Home » امام الناصر الاَطرُوش رحمہ اللہ تعالیٰ
شخصیات وافکار

امام الناصر الاَطرُوش رحمہ اللہ تعالیٰ

علی حمزہ افغان 

اہلِ بیتِ اطہار علیہم السّلام میں بہت سے جلیل القدر علماء اور مجاہدین پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے دین کی سربلندی کے لئے اپنی خدمات پیش کیں، ان میں سے کئی افراد نے اللہ کی راہ میں جامِ شہادت نوش کیا، مگر انتہائی افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگ ان میں سے بہت سے ایسے چمکتے ہوئے تاروں سے بالکل بے خبر ہیں۔

ایسے ہی لاتعداد افراد میں سے ایک شخصیت امام حسن الناصر علیہ السّلام کی بھی ہے جو کہ “الناصر الکبیر “ اور “الناصر الاَطرُوش” کے القاب سے جانے جاتے ہیں۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ امام علی بن الحسین زین العابدین رضی اللہ عنہما کے بیٹے عمر الاَشرف رحمہ اللہ تعالیٰ کی نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کا نسب نامہ یہ ہے: الحسن بن علی بن الحسن بن علی بن عمر الاشرف بن علی زین العابدین بن الحسین بن علی بن ابی طالب – صلوات الله عليهم أجمعين۔

آپ علیہ السّلام کی ولادت مدینہ منورہ میں سن ۲۲۵ یا ۲۳۰ ہجری میں ہوئی۔ آپ کی والدہ ایک کنیز تھیں جن کا تعلق خراسان سے تھا۔ آپ کی پرورش مدینہ منورہ میں ہوئی، بعد ازاں آپ کوفہ چلے گئے جہاں آپ نے بہت سے مشائخ سے علم حاصل کیا جن میں سرِ فہرست محدث محمد بن منصور المرادی رحمہ اللہ تعالیٰ ہیں۔

اسکے بعد آپ طبرستان چلے آئے جہاں آپ الحسن بن زید بن محمد بن اسماعیل بن الحسن بن زید بن الحسن السبط (ع) کا انکی حکومت میں ساتھ دیا، انکے سن ۲۷۰ ہجری میں وصال کے بعد انکے برادر محمد بن زید کے ساتھ رہے ، جب انکا بھی ۲۸۷ میں انتقال ہوگیا تو تب تک طبرستان انکے ہاتھوں سے نقل چکا تھا لہٰذا یہ وہاں سے دیلم آگئے۔

(الأعلام للزركلي : ۲۰۰/۲، ط: دار العلم للملايين)

جب امام ناصر (ع) دیلم تشریف لائے تو یہاں کے لوگ غیر مسلم تھے، یہ وہاں پر ۱۳ برس انہیں اسلام کی دعوت دیتے رہے، یہاں تک کہ ان کے ہاتھ پر ایک بہت بڑی تعداد نے اسلام قبول کرلیا اور وہاں پر ایک مسجد بھی تعمیر کی گئی۔

(الكامل في التاريخ لابن أثير : ۶۲۸/۶، ط: دارالکتاب العربی)

کہا جاتا ہے کہ آپ کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے ایک لاکھ کو دولتِ ایمان سے نوازا۔

( الدر الفاخر : ۲۴۶)

بعد ازاں اللہ نے آپ کو طبرستان پر بھی ۳۰۱ ہجری میں قبضہ عطا فرمادیا۔

(تاریخ ابن خلدون : ۳۳/۴، ط: دارالفکر)

آپ کا وصال ۲۵ شعبان سن ۳۰۴ ہجری میں طبرستان کے علاقے آمل میں ہوا جو کہ آج ایران کا حصہ ہے اور اسکے درالحکومت طہران کے قریب ہے، وہاں پر آپکا مزار مرجعِ خلائق ہے۔

ابن اثیر آپ کے بارے میں لکھتے ہیں :

وَكَانَ الْأُطْرُوشُ زِيْدِيَّ الْمَذْهَبِ، شَاعِرًا مُفُلِّقًا، ظَرِيفًا، عَلَّامَةً، إِمَامًا فِي الْفِقْهِ وَالدِّينِ، كَثِيرَ الْمُجُونِ، حَسَنَ النَّادِرَةِ.

ترجمہ :- “ الاطروش زیدی المذہب ، فصیح اللسان شاعر ، ظریف، فقہ اور دین میں امام، کثیر العطا اور خوبصورت تھے۔”

(الكامل في التاريخ : ۶۲۹/۶)

ابن جریر الطبری لکھتے ہیں :

ولم ير الناس مثل عدل الاطروش وحسن سيرته واقامته الحق.

ترجمہ :-“ لوگوں نے الاطروش کے عدل، حُسنِ سیرت اور اقامتِ حق کی مثال دوبارہ نہ دیکھی۔”

(تاریخ الطبری : ۱۴۸/۱۰، ط: دارالمعارف)

ابن حزم کہتے ہیں :

وكان هذا الأطروش فاضلا، حسن المذهب، عدلا في أحكامه

ترجمہ :- “ الاطروش فاضل، اچھے مذہب کے حامل اور اپنے فیصلوں میں انصاف سے کام لینے والے تھے۔”

(جمهرة أنساب العرب ، ص:۵۴، ط: دارالمعارف)

آپ مجتہد تھے اور ایک عرصے تک طبرستان اور دیلم میں آپ کے فقہی مذہب کی پیروی کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد رہی ، آپ کی فقہ کو بعض علماء نے مرتب بھی کیا ، چنانچہ آپ کے زمانے میں چند علماء نے “الباهر في الفقه ” کے نام سے ایک کتاب میں آپکے فقہی مسائل کو جمع کیا، بعد ازاں آپ کی نسل سے تعلق رکھنے والے مشہور امامی شیعہ فقیہ علامہ الشریف المرتضیٰ نے “ الناصریات” کے نام سے آپ کی فقہ کے ایک تقابلی مطالعے پر کتاب تصنیف کی، اسکے علاوہ زیدی امام المؤيد بالله احمد بن الحسین الحسنی نے “ الحاصر لفقه الناصر ” اور “ الناظم في فقه الناصر ” کے نام سے جبکہ شیخ ابو جعفر الهوسمي نے “ الإبانة ” کے نام سے آپ کی فقہ کو مرتب کیا۔

آپ کی اپنی ذاتی تصانیف میں :

۱- البساط
۲- الاحتساب
۳-الحجج الواضحة بالدلائل الراجحة في الإمامة
۴- الأمالي في الحديث
۵- المسفر

اور دو جلدوں پر مشتمل قرآنِ مجید کی ایک تفسیر شامل ہے۔

آپ کی اولاد میں : ابوالحسن ، ابوالقاسم اور ابوالحسین شامل ہیں۔

(الكامل في التاريخ : ۶۲۹/۶)

اللہ تعالیٰ کی آپ پر بے انتہا رحمت ہو۔ (آمین)

نوٹ: اس مضمون کی تیاری میں علامہ کاظم الزیدی حفظہ اللہ تعالیٰ کے ایک عربی مقالہ سے استفادہ کیا گیا ہے۔