ہمارے ہاں ہر طرح کی صحافت میں ”موجودہ علمی منظر نامے“ کی تفہیم کے لیے ”احادیث آخرالزماں“ سے مدد لی جاتی ہے، اور عقل مکمل تعطیل پر ہے۔ محترم شیخ عمران حسین نے احادیث آخرالزماں کی اطلاقی تعبیرات سے مذہبی علم کے پورے تناظر ہی کو تبدیل کر دیا ہے۔ محترم شیخ عمران نے احادیث آخرالزماں کی محلِ نظر تعبیرات سے قومی اور عسکری پالیسی بنانے کے لیے بھی لیکچر دے رکھے ہیں۔ محترم شیخ عمران نے قرآن و حدیث کو بازیچۂ تعبیر بناتے ہوئے ایک پوری Islamic Science of Easchatology بھی گھڑ ڈالی ہے۔ ابھی حال ہی میں انہوں نے اسی نام سے ایک آن لائن ادارہ بھی شروع کیا ہے۔ اس حوالے سے کچھ ضروری اور ”اصولی“ باتیں ذیل میں عرض کر رہا ہوں۔
ہمارا ایمان یومنون بالغیب ہے، اور اس کا محتویٰ معروف و معلوم ہے۔ احادیث آخرالزماں میں حضور علیہ الصلوۃ و السلام نے بعض امور تکوین کی خبر دی ہے، اور ان کی حیثیت بھی خبر غیب کی ہے اور وہ ہماری ایمانیات کا حصہ ہیں۔ ہمیں پورا یقین ہے کہ منصۂ تاریخ پر وہ واقعات لازماً ظاہر ہوں گے جن کی آپ علیہ الصلوۃ و السلام نے خبر دی ہے۔ پیش گوئی کاہنوں اور نجومیوں وغیرہ کا کام ہے کیونکہ بعض اوقات وہ پوری ہوتی ہے اور بعض اوقات وہ غلط بھی ثابت ہوتی ہے۔ پھر پیش گوئی میں توقیت شامل ہوتی ہے اور زمانۂ مستقبل کے محدود اور متعین ٹکڑے کے بارے میں ہوتی ہے۔ ایسی پیش گوئیوں کی بنیاد کوئی اسراری یا ساحرانہ (occult) علم ہوتا ہے اور وحی ایسے علوم کی قاطع ہے۔ اس باعث احادیث آخرالزماں کو پیش گوئی کہنا سنگین طور پر محل نظر ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ بعض مواقع پر حضور علیہ الصلوۃ و السلام کی دی گئی خبر غیب میں تخصیص ہوتی ہے، جیسے کہ سراقہ کے واقعے سے معلوم ہوتا ہے۔ لیکن احادیث آخرالزماں میں عدم توقیت کے ساتھ تعمیم پائی جاتی ہے۔ ان کی حیثیت خبر غیب کی ہے اور وہ یقیناً برحق ہیں، اور ان سے پیش گوئی کا امکان مطلقاً خارج ہے۔ شک امکان میں داخل ہے، اس لیے حضور علیہ الصلوۃ و السلام کے ایسے ارشادات مبارکہ کی طرف کوئی شک یا امکان منسوب نہیں کیا جا سکتا۔
زیر بحث موضوع میں بنیادی سوال علمیات کا ہے کہ آیا ایمانیات کے مشمولات کسی بھی ”موجودہ عالمی منظر نامے“ کی تفہیم کا ذریعہ بن سکتے ہیں یا نہیں؟ اس سے بھی اہم تر اور زیادہ گہرا سوال یہ ہے کہ کیا ایمانیات کے مشمولات غیب کی تفہیم کا ذریعہ بن سکتے ہیں یا نہیں؟ ان دونوں سوالات کا جواب نفی میں ہے، یعنی ایمانیات نہ غیب کی تفہیم کا ذریعہ ہیں اور نہ شہود کی تفہیم ان سے حاصل ہو سکتی ہے۔ تفہیم کا موضوع صرف وہ چیزیں ہوتی ہیں جو مشاہدے، تجربے اور حس میں ہوں اور نظر/عقل کا موضوع بن سکیں۔ تفہیم انفس اور آفاق کی سرحد پر واقع ہوتی ہے، اور ان کی دوئی پر غالب آنے کی عارضی اور کسری انسانی کوشش ہے۔ تفہیم غیب و شہود کی سرحد پر واقع نہیں ہوتی اور نہ ہو سکتی ہے۔ ہمارے ہاں ایمانیات کو ”انسانی علم“ بنانے میں یہ مغالطہ کارفرما ہے۔ خبرِ وحی معلومیت (knowability) ہے اور ایمان کی اساس۔ یہ معلومیت شعور کے لیے مکتفی ہے، یعنی ایمان کے قضایا شعور اور وجود کی ضرورت کو پورا کر دیتے ہیں اور انسانی شعور ان سے آگے حرکت کرنے کا مجاز نہیں ہوتا۔
گزارش ہے کہ ایمان کا براہ راست تعلق غیب سے ہے۔ اگر محتوائے ایمان کو غیب یا شہود کی ”تفہیم“ کے لیے استعمال کیا جائے تو اس کی ایمانی اور تنزیہی حیثیت کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور وہ صرف تشبیہی علم کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے جیسا کہ جدید سائنسی اور سماجی علوم ہیں۔ ایمان سے دو چیزیں مستقل طور پر خارج ہیں: ایک تفہیم اور دوسرا عمل۔ ایمان پر قائم ہو جانے کے بعد، اجزائے ایمان کی تفہیم ممکن نہیں۔ وہابیت اور عرفانی مابعد الطبیعات ”ایمان“ کی تفہیم سے پیدا ہونے والے ”علمی“ مظاہر ہیں۔ اول الذکر قضایائے ایمان کے ذریعے شہود کو سمجھنے کی کوشش ہے جبکہ مؤخر الذکر قضایائے ایمان سے غیب کو سمجھنے کی کوشش ہے۔ ایمان، عمل کی کوئی تقویم بھی نہیں ہے، کیونکہ عمل کا مدار ظاہر پر ہے اور اس کا ذریعہ شریعت ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں آیا ہے کہ قرب قیامت میں یاجوج ماجوج ظاہر ہوں گے۔ یہ ہمارے ایمان کا جزو ہے، اور بس۔ مثلاً ہمیں کوئی ایسا حکم نہیں دیا گیا کہ ہم ایسے کیا اعمال کریں جن سے یاجوج ماجوج کا کھولا جانا وقوع پذیر ہو سکے۔ ایمان کی تشبیہی تعبیرات ایک طرح سے مشیت الہی میں مداخلت کی انسانی کوشش کا نام ہے۔
موجودہ عالمی منظر نامے کی تفہیم صرف اور صرف مشاہداتی، تجربی اور عقلی ذرائع سے ہی ممکن ہے۔ اگر ایمانیات کو موجودہ عالمی منظر نامے کی تفہیم کا ذریعہ بنایا جائے تو اس کی حیثیت تشبیہی اور مادی علم کی ہو جاتی ہے اور خالص مذہبی معنوں میں ایمان باقی نہیں رہتا۔
امریکہ میں جس عیسائی عقیدے کا غلبہ ہے وہ Evangelical Christians یا Zionist Christians کا عقیدہ ہے، اور امریکی سیاست پر اس کا اثر بہت طاقتور ہے۔ صیہونی عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ جب سارے یہود ارض فلسطین میں اکٹھے ہو جائیں گے تو حضرت عیسی علیہ السلام کی آمد ثانی واقع ہو گی، اور وہ آ کر سارے یہود کو قتل کریں گے۔ اس لیے وہ اسرائیل کے شدید حامی ہیں اور دنیا بھر سے یہودیوں کو اسرائیل میں جمع کرنے کے لیے کوشاں ہیں تاکہ وہ (نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ پر دباؤ ڈال کے حضرت مسیح علیہ السلام کی آمد ثانی کو واقع کر سکیں۔ عقیدے میں سے تنزیہ کا خاتمہ ہو جائے تو باقی تشبیہی عقیدہ رہ جاتا ہے جو سیاسی چالبازی سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ عقیدہ تشبیہی ہوتے ہی سیاسی قوتوں کی مرغوب غذا بن جاتی ہے، اور ہمیشہ ان کا آلۂ کار بنتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی اب اس طرح کے رجحانات پیدا ہو گئے ہیں کہ عقیدہ سیاسی اور تجزیاتی علم کا کام کرتا ہے، اور مادی تشکیل سے گزر رہا ہے۔ ہمارے ہاں احادیثِ دور فتن کی جو تعبیرات سامنے آ رہی ہیں ان کا واحد مطلب صرف اور صرف ترک شریعت ہے۔ پورے دین کا مخاطب انسان اور مسلمان ہے، اور دین کوئی ایسا ”علم“ نہیں ہے جیسے کہ موجودہ زمانے کے سائنسی اور عقلی علوم ہیں۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ”موجودہ عالمی منظرنامے“ کو سمجھنے کے لیے ایمان کو برباد کیے بغیر عقل کو کام میں لانے کی ضرورت ہے، اور یہ ضروری تفہیم ہے۔ عقلی تفہیم، تاریخ اور معاشرے میں انفرادی اور اجتماعی انسانی عمل کے لیے راستہ بناتی ہے۔ ایسے عمل کی وجودیات شریعت سے متعین ہو گی جبکہ تاریخی تناظر میں انسانی عمل کی حرکیات کو متعین کرنے کے لیے عقلی تفہیم ضروری ہے۔ ایمان شبستان وجود میں انسان کی حیثیت کو مستحضر اور مستحکم رکھنے کا نام ہے جو اپنے خالق کو ویسے ہی جاننا اور ماننا ہے جیسے کہ وہ چاہتا ہے۔ جدیدیت سے مکمل مغلوب دنیا میں انسانی ذرائع اور وسائل سے انسان رہنے کا کوئی resource سرے سے فراہم ہی نہیں ہے۔ انسان رہنے کی طرف اولین پیشرفت ایمان ہے۔
کمنت کیجے