئے ہیں۔ اس عرصے میں پیدا ہونے والی ”فکر اسلامی“ ایک طرف عقیدے اور جدید علم میں ضروری امتیازات کو باقی نہیں رکھ سکی، تو دوسری طرف شریعت اور سیکولر قانون کو ایک ہی سطح وجود پر دیکھتی آئی ہے۔ جدید ”فکر اسلامی“ عقیدے کو جدید علم اور شریعت کو جدید ریاست کی تحویل میں دینے کا منصوبہ رکھتی ہے، اور بہت حد تک اس میں کامیاب ہو چکی ہے۔ مسلم شعور بھیڑیے کو میمنا سمجھ کر طاقت کے جدید معاشی اور سیاسی اوضاع سے تعاملات کا عادی ہو چکا ہے۔
ہمارے ہاں جدید ریاست کے سیاسی طور پر ساورن ہونے کا de jure تو انکار کیا گیا لیکن de facto اس کے ساورن ہونے سے مکمل طور پر آنکھیں موند لی گئیں۔ جدید ریاست کے de jure ساورن ہونے سے انکار کے باوجود یہ عملاً اور فعلاً یعنی de facto ساورن ہی رہتی ہے کیونکہ ساورنٹی جدید ریاست کی وجودیات میں داخل ہے اور یہاں de jure اور de facto کی تشقیق ممکن نہیں۔ ایسے علمی چٹکلے صرف اسی صورت ممکن ہیں جب جدید ریاست علماً اور وجوداً نامعلوم ہو۔ ہمارے ہاں ساورنٹی کے جدید سیاسی تصور کو درست علمی بنیادوں پر زیربحث ہی نہیں لایا جا سکا۔ ہمارے سیاسی علما کا خیال تھا کہ ساورنٹی ٹوپی کی طرح کی کوئی چیز ہے جو جدید ریاست نے پہنی ہوئی ہے اور اسے اتار کر جدید ریاست کو اپنے پسندیدہ رنگ کی کوئی دوسری ٹوپی پہنائی جا سکتی ہے۔ علم اور وجود سے مکمل بےخبری ہو تو ایسی خوش فہمیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ جدید ریاست ایک وجودی مظہر ہے اور ساورنٹی اس کے وجود میں لوہے میں صلابت کی طرح داخل ہے یعنی ساورنٹی جدید ریاست میں اس طرح شامل ہے جس پانی میں تری۔ جیسے کہ میں عرض کرتا چلا آیا ہوں کہ نام نہاد فکر اسلامی ترک شریعت کی تزویرات ہیں اور ہماری سیاسی فکر پورے دین کو جدید ریاست کی تحویل میں دے کر اسے مکمل طور پر سیکولر بنانے کا داعیہ رکھتی ہے۔ فکر اسلامی اصلاً جدیدیت ہی کا مظہر ہے اور اس کا دینی عقیدے اور شریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
جدید قانون کے مکمل طور پر positive ہونے کی وجہ سے اس قانون کا کسی بھی انسانی یا مذہبی قدر سے کوئی تعلق بنیاد ہی سے نہیں ہوتا، اور نہ ارادتاً قائم ہی کیا جا سکتا ہے۔ اس میں اہم تر بات یہ ہے کہ سیکولر قانون قدر ہے اور نہ ہو سکتا ہے اور نہ کسی قدر کے حصول کا ذریعہ ہے۔ شریعت اقدارِ حق کا مجموعہ ہے اور انسان سے امتثال امر کے علاوہ اس کا کوئی دوسرا مطالبہ نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ سیکولر قانون یا وہ شریعت جو جدید ریاست میں قانونی جبڑوں کے طور پر نصب کی گئی ہو، عدل اجتماعی کی شرعی قدر کے حصول کا ذریعہ کیونکر بن سکتی ہے؟ اور جدید ریاست اور سیکولر قانون کی عملداری میں مکارم الاخلاق پر مبنی معاشرت کیونکر قائم ہو سکتی ہے کیونکہ یہ کسی بھی قدر کے وجود ہی کو قبول نہیں کرتے؟
قانون یا جدید قانون یا ریاستی قانون یا سیکولر قانون اور شریعت کی وجودیات نہ صرف مختلف ہے بلکہ متضاد ہے۔ متداول فکر اسلامی میں ان دونوں کی وجودیات ایک ہے۔ اس کا بنیادی سبب جدیدیت اور اس کی پیدا کردہ فکر و عمل کا تقریباً مکمل فقدان فہم ہے۔ شریعت کسی بھی صورت میں will of the political/politically sovereign نہیں ہے، کیونکہ اپنے ارضی ظہور میں یہ will of God ہے، یعنی امر الہی ہے، ساورن ہے اور خودمختار ہے۔ اگر شریعت ساورن نہیں ہے تو انسان سے اطاعت اور امتثال امر کا مطالبہ ہی بے معنی ہے۔ اگر خدا قادر مطلق ہے جو ہمارے اعتقاد میں یقیناً ہے تو صرف اسی کا امر اور فعل ہی ساورن ہو سکتا ہے۔ کوئی وجودِ شہودی یا مخلوقی یا ابداعی ساورنٹی سے متصف نہیں ہو سکتا۔ جدید ریاست کی ساورنٹی کا تصور سیاسی ہے، اعتقادی نہیں ہے، اور کسی سیاسی تصور کو خدا کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا ورنہ تشبیہ وارد ہو گی اور یہ شرکیہ تصور عقیدے کی جڑ کاٹ دے گا۔
شریعت کے حوالے سے دو اہم ترین پہلوؤں کو ہم نے ہمیشہ نظرانداز کیے رکھا ہے۔ یہ امر ہمارے ایمان کا جزو ہے کہ حضور علیہ الصلٰوۃ و السلام خاتم النبییین ہیں، اور رحمت للعالمین ہیں۔ شریعت کی ساورن نگہداری میں عقیدۂ ختم نبوت پر نقب نہیں لگائی جا سکتی، اور یہ نقب اس وقت لگی جب فقہاء پر مشتمل قضا کا محکمہ ختم ہو گیا تھا اور علما کو فکر اسلامی کا ہوکا لگ گیا تھا جو دراصل ترکِ شریعت کی تزویرات ہیں۔ فکر اسلامی کی فضا میں ختم نبوت کی حفاظت ممکن ہی نہیں ہو سکتی۔ اور وہ کذاب ”مفکرین اسلام“ ہی میں سے تھا جس نے نبوت کا دعویٰ کیا۔ حضور علیہ الصلٰوۃ و السلام کی رحمۃٌ للعالمینی انسانی تجربے کا عملاً اس وقت حصہ بن سکتی ہے جب شریعت ایک ساورن کے طور پر قائم ہو، اور معاشرے کے اجتماعی عمل کا سرچشمہ بھی ہو اور قیام عدل کی اساس ہے۔
کمنت کیجے