Home » علامہ انور شاہ کشمیری اورجدید علم کلام
اسلامی فکری روایت شخصیات وافکار کلام

علامہ انور شاہ کشمیری اورجدید علم کلام

 

مولانا وارث مظہری
حالیہ لاک ڈاؤن کی جہاں بہت سی فیوض وبرکات رہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ بہت سی ایسی کتابوں کے تفصیلی مطالعے کا موقع ملا جواب تک صرف ہماری بک شیلف کی زینت بنی ہوئی تھیں۔ ان میں سے ایک کتاب’’فیض الباری ‘‘(مولانا انور شاہ کشمیریؒ ) بھی ہے۔ طالب علمی کے ایام میں چند ایک بار اسے دیکھنے کا موقع ملا تھا، اس کے بعداس سے باضابطہ استفادے کی توفیق میسر نہیں آ ئی۔اب جو اس کا مطالعہ شروع کیا تو اس میں ایک جہان فکر آباد نظر آیا۔عام طور پرہمارے علمی حلقوں میں فیض الباری کا مطالعہ فقہی مباحث میں حنفی استدلال کی تقویت کے لیے کیا جاتا ہے۔علامہ کشمیری کی بنیادی شناخت بھی یہی ہے۔مسلک احناف کی استدلالی بنیادوں کومضبوط کرنےکی جوخدمت انہوں نے انجام دی اس کا انہیں خود پرُفخر احساس بھی تھا (البتہ زندگی کے آخری حصے میں اس پر احساس ندامت غالب آگیا تھا جس کی تفصیل مفتی شفیع صاحب کی کتاب’’وحدت امت ‘‘ میں دیکھی جا سکتی ہے۔) تاہم میرے خیال میں حضرت علامہ کی شخصیت اور فکر کا دوسرا پہلو جوپہلے پہلوسے کچھ کم اہم نہیں ہے، کسی قدر دب کر رہ گیا ہے ۔وہ پہلوان کی کلامی فکر ہے۔
فیض الباری کے مطالعے سے (میرے مطالعے کی حدتک) یہ دل چسپی اور فکر انگیز پہلوسامنے آتا ہے کہ حضرت علامہ کشمیری فقہ کےحوالے سے تو(حنفی)’’ مقلد‘‘ نظر آتے ہیں ۔لیکن کلام کے حوالےسے ان کی فکر اپنے پیش رو شاہ، شاہ ولی اللہ کی طرح مجتہدانہ ہے۔(البتہ شاہ ولی اللہ فقہ کے باب میں بھی اجتہادی فکر رکھتے ہیں)۔فیض الباری میں جا بجا اس کے نہایت قیمتی نقوش بکھرے پڑے ہیں۔ جدید علم کلام کی تشکیل میں جن سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔
یہاں اس کی صرف دو مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔ایک تو یہ کہ ان کے مطابق قرآن میں کائناتی مظاہر کے حوالے سے جوبیانات آئے ہیں ،ان کا حقیقت واقعہ سے بھی تعلق ہو ان کے مطابق ضروری نہیں ہے۔ بلکہ ان میں نزول وحی کے وقت کے غالب عوامی تصورات کو سامنے رکھا گیا ہے۔کیوں کہ ان کے بقول اگر قرآن حقیقت واقعہ پر اپنے بیان کی بنیاد رکھتا کہ مثلازمین متحرک ہے ساکن نہیں توقرآن کےدور اول کے مخاطبین اس کو قبول نہیں کرتے اور اس کی تکذیب کرتے اور اس طرح قرآن کا اصل مقصد جوتذکیر و نصیحت ہے پورا نہیں ہوتا ۔
دوسری مثال یہ ہے کہ شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ نزول عیسی سے جو اسلامی غلبہ متحقق ہوگا وہ محض علاقائی ہوگا نہ کہ عالمی ۔یعنی یہ غلبہ صرف شام تک محدود ہوگا جہاں حضرت عیسی کا نزول ہوگا۔میرا خیال ہے کہ امام مہدی کے تعلق سے جوعالمی اسلامی غلبہ کا تصور پایا جاتاہے، اس کے تعلق سے بھی شاہ صاحب کی یہی رائے ہے۔ اس نوع کی مثالیں متعدد ہیں۔
علامہ کشمیری کی جدید سائنس پر بھی نظر تھی اور انہوں نے عربی زبان کے توسط سے اس کا مطالعہ بھی کیا تھا اور اپنے بعض تلامذہ کوپڑھایا بھی تھا۔ اس لیے جدید سائنسی اکتشافات کے تناظر میں بعض کونیاتی حقائق(cosmological facts) سے تعلق رکھنے والے مذہبی بیانات پر جوسوالات اٹھائے جاتے ہیں،کلامی نقطہ نظرسے علامہ کشمیری کی ان پر اچھی بلکہ گہری نگاہ تھی۔ علامہ اقبال مولانا کشمیری کو لاہوربلاکر فقہ جدید کی تدوین کی خدمت لینا چاہتے تھے۔ میرا خیال ہے کہ اقبال جدید علم کلام کی تدوین کے باب میں، برصغیر میں جس کی بنیاد انہوں نےاپنی کتاب The Reconstruction of Religious Thought in Islamکے ذریعے ڈالی تھی، زیادہ فائدہ اٹھاسکتے تھے۔

ڈاکٹر وارث مظہری

وارث مظہری ہمدرد یونی ورسٹی دہلی کے شعبہ اسلامک اسٹڈیز میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر خدمات انجام دیتے ہیں اور دار العلوم دیوبند کے فضلا کی تنظیم کی طرف سے شائع ہونے والے مجلے ’’ترجمان دارالعلوم‘‘ کے مدیر ہیں۔
w.mazhari@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں