جناب عمران احسن خان نیازی صاحب نے (جنہیں ہم “نیازی صاحب “سے آگے یاد کریں گے) اسلامی فقہ وتشریع کی تاریخ اور مناہج پر اپنا نقطہ نظر اپنی کتاب میں پیش کیا جسے انہوں نے “تھیوریز” کے نام سے موسوم کیا۔ نیازی صاحب نےحنفی نظام پر ہونے والی تنقید اورشافعی وحنفی نظام کے حوالے سے بعض مستشرقین کے نظریات کی تردید کے پیش نظر اپنے نظریے کی اٹھان رکھی اور اسی کے ضمن میں وہ احناف وشوافع کی تشریعی تاریخ سے متعلق اپنےافکار وضع کرتے ہیں۔ اس کاوش میں انہوں نے نہ صرف یہ کہ مابعد استشراق دور کے مسلمان مفکرین سے ہٹ کر رائے قائم کی، بلکہ مسلمانوں کی ابتدائی تشریعی گہماگہمی کے پشت میں جو اصولی وقانونی لہریں دوڑ رہی تھیں، ان کے حوالے سے ایسا نقطہ اپنایا کہ اس کے نتیجے میں ابتدا کے بعض احناف کو چھوڑ کر اہل سنت کے تقریبا تمام دبستان، اصولی ابتری کا شکار نظر آتے ہیں.(یہاں ہم مالکیہ کا استثنا کریں گے)[1]ان کا نظریہ ان دو نقطوں میں بیان کیا جا سکتا ہے:
۱:غزالی جوینی وغیرہ نے علامہ دبوسی سے متاثر ہو کر حنفی نظام کو شافعی نظام میں جگہ دینے کی کوشش کی۔ لیکن نیازی صاحب کے مطابق وہ دونوں ہم آہنگ نہ تھے اور قواعدی نظام امام شافعی صاحب کے ظاہری نظام کے ساتھ ٹھیک بیٹھا، نہ بیٹھ سکتا تھا۔لیکن دوسری طرف، ان قواعد میں قانون کی تفسیر کی حیرت انگیز طاقت ہے۔ اس لیے، شوافع ان سے متاثر ہو کر، ان کو اپنے نظام میں سمونے لگے۔ لیکن ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ سے شوافع نے قواعد اصولیہ وقواعد فقہیہ کا سمبندھ توڑ دیا۔ نیازی صاحب کے خیال میں اس کا ایک مظہر اس سوال کا جنم لینا ہے کہ: “کیا قواعد حجت ہیں؟”۔اس سوال کا جواب صرف حنفی نظام دے سکتا ہے ، نہ کہ شافعی ظاہری نظام ۔نیازی صاحب کا کہنا ہے کہ غیر احناف نے قواعد کے میدان میں بہت اچھا کام کیا جس کی ناقدری نہیں کی جا سکتی۔ لیکن اس کا کیا کریں کہ قواعدی نظام ظاہری نظام سے ہم آہنگ نہیں ہو سکتا اور اس میں ان ائمہ کا کوئی قصور نہیں۔
۲: دوسری طرف، علامہ سرخسی نے “بڑی حد” تک احناف کے نظام کی پیروی کی۔ لیکن ان کے بعد،امام غزالی کا اثر نظر آتا ہے۔ متاخرین احناف نے شوافع سے متاثر ہو کر اپنا نظام متاثر کر دیا۔جو نظام احناف سے غزالی وغیرہ نے لیا، علامہ سبکی وسیوطی وغیرہ نے اسے شافعی سانچے میں ڈھالا۔ اور ان سے متاثر ہو کر ابن نجیم وغیرہ نے اپنے کام کی بنیاد رکھی “جس میں انہوں نے احناف کی بجائے شوافع کی پیروی کی”البتہ نیازی صاحب کا یہ ماننا ہے کہ یہ اثر احناف کی فقہ پر نہیں پڑا، بلکہ اصول فقہ اور قواعد فقہیہ پر پڑا ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ حنفی نظام اس کے اصول فقہ یا قواعد فقہیہ نہیں، بلکہ سند سے منقول ائمہ کے اقوال اور فقہی آرا ہیں۔اوریہ کہا جا سکتا ہے کہ ان پر “حنفی دستخط” موجود ہ ہیں۔ اس لیے، ان پر اثر پڑنا مشکل تھا۔ بالفاظ دگر، ان کا کہنا ہے کہ علامہ سرخسی کے بعد، فقہ اور اصول فقہ کا ناطہ ٹوٹ گیا یا کمزور پڑ گیا۔ اور علامہ سرخسی “بڑی حد” تک حنفی اصول پر قائم رہے۔احناف کے ہاں اس ابتری اور فقہ اور اصول میں ڈور کے کٹنے کی تاریخی وجہ سیاسی دباؤ تھی۔ چناچہ نیازی صاحب کے مطابق ، نظام الملک کے دور میں حنفی نظام پر دباؤپڑا اور “حدیث کی مخالفت” کا دوش پوری قوت سے آیا۔ اس کے نتیجے میں، احناف دفاعی حالت میں چلے گئےاور شافعی اصول کی بنیاد پر حنفیت کا اثبات شروع کر دیا۔ نیازی صاحب اس امکان کی طرف اشارہ فرماتے ہیں کہ علامہ سرخسی کی قید وبند کی صعوبتیں اسی سیاسی تناؤ کی کڑی ہوں۔[2] بہر کیف، احناف کے فقہ اور اصول میں دوری کی یہ ایک تاریخی وجہ ہے اور نیازی صاحب نے محض سرسری بات کی اور تاریخی طور سے ، اس کے درست ہونے کے لیے جس تحقیق کی ضرورت ہے، اس کی طرف توجہ نہیں کی۔ اور غالبا یہ ان کا موضوع بھی نہیں ۔
نیازی صاحب نے ، “تھیوریز” سے متعلق اپنےنقطہ نگاہ کے بیان کا آغاز اس شکوے سے کیا کہ امام ابو حنیفہ اور حنفی مکتب فکر ماضی میں زیر عتاب آئے اور اس نظام کی ناقدری کی گئی۔ اس ناقدری کا اثرگولڈزیہر جسے مغربی مفکرین پر بھی پڑا اور انہوں نے بھی احناف کو اسی اثر کے تحت دیکھا اور پیش کیا۔ نیز حنفی منہج پر روشنی ڈالتے ہوئے نیازی صاحب شاخت کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے امام شافعی صاحب کے طریقے کو بہتر واولی گردانا اور یہی بات ان سے پہلے گولڈزیہر نےکہی۔ لیکن نیازی صاحب کی اس پر تنقید یہ ہے کہ ان لوگوں نے حنفی نظام کو شافعی عینک سے دیکھا اور یہ درست طریقہ نہیں۔[3]
اس گفتگو کی جڑیں ، نیازی صاحب کے مطابق، احناف کو اہل رائے قرار دینے سےملی ہوئی ہیں۔چناچہ احناف کو اہل رائے اور امام ابو حنیفہ کو اس رجحان کے نمائندہ وامام گردانا جاتا ہے۔ اس کے برعکس، امام مالک کو اہل حدیث کا امام ونمائندہ قرار دیا جاتا ہے جبکہ شافعی وحنبلی حضرات کا علمی رشتہ بھی امام مالک ہی سے جوڑا جاتا ہے۔
ظاہر ہے کہ اہل رائے اور اہل حدیث دونوں مبہم کلمات ہیں۔ علمی بحث کرتے ہوئے، یہ طے کرنا ضروری ہوتا ہے کہ کسی بھی رجحان سے وابستگی کا پیمانہ کیا ہے۔چناچہ وقت کے ساتھ، جب اس پر بحث ہونی لگی، تو واضح ہوا کہ رائے سے مراد “قیاس” ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ دیگر سنی دبستان: مالکی، شافعی وحنبلی، بھی اس کے قائل ہیں۔اس لیے، صرف اتنا ماننے سے بات مکمل نہیں ہوتی کہ وہ قیاس کے قائل تھے۔ بلکہ ٹھوس شکل میں ، مزید تفصیل سے واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ قیاس کا تصور دونوں کے ہاں کیا تھا؟ بالفاظ دگر، جب احناف قیاس کی بات کرتے تھے، تو وہ کیا مراد لیتے تھے اور جب شوافع وحنابلہ وغیرہ قیاس کا تذکرہ کرتے تھے، تو وہ کیا مراد لیتے تھے؟
اس لیے، نیازی صاحب کیا خیال ہے کہ اہل رائے اور اہل حدیث میں فرق کرنےکی بنیاد دراصل “منہج” ہے۔ چناچہ اہل حدیث کا ایک خاص منہج تھا جبکہ اہل رائے کا ایک خاص منہج تھا اور ان ہی کی بنیاد پر دونوں اصطلاحات میں فرق ہوتاہے۔ نیازی صاحب جب لفظ “تھیوری” برتتے ہیں ،اس سے یہی منہج مراد لیتے ہیں۔اور ان کے خیال میں کم از کم، تین مناہج امت میں موجود رہے:
۱: احناف کا منہج، جسے وہ قواعدی منہج سے موسوم کرتے ہیں۔ (Theory of General Principles)
۲: اہل حدیث کا منہج جسے وہ ظاہری منہج قرار دیتے ہیں۔ (Literalist Theory)
۳: مقاصدی منہج جس کی نسبت اگرچہ انہوں نے امام جوینی وغزالی کی طرف کی، لیکن اس کے ساتھ انہوں نے واضح کیا کہ یہ نسبت وقتی ہے ۔ جب تک اس منہج کی تاریخ پر مزید روشنی نہیں پڑتی، ہم اسے تسلیم کرتے ہیں۔چناچہ وہ فرماتے ہیں:
However, we have yet to see whether this was a new theory or a restatement of earlier ideas.[4]
البتہ بعد میں، انہوں نے اس منہج کا بانی بھی احناف کو قرار دے دیا۔ انہوں نے ، اسلامی قانون پر کتابوں کا ایک سلسلہ شروع کیا ہوا ہے جس کی ایک کڑی”حنفی سرحدوں کے دفاع” سے عبارت ہے۔[5] اس میں انہوں نے، اپنی تھیوریز کی کتاب کا حوالہ دے کر واضح فرمایا کہ اگرچہ اس میں انہوں نے مقاصدی نظام کا بانی جوینی وغزالی کو قرار دیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کا سراغ اس سے بھی پہلے امام دبوسی کے ہاں ملتا ہے۔اس لحاظ سے، مقاصدی نظریے کے بانی بھی حنفی ہوئے۔ آپ نے “حنفی سرحدوں کے دفاع” اور اس کی ناقدری کے جواب میں نو شعبے گنوائے جن میں احناف کی تابناک خدمات ہیں، بلکہ ان میں وہ بنیاد گزار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ان میں سے ایک شعبہ مقاصد شریعت ہے۔احناف کو مقاصد کا بانی قرار دینے کے لیے انہوں نے ثبوت کے طور پر، دومثالیں دیں:
۱: تقویم الادلہ سے علامہ دبوسی کا ایک اقتباس نقل کرتے ہیں [6] جس میں وہ “مباحات عقول” کے حوالے سے مختلف آرا نقل فرماتے ہوئے “اپنا” نقطہ نظر واضح کرتے ہیں کہ شریعت کبھی بھی حسن وقبح عقلی کے خلاف نہیں آ سکتی۔[7] اسی کے ضمن میں وہ یہ سوال اٹھاتے ہوئے کہ چیزوں میں اصل کیا ہے، چار مذاہب بیان کرتے ہیں اور علمائے احناف کا نقطہ نظر اپنی دانست میں بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ چیزوں میں اصل اباحت ہے یہاں تک کہ حرمت کی دلیل آ جائے۔اس کی دلیل، علامہ دبوسی کے مطابق، وہ آیا ت ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ یہ چیزیں ہمارے لیے بنائی گئی ہیں ۔ اسی طرح، وہ دیگر دلائل پیش کرتے ہیں جن کی بنیاد معتزلی [8]نظریہ حسن وقبح پر ہے۔ اسی کے ضمن میں وہ بتاتے ہیں کہ شریعت نے چیزوں کومحض ہماری مصلحتوں کے لیے حرام کیا اور اس کے لیے وہ طبیب ومریض کی تشبیہ بھی استعمال کرتے ہیں۔چناچہ ان کا استدلال یہ ہے کہ اگر کوئی معاملہ ہماری مصلحت کے خلاف ہے، تو شریعت اسے ضرور ممنوع قرار دے گی۔ اگر ممانعت کی دلیل نہ ملے، تو یہ اباحت کی دلیل ہے۔ اس کی تائید کے لیے سورہ انعام کی آیت سے استدلال بھی کرتے ہیں :
قُل لَّآ أَجِدُ فِي مَآ أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَىٰ طَاعِمٖ يَطۡعَمُهُۥٓ إِلَّآ أَن يَكُونَ مَيۡتَةً أَوۡ دَمٗا مَّسۡفُوحًا أَوۡ لَحۡمَ خِنزِيرٖ فَإِنَّهُۥ رِجۡسٌ أَوۡ فِسۡقًا أُهِلَّ لِغَيۡرِ ٱللَّهِ بِهِۦۚ فَمَنِ ٱضۡطُرَّ غَيۡرَ بَاغٖ وَلَا عَادٖ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٞ رَّحِيمٞ [الأنعام: 145]
اس آیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ کسی چیز کی حرمت کے جواب میں آپ کہہ دیجیے کہ: “لاأجد “(میں نہیں پاتا)۔ لیکن یہ احتجاج بلا دلیل کے قبیل سے ہے جو درست نہیں۔ لیکن قرآن کا استدلال غلط نہیں ہو سکتا۔ اس لیے، ماننا پڑے گا کہ “اباحت اصلیہ” دلیل ہے جس کے بعد، یہ اسلوب احتجاج بلا دلیل کے قبیل سے نہ رہے گا، بلکہ دلیل سے استدلال ہو جائے گا۔
۲: اسی طرح آپ نے علامہ سرخسی کا اقتباس نقل فرمایاجہاں آپ مرتد کی سزا پر گفتگوکرتے ہیں کہ کیا عورت کو ارتداد پر قتل کیا جائے گا؟ اس حوالے سے احناف کا نقطہ نظر واضح ہے کہ وہ اس کے قائل نہیں۔ اس گفتگو کے ضمن میں ، علامہ سرخسی واضح طور سے ، فرماتے ہیں کہ کافر (مرتد)کو قتل کرنے کی علت “کفر” نہیں، بلکہ “کفر پر اصرار” ہے۔ اور اس اصرار کی وجہ سے وہ “محارب” کے حکم میں ہو جاتا ہے۔ لیکن چونکہ عورت کی کاٹھی جنگ کے لیے موزوں نہیں ، اس لیے اسے قتل کی سزا نہیں دی جائے گی جو محارب کو دی جاتی ہے۔ تاہم عورت کو اس وقت تک قید رکھا جائے گا جب تک وہ توبہ کا اعلان نہ کر دے ۔ اسی کے ضمن میں علامہ سرخسی واضح فرماتے ہیں کہ اس دنیا میں جو سزائیں ہیں وہ ہماری مصلحت کے لیے ہیں۔ انسانی کا اپنا ذاتی معاملہ آخرت کے لیے ہے۔اس کے بعد، وہ حدود کی حکمتیں ایک ایک کر کے بیان کرتے ہیں۔[9]
ان دو اقتباسات کے بعد، نیازی صاحب فرماتے ہیں:
“This is explicit and it shows that the discussions about the maqasid must have reached an advanced stage before al-Ghazali took over”
[یہ بالکل صریح ہے اور اس سے واضح ہوتا ہےکہ مقاصد کی بحث، امام غزالی کے اسے لینے سے پہلے ایک ترقی یافتہ درجے تک پہنچ چکی تھی۔]
اس کے علاوہ بھی مثالیں دی جا سکتی ہیں جہاں احکام کی حکمتوں ومصلحتوں سے بحث کی جاتی ہے۔ لیکن حقیقت میں امام غزالی کے نظریہ مقاصد کو پڑھنے کے بعد، جیسا کہ انہوں نے شفا ءالغلیل میں بیان کیا اور نیازی صاحب نے تھیوریز میں اس پر اچھا لکھا، نیازی صاحب کے اس تبصرے پر انسان انگشت بدنداں رہ جاتا ہے کہ محض اتنی سی بنیاد پر احناف اور علامہ دبوسی کو نہ صرف مقاصد کا بانی قرار دے رہے ہیں، بلکہ ان میں جو بات بیان ہوئی، اسے ایک ترقی یافتہ شکل گردان رہے ہیں۔ اور اگر واقعی صرف یہ وجہ ہے تو یہ باتیں مسلم معتزلہ اور فلاسفہ کے ہاں زیادہ نکھری ہوئی شکل میں ملتی ہیں جو اس دور میں غیر مسلموں سے بحث کرتے تھے۔ بلکہ نیازی صاحب نے اس گفتگو کے آغاز میں خود بھی یہ تسلیم کیا ہے کہ : “ہو سکتا ہے کہ اس سے پہلے یہ گفتگو کہیں اور بھی ہوئی ہو۔”[10]
اس لیے، نیازی صاحب کا ان اقتباسات کی بنیاد پر احناف کو مقاصد کا تمغہ تھمانا، معاملہ کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دینا ہے جس سے اتفاق مشکل ہے۔ البتہ یہاں مقصود نیازی صاحب سے اتفاق یا اختلاف نہیں، بلکہ اس کی وجہ سمجھنا اہم ہے اور ہماری دانست میں اس کی دو وجوہ آتی ہیں:
۱: ایک وجہ وہ ہے جس سے نیازی صاحب نے تھیوریز کا آغاز کیا کہ احناف کی ناقدری ہوئی حتی کہ گولڈزیہر جیسے مفکرین بھی اس سے متاثر ہوئے۔اس لیے، نیازی صاحب اس کوشش میں ہیں کہ حنفی نظام کو سب سے برتر دکھایا جائے ۔ چناچہ نیازی صاحب نے “حنفی سرحدوں کے دفاع میں” جس طرح احناف کی فضیلتوں کا اثبات کیا ہے اس سے باقی فقہی مکاتب بہت کم تر ہو جاتے ہیں۔ ان سے اتفاق واختلاف ہونا ایک الگ موضوع ہے، لیکن نیازی صاحب اسے حقائق کی روشنی میں ایسا ہی سمجھتے ہیں (ہماری کوشش ہو گی کہ ہم نیازی صاحب کی کتابوں سے اسے مزید تفصیل سے پیش کریں۔)
۲: دوسرا ایسا کرنا نیازی صاحب کی مجبوری ہے کیونکہ ایک طرف مقاصدی کام پر غیر حنفی چھاپ ہے اور زیادہ کام بھی ادھر ہوا۔ دوسری طرف، وہ “اجتہاد نو” کے باب میں یہ مانتے ہیں کہ اب مقاصد شریعت ہی کے ذریعے “مسائل نو”میں اجتہاد ہو گا۔تیسری طرف، وہ تلفیق کے سخت مخالف ہیں۔ اس لیے، تلفیق سے بچتے ہوئے مقاصدی نظام کو (جو عام طور سے غیر حنفی سمجھا جاتا ہے) حنفی فقہ میں رہتے ہوئے برتنے کے لیے ، یہ ثابت کرنا ضروری ہے۔ (اگر اللہ تعالی نے توفیق عطا فرمائی تو اس پر روشنی ڈالی جائے گی کہ مقاصدی نظریہ اور احناف کے نظریہ قیاس کو ہم آہنگ کرنا اتنا آسان نہیں۔ )
بہر کیف، وہ یہ دکھاتے ہیں کہ مقاصد کا نظریہ اصل میں احناف کا تھا۔
نیازی صاحب کے اس نظریے پر کئی سوالات اٹھتے ہیں لیکن ہم چند کا تذکرہ یہاں کریں گے:
۱: نیازی صاحب کے مطابق کم ازکم تین نظریات امت کے سنی حلقوں میں رہے جیسا کہ اوپر گزرا اور انہوں نے تھیوریز میں دکھایا۔ لیکن بعد میں انہوں نے مقاصد کا سہرا بھی احناف کو پہنا دیا اور اسے حنفی نظام کا حصہ قرار دیا۔ اس لحاظ سے،نظریات دو ہی رہ جاتے ہیں: ایک حنفی اور دوسرا ظاہری۔ تیسرا کوئی نظام نہیں رہتا۔
۲: نیازی صاحب اس پوری گفتگو میں مالکیہ کو احناف کے ساتھ کھڑاکرتے ہیں کہ وہ بھی اسی منہج پر تھے جس پر حنفی تھی۔لیکن انہوں نے اپنی تھیوریز کی نیو اس بات سے اٹھائی کہ دراصل اہل رائے اور اہل حدیث میں فرق مناہج کا تھا اور ان کا اپنا ماننا ہے کہ امام مالک اہل حدیث کے امام تھے۔ چناچہ اگر واقعی اہل رائے اور اہل حدیث کی اصطلاحات کا فرق اتنا ٹھوس تھا کہ وہ ایک خاص منہج کی طرف اشارہ تھا ، تو امام مالک کو احناف کے ساتھ نہیں کھڑا ہونا چاہیے۔ نیز نیازی صاحب “حنفی سرحدوں کے دفاع” میں جہاں یہ واضح کرتے ہیں کہ اگرچہ غیر حنفی فقہا نے قواعدی نظام کو اپنے ظاہری نظام میں ڈھالنے کی کوشش کی لیکن یہ دونوں آپ میں مل نہیں سکتے تھے۔ وہاں نیازی صاحب مالکی فقہا کو شافعیہ وحنابلہ کے ساتھ کھڑے کرتے ہیں۔[11]
اس حوالے سے دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ نیازی صاحب کے مطابق قواعدی نظریے کو ماننے کا تقاضا ہے کہ عام کو قطعی مانا جائے۔اور “قاعدے کو زیر وزبر” ہونے سے بچانے کے لیے یہ ضروری ہے۔ اسی لیے ، جو لوگ عام کو ظنی مانتے ہیں ، ان کا قاعدہ اپنی روح سے عاری ہے۔ وہ صاف الفاظ میں فرماتے ہیں کہ جو قاعدے کی ظنی دلیل سے تخصیص کر دیتے ہیں” وہ ظاہری منہج پر ہیں” اور” وہ قانونی نظام نہیں سمجھتے ، یا شاید سمجھنا نہیں چاہتے۔ ” اور “یہ رویہ قابل قبول نہیں”[12] ۔لیکن دوسری طرف مالکی فقہ بھی عام کو ظنی مانتی ہے۔ اس لحاظ سے بھی، امام مالک کو ، امام شافعی صاحب کی طرح ظاہریہ کی طرح ہونا چاہیے۔
حقیقت میں، مالکی نظام نیازی صاحب کے نقطہ نگاہ کے لیے ایک تحدی اور چیلنچ ہے۔
۳: نیز نیازی صاحب ہمیں جو تاریخ سنا رہے ہیں اس کے مطابق احناف کا اثر شوافع پر پڑا جس کا پیوند انہوں نے شافعی نظریے میں لگایا۔ اس کے بعد، اس کا اثر احناف پر پڑا۔اور نتیجے کے طور پر،احناف نے اپنا نظام بگاڑ لیا۔
اگر اس نظریے کی معقولیت ہے تو صرف یہ ہے کہ بعد کے حنفی فقہا نے جب شوافع کے نظام کو دیکھا جو حنفی نظام کا لبادہ اوڑھ چکا تھا، توانہیں یہ “وہم” ہوا کہ یہ حنفی نظام ہی ہے اوراسے، انجانے میں اپنا لیا۔ اور نیازی صاحب نے آ کر اس حقیقت سے پردہ اٹھایا۔
لیکن نیازی صاحب کے مطابق شافعی منہج میں حنفی پیوند لگ چکا تھا بلکہ قواعد کے نظام کو ترقی دینے میں انہیں نے احناف سے بڑھ چڑھ کے حصہ لیا اور اتنی ترقی کی کہ مقاصدی نظریہ ان کے ہاں پنپا ، نیز ابن نجیم جیسے حنفی اصولی بھی ان کے خوشہ چیں ہیں۔ کیا یہ بات حیران کن نہیں کہ جس عنصر کی وجہ سے ، دھوکا کھا کر احناف نے ان کا منہج اپنایا، اسی عنصر سے بعد کے حنفی عاری ہو گئے جبکہ فقہ میں اصلی حنفیت کے دستخط برقرار تھے!شاید آپ یہ کہیں کہ “قواعد کا حجیت ہونا نہ ہونا ” وہ اثر تھا جومتاخر احناف نے ان سے لیا۔ لیکن اس کے باوجود تعجب خیزی کم نہیں ہوتی کہ جس چیز پر فقہ کھڑی تھی اوروہ احناف کا فقہ کی کتابوں میں اوڑھنا بچھونا رہا، اسی سے وہ غافل رہے۔ اسی وجہ سے نیازی صاحب کو یہ مفروضہ قائم کرنا پڑا کہ فقہ واصول فقہ کا رشتہ ٹوٹ گیا۔ نیازی صاحب نے اس میں خیال کو بہت زیادہ جگہ دی۔ لیکن ہم صرف ان باتوں پر اکتفا نہیں کریں گے بلکہ ان کے نظریے ، ان پر متفرع ہونے والے نتائج اور اس کے اثبات کے لیے “ثابت شدہ حقائق” کے استعمال پر بھی روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے اگر اللہ تعالی کا فضل شامل حال رہا۔
۴: نیازی صاحب کی فکر میں ایک غور طلب پہلو یہ بھی ہے کہ اسلامی فقہی مکاتب فکر کے حوالے سے وہ موازناتی مطالعے کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے۔ ان کے خیال میں اس سے غلط فہمی جنم لیتی ہے۔ ان کا کہنا ہے “شاید اس مطالعے سے کوئی خاص مسئلہ سمجھنے میں مدد ملے لیکن ایسے مطالعے سے وہ نظام سمجھ ہی نہیں آ سکتا “بلکہ نیازی صاحب کا کہنا ہے کہ “خاص مسئلے کا سمجھنا بھی اس طریقے سے مشکوک ہے”۔[13] لیکن دوسری طرف، مغربی قانون کا اسلامی قانون سے موازنہ ان کا خاص موضوع ہے۔ بلکہ ان کی سوچی سمجھی رائے ہے کہ وہ “کامن لا” کو حنفی نظام سے بہت قریب سمجھتے ہیں اور اصول افتا میں بیان کی گئی فقہا کی ہفتہ گانہ تقسیم اور تقلید کو مغرب کے “نظام نظیر” سے جوڑتے ہیں۔ اسی طرح، دستور پاکستان کی دفعات ۱۸۹ و۲۰۱ کو، جو بالترتیب عدالت عظمی اور عدالت عالیہ کے فیصلوں کو متعلقہ زیریں عدالتوں کے لیے حجت قرار دیتی ہیں، اسی تناظر میں قرار دیتے ہیں۔[14] (ہماری دانست میں نیازی صاحب کی اسلامی فقہی واصولی آرا کے مطالعے میں فقہ اسلامی کے طالب علم کو اس حوالے سے بہت احتیاط کی ضرورت ہے)
نیز جامعہ عالمیہ اسلامیہ میں طلبہ کو شرعی ومغربی قانون دونوں پڑھائے جاتے ہیں۔ خدا جانے نیازی صاحب اگر تقابلی مطالعے کو اتنا مضر سمجھتے ہیں ، تو جامعہ اسلامیہ کی تعلیم کے حوالے سے کیا رائے رکھتے ہوں گے!
اگر نیازی صاحب کا مقصود یہ ہے کہ کسی بھی ایک دبستان کو الگ پڑھا جائے جیسا کہ مدارس میں پہلے متون پڑھائے جاتے ہیں، اس کے بعد طلبہ آگے بڑھتے ہیں، تو یہ محض تعلیمی حکمت عملی اور اس میں تدریج کا اصول ہے۔ اس میں کوئی اشکال نہیں۔ لیکن یہ ان کی رائے معلوم نہیں ہوتی کیونکہ نیازی صاحب کے مطابق ایسے موازناتی مطالعے سے نظام واضح نہیں ہوتا ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کی تعلیمی تاریخ نیازی صاحب کے اس تجزیے کا ساتھ نہیں دیتی ۔وہ ہمیں بتاتی ہے کہ اسلامی علوم میں موازناتی مطالعے کے بغیر مختلف انظمہ کے فرق کا صحیح ادراک نہیں ہوتا کیونکہ یہ سب کے سب ایک ہی منبع سے پھوٹے، ان کے ہاں کئی مصادر میں بھی اتفاق پایا جاتا ہے، نیز انہوں نے مشترکہ سوالات کے جوابات میں اپنے اپنے نظام ہائے فکر بنائے۔ مثلا، قیاس کی حجیت کے اہل سنت قائل ہیں۔ لیکن جہاں وہ منکرین قیاس کے جوابات دیتے ہیں، وہاں قیاس کا اصل تصور واضح ہوتا ہے۔ نیز طالب علم کو معلوم ہوتا ہے کہ فقہاجب یہ بات کہتے ہیں کہ: “ظنیت کافی ہے”، نیز “قیاس مظہر ہے، مثبت نہیں” تو وہ کیا تناظر تھا جس میں امور طے کئے گئے۔ اختصار وتفصیل میں اختلاف ہو سکتا ہے لیکن تقابلی مطالعہ ہی علم کی کنجی ہے۔ ہماری تاریخ میں فقہ کی تعلیم، بالکل بنیادی تعلیم کے استثنا کے ساتھ(جسے متون ظاہر کرتے ہیں)ہمیشہ موازناتی مطالعے پر مبنی رہی ہے۔ حقیقت امر یہ ہے کہ اس تقابل میں جب جوابات دیے جاتے ہیں ان سے نظام ہائے فقہ پر زیادہ واضح روشنی پڑتی ہے بر خلاف ان کتابوں کے جو محض ایک فقہی نظام کو مستقل بیان کر دیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی عربی اور ایک یا دو متون پڑھ لینے کے بعد علامہ شامی کےحاشیہ وغیرہ کو پڑھے، تو اسے یہ کتابیں اوپری لگیں۔ لیکن جو لوگ متون(قدوری، کنز الدقائق وغیرہ)، اس کے بعد شروح (شرح وقایہ وہدایہ) کی راہ سے ہو کر آتے ہیں، ان کے لیے یہ کتابیں اللہ تعالی کاحکم دریافت کرنے کے لیے ان کے مصنفین کی طرف سے بہت بڑا احسان ہیں۔
اگرچہ ہم نے یہاں فقہ پر گفتگو کی، ورنہ باقی اسلامی علوم میں بھی یہی معاملہ ہے۔ علم نحو میں اہل کوفہ اور اہل بصرہ کے اختلافات سے بہت سے مباحث کی معقولیت سمجھ آتی ہے۔
۶: نیز نیازی صاحب کا یہ تھیسز جس میں انہوں نے “حنفی نظام کی ناقدری” کو قدردانی سے بدلنے کی کوشش کی، اسلامی تاریخ کی بابت بہت منفی تاثر پیدا کرتا ہے۔ نیازی صاحب کے ان نظریات کو پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ احناف کے ابتدائی ائمہ کے علاوہ جو قانونی شخصیات آئیں ، ان میں اتنی قانونی ذہنی صلاحیت ہی نہ تھی کہ وہ نظاموں میں اختلاف کے نتائج کا پوری طرح ادراک کر سکیں اور نتیجہ کار انہوں نے نظاموں کو گڈ مڈ کر دیا۔ ظاہر ہے کہ چند جزئی مسائل میں غلط فہمی ایک الگ معاملہ ہےکہ اتنے وسیع وعریض قانون میں ایسا ہونا بالکل قرین قیاس ہے جیسا کہ ابن نجیم اور ان کے پیروی میں علامہ شامی نے بعض مسائل میں دکھایا کہ بڑے بڑے حنفی ائمہ نے غیر حنفی مذہب کو حنفی مذہب قرار دے دیاجس میں شاتم رسول کی سزا ایک مثال ہے اور وہ بھی علامہ شامی کی تحقیق کے مطابق۔ لیکن پورے قانونی نظام کی بنیاد ہی میں اتنا بڑی غلطی تسلیم کرنا محل نظر ہے۔ بہر کیف،ہم یہ نہیں کہتے کہ صرف اس بنیاد پر ان کی رائے مستردکی جائے۔ بلکہ ان کے اثباتی دلائل اوران کے تجزیہ کامعروضی مطالعہ ہونا ضروری ہے۔
یہاں اس بات کی طرف اشارہ ضروری ہے کہ امام شافعی صاحب کو ظاہری رجحان کا حامل قرار دینے کو نیازی صاحب ان کی عبقریت قرار دیتے ہیں۔ ان کا دانست میں ، امام شافعی صاحب نے دین کے غیر متبدل حصے کی حفاظت کا بیڑا اٹھایا تھااور اس کے لیے اصول وضع کیے۔اس کے پیچھے، دین کو متبدل وغیر متبدل حصوں میں تقسیم ایک مخصوص تصور کے تحت،کارفرما ہے۔اور یہ موضوع خود محتاج تجزیہ ہے۔
۷: نیازی صاحب کا یہ کہنا ہے کہ علامہ سرخسی “بڑی حد” تک حنفی نظام پر قائم رہے۔ اس سے ایک امر واضح ہے کہ ان کے مطابق اس “تبدیلی” کا اثرات علامہ سرخسی پر پڑنا شروع ہو گئے تھے۔ لیکن اس سےبڑا مسئلہ یہ ہے کہ نیازی صاحب کے مطابق فقہ پر شافعی اثرات نہیں پڑے، بلکہ اصول وقواعد پر پڑے۔ دوسری طرف، علامہ سرخسی نے اصول فقہ پر جو کام کیاوہ اپنے روح، ساخت اور مندرجات میں کسی بھی طرح بعد کے کاموں سے مختلف نہیں۔ بلکہ علامہ سرخسی وبزدوی کا طریقہ اور مندرجات ہی ہمیں بعد میں نظر آتے ہیں ۔ اگرچہ وہ اجمال وتفصیل میں فرق رکھتے ہوں، لیکن وہ ان سے کوئی جوہری فرق نہیں رکھتے۔بالکل حقیقت میں اگر یہ دیکھا جائے کہ علامہ جصاص جسے خود “فصول فی الاصول” کہہ کر اصول فقہ شمار کر رہے ہیں، وہی روایت آگے چلتی ہے۔ اس لیے، نیازی صاحب کی رائے کو درست سمجھنے کے نتیجے میں ہمیں ماننا پڑے گا کہ احناف کے ہاں “اصول فقہ” کے عنوان کے تحت کبھی حقیقی اصول وجود ہی نہیں آئے جو اصل میں کرخی ودبوسی رحمہ اللہ تعالی کے قواعد سے متعلق کاموں میں گندھے ہوئے تھے۔ ظاہر ہے کہ صرف یہ کہہ دینے سے کہ نیازی صاحب احناف کی فقہ کی کتابوں کو “اصول فقہ” قرار دیتے ہیں، بات بنتی نہیں کیونکہ استنباط کے حوالے سے جو قواعد حنفی ائمہ نے برتے، وہ ان کی منقول آرا میں براہ راست مذکور نہیں، بلکہ بعد والوں نے کشید کیے ہیں(اور اسے ہی نیازی صاحب حنفی نظام کی اصلی قوت قرار دیتے ہیں ان کے لوگوں کے جواب میں جو اسی بنیاد پر شافعی نظام کو بڑا قرار دیتا ہے) اور ان کے بغیر احناف کا اصولی نظام سمجھا ہی نہیں جا سکتا۔ اسی وجہ سے، نیازی صاحب کے نظریے پر یہ سوالیہ نشان بھی باقی ہے کہ اصول کی کتابوں میں جہاں حجج شرعیہ کی گفتگو ہوتی ہے، وہاں “قواعد” کو نہیں بیان کیا جاتا۔واضح رہے کہ یہاں یہ نہیں کہا جا رہا کہ حنفی نظام میں قواعد خود حجت نہیں۔ یہ الگ موضوع ہے۔ بلکہ صرف یہ واضح کرنا ہے کہ جن حضرات کو نیازی صاحب حنفیت میں معیاری گردانتے ہیں،ان میں سے جنہوں نے اصول فقہ کے تحت جو لکھا، وہ ان کے اپنےپیمانے کے مطابق احناف کی نمائندگی کرتے دکھائی نہیں دیتے۔
[1] مالکیہ کے حوالے سے ان کے نقطہ نظر میں اضطراب ہے کہ وہ ایک طرف انہیں احناف کے ساتھ جگہ دیتے ہیں، لیکن شوافع کے حوالے سے جو بنیاد بناتے ہیں اس کے مطابق مالکیہ کو شافعیہ کے ساتھ آنا چاہیے۔ اس تحریر کے اخیر میں اس پر گفتگو آئے گی ان شاء اللہ تعالی۔
[2] Defending the Frontiers of the Hanafi School, p7 – 8, 37, 40
[3] Theories of Islamic Law, p158, 2014.
[4] Ibid, p156.
[5] اس کتاب کی تصنیف میں ان کے ساتھ “محمد ابراہیم عبد اللہ خان نیازی” صاحب بھی شریک ہیں۔ ہمارا غالب گمان ہے کہ وہ ان کے صاحب زادے ہیں۔
[6] «تقويم الأدلة في أصول الفقه» (ص459)
[7] نیازی صاحب نے صرف ایک ٹکڑے کا ترجمہ دیا ہے۔ لیکن ہم یہاں اس کے سیاق وسباق کو واضح کریں گے کیونکہ ہم نیازی صاحب کے اس استدلال پر تبصرہ کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے ضروری ہے کہ قاری کے سامنے ان اقتباسات کا سیاق وسباق ہو۔
[8] اگرچہ ماتریدیہ کا نظریہ بھی یہی ہے کہ اشیا میں حسن وقبح ہوتا ہے لیکن اس کی تطبیق میں وہ بہت محدودیت رکھتے ہیں۔ بلکہ علامہ ابن الہمام نے دکھایا کہ وہ ایک یا دو مسائل سے آگے نہیں بڑھتے۔ لیکن علامہ دبوسی نے اس میں جس قدر توسع کیا ہے، وہ ماتریدی حضرات سے جوڑ نہیں کھاتا۔ مجھے تسلیم ہے کہ یہ درجے کے اختلاف ہے، نہ کہ ایک کیٹیگری گا کہ ماتریدی بھی اسے مانتے ہیں۔ لیکن زیر بحث موضوع میں جو توسع ہے، اسے بعد کے ماتریدی حضرات نے عام طور سے تسلیم نہیں کیا۔
[9] «المبسوط للسرخسي» (10/ 110)
[10] Defending the Frontiers of the Hanafi School, p71
[11] Ibid, p40
[12] Ibid, p41 – 43.
[13] Theories of Islamic Law, p130.
[14] Defending the Frontiers of the Hanafi School, p99.