1) برادر ڈاکٹر مشتاق صاحب نے قاعدہ اصولیہ و فقہیہ میں فرق کرتے ہوئے جو تفصیلی گفتگو کی اس کے لئے ہم ان کے شکرگزار ہیں اور قواعد اصولیہ و فقہیہ کے تعلق پر جو تعبیر آپ نے اختیار کی اس کے بعد اس موضوع سے متعلق آپ کا نکتہ نظر واضح ہوجاتا ہے کہ قواعد اصولیہ کس طرح تعبیر نصوص و احکام کے معاملے میں قواعد فقہیہ سے الگ حیثیت کے حامل ہیں اور اختیار کردہ تعبیر کے بعد آپ کے نکتہ نظر پر اشکال نہیں اور ان میں یہ فرق بجا طور پر یوں سمجھا جاسکتا ہے۔ صرف جملہ معترضہ کے طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ مالکی فقہیہ علامہ قرافی (م 685 ھ) نے ان دونوں میں فرق کرتے ہوئے جن معیارات کا ذکر کیا ہے ان میں سے ایک اس تعبیر کے کافی قریب ہے، اسے وہ عہد ذھنی (یعنی ترتیب منطقی) کے لحاظ سے قواعد اصولیہ کی قواعد فقہیہ پر فوقیت کا عنوان دیتے ہیں۔
2) آپ کی تعبیر کا حاصل یہ ہے کہ قواعد فقہیہ دراصل احکام کی قبیل سے تعلق رکھتے ہیں، معین احکام کے مقابلے میں یہ زیادہ عمومی نوعیت کے احکام ہوتے ہیں (جیسے الخراج بالضمان وغیرہ)۔ چونکہ یہ احکام ہیں لہذا جو تعبیر نصوص ان کے تناظر میں جنم لیتی معلوم ہوتی ہے، وہ بھی دراصل قواعد اصولیہ کی طرف لوٹتی ہے جیسا کہ آپ نے وضاحت فرمائی اور اس تعبیر سے اختلاف نہیں کیونکہ اسے اس طرح ایک بڑی جنس (یعنی قواعد اصولیہ) کی طرف reduce کیا جاسکتا ہے۔
3) تاہم اس تعبیر کے بعد ہمارے مابین ہونے والی پچھلی گفتگو پر روشنی پڑتی ہے کہ کیا قواعد فقہیہ شوافع کی بیان کردہ تعریف کی رو سے سے خارج از فقہ ہیں؟ اسی لئے اس بحث میں میں نے یہ گزراش کی تھی ہمیں پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ قاعدہ فقہیہ کی حیثیت کیا ہے: یعنی کیا یہ ماخذ ہیں، کیفیت استدلال ہیں یا احکام؟ آپ کی گفتگو کی رو سے یہ اصلا احکام کی طرح ہیں۔ اب اگر یہ احکام کی طرح ہیں تو فقہ کی تعریف سے کس طرح خارج ہیں؟
الف) چنانچہ اگر ایک لمحے کے لئے یہ مان بھی لیا جائے کہ شوافع انہیں دلیل تفصیلی نہ ماننے کی وجہ سے ان سے حکم اخذ نہیں کرتے، تب بھی اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ ان کے نزدیک یہ فقہ سے خارج ہیں کیونکہ یہ قواعد حکم کی جہت میں فقہ میں موجود ہیں۔ چنانچہ متعلقہ دلیل اور دعوے میں مناسبت نہیں پائی جاتی (یعنی کم از کم پیش کردہ دلیل سے یہ مقدمہ اخذ نہیں ہوتا کہ یہ فقہ کی تعریف سے خارج ہیں، ممکن ہے اگرچہ یہ مقدمہ درست ہی ہو لیکن اس کے لئے کوئی اور دلیل لانا ہوگی، دی گئی دلیل کار آمد نہیں)
ب) دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ “الخراج بالضمان” جیسے وہ قواعد فقہیہ جو منصوص ہیں، کم از کم اس قبیل کے قواعد فقہیہ کے علمائے شوافع تو ایک طرف خود امام شافعی بھی ان کے قائل ہیں کہ یہ انکی کتاب “الرسالۃ” تک میں مذکور ہیں اور آپ ان کی رعایت کرتے ہوئے احکام کی تخریج کرتے ہیں (اس کی ایک مثال نیچے آرہی ہے)۔ چنانچہ معلوم ہوا کہ نہ قواعد فقہیہ انکی فقہ کی تعریف سے خارج ہوتے ہیں اور نہ ہی یہ بات درست ہے کہ وہ قواعد فقہیہ کی پوری کیٹیگری ہی کو حجت نہیں مانتے
ج) پس اب زیادہ سے زیادہ اختلاف یہ رہ گیا کہ کیا امام شافعی و شوافع مستنبط قواعد فقہیہ کی حجیت کے قائل ہیں یا نہیں۔
امید ہے کہ اب ہماری اصل بحث کافی حد تک narrow down و معین ہوگئی ہے۔
4) اب جبکہ بحث اصل نہج تک پہنچ چکی ہے تو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ امام شافعی کی کتاب “الرسالۃ” سے عین ایک ایسے قاعدے کے استعمال کی مثال پیش کردی جائے جس کا قاعدہ فقہیہ ہونا مشتاق صاحب کو بھی قبول ہے۔ کتاب “الرسالۃ” کے باب “استحسان” میں امام شافعی رحمہ اللہ نے قیاس کی مختلف صورتوں کی مثالیں پیش کی ہیں۔ ایک مثال “الخراج بالضمان” کی ہے، یعنی منفعت اٹھانے کا حق نقصان اٹھانے کی ذمہ داری پر منحصر ہے۔ یہ قاعدہ حدیث شریف میں بیان ہوا ہے جس کا تناظر یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے کسی خریدار کو کوئی عیب دار غلام اس کا عیب بتائے بغیر بیچ دیا جو کچھ دن بعد خریدار پر واضح ہوگیا، ایسی صورت میں خریدار کو یہ حق ہے کہ غلام لوٹا کر اپنا مال واپس لے، سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس عیب دار غلام کو واپس کرتے ہوئے اس سے لی ہوئی خدمت کے عوض کا کیا ہوگا؟ یعنی خریدار نے اس سے جو خدمت لی یا غلام نے اس دوران محنت وغیرہ کرکے اگر کوئی مال کمایا تو کیا خریدار کو وہ بھی لوٹانا ہوگا؟ اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا کہ چونکہ وہ خریدار کے ضمان میں تھا تو اس کی خدمت لینا اس کا حق تھا کیونکہ نقصان کا ذمہ اس کی طرف منتقل ہوچکا تھا، لہذا اس کی محنت کی کمائی یا خدمت کا عوض خریدار پر لوٹانا واجب نہیں۔ اسی تناظر میں اس حدیث میں یہ قاعدہ آیا کہ الخراج بالضمان۔ چنانچہ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ “خراج” سے مراد منفعت ہے اور حدیث میں اسی کا تذکرہ ہے۔
البتہ غلام کی خدمت کے علاوہ دوسرے امور میں، جن کے حوالے سے بظاہر حدیث خاموش ہے، اختلاف ہوا۔ مثلا اگر کوئی شخص عیب دار بکری کا ایسا سودا کرے اور چند روز بعد جب خریدار پر اس کا عیب ظاہر ہوجائے اور وہ اسے لوٹانے لگے جبکہ اس دوران اس نے بکری سے دودھ بھی حاصل کیا اور بکری کا بچہ بھی پیدا ہوگیا، تو کیا خریدار کو اس دودھ کا عوض نیز یہ بچہ لوٹانا ہوگا؟ اسی طرح پھلوں کا معاملہ ہے کہ کیا عیب دار درخت (یا مثلا باغ) کا سودا منسوخ کرتے ہوئے اس دوران اس سے حاصل شدہ پھل لوٹانا ہوگا؟ امام شافعی منفعت کو اس کے عمومی مفہوم میں (جی ہاں بالکل عمومی مفہوم) میں مراد لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہاں “خراج” سے ہر قسم کی منفعت و بڑھوتری مراد ہے، لہذا خریدار کو نہ بکری کا بچہ واپس لوٹانا ہے اور نہ ہی درخت کا پھل کیونکہ ان کا ضمان اس کی طرف منتقل ہوچکا تھا، لہذا یہ سب صورتیں غلام کی کمائی کے مال کی طرح ہیں۔ اس کے برعکس بعض دیگر مجتہدین (جیسے کہ احناف) کے نزدیک خراج سے مراد وہ منفعت ہے جو متعلقہ شے کا جزو نہ ہو جیسے غلام کی آمدن، رہیں منفعت کی وہ صورتیں جو جزئیت کی قبیل سے ہوں جیسے بکری سے حاصل ہونے والا بچہ، وہ حدیث میں بیان شدہ قاعدے والی منفعت میں شامل نہیں اور نتیجتا ان کے نزدیک اگر سودا عیب کی وجہ سے واپس ہوگا تو جانور کا بچہ وغیرہ قسم کی بڑھوتری واپس ہوگی۔
اس مسئلے میں دیگر آراء بھی موجود ہیں اور امام شافعی نے اپنے مخالفین سے اس مسئلے پر بحث کی ہے اور ان کے اختیار کردہ قاعدے کو دلائل سے توڑنے کی کوشش کی ہے، سردست ہمیں درست و غلط رائے کی تعیین میں یہاں دلچسپی نہیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ امام شافعی ایک قاعدے (جو علت جامع “الخراج بالضمان” پر مبنی ہے) کو اصول بنا کر ایک معاملے کو دوسرے پر قیاس کررہے ہیں، یعنی ایک جامع حکم کے تحت مزید ضمنی احکام لارہے ہیں، جبکہ احناف اسی قاعدے کے ایک نسبتا محدود و مختلف تصور (یعنی جس میں جزئیت کا مفہوم شامل نہ ہو) کو بنیاد بناتے ہوئے ان سے اختلاف کرتے ہیں۔ چنانچہ اگر الخراج بالضمان ایک قاعدہ فقہیہ ہے تو امام شافعی کے ہاں بھی یہ صراحتا موجود ہے اور آپ اسے اسی طرح حجت مانتے ہوئے برتتے ہیں جیسے ائمہ احناف برتتے ہیں۔
5۔ “جو شے قبضے میں نہ ہو اسے مت بیچو” ۔۔۔ “الرسالۃ” سے قاعدہ فقہیہ کی ایک اور مثال
آئیے امام شافعی کی کتاب “الرسالۃ” سے منصوص قاعدہ فقہیہ کی ایک اور مثال لیتے ہیں۔ احناف کے ہاں اس کا تعلق استحسان بالنص کی صورت سے ہے جس کی مشہور مثال بیع سلم ہے (ہماری رائے کے مطابق احناف جسے استحسان کہتے ہیں اس کا ایک بڑا حصہ علمائے شوافع کا قیاس شبہ ہے، خیر اس پر ان شاء اللہ الگ سے بات کریں گے)۔ شارع کی حدیث کے مطابق ایسی شے کا سودا کرنا جائز نہیں جو بیچنے والے کے قبضے میں نہ ہو، تاہم شارع کی جانب سے بیع سلم پھر بھی جائز رکھی گئی۔ احناف کہتے ہیں کہ پہلی حدیث قاعدہ عامہ ہے جبکہ بیع سلم والی حدیث اس سے استثناء ہے، اسے “استحسان بالنص” کہا جاتا ہے، یعنی نص کے ذریعے استثنا پیدا کرنا۔ کیونکہ استحسان بالنص استثناء کی صورت بنتی ہے، لہذا استثناء بالقیاس کے برخلاف احناف اس کے حکم کو مزید آگے پھیلانا جائز نہیں کہتے۔
اب یہ دیکھتے ہیں کہ امام شافعی نے کتاب “الرسالۃ” میں اس معاملے کو کیسے دیکھا ہے۔ آپ اس حدیث کو بظاہر متعارض احادیث کے مابین رفع تعارض کی بحث میں لائے ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ اس حدیث میں ملکیت میں نہ ہونے والی شے کی ممانعت کو دو طرح دیکھا جاسکتا ہے:
(الف) “ملکیت میں نہ ہو ” سے مراد یہ ہے کہ بوقت عقد سودا موجود نہ ہو اور خریدار اسے نہ دیکھ سکے
ب) یا ایسی شے کی بیع سے منع کیا گیا جس کا ضمان بیچنے والے پر لازم نہ آسکے۔
آپ اس دوسری تشریح کو ترجیح دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جب سودے کی صفات متعین کر دی جائیں تو اب بیچنے والے پر اس کا ضمان مقرر کرنا ممکن ہوجاتا ہے۔ گویا اس دوسری تعبیر کی رو سے بیع سلم عمومی قاعدے میں شامل ہی نہ تھی کیونکہ آپ کے مطابق عمومی قاعدہ یہ تھا: “جس کا ضمان لازم نہ کیا جاسکے اس کی بیع ناجائز ہے” اور اس معنی کی رو سے دونوں حدیثوں میں کوئی ٹکراو نہ رہا اور نہ ہی اسے استثناء کا معاملہ کہنا لازم آئے گا جیسا کہ احناف کہتے ہیں۔ یہاں امام صاحب اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جس بات سے شریعت نے عام صیغے سے منع کیا اس کا عموم برقرار رہے گا جب تک کوئی دوسری نص اس کی تخصیص نہ کر دے۔ اس تعبیر کی رو سے یہاں ایک نہیں بلکہ دو عام قاعدے کارفرما ہیں اور دونوں کا حکم آگے پھیلایا جاسکتا ہے (بشرطیکہ کوئی دوسرا اصول مانع نہ ہو)۔ گویا جس صورت مسئلہ کو احناف نے ایک قاعدہ بنا کر پھر دوسری حدیث کو استثناء بالنص قرار دیا، امام شافعی نے متعلقہ نصوص کے پیش نظر اپنے انداز میں وصف جامع کا تعین کرتے ہوئے دو عمومی قواعد اخذ کئے جن دونوں کا حکم آگے چلانا ممکن ہے۔ یہ بھی غور کیجئے کہ احناف نے “الخراج بالضمان” کے معاملے میں امام شافعی کے عمومی مفہوم کے بجائے وصف جامع کو محدود کرتے ہوئے قاعدہ بنایا اور یہاں امام شافعی نے برعکس معاملہ کیا لیکن بہرحال آپ نے دونوں بار قاعدہ ہی بنایا۔ اس سے یہ بات مزید مؤکد ہوئی کہ امام شافعی صاحب قاعدہ فقہیہ اخذ کرتے ہیں، مگر اپنے انداز سے اور آپ کی کتاب “الام” اس قسم کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ کسی کو ان کے انداز سے بھلے اختلاف ہو لیکن اس سے یہ نتیجہ اخذ نہیں ہوتا کہ نہ وہ قاعدہ بناتے ہیں اور نہ اس کی حجیت مانتے ہیں۔ قاعدہ بنانے کا کوئی ایک ہی طریقہ نہیں ہے کہ بس اسی کا نام قاعدہ رکھا جا سکے۔
6۔ اب ذرا یہاں یہ غور کیجئے کہ امام شافعی کے ہاں قاعدے کو ناممکن قرار دینے کا استدلال جس مفروضے پر مبنی ہے، یہ مثال نہ صرف یہ کہ اس کی غلطی واضح کررہی ہے بلکہ ا سکے برعکس استدلال وضع کرنے میں بھی مفید ہے۔ یعنی متعلقہ استدلال کی رو سے چونکہ احناف عام کی قطعیت کے قائل تھے اس لئے انہوں نے قاعدہ اخذ کیا اور اس کے خلاف جانے والی حدیث کو استثناء کے طور پر رکھا، یہ گویا “جنرل پرنسپلز” کی میتھاڈولوجی کو اختیار کرنا ہوا۔ لیکن غور کیجئے کہ اس کے جواب میں اس مثال کی رو سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ امام شافعی چونکہ عام کی ظنیت کے قائل تھے اس لئے انہوں نے ایک کے بجائے دو قواعد اخذ کرلئے جبکہ احناف کی عام کی قطعیت کے نظرئیے نے انہیں ایک ہی قاعدہ اخذ کرنے پر مجبور کردیا اور پھر نتیجتا دیگر نصوص کو حل کرنے کے لئے انہیں استثناء کا سہارا لینا پڑا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جس خیال کے زور پر عام کی ظنیت کو قاعدہ کش قرار دیا جارہا ہے، اسی کے زور پر عام کی قطعیت کو بھی بند گلی میں کھڑا ہونا قرار دے کر دیگر نصوص کے پیش نظر مزید و بہتر (refined) قواعد اخذ کرنے کا دروازہ بند کرنے والا کہا جاسکتا ہے اس لئے کہ عام کی ظنیت دراصل قاعدہ بنانے سے قبل زیادہ ڈیٹا (نصوص) پیش نظر رکھنے کے ہم معنی ہے۔ گویا عام کی ظنیت لازما قاعدے کے خاتمے نہیں بلکہ اس کی امپروومنٹ کا مظہر بھی ہوسکتی ہے جس کی مثال اوپر گزری۔
بنیادی بات یہ ہے کہ یہ مفروضہ ہی محل نظر ہے کہ عام کی دلالت کو ظنی کہنا قاعدے کے امکان کے خلاف ہے۔ فی الوقت صرف یہی نوٹ کیجئے کہ قاعدہ صرف عام کی دلالت سے حاصل نہیں ہوتا۔ خیر اس پر ھم ان شاء اللہ الگ سے گفتگو کریں گے۔الغرض امام شافعی کی کتب اس قسم کی مثالوں سے بھری پڑی ہیں۔
اب قابل بحث و بنیادی نکتہ یہ رہ گیا ہے کہ کیا امام شافعی و شوافع مستنبط قاعدہ فقہیہ کے قائل ہیں؟ اس کا تعلق دراصل “قیاس علت” کے مفہوم کے ساتھ ہے اور جب برادر ڈاکٹر مشتاق صاحب اس پر مشائخ احناف کا نکتہ نظر واضح کریں گے کہ ان کے نزدیک قیاس علت کیا ہے، تب ان شاء اللہ یہ نکتہ بھی صاف ہوجائے گا۔
کمنت کیجے