Home » ہمارے بزرگوں کا تصورِ عورت
تفسیر وحدیث تہذیبی مطالعات سماجیات / فنون وثقافت

ہمارے بزرگوں کا تصورِ عورت

عورت کے حوالے سے منفی تصورات انسانی تاریخ کی قدیم تہذیبوں سے چلے آ رہے ہیں۔ قدیم فلسفیوں، جیسے کہ افلاطون اور ارسطو، سے لے کر موجودہ دور کی مذہبی روایت تک، ہر عہد کے مفکرین نے اپنے اپنے دائرۂ فکر میں عورت کی حیثیت اور اس کی فطرت پر غور و خوض کیا ہے۔ ان فلسفیانہ تصورات کی بنیاد، زیادہ تر تخیلاتی اور قیاسی دلائل پر استوار تھی۔ ان مفروضات کو وقت کے ساتھ چیلنج کیا گیا اور بالآخر مسترد کر دیا گیا، کیونکہ ان میں کوئی مضبوط اور علمی بنیاد موجود نہیں تھی۔

تاہم، جب ہم مذہبی بیانیے کا جائزہ لیتے ہیں تو معاملہ کچھ مختلف اور زیادہ حساس نظر آتا ہے۔ مذہب کے دائرے میں علما اپنی رائے کے حق میں قرآنی آیات اور احادیث کا حوالہ پیش کرتے ہیں، جو نہ صرف ان کے بیانیے کو قوت بخشتا ہے بلکہ ان کے فہم کو تقدس بھی عطا کرتا ہے۔ اس تقدس کی بنیاد پر، وہ اپنی آرا کو حرفِ آخر اور الہامی نوعیت کا حامل تصور کرتے ہیں، اور جو ان کی رائے سے اختلاف کرے، اسے قرآنی اور دینی تعلیمات سے انکار کرنے والے کے طور پر پیش کر دیا جاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ مذہبی بیانیے کے باب میں کسی اختلافِ رائے یا تنقید کی گنجائش بہت کم رہ جاتی ہے۔ اس رویے کا ایک بڑا نتیجہ یہ ہے کہ مذہب کے نام پر پیش کیے جانے والے بعض نظریات، جو شاید اصل دینی تعلیمات کی عکاسی نہ کرتے ہوں، بھی لوگوں میں قبولیت پاتے ہیں، اور ان کی مخالفت کرنے والوں کو خاموش کر دیا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ایک ایسی ردعمل کی نفسیات جنم لیتی ہے جو لوگوں کو دین کی اصل اور پاکیزہ ہدایت سے دور کر دیتی ہے، اور موجودہ دور میں یہی وجہ دین بیزاری کی روایت کو فروغ دے رہی ہے۔

یہ اثرات کیسے ہوتے ہیں، اس کی ایک مثال یوں سمجھیں: ایک فتوے میں سوال کیا گیا کہ کیا عورت مسجد میں نماز ادا کر سکتی ہے؟ جواب آیا: “بالکل نہیں۔” اس جواب کی وجہ یہ بیان کی گئی کہ اگر عورت مسجد میں آئے گی تو قرآن کی تلاوت سننے کا امکان ہوگا، اور چونکہ تلاوت ایک خوش الحان اور دلکش انداز میں کی جاتی ہے، اس بات کا خدشہ ہے کہ عورت اس آواز کے سحر میں مبتلا ہو کر کسی فتنے کا شکار ہو سکتی ہے۔ اس بنیاد پر عورت کو مسجد آنے سے روکا گیا۔

یہ مثال ہمارے علما کے تصورِ عورت کی عکاسی کرتی ہے۔ اس تصور میں عورت کو ایک ایسی کمزور اور جذباتی مخلوق کے طور پر پیش کیا گیا ہے جو کسی بھی لمحے اپنی فطری کمزوریوں کے باعث امتحان میں مبتلا ہو سکتی ہے۔ اس نقطہ نظر میں عورت کی شخصیت، اس کے کردار، اور اس کی اخلاقی قوت کو نظرانداز کر دیا گیا ہے، اور اسے ایک ایسی مخلوق کے طور پر پیش کیا گیا ہے جو ہر لمحہ جنسی ابتلا کا باعث بن سکتی ہے۔

اس کے برخلاف، جب ہم رسول اللہ ﷺ کی زندگی اور عمل پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ایک مختلف تصور ملتا ہے۔ آپ ﷺ نے عورتوں کو مسجد میں آنے، نماز پڑھنے اور عبادات میں شریک ہونے کا ویسا ہی حق دیا جیسا کہ مردوں کو حاصل ہے۔ آپ ﷺ نے انہیں خدا کے گھر آنے اور اجتماعی عبادت میں شریک ہونے کی اجازت دی، کیونکہ عورت بھی مرد کی طرح خدا کی مخلوق ہے اور اس کا بھی خدا سے تعلق قائم کرنے کا اتنا ہی حق ہے جتنا کہ مرد کو حاصل ہے۔ کچھ عملی مسائل، جیسے کہ شوہروں کے لیے بیویوں کا مسجد جانا کسی دشواری کا باعث بن رہا ہو، تو ایسی صورت میں آپ ﷺ نے انہیں ترغیب دی کہ وہ گھر پر نماز ادا کریں، مگر کبھی بھی انہیں مسجد آنے سے کلی طور پر منع نہیں کیا۔

یہ رسالت مآب ﷺ کا اسوہ تھا، لیکن آج کے بعض علما عورت کے قرآن سننے کو بھی فتنے کا باعث سمجھتے ہیں، جو ایک نہایت محدود اور قدامت پرستانہ نقطہ نظر ہے۔ اس کا تعلق فلسفے یا کلچر سے تو ہو سکتا ہے، مگر دین اسلام سے نہیں۔ جب ایک عورت یہ سنے گی کہ دین کے نزدیک اس کی حیثیت کس قدر کمزور اور ناپائیدار ہے، تو کیا وہ دل سے خدا کے قریب آنے کی کوشش کرے گی؟

لہذا، مسئلہ عورت کے خانقاہ آنے پر نہیں، بلکہ اسے برابر کا انسان سمجھنے پر ہے۔

محمد حسن الیاس

محمد حسن الیاس علوم اسلامیہ کے ایک فاضل محقق ہیں۔انھوں نے درس نظامی کی روائتی تعلیم کے ساتھ جامعۃ المدینۃ العالمیۃ سے عربی ادب کی اختصاصی تعلیم حاصل کی۔معروف مذہبی اسکالر جاوید احمد غامدی کے شاگرد اور علمی معاون ہونے کے ساتھ ان کے ادارے میں تحقیقی شعبے کے ڈائریکٹر کے فرائض انجام دے رہیں۔

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں