اب تک کی بحث میں غلطی کہاں سے لاحق ہوتی ہے؟
ہمارے فاضل دوست پچھلے کچھ عرصے سے مسلسل یہ دکھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ حنفی منہج کی جو منفرد خصوصیات ہیں، جیسے قواعدِ فقہیہ کی مرکزی حیثیت یا استحسان کا اصول، تو یہ شافعی منہج میں بھی پائی جاتی ہیں۔ اب ایک تو ان پر لازم ہے کہ صرف یہ دکھانے پر اکتفا نہ کریں کہ جو کچھ یہاں پایا جاتا ہے، وہی کچھ وہاں بھی پایا جاتا ہے، بلکہ آگے بڑھ کر یہ بھی دکھائیں کہ پھر دونوں مناہج کا جوہری فرق کیا ہے؟ یا ان میں جوہری فرق ہے بھی یا نہیں؟ کیا حنفی و شافعی اصولوں کا فرق بس اتنا ہی ہے جتنا امام ابوحنیفہ و امام ابو یوسف یا امام محمد کے اصولوں کا فرق ہے؟
قانون کے مکاتبِ فکر کے اصولی مناہج کو سمجھنے کا یہ طریقہ یکسر غلط اور غیر مفید ہے کہ الگ الگ جزئیات کا تقابل کرکے دیکھا جائے کہ یہ کچھ یہاں ہے، تو کیا وہاں بھی ہے یا نہیں؟ ایک تو اس پر نظر رکھنی ضروری ہوتی ہے کہ جو کچھ یہاں ہے، کیا وہ کچھ وہاں اسی صورت میں ، اسی مرتبے پر اور ترتیب سے ہے یا نہیں؟اور دوسرے، یہ دیکھنا ضروری ہوتا ہے کہ ایک منہج کی کلی تصویر کیا بنتی ہے اور پھر اس کا موازنہ دوسرے منہج کی کلی تصویر کے ساتھ کیا جائے تو کچھ فائدہ ہوسکتا ہے، ورنہ الگ الگ اصولوں پر گفتگو سے کبھی حقیقی اتفاق یا اختلاف تک پہنچا نہیں جاسکتا۔ اس دوسری بات کی حقیقت جانچنی ہو، تو مصطفی سعیدالخن کی کتاب “اثر الاختلاف فی القواعد الاصولیۃ فی اختلاف الفقہاء ” کو دیکھ لیجیے۔ اس لحاظ سے وہ ایک اچھی کتاب ہے کہ اس نے فقہاے کرام کے اختلاف کی اصولی بنیادوں پر غور کی طرف توجہ دلائی ہے لیکن چونکہ وہ اصولوں کو الگ الگ کرکے دیکھتے ہیں، تو جامع تصویر نہیں بن پاتی، اور بہت سی الجھنیں رہ جاتی ہیں۔
چنانچہ ہمارے نزدیک سوال یہ نہیں ہے کہ امام شافعی یا شافعی فقہاے کرام کے ہاں قواعد فقہیہ کا استعمال نظر آتاہے یا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ وہ قواعدِ فقہیہ کو کیسے برتتے ہیں اور دوسرے اصولوں، بالخصوص خبر واحد، کے ساتھ قواعدِ فقہیہ کے تعلق کو ان کے اصولی نظام میں کیا جگہ دی گئی ہے۔ یہ بھی نوٹ کیجیے کہ “قواعدِ فقہیہ” اور “قواعدِ اصولیہ” کی تراکیب شافعی فقہاے کرام کے اثر سے احناف کے ہاں رائج ہوئی ہیں، ورنہ پہلی پانچ صدیوں کا حنفی ذخیرہ دیکھ لیجیے، تو آپ کو “اصل” اور “اصول” ہی ہمارے ہاں نظر آئیں گے۔ “اصول الکرخی” یا دبوسی کی “تاسیس النظر” ہی دیکھ لیجیے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان دونوں کتابوں میں آپ کو دونوں طرح کے اصول نظر آئیں گے: وہ بھی جنھیں شافعیہ اور متاخرین حنفیہ نے قواعد اصولیہ کہا اور وہ بھی جنھیں انھوں نے قواعدِ فقہیہ کہا۔ خیر، یہ کہانی پھر سہی!
پچھلے مضمون میں ہم نے واضح کیا تھا کہ ہمارے نزدیک قاعدہ فقہیہ، خواہ نص میں مذکور ہو یا اسے مختلف نصوص یا نظائر سے مستنبط کیا گیا ہو، عام کی طرح قطعی دلالت رکھتا ہے اور اس وجہ سے وہ خبرِ واحد کے ذریعے تخصیص قبول نہیں کرتا، جبکہ امام شافعی کے نزدیک ایک تو عام کی دلالت ظنی ہے اور پھر ان کے نظام میں خبرِ واحد کو بنیادی حیثیت حاصل ہےجس کی وجہ سے قاعدہ فقہیہ ان کے نظام میں کچھ خاص حیثیت نہیں رکھتا۔ مناہج کے اس فرق کی چند مثالیں بھی ہم نے دی تھیں۔ اس کے باوجود ہمارے فاضل دوست یہ اصرار کررہے ہیں کہ امام شافعی کی کتاب “الرسالۃ” میں “الخراج بالضمان” کا ذکر ملتا ہے۔ یہ استدلال ہمارے لیے حیران کن ہے اور اس کی غلطی ہم آگے واضح کریں گے، لیکن اس سے زیادہ حیران کن ہمارے فاضل دوست کا یہ استنتاج ہے کہ عام کے قطعی یا ظنی ہونے سے قاعدہ فقہیہ کے مقام اور حیثیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا! جو مثالیں ہم نے پیش کیں، ان کو انھوں نے بالکل ہی نظرانداز کردیا؟ چاہیے تو یہ تھا کہ وہ ان مثالوں پر گفتگو کرکے واضح کرتے کہ ان مثالوں میں حنفی و شافعی مواقف کے فرق میں عام کو قطعی یا ظنی ماننے کا کوئی اثر نہیں ہے۔ اس کے بجاے وہ “الرسالۃ” سے “الخراج بالضمان” کی مثال لارہے ہیں، حالانکہ اس مثال کا بھی وہ تفصیلی تجزیہ کرتے، تو انھیں واضح طور پر وہ حقیقت نظر آجاتی جو ہم نے دونوں مناہج کے فرق کے متعلق پچھلی پوسٹ میں واضح کی تھی، یعنی حنفی منہج میں قاعدہ فقہیہ کو بنیادی اور قطعی حیثیت حاصل ہے اور اس کی روشنی میں خبر واحدکی تاویل کی جاتی ہے، خواہ وہ خبرِ واحد اصول حدیث کی رو سے صحیح ہو، جبکہ شافعی منہج میں خبرِ واحد کو بنیادی حیثیت حاصل ہے اور قاعدہ فقہیہ اس کے سامنے نہیں ٹھہر سکتا۔ ہمارے فاضل دوست سے قبل ایک اور محترم مفتی صاحب نے مالکی منہج کی مثال دیتے ہوئے ذکر کیا تھا کہ وہ بھی تو عام کو ظنی مانتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کے ہاں قواعد کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ یہ وہی بات ہوئی جس کی طرف اوپراشارہ کیا گیاکہ الگ الگ اصولوں کو دیکھنے اور کلی تصویر کو نظرانداز کرنے سے کبھی منہج کا درست فہم حاصل نہیں ہوسکتا۔ باقی باتیں ایک طرف، کیا مالکی نظام میں خبرِ واحد کو وہی حیثیت حاصل ہے، جو شافعی نظام میں ہے؟
ہمارے فاضل دوست نے یہ بھی قرار دیا کہ ہمارے نزدیک قاعدہ فقہیہ کی حیثیت بس حکم کی ہے، اور پھر اس اضافہ کرتے ہوئے فرمایا کہ زیادہ سے زیادہ ایسا حکم جو عمومی نوعیت کا ہو۔ یہ ہمارے موقف کو شافعی چشمہ لگا کر دیکھنے کا اثر ہے۔ اگر فی الحال ہم حکم کے متعلق حنفی و شافعی مناہج کے فرق کو نظر انداز بھی کرلیں، اور یہ مان بھی لیں کہ ہمارے موقف کی رو سے قاعدہ فقہیہ ایک عام حکم ہے، تو سوال یہ ہے کہ عام سے ہمارے نظام میں مراد کیا ہے؟ اگر عام قطعی ہے اور قاعدہ فقہیہ اسی بنا پر ایک ایسا عام حکم ہوا جو قطعی ہے، تو پھر ہمیں نئے مسائل کےلیے کسی معین دلیل تفصیلی کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی کیونکہ وہ قاعدہ فقہیہ کے تحت آتے ہیں۔ چونکہ دلیل تفصیلی کے تصور پر اور فقہ کی تعریف میں اس کی قید لگانے کے نتائج پر پہلے ہی ہم مفصل توضیح دے چکے ہیں، اس لیے اس نکتے پر مزید بات کی ضرورت نہیں ہے، لیکن اس پہلو کو سامنے لانا اس لیے ضروری تھا کہ ہمارے فاضل دوست نے جس طرح ہمارا موقف پیش کیا تھا، اس سے غلط فہمی پیدا ہوتی ہے۔
ان تمہیدی نکات کے بعد اب ہم دیکھتے ہیں کہ امام شافعی اپنے اصولی نظام کی رو سے الخراج بالضمان کو کیسے دیکھتے ہیں اور کیسے وہ خبرِ واحد کے ذریعے قاعدے میں چھید کرتے ہیں، جبکہ حنفی نظام اس کے خلاف جانے والی خبرِ واحد کی تاویل میں کیسے قاعدے کی روشنی میں کی جاتی ہے؟
الخراج بالضمان کے متعلق امام شافعی کا منہج
امام شافعی نے “الرسالہ” میں دو مقامات پر الخراج بالضمان کی روایت پر بات کی ہے۔ ایک مقام پر پوری روایت ذکر کی ہے اور دوسرے مقام پر اس کا حوالہ دے کر اس پر بحث کی ہے۔ ہمارے فاضل دوست نے اسی دوسرے مقام پر کی گئی گفتگو کا خلاصہ پیش کیا ہے۔امام شافعی نے اپنی ایک اور کتاب “اختلاف الحدیث” میں اس روایت کے ساتھ متعلق ایک اور اہم روایت پر بھی گفتگو کی ہے لیکن بوجوہ ہمارے فاضل دوست نے اس کی طرف توجہ نہیں کی، حالانکہ اس مقام پر کی گئی گفتگو سے ہی پوری تصویر سامنے آتی ہے۔ پہلے “الرسالہ “کے دونوں مقامات پر بات کرتے ہیں۔
“الرسالہ” کے باب “الحجۃ فی تثبیت خبر الواحد” میں وہ مخلد بن خفاف کی روایت ذکر کرتے ہیں جو کہتے ہیں کہ میں نے ایک غلام خریدا اور اس سے فائدہ اٹھایا لیکن پھر مجھے اس میں عیب نظر آیا تو میں نے جناب عمر بن عبد العزیز کے سامنے شکایت پیش کی، جنھوں نے یہ فیصلہ دیا کہ میں غلام واپس کردوں اور اس سے جو فائدہ اٹھایا ہے وہ بھی واپس کردوں۔وہ کہتے ہیں کہ جب میں نے اس فیصلے کا ذکر جناب عروہ بن زبیر سے کیا تو انھوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ذکر کی کہ: الخراج بالضمان (فائدے کا انحصار نقصان کی ذمہ داری اٹھانے پر ہے۔) جب یہ روایت جناب عمر بن عبد العزیز کے سامنے ذکر کی گئی، تو انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کے فیصلے کے بعد وہ اپنا فیصلہ تبدیل کرتے ہیں۔ چنانچہ انھوں نے وہ فائدہ واپس جناب مخلد کو لوٹا دیا۔ یہاں ایک تو باب کے عنوان پر توجہ کریں، تو معلوم ہو کہ امام شافعی یہاں الخراج بالضمان کو “قاعدہ فقہیہ” کی حیثیت سے نہیں، بلکہ حدیثِ رسول ﷺ کی حیثیت سے پیش کررہے ہیں، جو اگرچہ خبرِ واحد ہے لیکن اس کی حیثیت امام شافعی کے نظام میں فیصلہ کن ہے۔
اس روایت میں کیا اصول طے کیا گیا ہے جس کی روشنی میں جناب عمر بن عبد العزیز کا فیصلہ غلط تھا اور اس وجہ سے انھوں نے اسے تبدیل کرلیا؟ جناب عمر بن عبد العزیز نے جب فیصلہ دیا کہ جناب مخلد غلام واپس کرسکتے ہیں، تو اس کا مطلب یہی تھا کہ خرید و فروخت کا معاملہ منسوخ ہوگیا ہے اور خریدار خریدا ہوا مال واپس کردے، جبکہ فروخت کنندہ اس کا وصول شدہ ثمن لوٹا دے، لیکن سوال یہ تھا کہ اس دوران میں اس مال سے خریدار نے کچھ فائدہ بھی اٹھایا ہے، تو کیا وہ خریدار کی ملکیت میں شمار کیا جائے گا یا اسے فروخت کنندہ کو لوٹانا ہوگا؟ جناب عمر بن عبد العزیز نے فیصلہ یہ دیا کہ یہ فائدہ فروخت کنندہ کا حق ہے لیکن سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے معلوم ہوا کہ یہ فائدہ خریدار کا حق ہے کیونکہ اگر خریدار مال واپس نہ کرتا اور اسے نقصان ہوا ہوتا تو اس کی ذمہ داری اسی پر عائد ہونی تھی، چنانچہ اسی ذمہ داری کی بنا پر یہ فائدہ اس کا حق ہوا۔
الرسالہ میں دوسرے مقام پر امام شافعی نے اس روایت کا یہی مفہوم طے کیا ہے اور اس اصول کو مانا ہے اور اسی پر بنا کرتے ہوئے کئی مثالیں دی ہیں۔ ہم ان مثالوں کا تجزیہ نہیں کرنا چاہتے کیونکہ اس طرح بات بہت زیادہ پھیل جائے گی لیکن اتنا اشارہ ضرور دینا چاہیں گے کہ یہ ساری مثالیں قیاسِ علت کی نہیں، بلکہ لغوی بنیاد پر حکم کی توسیع کی ہیں۔ تاہم اس پہلو کی تفصیل ہم الگ سے بیان کریں گے۔ اس وقت اس پر فوکس کیجیے کہ امام شافعی نے حدیث، جو کہ خبرِ واحد ہے، کے الفاظ کی توسیع کرکے کئی دیگر مثالوں پر ان کا اطلاق کیا ہے۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اسے قاعدہ فقہیہ کے طور پر اسی طرح برت رہے ہیں، جیسے حنفی نظام میں قاعدہ فقہیہ برتا جاتا ہے؟ اس سوال کا جواب قطعی طور پر نفی میں ہے اور اس کی وضاحت اس تیسرے مقام سے ہوجاتی ہے جہاں امام شافعی نے اس حدیث پر بات کی ہے۔
یہ تیسرا مقام ان کی کتاب اختلاف الحدیث میں ہے۔ یہاں امام شافعی وہ حدیث لے آتے ہیں جو “حدیث المصراۃ” کے عنوان سے مشہور ہے۔ یہ حدیث سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اور اس میں قرار دیا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص گائے یا اونٹ خرید لے اور پھر دودھ کی کمی کی بنا پر اسے واپس کرنا چاہے تو وہ واپس کرسکتا ہے لیکن ساتھ ہی وہ ایک صاع کھجور بھی دے۔ اب بظاہر اس روایت اور الخراج بالضمان والی روایت میں تعارض ہے کیونکہ وہاں یہ قرار دیا گیا تھا کہ غلام سے جو فائدہ خریدار نے اٹھا لیا وہ ضمان کے مقابل میں تھا، اس لیے وہ اس کے عوض میں کچھ نہیں دے گا؛ جبکہ یہاں یہ قرار دیا گیا ہے کہ چونکہ اس نے اس دوران میں دودھ لیا ہے، تو اس وجہ سے وہ دوسرے فریق کو ایک صاع کھجور دے۔ تاہم امام شافعی قرار دیتے ہیں کہ ان دو حدیثوں میں تعارض نہیں ہے اور یہ کہ اس دوسری حدیث میں ایک اضافی بات ہے جو پہلی والی حدیث میں نہیں ہے؛ تو جہاں تک دونوں حدیثوں کا اتفاق ہے، وہاں دونوں پر عمل ہوگا (یعنی خریدار گائے یا اونٹ کو بھی غلام کی طرح واپس کرسکتا ہے اور فروخت کنندہ اسے ثمن واپس کرے گا)، اور جہاں اس دوسری حدیث میں اضافہ ہے، وہاں اس پر عمل ہوگا (یعنی گائے اور اونٹ کےلیے یہ حکم ہوگا، لیکن غلام کے معاملے میں یہ حکم نہیں ہوگا):
وَحَدِيثُ الْخَرَاجِ بِالضَّمَانِ وَحَدِيثُ الْمُصَرَّاةِ وَاحِدٌ، وَهُمَا مُتَّفِقَانِ فِيمَا اجْتَمَعَ فِيهِ مَعْنَاهُمَا، وَفِي حَدِيثِ الْمُصَرَّاةِ شَيْءٌ لَيْسَ فِي حَدِيثِ الْخَرَاجِ بِالضَّمَانِ۔
اب اس پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر غلام کی طرح گائے بھی خریدار کے ضمان میں تھی ، تو اس ضمان کے مقابل میں وہ ان سے فائدہ اٹھانے کا استحقاق کیوں نہیں رکھتا تھا؟ کیا یہ الخراج بالضمان کے اصول سے انحراف نہیں ہوا؟ اس کے جواب میں اس اصول کے اطلاق سے بچنے کےلیے، یا زیادہ بہتر الفاظ میں اس حدیث کے اطلاق سے بچنے کےلیے، امام شافعی انوکھی پوزیشن لے لیتے ہیں اور قرار دیتے ہیں کہ گائے کا دودھ گائے سے الگ حیثیت رکھتا ہے اور یہ دودھ ابھی فروخت کنندہ ہی کی ملکیت میں تھا۔ واضح رہے کہ یہاں یہ بات نہیں ہورہی ہے کہ گائے الگ فروخت کی گئی اور اس کا دودھ جو پہلے سے نکال لیا گیا تھا، وہ الگ فروخت کیا گیا، بلکہ یہ بات ہورہی ہے کہ جو گائے فروخت کی گئی، اس کے تھنوں میں موجود دودھ ابھی فروخت کنندہ کی ملکیت میں ہے اور اس وجہ سے خریدار پر لازم ہے کہ اس کے عوض میں ایک صاع کھجور دے!
وَذَلِكَ أَنَّ مُبْتَاعَ الشَّاةِ أَوِ النَّاقَةِ الْمُصَرَّاةِ مُبْتَاعٌ لِشَاةٍ أَوْ نَاقَةٍ فِيهَا لَبَنٌ ظَاهِرٌ، وَهُوَ غَيْرُهُمَا، كَالثَّمَرِ فِي النَّخْلَةِ الَّذِي إِذَا شَاءَ قَطَعَهُ، وَكَذَلِكَ اللَّبَنُ إِذَا شَاءَ حَلَبَهُ، وَاللَّبَنُ مَبِيعٌ مَعَ الشَّاةِ وَهُوَ سِوَاهَا، وَكَانَ فِي مِلْكِ الْبَائِعِ۔
بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی، بلکہ آگے وہ مزید قرار دیتے ہیں کہ چاہے یہ دودھ زیادہ ہو یا کم، اس کی قیمت ایک صاع کھجور سے زیادہ ہو یا کم، ہر صورت میں ایک صاع کھجور ہی دینے ہوں گے کیونکہ یہ مقدار رسول اللہ ﷺ نے مقرر فرمائی ہے:
فَإِذَا حَلَبَهُ ثُمَّ أَرَادَ رَدَّهَا بِعَيْبِ التَّصْرِيَةِ رَدَّهَا وَصَاعًا مِنْ تَمْرٍ، كَثُرَ اللَّبَنُ أَوْ قَلَّ، كَانَ قِيمَتَهُ أَوْ أَقَلَّ مِنْ قِيمَتِهِ؛ لِأَنَّ ذَلِكَ شَيْءٌ وَقَّتَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔
اس سے معلوم ہوا کہ امام شافعی الخراج بالضمان کو بطور general principle of law نہیں مان رہے، بلکہ بطور حدیث اسے لے رہے ہیں اور اس حدیث کے ایک اور حدیث کے ساتھ کے ظاہری تعارض کو رفع کرنے کےلیے لغت و بیان کے وہی طریقے اختیار کررہے ہیں جو دو عبارتوں کے درمیان رفع تعارض کےلیے اختیار کیے جاتے ہیں اور وہ مسلسل یہ کوشش کررہے ہیں کہ دونوں حدیثوں کے لفظ پر عمل ہو، قطع نظر اس سے کہ قانون کے عمومی اصولوں (قواعدِ فقہیہ) کا تقاضا کیا ہے؟ کیا اب بھی ہمارے فاضل دوست کےلیے یہ بات سمجھنے میں دقت ہوگی کہ ہم کیوں امام شافعی کے اصولی منہج کو theories of literal interpretation میں شمار کرتے ہیں، نہ کہ theories of general principles میں؟
اگر اب بھی کچھ شک باقی ہے، تو ہم اس مسئلے پربعض دیگرمناہج کا نقطۂ نظر بھی مختصرا پیش کرتے ہیں اور اس کے بعد ہم حنفی منہج کی رو سے اس مسئلے کا تجزیہ کریں گے تاکہ نہ صرف یہ معلوم ہو کہ امام شافعی کے منہج اور حنفی منہج میں فرق کیا ہے، بلکہ یہ بھی واضح ہو کہ اہل ظاہر اور اہل راے کی تقسیم میں وہ لکیر کے کس طرف کھڑے ہیں؟
الخراج بالضمان اور حدیث المصراۃ کے متعلق تین دیگر مواقف
سب سے پہلے ہم امام ابن حزم ظاہری کا موقف دیکھیں گے، اس کے بعد طبقۂ اہل حدیث سے تعلق رکھنے والے مشہور امام ابن قتیبہ کا موقف پیش کریں گے اور پھر قاضی ابن رشد کا تجزیہ پیش کریں گے ، وباللہ التوفیق۔
ابن حزم کا موقف بالکل دوٹوک اور سیدھا سادہ ہے۔ وہ ایک طرف حدیث المصراۃ کو معیار مانتے ہوئے اس کے ظاہر پر عمل کو آخری حد تک لے جاتے ہیں اور دوسری طرف الخراج بالضمان والی روایت کو فاسد اور مردود قرار دیتے ہیں لیکن دیگر نصوص کی بنا پر یہ اصول مانتے ہیں کہ اگر ضمان خریدار کا تھا، تو فائدہ بھی اس کا تھا۔ اس بظاہر دو متناقض باتوں کو یکجا کرنے سے نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ آئیے دیکھتے ہیں۔ وہ پہلے تو یہ قرار دیتے ہیں کہ اگر کوئی شے خریدی گئی اور خریداری کے وقت خریدار نے عیب سے پاک ہونے کی شرط نہیں رکھی، نہ ہی فروخت کنندہ نے اس کا عیب بتایا، اور بعد میں وہ عیب ظاہر ہوا، تو خریدار کو اختیار ہے کہ چاہے تو اسے عیب سمیت پاس رکھے اور چاہے تو سارے کا سارا سودا ختم کرکے وہ شے واپس کردے اور اس کا ثمن لے لے۔ اس کے بعد کہتے ہیں کہ تمام عیب والے اموال کا یہی حکم ہے، سواے مصراہ کے کیونکہ اس کے متعلق حدیث میں یہ حکم آیا ہے کہ اس کی واپسی کے ساتھ ایک صاع کھجور بھی واپس کرنے ہوں گے۔ اس سے آگے خود ابن حزم کے الفاظ میں دیکھ لیجیے ۔ ابن حزم کہتے ہیں:
وَإِنْ شَاءَ رَدَّهَا وَرَدَّ مَعَهَا صَاعًا مِنْ تَمْرٍ وَلَا بُدَّ. وَسَوَاءٌ كَانَتْ الْمُصَرَّاةُ وَاحِدَةً أَوْ اثْنَتَيْنِ أَوْ أَلْفًا أَوْ أَكْثَرَ لَا يَرُدُّ فِي كُلِّ ذَلِكَ إلَّا صَاعًا وَاحِدًا مِنْ تَمْرٍ، وَسَوَاءٌ كَانَ اشْتَرَاهَا بِكَثِيرٍ أَوْ بِقَلِيلٍ، وَلَوْ بِعُشْرِ صَاعِ تَمْرٍ.
(اور اگر چاہے تو اسے واپس کردے اور اس کے ساتھ ایک صاع کھجور بھی دے دے، اس کے سوا کوئی راستہ نہیں؛ اور چاہے مصراہ ایک ہو، دو ہوں، ہزار ہوں، یا اس سے بھی زیادہ، ان ساری صورتوں میں ایک صاع کھجور سے زائد نہیں دے گا؛ اور چاہے اس نے اسے ایک صاع کھجور سے زیادہ میں خریدا ہو یا کم میں، بلکہ چاہے ایک صاع کے دسویں حصے میں ہی خریدا ہو۔)
باقی رہی یہ بات کہ یہ حدیث بنیادی اصولوں کے خلاف جاتی ہے، تو ابن حزم نے اس بات کی تردید میں اپنے مخصوص شدید ترین اسلوب میں کئی صفحات لکھے ہیں، نیز وہ الخراج بالضمان کی روایت کو اس بنیاد پر مسترد کرتے ہیں کہ اس کے راوی مخلد بن خفاف مجہول ہیں۔
ظاہریت کی اس آخری حد کا موازنہ امام شافعی کے موقف کے ساتھ خود ہی کیجیے۔
ابن حزم سے کچھ درجے کم ظاہریت ابن قتیبہ (م 276ھ) کے ہاں نظر آتی ہے۔ وہ اپنی کتاب “تاویل مختلف الحدیث” میں کئی ایسی احادیث کے متعلق اپنی تحقیق بیان کرتے ہیں جن میں بظاہر تعارض نظر آتا ہے۔ کتاب میں کئی مقامات پر نام لے کر امام ابو حنیفہ پر نہایت نامناسب اسلوب میں شدید ترین تنقید کی گئی ہے، اور اہل الرائ کی مذمت تو آپ کو بہت سارے مقامات پر نظر آئے گی۔ بہرحال یہ کتاب اہل الحدیث کے نقطۂ نظر کے فہم کےلیے بہت اہم ہے۔
امام شافعی کی طرح ابن قتیبہ بھی الخراج بالضمان اور حدیث المصراۃ دونوں کو قابل اعتماد سمجھتے ہیں اور ان کے درمیان ظاہری تعارض کو رفع کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ (یہ امر بھی قابلِ توجہ ہے کہ دونوں کی کتابوں کا عنوان اور موضوع بھی یکساں ہے: اختلاف الحدیث اور تاویل مختلف الحدیث۔) مصراۃ کی واپسی کے ساتھ ایک صاع کھجور کیوں دینے ہوتے ہیں؟ ابن قتیبہ کہتے ہیں:
لِأَنَّ اللَّبَنَ الَّذِي اجْتَمَعَ فِي ضَرْعِهَا، كَانَ فِي مِلْكِ الْبَائِعِ لَا فِي مِلْكِهِ، فَرَدَّ عَلَيْهِ قِيمَتَهُ (کیونکہ اس کے تھن میں جو دودھ جمع ہوا تھا وہ فروخت کنندہ کی ملکیت میں تھا، نہ کہ خریدار کی ملکیت میں، تو وہ اس دودھ کی قیمت لوٹا رہا ہے۔)
اگر آپ کو اس موقف میں اور امام شافعی کے موقف میں کوئی فرق نظر آئے، تو مجھے ضرور مطلع کیجیے گا۔ (اس موقف پر کیا اصولی سوالات اٹھتے ہیں؟ کچھ کا اندازہ تو ابن حزم کی اوپر مذکورہ عبارت سے ہوگیا ہوگا، مزید تفصیل آگے آرہی ہے۔)
اب آئیے ابن رشد کے تجزیے کی طرف۔ (ہمارے ہاں پچھلے کچھ عرصے سے مختلف وجوہات کی بنا پر ابن رشد کا حوالہ “غزالی شکنی” کے مقصد کےلیے دیا جاتا ہے۔ ذرا ان کا فقہی اسلوب اور منہج بھی دیکھ لیجیے۔ واضح رہے کہ وہ مالکی مذہب پر تھے۔)
ابن رشد پہلے یہ بتاتے ہیں کہ امام مالک اور امام شافعی کے نزدیک جانور کے تھن میں اس طرح دودھ جمع کرنا (جسے تصریہ کہا جاتا ہے)، عیب ہے جس کی بنا پر عقدِ بیع کو ختم کیا جاسکتا ہے، جبکہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک تصریہ عیب نہیں ہے، یعنی اس کی بنا پر خریدار کو یہ حق نہیں ملتا کہ وہ عقد کو فسخ کردے۔ اس کے بعد ابن رشد یہ بتاتے ہیں کہ جو فقہاے کرام تصریہ کو عیب مانتے ہیں، وہ حدیث المصراۃ سے استدلال کرتے ہیں جس میں تصریہ کے سبب سے خریدار کو واپسی کا حق دیا گیا ہے لیکن ساتھ ہی ایک صاع کھجور دینے کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ پھر ابن رشد واضح کرتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ کیوں اس حدیث کو قبول نہیں کرتے؟ یہاں ان کی عبارت جوں کی توں نقل کرنی ضروری ہے:
قَالُوا: وَحَدِيثُ الْمُصَرَّاةِ يَجِبُ أَنْ لَا يُوجِبَ عَمَلًا لِمُفَارَقَتِهِ الْأُصُولَ، وَذَلِكَ أَنَّهُ مُفَارِقٌ لِلْأُصُولِ مِنْ وُجُوهٍ:
فَمِنْهَا: أَنَّهُ مَعَارِضٌ لِقَوْلِهِ – عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ -: «الْخَرَاجُ بِالضَّمَانِ» وَهُوَ أَصْلٌ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
وَمِنْهَا: أَنَّ فِيهِ مُعَارَضَةَ مَنْعِ بَيْعِ طَعَامٍ بِطَعَامٍ نَسِيئَةً، وَذَلِكَ لَا يَجُوزُ بِاتِّفَاقٍ.
وَمِنْهَا: أَنَّ الْأَصْلَ فِي الْمُتْلَفَاتِ إِمَّا الْقِيَمُ وَإِمَّا الْمِثْلُ، وَإِعْطَاءُ صَاعٍ مِنْ تَمْرٍ فِي لَبَنٍ لَيْسَ قِيمَةً وَلَا مِثْلًا.
وَمِنْهَا: بَيْعُ الطَّعَامِ الْمَجْهُولِ (أَيْ: الْجُزَافُ) بِالْمَكِيلِ الْمَعْلُومِ، لِأَنَّ اللَّبَنَ الَّذِي دَلَّسَ بِهِ الْبَائِعُ غَيْرُ مَعْلُومِ الْقَدْرِ، وَأَيْضًا فَإِنَّهُ يَقِلُّ وَيَكْثُرُ، وَالْعِوَضُ هَاهُنَا مَحْدُودٌ.
(حدیث المصراۃ کے متعلق حنفیہ کہتے ہیں کہ ضروری ہے کہ وہ عمل واجب نہ کرے کیونکہ وہ اصولوں کے خلاف ہے، اور اصولوں کی یہ خلاف ورزی کئی پہلوؤں سے ہے:
جن میں ایک یہ ہے کہ یہ رسول اللہ ﷺ کے ارشاد: الخراج بالضمان کے خلاف ہے، اور یہ ایسا اصول ہے جس پر اتفاق ہے؛
دوسرا یہ کہ: یہ اس اصول کے خلاف ہے کہ طعام کا طعام کے ساتھ تبادلہ تاخیر کے ساتھ نہ ہو، اور اس پر سب کا اتفاق ہے کہ یہ ناجائز ہے؛
تیسرا یہ کہ: ضائع کی جانے والی چیزوں کے متعلق اصول یہ ہے کہ یا ان کی قیمت ادا کی جائے گی، یا ان کا مثل ادا کیا جائے گا، اور دودھ کے بدلے میں ایک صاع کھجور دینا، نہ تو قیمت ہے اور نہ ہی مثل؛
چوتھا یہ کہ: یہ ایسا طعام فروخت کرنا ہے جس کی مقدار مجہول ہے کیونکہ دودھ کی مقدار جس کا فروخت کنندہ نے دھوکا دیا، معلوم نہیں ہے، اور نیز وہ کم یا زیادہ ہوسکتی ہے، جبکہ اس کے مقابل میں عوض کی حد مقرر کی گئی ہے۔)
ابن رشد کو داد دینی چاہیے کہ انھوں نے ان اصول (یا قواعدِ فقہیہ) کا بہترین خلاصہ پیش کیا جن کی خلاف ورزی حدیث المصراۃ سے ہوتی ہے۔ (اس کے علاوہ بھی کچھ اصول ہیں جن کی تفصیلی حنفیہ کے ہاں ملتی ہے۔ کچھ کا ذکر آگے آئے گا۔) اب اتنے سارے اصولوں کی خلاف ورزی کی صورت میں اس حدیث پر عمل کےلیے راہ کیا بچتی ہے؟ ابن رشد کہتے ہیں:
وَلَكِنَّ الْوَاجِبَ أَنْ يُسْتَثْنَى هَذَا مِنْ هَذِهِ الْأُصُولِ كُلِّهَا لِمَوْضِعِ صِحَّةِ الْحَدِيثِ، وَهَذَا كَأَنَّهُ لَيْسَ مِنْ هَذَا الْبَابِ، وَإِنَّمَا هُوَ حُكْمٌ خَاصٌّ.
(لیکن ضروری ہے کہ حدیث کی صحت کی وجہ سے اسے ان سارے اصولوں سے مستثنی کردیا جائے، اور یہ گویا یوں ہوگا کہ اس کا اس باب سےکوئی تعلق نہیں اور یہ خاص حکم ہے۔)
نتیجے کے اعتبار سے ابن رشد کی اس پوزیشن اور امام شافعی کے موقف میں کتنی مماثلت ہے؟ مجھے اس سےکچھ خاص دلچسپی نہیں ہے لیکن منہج کے لحاظ سے ابن رشد اور امام شافعی دو الگ مقامات پر کھڑے ہیں۔ امام شافعی کے نزدیک تو الخراج بالضمان والی حدیث اور حدیث المصراۃ میں سرے سے تعارض ہی نہیں ہے، جبکہ ابن رشد الخراج بالضمان کو باقاعدہ اصول کے طور پر مانتے ہیں اور یہ بھی مانتے ہیں کہ حدیث المصراۃ سے اس اصول کی (اور کئی دیگر اصولوں کی) خلاف ورزی ہوتی ہے، لیکن حدیث کی صحت کی بنا پر وہ اسے بطورِ استثنا مان لیتے ہیں۔ منہج کے لحاظ سے یہ طریقہ حنفی منہج کے زیادہ قریب ہے اور اسے اصولِ قانون کی اصطلاح میں analytical method کہا جاتا ہے جس کے متعلق ہم Roscoe Pound کا اقتباس نقل کرنا چاہیں گے:
Analytical method is nothing more than a logical plane which will explain as much as possible of actual legal material and indicate the remainder for logical inconsistency therewith.
بدقسمتی سے مستشرقین کے زیرِ اثر بیسویں صدی کے عرب مؤلفین اور پھر ہمارے ہاں ان کے متبعین نے اصول فقہ میں analogical reasoning پر تو پھر بھی کچھ نہ کچھ کام کیا ہے، لیکن اصول فقہ میں analytical method پر کام نہ ہونے کے برابر ہے۔ (اس نہج پر معیاری کام کےلیے صرف استاد محترم ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری اور استاد محترم پروفیسر عمران احسن خان نیازی کے کام کا ہی حوالہ دیا جاسکتا ہے۔)
آگے ہم یہ دیکھیں گے کہ حنفی فقہاے کرام کے اصولی منہج (جسے قواعدِ فقہیہ کے منہج سے تعبیر کیا جاسکتا ہے) کی رو سے الخراج بالضمان کے اصول کی کیا حیثیت ہے اور کیوں اس کے مقابل میں بطورِ استثنا بھی حدیث المصراۃ کو اس کے ظاہر پر قبول نہیں کیا جاسکتا؟
حنفی اصولی نظام میں الخراج بالضمان کی حیثیت
یہاں پہلی بات یہ سامنے آتی ہے کہ الخراج بالضمان کے اصول (یا آپ اسے قاعدہ فقہیہ کہیں) کو حنفی نظام میں مرکزی حیثیت حاصل ہے اور ان کے ہاں فقہ المعاملات کی ہر شاخ میں اسے governing principle کے طور پر مانا گیا ہے، بلکہ کسی معاملے میں ربا کی پہچان کےلیے اسے معیار اور yardstick کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ اصول ان کے لیے ایک قطعی اور مسلّمہ حقیقت کی حیثیت رکھتا ہے، جس کے خلاف جانے کا سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ قانون کی اصطلاح استعمال کروں تو یہ ایسا conclusive proof مانا جاتا ہے جس کے خلاف کوئی اور شہادت یا ثبوت دیکھنے کی عدالت کو اجازت بھی نہیں ہوتی۔ حنفی فقہ المعاملات میں اس اصول کی کارفرمائیاں قدم قدم پر نظر آتی ہیں۔ چند مثالیں یہاں پیشِ خدمت ہیں۔
امام کاسانی نے ربح کے استحقاق کےلیے تین بنیادیں ذکر کی ہیں: مال، عمل اور ضمان اور کہتے ہیں کہ مال کی بنا پر شرکہ (partnership) میں شریکوں کو ربح کا حق ملتا ہے، عمل کی بنا پر شرکۃ الاعمال میں (جیسے دو نان بائی مل کر کام کریں) شریکوں کو ربح کا حق ملتا ہے اور ضمان کی بنا پر شرکۃ الوجوہ میں (جب شرکا کے پاس مال نہیں ہوتا لیکن وہ اپنی وجاہت کی بنا پر بیع مؤجل کرتے ہوئے سودا خرید لیتے ہیں اور ہر شریک ثمن کے ایک خاص حصے کی ادائیگی کا ذمہ لے لیتا ہے)، شریکوں کو اتنا ربح ملتا ہے جتنی ثمن کی ادائیگی کےلیے ان کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ تاہم جب امام کاسانی تفصیل میں جاتے ہیں، تو کہتے ہیں کہ تنہا مال پر ربح کا حق نہیں ملتا (ورنہ پھر تو قرض دینے والے کو قرض پر سود کا حق مل جاتا) اور اس وجہ سے مضاربہ میں اگر رب المال نے یہ شرط رکھی کہ وہ خسارے کےلیے ذمہ دار نہیں ہوگا لیکن ربح میں حصے دار ہوگا، تو اسے ربح میں کچھ نہیں ملے گا، وہ صرف راس المال کا حق دار ہوگا، ربح سارا کا سارا مضارب کو جائے گا کیونکہ خسارے کی ذمہ داری اس کی طرف چلی گئی (گویا یہ مضاربہ نہیں، بلکہ قرض ہوجائے گا)۔ ہاں، اگر رب المال ربح میں حصہ چاہتا ہے، تو اسے اس مال کے خسارے کی ذمہ داری اٹھانی ہوگی، اور اس کےلیے ضروری ہے کہ آخر تک اس مال کی ملکیت اس کے پاس رہے تاکہ ضمان بھی اسی کا رہے۔ اسی بنا پر مضاربہ میں مال پر مضارب کا قبضہ امانت (ید الامانۃ) کا ہوتا ہے۔ چنانچہ تنہا مال نہیں، بلکہ ضمان المال استحقاق الربح کی بنیاد ہے۔ اسی طرح تنہا عمل پر ربح نہیں، بلکہ اجرت کا حق ملتا ہے؛ ربح میں حصے کےلیے ضروری ہے کہ مضارب اپنے عمل کا ضمان اٹھائے۔ پس عمل نہیں، بلکہ ضمان العمل ہی استحقاق الربح کی بنیاد ہے۔ اور تیسری بنیاد تو ہے ہی ضمان! پس نتیجہ یہ نکلا کہ ربح کی بنیاد ضمان ہی ہے: الخراج بالضمان۔
اس اصول کی مزید مثالیں دیکھنی ہوں، تو امام کاسانی نے واضح کیا ہے کہ شوہر پر بیوی کا نفقہ بھی اسی اصول کی بنا پر واجب ہے کیونکہ بیوی شوہر کی وجہ سے محبوس ہے اور اپنے لیے نہیں کماسکتی، تو اس کا خرچہ اٹھانا شوہر کی ذمہ داری ہے:
أن المرأة محبوسة بحبس النكاح حقا للزوج ممنوعة عن الاكتساب بحقه فكان نفع حبسها عائدا إليه فكانت كفايتها عليه كقوله صلى الله عليه وسلم: الخراج بالضمان۔
بلکہ اس پہلو سے دیکھیں، تو قاضی کی تنخواہ کا بیت المال سے ادا کرنا بھی اسی اصول کی بنا پر لازم ہے:
جعل للقاضي رزق في بيت مال المسلمين لحقهم؛ لأنه محبوس لجهتهم ممنوع عن الكسب فجعلت نفقته في مالهم وهو بيت المال۔
اسی طرح اگر زید نے بکر کے پاس مال امانتا بطور ودیعہ رکھا، تو اس کی واپسی کا خرچہ زید پر ہے، نہ کہ بکر پر؛ اس کے برعکس اگر زید نے بکر کو مال بطور اعارہ دیا، جس سے بکر فائدہ اٹھا کر اسے واپس کرے گا، تو واپسی کا خرچہ بکر پر ہوگا، نہ کہ زید پر کیونکہ جب فائدہ بکر اٹھارہا ہے، تو ذمہ داری بھی اسی پر عائد ہوتی ہے:
لأن نفعه له على الخلوص فكان رده عليه لقوله صلى الله عليه وسلم: الخراج بالضمان؛ ولهذا كانت نفقته عليه، فكذا مؤنة الرد۔
اسی طرح اگر زید نے اپنا گھر بکر کی رہائش کےلیے وقف کیا، تو اس گھر کی دیکھ بھال کا خرچہ بکر پر ہوگا، بالکل اسی طرح جیسے اگر زید نے اپنے غلام کے متعلق وصیت کی کہ وہ ایک مقررہ مدت تک بکر کی خدمت کرے گا، تو اس مدت میں اس غلام کا خرچہ بکر پر ہوگا:
ولو وقف داره على سكنى ولده، فالعمارة على من له السكنى؛ لأن المنفعة له فكانت المؤنة عليه لقوله عليه الصلاة والسلام: الخراج بالضمان؛ كالعبد الموصى بخدمته أن نفقته على الموصى له بالخدمة؛ لما قلنا۔
اس طرح کی بیسیوں مثالیں اور بھی پیش کی جاسکتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اصول حنفی نظام کےلیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔
حنفی نظام میں اس اصول کی اس حیثیت کی بنا پر حنفی فقہاے کرام کےلیے یہ سوال کوئی اہمیت نہیں رکھتا کہ مخلد بن خفاف مجہول راوی ہیں، جیسے کہ ابن حزم کہتے ہیں، یا الخراج بالضمان کے الفاظ جن روایات میں آئے ہیں، ان پر محدثین نے کیا کلام کیا ہے؟ یہ بات آج بہت سے لوگوں کو بہت عجیب لگتی ہے کیونکہ محدثین اور پھر خصوصا امام شافعی کی کاشوں سے یہ تصور راسخ ہوگیا ہے کہ حدیث کی صحت کو پرکھنے کا واحد مستند طریقہ اسناد کا ہے۔ چنانچہ آج لوگوں کےلیے یہ بات بھی حیران کن ہوتی ہے کہ بعض اوقات حنفی فقہاے کرام مرسل روایت کو قبول کرلیتے ہیں لیکن سند ا متصل روایت کی تاویل کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ ابن حزم نے اس نوع کی تنقید انتہائی شدیدالفاظ میں کی ہے اور وہ یہ ماننے کےلیے تیار نہیں ہوتے کہ حدیث المصراۃ پر الخراج بالضمان والی روایت کو کیسے ترجیح دی جاسکتی ہے؟
بات آگے مزید کھلے گی، لیکن فوری طور پر یہ ضرور نوٹ کرلیں کہ حنفی نظام میں ترجیح ایک روایت کو دوسری روایت پر نہیں بلکہ ایک اصول (قاعدہ عامہ) کو اس کے خلاف جانے والی خبرِ واحد پر دی جارہی ہے۔ گویا یہ معاملہ دو بظاہر متعارض روایات کے درمیان رفع تعارض کا بھی نہیں ہے (جو امام شافعی اور ابن قتیبہ کا زاویۂ نظر ہے) اور ان کے درمیان ترجیح کا بھی نہیں ہے (جو ابن حزم کا نقطۂ نظر ہے)، بلکہ قاعدہ عامہ اور خبرِ واحد کے درمیان تعارض کا ہے۔ حنفیہ کی طرح مالکیہ بھی اس معاملے کو قاعدہ عامہ اور خبر واحد کے درمیان تعارض کے نقطۂ نظر سے دیکھتے ہیں لیکن اس تعارض کا حل یہاں وہ یہ نکالتے ہیں کہ اس خبر واحد (حدیث المصراۃ) کو قاعدہ عامہ (الخراج بالضمان) سے استثنا قرار دیا جائے۔ حنفیہ اسے بطور استثنا بھی نہیں مان سکتے۔ اس کی وضاحت آگے آرہی ہے۔
حنفی کیوں حدیث المصراۃ کو استثنا کے طور پر بھی نہیں مان سکتے؟
امام سرخسی ابتدا میں ہی تصریح کرتے ہیں کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی جس حدیث سے امام شافعی استدلال کرتے ہیں وہ صحیح اور مشہور ہے اور اس وجہ سے امام شافعی یہ قرار دیتے ہیں کہ جب حدیث صحیح ہے تو اس کے مقابلے میں ہر قیاس متروک ہے۔ ان الفاظ کو بغور پڑھیے کہ یہ اس موضوع (قواعد فقہیہ کے ساتھ خبرِ واحد کے تعارض) پر امام شافعی کے منہج کا خلاصہ ہے:
وَبَعْدَمَا صَحَّ الْحَدِيثُ فَكُلُّ قِيَاسٍ مَتْرُوكٌ بِمُقَابَلَتِهِ۔
جیسا کہ آگے امام سرخسی واضح کریں گے ، ہمارا منہج اس کے بالکل برعکس ہے، لیکن اس مقام پر یہ بات بھی نوٹ کرلیں کہ ایسے مقام پر “قیاس” سے مراد عام فقہی اصول (جسے بعد میں قاعدہ فقہیہ کا نام دیا گیا ) ہوتا ہے۔ یہ بات بہت سارے ناقدین کو (ابن حزم سمیت) سمجھ میں نہیں آتی، اس لیے وہ اعتراض کرتے ہیں کہ حدیث کے خلافِ قیاس ہونے کا کیا مطلب ہوا جبکہ حدیث میں موجود حکم پر ہی تو قیاس کیا جاتا ہے اور اس وجہ سے حدیث کو تو قیاس کےلیے اصل کی حیثیت حاصل ہے! ہمارے فاضل دوست بھی شافعیہ اور معاصر عرب علماء کی کتب کے زیرِ اثر اس الجھن میں مبتلا ہیں۔ اس پر الگ سے تفصیلی گفتگو اپنے مقام پر آئے گی، ان شاء اللہ۔
بہرحال، یہاں بھی اگلے جملے میں امام سرخسی خود تصریح کرتے ہیں کہ قیاس سے یہاں مراد عام اصول (قواعدِ عامہ) ہیں۔ چنانچہ وہ امام شافعی کی جانب سےدلیل پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک تو حدیث اگر صحیح ہے، تو اس کا قیاس کے خلاف ہونا کوئی اہمیت نہیں رکھتا، اور پھر یہ حدیث تو اصولوں کے خلاف بھی نہیں ہے کیونکہ:
- اس حدیث میں خریدار کو خریدی ہوئی گائے یا اونٹنی واپس کرنے کا اختیار دیا گیا ہے، تو اس وجہ سے دیا گیا ہے کہ اس کے ساتھ دھوکا ہوا ہے؛
- اسی طرح تین دن کا ذکر خیارِ عیب کی مدت مقرر کرنے کےلیے نہیں، بلکہ اس لیے مقرر کی گئی ہےکہ اس دوران میں عیب معلوم ہوجاتا ہے (کہ یہ گائے ہر روز اتنا دودھ نہیں دیتی جتنا پہلے دن دیاتھا)؛
- ایک صاع کھجور دینے کا جو حکم ہے تو یہ اس دودھ کی وجہ سے ہے جو خریدار نے گائے سے لیا لیکن چونکہ اس کی مقدار معلوم نہیں ہے، اس لیے اس کا مثل دینا بھی ممکن نہیں ہے، تو اس کی جگہ کھجور دینے کا حکم دیا گیا کیونکہ دودھ اور کھجور ہی عربوں کے ہاں عام طور پر کھانے کی چیزیں تھیں، تو ایک چیز کو دوسری کے قائم مقام کردیا گیا؛
- تو اس پر زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ دودھ کی نامعلوم مقدار کے عوض ایک صاع کھجور کا دینا عام اصول کے خلاف ہے؛ اس لیے اسے ایسا سمجھا جائے کہ جیسے اس بارے میں پہلے حکم نہیں تھا اور یوں حدیث کے پہلے حصے (اسے عیب مان کر اس کی بنا پر گائے یا اونٹنی واپس کرنے کے اختیار) پر عمل باقی رہتا ہے۔
یہ آخری بات گویا امام سرخسی نے امام شافعی کی جانب سے حنفی فقہاے کرام پر یہ لازم کرنے کےلیے کہی کہ اگر تم لوگ ایک صاع کھجور والے حصے کو نہیں بھی مانتے کہ اس سے اصولوں کی خلاف ورزی ہوتی ہے، تو پہلے والے حصے پر تو یہ اعتراض وارد نہیں ہوسکتا، کم از کم اسے تو مان لو! انصاف کے ساتھ کہیے کہ کیا امام شافعی کا موقف اس سے زیادہ جاندار انداز میں پیش کیا جاسکتا ہے؟
اس کے بعد امام سرخسی نے حنفیہ کی جانب سے ان دلائل کا جواب دیا ہے اور اپنے طریقے کے مطابق سب سے پہلے اس آخری بات کو لیا ہے اور بتایا ہے کہ ہم کیوں تصریہ کو ایسا عیب نہیں مانتے جس کی بنا پر خریدار کو گائے یا اونٹنی کی واپسی کا اختیار مل جائے اور کیوں ہم اس حصے کو بھی اصولوں کے خلاف سمجھتے ہیں؟ دودھ کم دینے سے کیا، دودھ نہ دینے سے بھی گائے کا معیوب ہونا ثابت نہیں ہوتا کیونکہ یہ تو گائے کا ایک فائدہ ہے۔ پھر اگر اس نے زیادہ دودھ لینے کی غرض سے ہی خریدنا تھا، تو کیا وہ فروخت کنندہ سے پوچھ نہیں سکتا تھا؟ بھئی، خریدار نے صرف بھرے ہوئے تھن دیکھ کر کیوں یہ فرض کرلیا کہ یہ ہر روز زیادہ دودھ دے گی؟ Caveat Emptor، مشتری ہشیار باش! پھر اصولا تو زیادہ دودھ دینے کی شرط بھی اس عقد میں نہیں رکھی جاسکتی کیونکہ یہ تو غرر کی وجہ سے بیع کو فاسد کردینے والی شرط ہوجائے گی۔ پس زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ فروخت کنندہ نے یہ تاثر دیا کہ گائے زیادہ دودھ دے گی، لیکن اس بات کو عقد میں شرط کے طور پر نہیں رکھا، اور فروخت کنندہ کی جانب سے محض تاثر دینے کی بنا پر عقد ختم کرنے کا اختیار خریدار کو نہیں ملتا۔ اختیار تو اسے صرف اس صورت میں ملتا ہے جب عقد ضمان میں اسے بطور شرط رکھا جائے ۔ (عقد میں شرط کے ذریعے ایسا اختیار رکھنا، خیار الشرط کہلاتا ہے اور واضح رہے کہ تصریہ کو چونکہ حنفی عیب نہیں مانتے، اس لیے اسے خیار الشرط کے ذریعے بھی نافذ کرنے کے وہ قائل نہیں ہیں۔)
اس کے بعد امام سرخسی نے واضح کیا ہے کہ یہ حدیث کیسے قرآن و سنت اور اصولوں کے خلاف ہے؟ یہ بات بالخصوص وہ دوست نوٹ کرلیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ قولِ رسول کو اپنے مزعومہ اصولوں کی بنیاد پر ترک کیا جارہا ہے۔ امام سرخسی دکھاتے ہیں کہ اصولوں کی خلاف ورزی سے قرآن و سنت کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔چنانچہ وہ واضح کرتے ہیں کہ ضائع کی جانے والی چیز کی تلافی کےلیے قرآن و سنت نے یہ اصول دیا ہے کہ اس کا مثل لوٹا یا جائے اور جس کا مثل نہ ہو، تو اس کی قیمت دی جائے۔ تو اگر دودھ کو آپ مثلی مانتے ہیں، تو پھر قرآن و سنت کی رو سے یہ ضروری تھا کہ استعمال کیے جانے والے دودھ کا مثل لوٹایا جاتا؛ اور اس صورت میں آپ پر لازم ہوتا کہ استعمال کیے گئے دودھ کی مقدار متعین کریں؛ اور اگر آپ اسے مثلی نہیں مانتے، تو پھر قرآن و سنت کی رو سے اس کی قیمت دینا لازم تھا؛ پس دودھ کی جگہ ایک صاع کھجور کو لازم کرنا قرآن وسنت کے خلاف ہے؛ نیز اس روایت کی وجہ سے دودھ چاہے زیادہ ہو یا کم، اس کی تلافی کےلیے ایک صاع کھجور ہی کا حکم دیا گیا، جبکہ قرآن و سنت کی رو سے اصول یہ ہے کہ زیادہ مال تلف کیا جائے، تو ضمان زیادہ ہوتا ہے اور کم تلف کیا جائے تو ضمان کم ہوتا ہے۔
امام سرخسی نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ کیوں ہم اسے عام قاعدے سے بطور استثنا قبول نہیں کرسکتے؟ چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایات کے متعلق ہمارا مذہب یہ ہے کہ ان کی بعض روایات اصولوں سے ہم آہنگ ہیں، تو ان کو تو ہم قبول کرتے ہیں لیکن ان کی وہ روایات جو اصولوں کے خلاف ہیں، تو ان پر اصولوں کو تقدم حاصل ہے۔ یہ گویا اوپر امام شافعی کے بیان کردہ اصول کے 180 درجے برعکس موقف ہوا۔ اس کو امام سرخسی کے اپنے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے:
فَأَمَّا الْحَدِيثُ قُلْنَا: مِنْ مَذْهَبِنَا أَنَّهُ إنَّمَا يُقْبَلُ مِنْ أَحَادِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ مَا لَا يُخَالِفُ الْقِيَاسَ؛ فَأَمَّا مَا خَالَفَ الْقِيَاسَ الصَّحِيحَ، فَالْقِيَاسُ مُقَدَّمٌ عَلَيْهِ۔
اس کے بعد انھوں نے اس کی کئی مثالیں ذکر کی ہیں کہ کیسے بعض صحابہ نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایسی روایات کو ان کے ظاہر پر محمول نہیں کیا، جیسے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے جنازہ اٹھانے پر وضو کے متعلق ان کی روایت کے بارے میں فرمایا کہ کیا خشک لکڑیاں اٹھانے پر ہم پر وضو لازم ہوگا؟ اسی طرح آگ سے چھونے والی چیزوں سے وضو کے متعلق روایت کے بارے میں فرمایا کہ پانی کو اگر آگ سے گرم کیا جائے تو کیا اس سے وضو نہیں کیا جاسکے گا؟ اسی طرح سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے جب یہ روایت سنی کہ ولدِ زنا تینوں میں سب سے برا ہے (یعنی زنا کرنے والے مرد و عورت سے وہ بچہ زیادہ برا ہے جو اس زنا سے پیدا ہو)، تو آپ نے فرمایا کہ یہ بات کیسے صحیح ہوسکتی ہے جبکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ کوئی بوجھ اٹھانے والی جان کسی دوسری جان کا بوجھ نہیں اٹھائے گی؟ امام ابراہیم نخعی نے کہا ولدِ زنا اگر تینوں میں سب سے برا ہوتا، تو پھر زنا کرنے والی عورت کی سزا کو بچہ جننے تک مؤخر کیوں کیا جاتا؟
اس سے اگر کسی کو خدانخواستہ یہ تاثر ملتا ہے کہ حنفی فقہاے کرام سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی شان میں نعوذ باللہ تنقیص کرتے ہیں، تو اس غلط فہمی کے ازالے کےلیے امام سرخسی کے الفاظ ہی ملاحظہ کیجیے:
وَلَعَلَّ ظَانّا يظنّ أَن فِي مقالتنا ازدراء بِهِ، ومعاذ الله من ذَلِك؛ فَهُوَ مقدم فِي الْعَدَالَة وَالْحِفْظ والضبط، كَمَا قَررنَا؛ وَلَكِن نقل الْخَبَر بِالْمَعْنَى كَانَ مستفيضا فيهم، وَالْوُقُوف على كل معنى أَرَادَهُ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم بِكَلَامِهِ أَمر عَظِيم، فقد أُوتِيَ جَوَامِع الْكَلم على مَا قَالَ: أُوتيت جَوَامِع الْكَلم وَاخْتصرَ لي اختصارا؛ وَمَعْلُوم أَن النَّاقِل بِالْمَعْنَى لَا ينْقل إِلَّا بِقدر مَا فهمه من الْعبارَة، وَعند قُصُور فهم السَّامع رُبمَا يذهب عَلَيْهِ بعض المُرَاد؛ وَهَذَا الْقُصُور لَا يشكل عِنْد الْمُقَابلَة بِمَا هُوَ فقه لفظ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم؛ فلتوهم هَذَا الْقُصُور، قُلْنَا: إِذا انسد بَاب الرَّأْي فِيمَا رُوِيَ، وتحققت الضَّرُورَة بِكَوْنِهِ مُخَالفا للْقِيَاس الصَّحِيح، فَلَا بُد من تَركه لِأَن كَون الْقيَاس الصَّحِيح حجَّة ثَابت بِالْكتاب وَالسّنة وَالْإِجْمَاع؛ فَمَا خَالف الْقيَاس الصَّحِيح من كل وَجه، فَهُوَ فِي الْمَعْنى مُخَالف للْكتاب وَالسّنة الْمَشْهُورَة وَالْإِجْمَاع۔
حنفی منہج کے فہم کےلیے ایک اور اہم بات یہ ہے کہ اگرچہ اس روایت کو حنفی فقہاے کرام اس کے ظاہر پر قبول نہیں کرسکتے، لیکن وہ اسے یکسر مسترد کرنے کے بجاے اس کی تاویل کرتے ہیں، خواہ بعض لوگوں کو وہ تاویل بعید لگے۔ چنانچہ امام سرخسی فرماتے ہیں کہ یہ ایسا معاملہ ہوا ہوگا کہ خریدار نے اس شرط پر گائے خریدی ہوگی کہ وہ زیادہ دودھ دے گی لیکن چونکہ اس شرط کی وجہ سے عقد ہی فاسد ہوگیا، تو اسے حکم دیا گیا کہ گائے واپس کردو اور چونکہ عقد فاسد سے خریدی گئی چیز کے زوائد بھی واپس کرنے ہوتے ہیں، تو اسے دودھ بھی واپس کرنے کا کہا گیا لیکن چونکہ دودھ تو پیا جاچکا تھا، اور مقدار معلوم نہیں تھی، تو ان کے درمیان صلح کروائی گئی جس کے نتیجے مٰں دودھ کے بجاے ایک صاع کھجور دے دی گئی (اصولوں کی رو سے حقوق مجہولہ پر صلح جائز ہے)۔ اب راوی کو چونکہ قانونی اصولوں کی پیچیدگیوں کا اس طرح فہم نہیں تھا جس طرح قانون کے ماہرین کو ہوتا ہے، تو اس لیے راوی کی نظر اسی پر رہی کہ گائے واپس کرنے اور ساتھ میں ایک صاع کھجور واپس کرنے کا حکم دیا گیا، او ردیکھیے کہ یہ روایت قانون کے ماہرین صحابہ رضی اللہ عنہم میں کسی نے نہیں کی:
ثُمَّ نَحْمِلُهُ عَنْ تَأْوِيلٍ، وَإِنْ بَعُدَ، لِلتَّحَرُّزِ عَنْ الرَّدِّ؛ فَنَقُولُ: يُحْتَمَلُ أَنَّهُ اشْتَرَاهَا عَلَى أَنَّهَا عَزِيزَةُ اللَّبَنِ، فَكَانَ الْعَقْدُ فَاسِدًا بِالشَّرْطِ؛ فَأَمَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرَدِّهَا مَعَ مَا حَلَبَ مِنْ لَبَنِهَا؛ لِأَنَّ الْمُشْتَرَاةَ شِرَاءً فَاسِدًا تُرَدُّ بِزَوَائِدِهَا؛ وَقَدْ كَانَ الْمُشْتَرِي أَكَلَ اللَّبَنَ، فَدَعَاهُمَا إلَى الصُّلْحِ، وَرَدَّ مَكَانَ اللَّبَنِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ بِطَرِيقِ الصُّلْحِ؛ فَظَنَّ الرَّاوِي أَنَّهُ أَلْزَمَهُ ذَلِكَ۔ وَقَدْ يَقَعُ مِثْلُ هَذَا لِمَنْ قَلَّ فَهْمُهُ مِنْ الرُّوَاةِ۔ وَلِهَذَا لَمْ يَرْوِ الْحَدِيثَ أَحَدٌ مِنْ كِبَارِ الصَّحَابَةِ الْمَشْهُورِينَ بِالْفِقْهِ رِضْوَانُ اللَّهِ تَعَالَى عَلَيْهِمْ۔
دیکھیے کہ امام سرخسی نے کیسے اس روایت کی ایسی تاویل کی کہ یہ اسلامی قانون کے اصولوں سے ہم آہنگ ہوگئی اور اس روایت کو یوں سمجھنے سے کسی اصول کی خلاف ورزی نہیں ہوتی!
بات تقریبا مکمل ہوگئی ہے لیکن آخر میں بعض پہلوؤں کی توضیح ضروری ہے۔
الخراج بالضمان اور حدیث المصراۃ کے درمیان تعارض کے مسئلے پر چار اصولی مناہج
الخراج بالضمان اور حدیث المصراۃ کے درمیان تعارض کے مسئلے حنفی موقف اور ابن حزم کا موقف ایک دوسرے کے بالکل برعکس ہے۔ چنانچہ حنفی الخراج بالضمان کے اصول کو (نہ کہ روایت کو)بنیادی ترین مقام دیتے ہیں اور اس کے خلاف جانے والی روایت کو ناقابلِ قبول گردانتے ہیں؛ جبکہ ابن حزم حدیث المصراۃ کو اس کے ظاہر پر مانتے ہیں اور اس کے مقابل میں الخراج بالضمان کی روایت کو فاسد قرار دیتے ہیں، جبکہ اصول/قاعدہ/قیاس کی ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں ہے۔
امام شافعی، ابن قتیبہ اور ابن رشد ان دونوں انتہاؤں کے درمیان میں پائے جاتے ہیں لیکن درمیان کا یہ مطلب نہیں کہ ان تینوں کا منہج ایک ہی ہے، بلکہ تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ امام شافعی اور ابن قتیبہ اس مسئلے کو ایک طرح دیکھ رہے ہیں، جبکہ ابن رشد کا زاویۂ نظر ان سے مختلف ہے۔ چنانچہ امام شافعی اور ابن قتیبہ اسے دو روایتوں کے درمیان ظاہری تعارض کے طور پر دیکھتے ہیں اور اس کےلیے تاویل مختلف الحدیث کے طریقے اختیار کرتے ہیں، جبکہ ابن رشد الخراج بالضمان کو قاعدے کے طور پر تو مانتے ہیں اور حدیث المصراۃ کے اس قاعدے سے تعارض کے بھی قائل ہیں لیکن اصولِ روایت پر حدیث کی صحت کی بنا پر وہ اسے قاعدے سے استثنا قرار دیتے ہیں۔
چنانچہ ہمارے سامنے درحقیقت چار مناہج آتے ہیں:
- ایک حنفیہ کا، جو فقہ کے عمومی اصول (قاعدہ فقہیہ) سے ٹکرانے والی خبرِ واحد کو اس کے ظاہر پر قبول نہیں کرتے، بلکہ اس کی ایسی تاویل کرتے ہیں کہ وہ قاعدہ عامہ سے ہم آہنگ ہوجائے؛
- دوسرا ابن حزم کا، جو قاعدہ فقہیہ نامی چیز کو کوئی اہمیت نہیں دیتے اور الخراج بالضمان کی روایت کو بطورِ روایت مسترد کرتے ہوئے حدیث المصراۃ کے ظاہر سے چمٹے رہنے پر اصرار کرتے ہیں؛
- تیسراامام شافعی اور ابن قتیبہ کا، جو الخراج بالضمان اور حدیث المصراۃ دونوں کو بطور روایت قبول کرتے ہیں اور ان کے درمیان ظاہری تعارض کو رفع کرکے تطبیق کی کوشش کرتے ہیں؛
- چوتھا ابن رشد کا جو الخراج بالضمان کو بطور قاعدہ فقہیہ تسلیم کرتے ہیں اور اس قاعدے اور دیگر قواعد کے ساتھ حدیث المصراۃ کے حقیقی تعارض کے بھی قائل ہیں، لیکن حدیث کی صحت کی بنا پر اسے استثنا قرار دیتے ہیں۔
ذرا غور کیجیے تو صاف معلوم ہوجائے گا کہ امام شافعی اور ابن قتیبہ کا منہج ابن حزم سے قریب تر ہے، جبکہ ابن رشد کا منہج حنفیہ سے قریب تر ہے۔ اگر اہل الرائ اور اہل الحدیث/اہل الظاہر کے درمیان قاعدہ فقہیہ اور خبرِ واحد کے تعارض کے مسئلے کی بنیاد پر لکیر کھینچنی ہے تو مالکیہ اور حنفیہ ایک طرف نظر آئیں گے، اور امام شافعی، ابن قتیبہ اور ابن حزم دوسری طرف۔
واضح رہے کہ ہم ہرگز یہ نہیں کہہ رہے کہ مالکیہ اور حنفیہ کا منہج یکساں ہے، یا امام شافعی اور ابن حزم کا منہج ایک جیسا ہے، بلکہ اس مخصوص مسئلے میں ان کے مناہج کی قربت کے متعلق بتارہے ہیں۔ بہرحال یہ بھی واضح رہے کہ اس مضمون کا بنیادی ہدف حنفی اور شافعی منہج کے اختلاف کو واضح کرنا تھا اور ابن رشد، ابن قتیبہ اور ابن حزم کے مناہج مختصرا صرف بات سمجھانے کےلیے ذکر کیے گئے ہیں۔
قاعدہ فقہیہ کی روشنی میں خبرِ واحد کی تاویل یا اس کے برعکس؟
حنفیہ کے منہج کی بنیاد قواعدِ فقہیہ پر ہے اور وہ قاعدہ فقہیہ کو قطعی مانتے ہوئے اس سے متعارض خبرِ واحد کی تاویل کرتے ہیں، جبکہ امام شافعی کے منہج میں بنیادی اہمیت خبرِ واحد کو حاصل ہے اور ان کے نظام میں قاعدہ فقہیہ خبرِ واحد کے سامنے نہیں ٹھہر سکتا۔
چنانچہ اگر قاعدہ الخراج بالضمان کی طرح کسی ایسی روایت میں مذکور ہو جو امام شافعی کے ہاں قابلِ قبول ہو، تو وہ اسے قاعدے کی حیثیت سے نہیں، بلکہ خبرِ واحد ہی کی حیثیت سے دیکھتے ہیں اور یوں ان کے منہج کا ہدف یہ ہوتا ہے کہ دو قابلِ قبول اخبارِ آحاد کے درمیان تعارض کو رفع کیا جائے۔ اس بات کو یوں دیکھیے کہ حدیث المصراۃ کو اس کے ظاہر پر رکھتے ہوئے وہ یہ قرار دیتے ہیں کہ اس معاملے میں الخراج بالضمان والی روایت کا اطلاق ہی نہیں ہوتا کیونکہ اس کا تعلق صرف گائے، اونٹنی (یا اس نوع کی دیگر چیزوں) سے ہے۔
مجھے معلوم ہے کہ ہمارے فاضل دوست یہاں یہ لکھنے والے ہیں کہ حدیث میں صرف گائے اور اونٹنی کا ذکر ہے، لیکن امام شافعی بھیڑ بکریوں کے بارے میں بھی یہی کہتے ہیں، بلکہ اور بھی اموال جن میں زوائد اصل سے منفصل ہوں، وہاں بھی اس کا اطلاق کرتے ہیں اور وہ گویا قیاس العلہ بھی کررہے ہیں اور قاعدہ بھی بنا رہے ہیں۔ لیکن اس مرحلے پر تو یہ سوال ہی نہیں ہے کہ کیا امام شافعی حدیث المصراۃ کو قیاس کےلیے اصل مانتے ہیں یا نہیں اور یہاں وہ جو قیاس کررہے ہیں وہ قیاس العلہ ہے یا قیاس المعنی؟ (اس سوال پر بحث اگلے مرحلے میں، نئی سیریز میں آئے گی، ان شاء اللہ۔) اس وقت تو سوال یہ ہے کہ گائے، اونٹنی، بھیڑ، بکری وغیرہ وغیرہ کے معاملے میں الخراج بالضمان (اور اسی طرح تلافی کےلیے مثل یا قیمت کا ہونا اور دیگر قواعدِ عامہ) کا اطلاق وہ مان رہے ہیں یا نہیں؟ اور اس سوال کا جواب نفی میں ہے کیونکہ اگر وہ یہاں الخراج بالضمان کے قاعدے کا اطلا ق مان لیں تو ایک صاع کھجور دینے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ یہی مفہوم ہے ہماری اس بات کا کہ جہاں وہ الخراج بالضمان کو مان رہے ہیں، وہاں وہ اسے بطورہ قاعدہ فقہیہ نہیں مانتے، بلکہ بطورِ خبرِ واحد مانتے ہیں اور اس روایت کے ظاہری معنی کو جہاں تک توسیع دی جاسکتی ہے، وہاں تک اسے مان لیتے ہیں، اس سے آگے نہیں، اور وہاں تو بالکل نہیں جہاں کسی اور خبرِ واحد میں صراحتا الخراج بالضمان سے انحراف ہوا ہو، جیسے حدیث المصراۃ میں ہوا ہے۔ چنانچہ اس حدیث میں جن امور کا ذکر ہے (گائے اور اونٹنی) ان کے ظاہری معنی کو جہاں تک توسیع دی جاسکتی ہے (بھیڑ بکری وغیرہ)، وہاں تک توسیع دے کر ان تمام امور کے متعلق وہ قرار دیتے ہیں کہ یہ تو الخراج بالضمان والی خبرِ واحد کے اطلاق سے ہی باہر ہیں۔
اس میں ویسے حیرت کی کوئی بات نہیں ہے، بلکہ مجھے کہنے دیں کہ اگر امام شافعی ایسا نہ کرتے تو یہ حیران کن بات ہوتی کیونکہ جب ان کے نزدیک قرآن کا عام ہی ظنی ہے جس کی تخصیص خبرِ واحد سے ہوسکتی ہے، تو خبرِ واحد کے سامنے کوئی اور خبرِ واحد ( یااس میں مذکور قاعدہ) کیسے ٹک سکتا ہے؟ سچ پوچھیں، تو امام شافعی کے یہ دونوں اصول، عام کو ظنی ماننا اور خبرِ واحد کے سامنے قاعدہ فقہیہ کی بے وقعتی، باہم ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہیں۔ اس کے برعکس حنفیہ نے عام کو قطعی مانا تو قاعدہ عامہ کے سامنے خبرِ واحد ان کے نظام میں کمزور پوزیشن پر آگیا اور ان کے یہ دونوں اصول بھی آپس میں ہم آہنگ ہیں۔ مسئلہ ان لوگوں کا ہے جو دونوں نظاموں سے الگ الگ اصول لے رہے ہیں (یعنی یہ بھی کہتے ہیں کہ عام قطعی ہے اور یہ بھی مانتے ہیں کہ قاعدہ عامہ پر خبرِ واحد کو فوقیت حاصل ہے) اور ان کی آپس میں ہم آہنگی سے بے نیاز ہیں!
اس مضمون میں ذکر کردہ قاعدہ فقہیہ تو وہ تھا، جو نص میں مذکور تھا۔ اگر قاعدہ نص میں براہِ راست مذکور ہی نہ ہو، تو پھر سوچا جاسکتا ہے کہ خبرِ واحد کے سامنے اس کی کیا وقعت ہوگی؟ مثلا مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان امن معاہدے کا مسئلہ لے لیجیے۔ کیا غیر مسلموں کے ساتھ ایسا امن کا معاہدہ کیا جاسکتا ہے جس میں وقت کی قید کا ذکر نہ ہو؟ اسے حنفی موادعہ مطلقہ، جبکہ شافعی مہادنہ مطلقہ یا ہدنہ مطلقہ کہتے ہیں۔ حنفی مذہب یہ ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ امن کے معاہدے کی بنیاد مسلمانوں کی مصلحت ہے اور مسلمانوں کی مصلحت کو مد نظر رکھتے ہوئے مسلمانوں کا حکمران چاہے تو دس سال کےلیے معاہدہ کرلے، دس سال سے زائد کا کرلے، دس سال سے کم کا کرلے، یا سرے سے معاہدے کی مدت ہی معاہدے میں نہ ذکر کرے بلکہ اسے کھلا چھوڑ دے۔ مسلمان حکمران کے فیصلوں کے جواز کو جانچنے کا معیار یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کی مصلحت کےلیے ہو: تصرف الامام بالرعیۃ منوط بالمصلحۃ۔ دوسری طرف امام شافعی تصریح کرتے ہیں کہ اگر مسلمان کمزور پوزیشن پر ہوں، تو دس سال تک معاہدہ کرسکتے ہیں، اس سے زیادہ نہیں؛ دس سال بعد انھیں پھر معاہدے کی ضرورت محسوس ہو، تو مزید دس سال تک کرسکتے ہیں، لیکن ایک وقت میں دس سال سے زائد نہیں کرسکتے؛ اور اگر مسلمان طاقتور پوزیشن پر ہوں تو چار مہینوں سے زیادہ کا معاہدہ نہیں کرسکتے۔ اسی طرح وہ تصریح کرتے ہیں کہ مدت کی قید کے بغیر اگر معاہدہ کیا جائے تو یہ ناجائز ہے ۔ سوال یہ ہے کہ چار مہینوں والی تحدید یا دس سال والی تحدید کہاں سے آئی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ چار مہینوں کا ذکر سورۃ التوبہ میں ہے جب مسلمان طاقتور پوزیشن پر تھے اور دس سال کا ذکر صلحِ حدیبیہ میں ہے جب مسلمان کمزور پوزیشن پر تھے۔ جبکہ حنفیہ کے نزدیک دونوں مواقع پر مسلمانوں کی مصلحت کا خیال رکھا گیا اور اس مصلحت کی بنیاد پر مدت کم یا زیادہ بھی کی جاسکتی ہے اور مدت کی تعیین کیے بغیر بھی معاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ کیا اب بھی کسی مزید وضاحت کی ضرورت ہے کہ کیوں حنفیہ کے منہج کو ہم theory of general principles میں شمار کرتے ہیں اور کیوں امام شافعی کے منہج کو ہم theory of literal interpretation کہتے ہیں؟
یہ امام شافعی کی تنقیص نہیں ہے
آخری بات یہ ہے کہ اس مضمون سے کسی کو یہ اشتباہ نہ ہو کہ ہم امام شافعی کے منہج کی تنقیص کررہے ہیں۔ حاشا وکلا۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ ہم صرف اور صرف یہ دکھانا چاہتے تھے کہ قواعدِ فقہیہ اور خبرِ واحد کے تعارض کے مسئلے پر حنفی منہج شافعی منہج سے کیسے مختلف ہے۔ اللہ جانتا ہے کہ امام شافعی سے ہمیں اتنی ہی محبت ہے جتنی امام ابوحنیفہ سے ہے۔ امام شافعی تو ایک طرف، ہم تو امام ابن حزم کی ظاہریت کی آخری حد کی بھی قدر کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا مطمح نظر شارع کے مقصود سے چمٹے رہنا اور اس سے آگے پیچھے جانے سے گریز کرنا تھا، جو ان کے خیال میں صرف اس صورت میں ہی ممکن تھا جب وہ لفظ سے آگے دیکھیں ہی نہیں اور لفظ کے سامنے کسی اور بات کو کوئی اہمیت نہ دیں۔ تاہم یہی کچھ ان فقہاے کرام کے منہج کے متعلق بھی کہا جاسکتا ہے، اور زیادہ قوت کے ساتھ کہا جاسکتا ہے، جو قاعدہ عامہ کی سے چمٹے رہنے کے اس بنا پر قائل تھے کہ ان کے نزدیک اس کا شارع کا مقصود ہونا قطعی طور پر معلوم تھا جسے ظنی دلیل کی بنا پر نہیں چھوڑا جاسکتا تھا، تاہم اس کے باوجود وہ اس ظنی دلیل کو چھوڑنے کے بجاے اس کی تاویل کرتے تھے۔
ھذا ماعندی، والعلم عند اللہ۔
پس نوشت:
اگر ہمارے فاضل دوست اس مضمون کے جواب میں کچھ لکھنا چاہتے ہیں، تو گزارش ہے کہ وہ اس پر نہ لکھیں کہ امام شافعی قیاس علت کے قائل تھے یا نہیں۔ یہ مسئلہ الگ مضمون میں زیر بحث آئے گا۔ اسی طرح وہ اس پر بھی نہ لکھیں کہ امام سیوطی یا دیگر شافعی فقہاے کرام نے قواعد فقہیہ کےلیے کتب لکھی ہیں اور ان میں الخراج بالضمان کا قاعدہ بھی ذکر کیا ہے کیونکہ اس مضمون کا فوکس اس پر ہے کہ وہ قواعد کا استعمال کیسے کرتے ہیں اور ان کے نظام میں بالخصوص خبرِ واحد کے ساتھ تعارض کی صورت میں قاعدہ کی کیا حیثیت ہوتی ہے۔ چنانچہ اس مقصد کےلیے اگر وہ اسی سوال پر غور کریں جو مناہج کے اختلاف کو متعین کرنے میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے، تو بات مناسب طریقے سے آگے بڑھ سکے گی۔ ان کی سہولت کےلیے ہم وہ سوال دوبارہ زیادہ وضاحت کے ساتھ پیش کیے دیتے ہیں:
کیا گائے، اونٹنی، بھیڑ، بکری وغیرہ وغیرہ کے معاملے میں، یعنی تصریہ کے مسئلے میں، الخراج بالضمان (اور اسی طرح تلافی کےلیے مثل یا قیمت کا ہونا اور دیگر قواعدِ عامہ، جو ابن رشد اور امام سرخسی نے ذکر کیے ہیں) کا اطلاق امام شافعی (یا شافعی فقہاے کرام) مان رہے ہیں یا نہیں؟
اگر وہ صرف اسی پہلو پر غور کریں کہ الخراج بالضمان کے قاعدے کا اطلاق مان لینے کے بعد مصراۃ کو اس سے مستثنی ماننے (ابن رشد کا موقف) اور سرےسے حدیث الخراج بالضمان کا اطلاق مصراۃ پر نہ ماننے (امام شافعی کا موقف) میں فرق پر ہی غور کرلیں، تو شاید ہمارے زاویۂ نظر کا فہم ان کےلیے آسان ہوجائے۔
کمنت کیجے