Home » زکوۃ کی ادائیگی ۔ چند توجہ طلب فقہی سوالات
سماجیات / فنون وثقافت فقہ وقانون

زکوۃ کی ادائیگی ۔ چند توجہ طلب فقہی سوالات

ڈاکٹر مولانا اسحاق عالم

زکوۃ کے کچھ مسائل ایسے ہیں جو اس دور میں متوسط درجہ کے طبقے کے لیے بھی کافی مشکلات کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ ہر سال جب لوگ زکوۃ کے مسائل پوچھنا شروع کرتے ہیں تو دماغ گھوم جاتا ہے۔ میں یہ ہرگز نہیں کہتا کہ ہمارے فقہاء کی تصریحات غلط ہیں لیکن یہ ضرور کہتا ہوں کہ موجودہ دور کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے ان مسائل پر نظرثانی کی اشد ضرورت ہے۔ ہوسکتا ہے کہ سالوں قبل وہ ایشوز نہ ہوں جو آج ہیں تو اُس زمانے کے مفتیان کرام نے اپنے اپنے ادوار کے حساب سے اپنی آراء قائم کی تھیں، آج کے مفتیان کرام کو بھی ہمت کرکے امت پر احسان کرتے ہوئے آسانیاں پیدا کرنی چاہییں۔ اور پھر خاص طورپر وہ مسائل جو مختلف فیہ یا ان پر صراحۃً کوئی نص موجود نہیں ہے اور اس کی وجہ سے مشکلات ہیں تو ان پر ضرور نظرثانی کی ضرورت ہے۔
۱۔ایک مسئلہ حوائج اصلیہ کا ہے جس کی وضاحت میں فقہاء فرماتے ہیں کہ وہ مصارف جو انتہائی لازم ہوں اور ان کے بغیر رہنا ممکن نہ ہو لیکن ان ہی فقہاء سے جب پوچھا گیا کہ ایک شخص جس نے اپنا ذاتی مکان خریدنے یا بچیوں کی شادیوں اور حج و عمرہ کی غرض سے کچھ رقم جمع کر رکھی ہے، کیا ایسی رقم پر زکوۃ ہوگی؟
تو جواب اثبات میں ہوتا ہے۔
حج و عمرہ کا تو سمجھ آتا ہے کہ اگر صاحب حیثیت نہیں ہیں تو وہ لازم بھی نہیں، عمرہ تو ویسے بھی نفلی عبادت ہے لیکن موجودہ دور میں اپنا ذاتی مکان ہونا اور بچوں میں سے خاص طورپر بچیوں کی شادیاں کرانا، آپ شاید اندازہ کرسکیں کہ یہ کتنا بڑا ایشو ہے۔ یہ اس سے پوچھیں جس پر یہ مجبوری آپڑی ہے۔ ایسے لوگوں پر ترس کھاتے ہوئے لوگ اپنی زکوۃ دیدیتے ہیں تاکہ شادیوں میں آسانی ہو کیونکہ وہ ان ایشوز کو سمجھتے ہیں۔ میرے خیال میں اس طرح کے مجبور انسان نے اگر ان ضروری مقاصد کے لیے رقم جمع کر رکھی ہ تو انہیں حوائج اصلیہ میں شامل کرکے زکوۃ سے مستثنی رکھا جانا چاہیے۔
۲۔ دوسرا ایک اہم مسئلہ زمینوں پر زکوۃ کے سلسلے میں ہے۔ ایک شخص جو اپنا ذاتی مکان خریدنے کی غرض سے کوئی تگ و دو کرتا ہے اور اس کی شروعات کسی ویرانے میں زمین خریدنے کی صورت کرتا ہے۔ اس کے ذہن میں یہ بات ہوتی ہے کہ آنے والے کچھ سالوں میں اس کی ایک اچھی ویلیو بن چکی ہوگی، کچھ میں بیسیاں ڈال کر رقم جمع کرلوں گا تو پھر اس زمین کو بیچ کر کسی مناسب جگہ کوئی فلیٹ یا مکان خرید لوں گا۔ یہ شخص بھی اس زمانے میں قابل ترس ہے۔ اسے کہا جاتا ہے کہ آپ نے ہر سال اپنی زمین پر زکوۃ دینی ہے۔ دس سال بعد جب وہ اس زمین کو بیچتا ہے تو بعض اوقات وہ زمین اسی قیمت پر فروخت ہورہی ہوتی ہے جس پر خریدی تھی، کبھی بہت معمولی اضافہ ہوا ہوتا ہے اور کبھی سوسائٹی والے اس کی زمین ہڑپ بھی کر جاتے ہیں۔
میں یہاں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ شخص کوئی بلڈر، انویسٹر یا اس طرح کی کوئی توپ چیز نہیں ہے جو ہر مہینے زمینیں خریدتا اور بیچتا ہو اور یہی اس کا روزگار ہو اور اسی کی کمائی کھاتا ہو بلکہ یہ ایک ایسا تنخواہ دار مجبور شخص ہے جو اپنی ذاتی ضرورت کے لیے زمین لے کر اسے کئی سالوں کے لیے رکھنا چاہتا ہے، اس پر اس کی پراپرٹی پر ہر سال زکوۃ نہیں ہونی چاہیے۔
۳۔ تیسرا ایک اہم مسئلہ خواتین کے زیور پر زکوۃ کا بھی ہے۔
کسی خاتون کے پاس اگر نصاب سے کم زیور ہے، فرض کرلیں کہ پانچ تولہ سونے کا زیور ہے تو اس پر زکوۃ نہیں ہے لیکن اگر پانچ تولہ زیور کے ساتھ ایک ہزار روپے بھی ہیں تو پھر زیور پر زکوۃ ہے۔ اور اس مسئلہ میں اتنی سختی ہے کہ ایسی خاتون سے کہا جاتا ہے کہ اگر آپ کے پاس زکوۃ دینے کے لیے پیسے نہیں ہیں تو زیور کا کچھ حصہ بیچ کر زکوۃ ادا کریں۔ ایسی صورت میں آئندہ کچھ سالوں بعد اس خاتون کے پاس زیور باقی نہیں بچے گا ان شاءاللہ کیونکہ وہ تھوڑا تھوڑا بیچ کر اس نے زکوۃ میں دیدیا ہوگا اور کوئی ذاتی ذریعہ آمدن اس کا ہے نہیں کہ وہ اس آمدنی میں سے زکوۃ دیتی رہے۔ اور سونا اتنا مہنگا ہوچکا ہےکہ شوہر نے مزید زیور بنوانا بھی نہیں ہے۔ پھر کئی جگہوں پر جب شوہر دیکھتے ہیں کہ بیوی پر زکوۃ لازم ہوچکی ہے لیکن اس کے پاس پیسے نہیں ہیں تو زیور بکتا دیکھ کر وہ اپنی بیویوں کے زیورات کی زکوۃ خود دے رہے ہوتے ہیں جو کہ اضافی ایک بوجھ ہے کہ وہ اپنی زکوۃ بھی دے رہا ہے اور ساتھ میں بیوی کی بھی اور یہی سب قربانی میں بھی ہوتا ہے۔
ویسے بھی اگر دیکھا جائے تو موجودہ زمانے میں سونے اور چاندی کی وہ حیثیت رہی بھی نہیں جو پہلے تھی تو احکام میں بھی تخفیف ہونی چاہیے،گو کہ یہ حیثیت ختم ہوئے زمانہ ہوگیا ہے لیکن مسائل ابھی پیدا ہوئے ہیں۔
سوچنے کی بات ہے کہ متاخرین بھی تو اپنے سے پہلوں سے اختلاف فرماتے رہے ہیں اور کتب فقہ میں اس کی کئی مثالیں موجود بھی ہیں، میرے خیال میں یہ اختلاف حالات کے تقاضوں کو بھانپتے ہوئے ہی کیا جاتا تھا لہٰذا موجودہ دور کے مفتیان کرام کو بھی ہمت کرکے اس پر ضرور ایسی آراء قائم کرنی چاہییں جو قرآن و سنت کے خلاف بھی نہ ہوں اور اس میں لوگوں کے لیے سہولت بھی ہو۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا ڈاکٹر اسحاق عالم  جامعہ کراچی میں دینی علوم کے استاذ ہیں۔
ٹیگز

منتظمین

ا کمنٹ

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں

  • جہاں تک میں سمجھ پا رہا ہوں ہر شی جس کا خود اپنا نصاب ہے اگر وہ اپنے نصاب کے حد کو نہیں پہونچتی اس پر زکاۃ واجب نہیں ہونی چاہیے ۔کیا کسی کے پاس چار اونٹ اور بیس بکری ہو تو اس کی قیمت لگا کر زکاة فرض کی جائے ۔اک سوال یہ بھی ہے کرنسی کس چیز کی متبادل ہے ۔آج کسی بھی ماہر اقتصادیات سے پوچھیں گے تو وہ گولڈ بتائے گا ۔اسی سے یہ بات نکلتی ہے کہ ہندوستانی اور پاکستانی روپیہ گولڈ کا متبادل ہے یہ بھی حقیقت ہے کاغذ کرنسی کی بذات خود کوئی ویلو نہیں ہے ۔جب وہ گولڈ کا متبادل ہے تو روپیے کا نصاب بھی گولڈ سے متعین ہونا چاہیے نا کے چاندی سے ۔اک آخری سوال کیا دو نصابی چیز کو جیسے چار اونٹ تیس بکری یا دس گائے اور بیس بکری یا سونا چاندی جو فردا فردا اپنے نصاب کو نا پہونچا ہو ملاکر زکاۃ فرض کی جائے گی