دلیل اجمالی و تفصیلی کا مفہوم
فقہ و اصول فقہ کی تعریفات سے واضح ہوا کہ علمائے اصولیین کے نزدیک ان کے مابین فرق کی ایک بڑی جہت دلیل تفصیلی و دلیل اجمالی کا فرق ہے۔ اول الذکر سے مراد وہ خاص یا معین دلیل ہے جو کسی خاص حکم یامعین حکم کی سند ہو جبکہ موخر الذکر کسی خاص حکم کی دلیل نہیں ہوتی بلکہ بذات خود خاص دلیل بننے والے قضیے کی سند ہوتی ہے۔ اس کی مثال یوں ہے کہ “قرآن شرعی احکام کے لئے حجت ہے”، دلیل اجمالی ہے، پھر یہ کہنا کہ “فلاں حکم قرآن میں آیا ہے” (مثلا اقیموا الصلوۃ)، اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ “اقامت صلاۃ حکم شرعی ہے”۔ یہاں کسی خاص حکم کے قرآن میں وارد ہونے کا معاملہ، یہ دلیل تفصیلی ہے۔ اسکی ایک مثال یوں بھی ہے کہ قضیہ “امر وجوب کے لئے ہے” ، یہ دلیل اجمالی ہے۔ پھر “اقیموا الصلوۃ” میں امر آیا ہے، اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ اقامت صلوۃ واجب ہے۔ پس اقیموا الصلوۃ دلیل تفصیلی ہے ایک خاص حکم اخذ کرنے کی۔ دلیل کی ساخت کچھ یوں ہے:
قضیہ اول: امر وجوب کے لئے ہوتا ہے
قضیہ دوئم: اقیموا الصلوۃ امر ہے
نتیجہ: اقامت صلوۃ واجب ہے
چنانچہ یہاں یہ نتیجہ براہ راست قضیہ اول سے برآمد نہیں ہوسکتا بلکہ اس کے لئے قضیہ دوئم بھی چاہئے جو براہ راست نتیجے کی دلیل ہے۔ مگر یہ دلیل تفصیلی (یعنی قضیہ دوئم) بذات خود قضیہ اول (یعنی دلیل اجمالی) کی سند کا محتاج ہے۔ چنانچہ اصولیین اسے یوں کہتے ہیں کہ اصول فقہ دلائل اجمالیہ سے بحث کرتے ہیں جبکہ فقہ ان دلائل اجمالیہ کے تحت آنے والے بے شمار دلائل تفصیلیہ سے۔ آسان الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ دلیل تفصیلی براہ راست حکم پر اثر انداز ہوتی ہے جبکہ دلیل اجمالی بالواسطہ (یعنی بذریعہ دلیل تفصیلی)۔
- مقصد بحث
فقہ و اصول فقہ کی تعریفات کے معاصر ناقدین کا کہنا ہے کہ دلیل اجمالی و تفصیلی کی درج بالا بحث سے قاعدہ فقہیہ ان دونوں سے خارج ہوجاتا ہے، لہذا یہ تعریفات نہ صرف ناقص ہیں بلکہ اصل حنفی منہج کے بجائے شافعی منہج کی نمائندگی کرتی ہے جہاں قاعدہ حجت نہیں سمجھا جاتا۔ یہ حضرات اسی مفروضے کے تحت اصولیین کی طے کردہ تعریفات کو معنی پہنا کر ان نتائج کو تقویت دینے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ ان تعریفات کے ضمن میں یہ بحث نہیں ملتی کہ آیا اصولیین قاعدے کو حجت مانتے ہیں یا نہیں جیسا کہ ہم نے پچھلی تحریر میں دکھایا۔ اس تحریر میں ہم یہ دکھائیں گے کہ ان معاصر اہل علم کا یہ مفروضہ بھی درست نہیں کہ “قاعدہ دلیل تفصیلی سے خارج ہے” ۔
- قاعدے کا مفہوم
سب سے پہلے قاعدے (یا قاعدہ فقہیہ) کا مفہوم طے کرنا ضروری ہے۔ قاعدہ ایک کلی یا عمومی نوعیت کا تصور ہوتا ہے جس کے تحت متعدد فروعات یا افراد آتے ہیں۔ ایسے عمومی تصورات کی بنیاد لغت، عقلی قضایا یا پھر شرعی نصوص ہوسکتے ہیں۔ جب یہ تصورات شرعی نصوص سے حاصل ہوں تو انہیں “شرعی احکام” کہا جاتا ہے۔ گویا قاعدہ ایک عمومی نوعیت کا شرعی حکم ہوتا ہے جس کے تحت متعدد افراد آسکتے ہیں۔ یہ عام شرعی احکام (یا قواعد) تین طرح حاصل ہوتے ہیں تاہم یہاں بالترتیب دو سے بحث کی جاتی ہے: لفظ عام کے شمول سے اور قیاس کے ذریعے۔
1) لفظ عام اور قاعدہ ۔۔۔ کل سے جزو
دلیل تفصیلی سے ثابت ہونے والے شرعی احکام عمومیت کے لحاظ سے متعدد نوعیت کے ہوسکتے ہیں۔ مثلا اگر یوں کہا جائے کہ “زید پر ماہ رمضان کا روزہ واجب ہے”، یہ ان معنی میں بالکل خاص حکم ہے کہ زید کے سوا اس میں کوئی شامل نہیں۔ لیکن اگر (آیت فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ کے پیش نظر) یوں کہا جائے کہ “ہر بالغ عاقل مسلمان مرد پر رمضان کا روزہ واجب ہے” (یا ” سارق کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے” یا ” زانی کی سزا 100 کوڑے ہیں” وغیرہ)، تو یہ عمومی حکم ہے جس کے تحت متعدد افراد آسکتے ہیں۔ اس عموم میں ہر وہ شخص شامل سمجھا جاتا ہے جس پر بلوغت، عقل و صاحب ایمان ہونے کے اوصاف کا اطلاق ثابت یا معلوم ہو۔ مثلا کیا زید یا مائیکل اس میں شامل ہیں؟ اس کے فیصلے کے لئے ان اوصاف کی تحقیق کرنا باقی رہ جاتی ہے، پس جن جن افراد پر یہ اوصاف ثابت ہوجائیں وہ خود بخود اس “عام حکم” میں شامل سمجھیں گے۔ اس استدلال کی ساخت یوں ہوگی:
قضیہ اول: ہر بالغ عاقل مسلمان مرد پر رمضان کا روزہ واجب ہے
قضیہ دوئم: زید بالغ عاقل مسلمان مرد ہے
نتیجہ: زید پر رمضان کا روزہ واجب ہے
امام غزالی “اساس القیاس” میں واضح کرتے ہیں کہ استدلال کی یہ صورت قیاس نہیں بلکہ عام کے تحت آنے والے افراد کو قضیہ عامہ کے تحت رکھنا یا ان پر اس عموم کا حکم جاری کرنا ہے۔ آپ اسے “تمسک بالعموم” کہتے ہیں۔ یہاں بذریعہ لغت یا نص قضیہ اول حاصل ہوچکنے کے بعد صرف تحقیق مناط سے یہ طے کرنا باقی رہ جاتا ہے کہ کونسے افراد اس عموم میں شامل ہیں۔ امام غزالی نے تحقیق مناط کے وسائل پر بھی گفتگو کی ہے، تاہم یہ ہمارے جاری موضوع سے باہر ہے۔
اس عموم کی ایک اور مثال “الخراج بالضمان “ہے۔ اگر یہ فرض کیا جائے کہ یہ حکم اسی طرح (کسی جزئی کا ذکر کئے یا اس کے تناظر کے بغیر) یونہی بیان ہوا ہے تو یہ بھی ایک “عام حکم ” ہے۔ اس کے تحت کون کون سے افراد آتے ہیں، مجتہد تحقیق مناط کے ذریعے انہیں اس شمول میں داخل کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے۔
یہاں اہم بات یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک مثال دلیل تفصیلی کی صورت ہے، یعنی جب تحقیق مناط کے ذریعے زید پر متعلقہ اوصاف کا وجود متحقق ہوجائے تو ” ہر بالغ عاقل مسلمان مرد پر رمضان کا روزہ واجب ہے” کا قضیہ براہ راست اس کے لئے دلیل تفصیلی ہے کیونکہ یہ سب اس عمومی حکم کے افراد ہونے کے ناطے اس میں شامل ہیں۔ اسی طرح مثلا اگر کسی صورت الف یا ب پر خراج و ضمان کے تصورات لاگو ہوجائیں تو “الخراج بالضمان” اس کے لئے دلیل تفصیلی ہے۔
تمسک بالعموم کی اس صورت میں اختلاف کی متعدد صورتیں ہوا کرتی ہیں تاہم انہیں دو میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: قضیہ اول میں اختلاف یا قضیہ دوئم میں اختلاف۔
الف) قضیہ دوئم میں اختلاف کا مطلب یہ ہے کہ دو مجتہدین اس بات پر تو متفق ہیں کہ قضیہ اول ثابت شدہ ہے، تاہم ان کے مابین یہ اختلاف ہے کہ متعلقہ پیش آمدہ صورت میں قضیہ اول کے اوصاف موجود ہیں یا نہیں۔ یہاں دراصل یہ کیفیت ہوجاتی ہے کہ کوئی خاص صورت معاملہ اپنے متعدد اوصاف کی بنا پر دو عمومی تصورات یا احکام (یعنی قضایا) کے تحت آجاتی ہے (مثلا یہ اختلاف ہوجانا کہ لین دین کی کوئی خاص صورت ھبہ ہے یا بیع یا مثلا لعان کا معاملہ گواہی کے باب سے ہے یا قسم کے وغیرہ؟امام غزالی سے قبل شافعی علماء اسے “قیاس شبہ” کا نام دیتے ہیں اور جسے احناف “استحسان بالقیاس” کہتے ہیں وہ بہت حد تک یہی صورت استدلال ہے)۔ چنانچہ یہاں مجتہد یہ تعین کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ کونسی صفت زیادہ قابل لحاظ ہے تاکہ متعلقہ معاملے کو کسی ایک عمومی حکم کے تحت رکھا جاسکے۔ پھر جس حکم کے تحت اسے رکھا جائے، وہ اس کی دلیل تفصیلی کہلائے گی۔
ب) اس کی دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ ایک مجتہد کے نزدیک متعلقہ صورت مثلا ج کسی “عام حکم” الف کے تحت ہونے کی بنا پر اس کے حکم میں شامل ہے جبکہ دوسرے مجتہد کے نزدیک وہ “عام حکم ” یا قضیہ اول ثابت ہی نہیں ہوتا یا اتنی عمومیت کا حامل نہیں ہوتا کہ ج پر حاوی ہو (ایسی صورت میں وہ ج کو قضیہ الف کے بجائے کسی دوسری نص سے ثابت ہونے والے حکم کے تحت رکھتا ہے)۔ یہ صورت حال بھی تمسک بالعموم ہی ہے جہاں پہلے مجتہد کے نزدیک “عام حکم “الف جبکہ دوسرے کے نزدیک کوئی دوسری نص (یا اس سے ثابت ہونے والا حکم ) ج کی دلیل تفصیلی بننے کی مستحق ہے۔
الغرض جب قاعدہ نصوص سے حاصل ہو تو یہ “تمسک بالعموم” کی صورت بنتے ہوئے اپنے تحت افراد پر جاری ہونے والے حکم کی دلیل تفصیلی ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے قاعدے اور ان میں اختلاف کی درج بالا سب صورتیں دلیل تفصیلی ہی کی صورتیں ہیں کہ یہ سب براہ راست کسی جزئی کے حکم پر اثر انداز ہورہی ہیں۔
2) قیاس اور قاعدہ ۔۔۔ جزو سے جزو
قاعدے کےحصول کا دوسرا طریقہ وصف علت کے اشتراک کی بنا پر ایک جزئی کا حکم دوسری جزئی پر پھیلانا ہے، امام غزالی بتاتے ہیں کہ فقہاء کی زبان میں اسے قیاس جبکہ مناطقہ کی اصطلاح میں تمثیل کہتے ہیں۔ قیاس اور تمسک بالعموم میں بنیادی فرق یہ ہے کہ قیاس میں حکم ایک جزئی یا فرد سے متعلق بیان ہوتا ہے۔ مثلا اگر یوں کہا جائے کہ “زانی کو کوڑے لگاؤ” اور پھر زید کے زنا کرنے پر اسے کوڑے کی سزا کا مستحق کہا جائے تو یہ تمسک بالعموم ہے (یعنی کسی عام حکم کے تحت آنے والے فرد پر حکم کا اجراء کرنا)۔ لیکن اگر کہنے والا یوں بات کرے کہ “زید نے زنا کیا اور اسے کوڑے لگائے گئے”، تو اب زید کے سوا کسی دوسرے فرد پر اس حکم کا اجراء قیاس کی صورت بنے گی کیونکہ یہاں حکم ایک فرد یا جزئی کے بارے میں بیان ہوا جسے کسی وصف مشترک ہی کی بنا پر دوسرے فرد پر جاری کیا جاسکتا ہے، نہ کہ لغت وغیرہ سے ثابت کسی عام تصور یا عام حکم کے تحت آنے والے فرد کے طور پر (جسے تمسک بالعموم کہا گیا)۔ اس کی مثال یوں بھی ہے کہ حدیث شریف میں “الخراج بالضمان” کے الفاظ عیب دار غلام کی خریدو فروخت کے تناظر میں بیان ہوئے۔ اب اگر یہ مانا جائے کہ “الخراج بالضمان” کا حکم اصلاً اس خاص جزئی (یعنی غلام کی خرید و فروخت) سے متعلق تھا، ایسی صورت میں دیگر معاملات (مثلا پھلوں کی خرید و فروخت وغیرہ) پر اسے جاری کرنا بذریعہ قیاس حکم کا اجراء کہلائے گا۔
جس وصف کو جزئی کے حکم کی علت قرار دیا جاتا ہے، اسکے نتیجے میں ایک قضیہ یا حکم عام تشکیل پاتا ہے۔ مثلا شارع نے چند اشیاء کا ذکر کرکے انہیں اموال ربویہ قرار دیا۔ اب اگر مثلا یہ مان لیا جائے کہ ان اشیاء کے اس حکم کی علت “طعم” ہونا ہے تو نتیجتاً یہ قاعدہ یا حکم عام حاصل ہوتا ہے: “ہر مطعوم (کھائی و پی جانے والی شے) مال ربوی ہے” ۔ پھر مجتہد تحقیق مناط کے عمل میں یہ دیکھتا ہے کہ کونسی شے طعم کے وصف سے متصف ہے، پس ہر وہ شے جو اس وصف سے متصف ہو وہ بھی اس عام حکم میں شامل ہوجاتی ہے۔ اس دلیل کی ساخت یوں بنتی ہے:
قضیہ اول: ہر مطعوم مال ربوی ہے
قضیہ دوئم: تربوز مطعوم ہے
نتیجہ: تربوز مال ربوی ہے
یہاں بھی مجتہدین کے مابین دو قضایا میں اختلاف ہوسکتا ہے، تاہم یہاں قضیہ اول کا اختلاف وصف مشترک کے اختلاف کی بنا پر ہوتا ہے۔ مثلاً احناف کے نزدیک وہ وصف مشترک جو قضیہ اول کو جنم دیتا ہے ان اشیاء کا قابل “طعم “ہونا نہیں بلکہ کیلی (ماپے جانے لائق) ہونا ہے۔ پس ان کا قضیہ اول یوں ہے: “ہر مکیلی شے ربوی ہے”۔ پھر چونکہ تربوز مکیلی نہیں، لہذا نتیجہ یہ نکلے گا کہ یہ مال ربوی نہیں۔
الغرض جب ایک مرتبہ کسی مجتہد نے وصف مشترک کا تعین کرلیا، اس کے بعد حاصل ہونے والے قضیہ یا قاعدہ عامہ کے عموم کے تحت آنے والے سب افراد اسی طرح اس میں شامل سمجھے جائیں گے جیسے تمسک بالعموم کی صورت میں یہ معاملہ تھا اور قیاس سے حاصل کردہ یہ قاعدہ عامہ (یعنی عام حکم) ان سب افراد کے احکام کی دلیل ہوتا ہے کہ یہ سب اس میں شامل تھے۔ تاہم تمسک بالعموم اور قیاس میں بنیادی فرق قضیہ اول کی تشکیل کے طریقے کا ہے۔ قیاس میں ایک معلوم جزء کے حکم کو وصف علت کی بنا پر ایک عام قاعدے کی طرف لوٹایا جاتا ہے جس کے عموم کے تحت آنے والے دیگر اجزاء یا افراد پر بھی اس جزء کا حکم جاری ہوجاتا ہے۔ اس کے برعکس تمسک بالعموم میں معلوم حکم جزء سے متعلق نہیں ہوتا بلکہ ابتداء ہی سے عام قاعدے کی صورت ہوتا ہے۔
چنانچہ دیکھا جاسکتا ہے کہ قاعدہ بھلے لغت کی دلالت (یا کسی تصور کی تعریف کرنے) سے جنم لے یا قیاس کے طریقے سے، ہر دو صورت میں دلیل تفصیلی کے مفہوم میں شامل ہے۔ اس بارے میں ابہام تبھی پیدا ہوتا ہے جب معاملے کو درست نہج سے نہ سمجھا جائے۔ چنانچہ یہ کہنا کہ “علمائے شوافع قاعدے کو حجت نہیں مانتے اور اس لئے انہوں نے دلیل تفصیلی کی قید لگا کر فقہ کی تعریف سے قاعدے کو خارج کردیا”، یہ دراصل یہ دعوی کرنے کے ہم معنی ہے کہ شوافع نہ لفظ عام سے معلوم ہونے والے کسی عمومی حکم کے قائل ہیں (علی الرغم اس سے کہ کسی نص سے اس کی تخصیص ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو) اور نہ ہی وہ قیاس کے قائل ہیں۔ ظاہر ہے یہ دعوی درست نہیں۔
3) استقراء ۔۔۔ جزو سے کل
قاعدے کے حصول کا تیسرا طریقہ بھی ہے جہاں مختلف اجزاء کو جوڑ کر ایک اصول بنایا جاتا ہے، یوں وہ سب اجزاء اس قاعدہ عامہ یا حکم عام کے تحت آجاتے ہیں۔ امام غزالی (اور مناطقہ ) اسے “استقراء ” کہتے ہیں۔ کونسے استقرائی قواعد حجت ہوسکتے ہیں اور کب، اس پر اصولیین قیاس کے باب میں تفصیلی بحث کرتے ہیں اور ان مباحث کے تکنیکی امور کے پیش نظر ہم یہاں ان سے سہو نظر کرتے ہیں۔ صرف دو باتیں گوش گزار کرکے بات ختم کرنا چاہتے ہیں:
1۔ اس حوالے سے سب سے تنگ موقف احناف جبکہ سب سے وسیع تصور مالکیہ کا ہے، شوافع و حنابلہ ان کے درمیان آتےہیں،
2۔ اس قسم کے تحت کتنے قواعد آتے ہیں، وہ کن شرائط کے ساتھ حجت ہیں نیز ان کی باہمی درجہ بندی کیا ہے، اس بارے میں امام سرخسی و بزدوی تک مشائخ احناف کے ہاں کوئی اصولی وضاحت نہیں ملتی، اس بحث کو سنوارنے کا سہرا بھی دلچسپ طور پر علمائے شوافع بالخصوص امام غزالی کے سر ہے۔ ایسی صورت حال میں اس مفروضے میں کتنی معنویت ہوسکتی ہے کہ “شوافع تو ان قواعد کے قائل نہیں، البتہ احناف قائل تھے”، یہ اہل علم پر مخفی نہیں!
نتیجہ
الغرض یہ واضح ہوگیا کہ قاعدے کو دلیل تفصیلی سے خارج فرض کرنا ایک غلط مفروضہ ہے اور اسی غلطی سے یہ ابہام جنم لیتا ہے گویا فقہ و اصول فقہ کی مروجہ تعریفات غلط ہیں۔
کمنت کیجے