ڈاکٹر طیب عثمانی /ڈاکٹر سید مطیع الرحمن
مدرسہ ڈسکورسز کے پانچ سالہ پرا جیکٹ کا اختتامی انٹینسو 13 تا 17 جولائی 2021 مری (بھوربن) میں منعقد کیا گیا ۔اس پروگرام میں ملک کے نامور اہل علم کو دور حاضر کے اہم علمی و فکری مباحث پر گفتگو کے لئے مدعو کیا گیا ۔ان اہل ِ دانش میں جناب ڈاکٹر خالد مسعود،جناب ڈاکٹر محسن نقوی ، جناب ڈاکٹر زاہد صدیق مغل ، جناب ڈاکٹر حسن الامین، جناب خورشید احمد ندیم شامل تھے۔ ایک خوبصورت پہلو یہ بھی تھا کہ جو مہمان مقرر مدعو کیاگیا، انہیں ایک دو دن کے لئے ہوٹل میں ہی ٹھہر ایا گیا تاکہ ان کے لیکچر کے بعد شر کاء کو کسی قدر بے تکلفی سے با ت کرنے کا موقع میسر آسکے اور دوسری طرف مقررین کو بھی شر کائے مجلس کے ذہنی دوائر اور فکری اپج کا اندازہ ہو سکے ۔چنانچہ رات گئے تک شرکا اساتذہ سے محو گفتگو رہتے اور اس نعمتِ عظیمہ سے مستفید ہوتے رہتے۔ راقم اور برادر عزیز ڈاکٹر طیب عثمانی نے اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئےجناب ڈاکٹر خالد مسعود سے ایک مختصر سی گفتگو کی جسے ضبط ِ تحریر میں لاکر قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے ۔ (سید مطیع الرحمن)
مطیع سید: آپ دو تین دن سے ہمارے اس پروگرام میں بطور مہمان شریک ہیں ۔مدرسہ ڈسکورسز کے بارے میں آپ کے کیا تاثرا ت ہیں؟
خالد مسعود : مدرسہ ڈسکورسز کا یہ میرا پہلا بر اہ ِ راست ٹاکراہے ۔اس کے بارے میں پڑھتا رہا ہوں ۔ڈاکٹر ابراہیم موسی سے بہت زیاد ہ قرب ہے ۔ ساؤتھ افریقہ میں بھی ان کے پاس رہا۔ان سے کافی ملاقاتیں ہیں ۔ کئی سیمینا ر میں ان کے ساتھ رہے ۔Islam and Modernity والی کتاب میں بھی ان کے ساتھ کام کیا ہے ۔ اس میں ایک ان کا بھی آرٹیکل ہے ۔ میرا مدرسہ ڈسکور سز کے بارے میں تعارف سا را غائبانہ ہے۔یہ جو ٹاکرا ہے، اس کا ایک الگ تجربہ کچھ لوگوں نے کیا جس میں مدرسے کے نوجوانوں کے ساتھ Contactکے بہت سارے پروگرام بنائے گئے۔ان میں میں بھی شامل رہاہوں ۔لیکچر والا سسٹم بھی تھا اور ویسے آپس میں گپ شپ بھی تھی ۔ اور اس کے علاوہ ایک تجربہ ہم نے کیا تھا مدرسے کے سٹوڈنٹس سے Interaction کا ،کہ پاکستا ن اور پاکستان کے سٹرکچر کے بارے میں ہمیں کیا بتایا جاتا ہے ۔اس میں جب پتہ چلا کہ آئینِ پاکستان کا تو کسی نے مطالعہ کیا ہی نہیں۔پھر بعد میں انہوں نے آئین کی کاپیاں مانگیں۔ہم نے پھر کاپیاں حاصل کر کے ان کو دیں۔ایک اس طرح کا تجربہ ہوا۔
ایک اور سلسلہ تھا ، یہ لاہور والے علامہ جہانگیر محمود ہیں ،وہ ینگ علما ء کی ٹریننگ کا پروگرا م کرتے ہیں ۔تو اس میں بھی تین سال لیکچر دینے جاتا رہا ہوں ۔انہیں میں نے پہلے ہی Warn کر دیاتھا کہ میں مدرسے کا پڑھا ہو انہیں ہوں ۔تو میری عربی پڑھائی اور جتنی بھی درسِ نظامی کی کتابیں ہیں، وہ اپنے طورپر پڑھی ہیں۔ اس لئے مجھے پتہ ہے کہ میں کتنے پانی میں ہوں۔میں نے ان کو بتا دیاتھا کہ یہ میری Background ہے ۔انہوں نے فرمایا کہ کوئی بات نہیں، لیکن وہ تجربہ اچھا نہیں تھا۔ سٹوڈنٹس پر ایسا تھا جیسے میں ظلم کر رہا ہوں اور ایسی بات کر رہاہوں جو مجھے نہیں کہنی چاہیے۔ تو پھر میں نے ہی کہا کہ یہ پروگرا م کے لیے صحیح نہیں ہے ۔
مدرسہ ڈسکورسز کا جہا ں تک تعلق ہے تو اصل میں جو اس کی بنیاد ہے وہ وہی ہے کہ جو Concept بنا ہوا ہے اور خاص طور پر 9/11 کے بعد اور آفیشل ہے ، مطلب اس میں سرکاری لوگوں نے کہا ہے کہ مدرسہ ExtremistکیDen ہے ۔تو یہ اس کے پس منظر میں ہے۔[1]ISIM میں بھی تقریبا یہی تھا کہ اسلام کی ایک Systematic Study ہو نی چاہیے جو انہی روایات کو یا اسلامک سٹڈیز کو ایک نئے پیرائے میں پڑھے۔ اسلامک سٹڈیز کا جو Western University System ہے ، ISIM کا زیادہ تر وہی تھا۔ مدرسہ ڈسکور سز میں یہ ہے کہ مدرسے سے Contact کر کے ان کے ساتھ Interaction ہو ۔ مدرسہ ڈسکور سز میں دونوں چیزیں ہیں کہ مدرسے کے سٹوڈنٹس کو موقع بھی دیاجائے کہ وہ دوسروں کی جو Theories ہیں، جو Education ہے اس کو Exploreکریں لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ ہے کہ مدرسے کے سٹو دنٹس میں بھی ایک رجحان پیداکیا جائے کہ ان کے اندر Curiosity اپنی بھی ہو کہ وہ جاننا چاہیں۔مدرسہ ڈسکور سز کا میرا Perspective یہ ہے ۔
مطیع سید: ڈاکٹر فضل الرحمٰن کے Dynamicتصورِ سنت کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں ؟
خالدمسعود :یہ اصل میں ان کا جوزف شاخت(Joseph Franz Schacht:1969-1902) کے ساتھ Continued Discussion ہے ۔ شاخت کا جو سنت کا Concept ہے وہ اصل میں” سنت ِ جاریہ “کا ہے ۔سنت ِ جاریہ ان کے الفاظ کا ترجمہ ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ سنت اس طرح نہیں ہے کہ رسو ل اللہ کے اقوال کو جمع کیا گیا ہے ۔یہ ایک Living Practice تھی ۔ وہ Practice کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔
مطیع سید : یہ شاخت کہہ رہے ہیں ؟
خالد مسعود : جی شاخت کہہ رہے ہیں ۔ تو سنت یا حدیث یہ نبی ﷺ کے فرمان پر منحصر نہیں ہے بلکہ سنت اس سوسائٹی کی خاص طور پر صحابہ کی تین Generations ہیں ۔یہ سنت جاریہ تھی، Continuedتھی ۔جب یہ حدیث گر وپ آیا ہے تو انہوں نے اس کو جمع کیا۔ اس وقت تک جمع کرنے کے اصول وغیرہ سے زیادہ یہ تھا کہ جمع کر دیا گیا ۔امام شافعی ؒ نے سوال اٹھایا کہ اس کی Authenticity ضروری ہےاور قرآن اگر سمجھا جا سکتا ہے تو سنت سے سمجھا جا سکتا ہے ۔تو یہ حدیث تحریک( کیونکہ امام شافعی تو آخر میں آتے ہیں ) اس سے پہلے موجود ہے ۔ تو حدیث تحریک کے Response میں شاخت کا بھی یہی Concept ہے کہ جتنی بھی حدیث ہے ، یہ Continued Practice ہے۔امام شافعی سے پہلے کوئی کہتا تھاکہ حدیث تھی یا رسو ل اللہ نے فرمایا تو وہ Acceptable نہیں ہے،کیوں کہ یہ Conceptہی موجود نہیں تھا ۔تو ڈاکٹر فضل الرحمٰن اس کو Question کرتے ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ سنت کا یہ Concept تو Pre-Islamic ہے ۔ سنہ کا Conceptپہلے ہی موجود تھا اور سنہ سے مراد Social Practice ہے ۔اور وہ Social Practice اسلام میں بھی موجود تھی۔اور یہ حدیث جمع کر نے سے پہلے تھی۔ تو ان کا کہنا ہے کہ یہ ساری بحثیں بعد میں آئی ہیں ، کہ یہ رسول اللہ کا فرمان ہے یا رسول اللہ کی Practiceہے ۔ اور اس کی وجہ سے جو ساری Criticism ہے، وہ بھی بعد میں آئی ہے ۔سنت بطور Practice یہ پہلے سے ہی موجود تھا ۔
طیب عثمانی : ڈاکٹر فضل الرحمٰن شاخت کے ساتھ مکالمے میں ایک خاص Perspective میں بات کر رہے تھے یا ان کا عمومی منہج یہی تھا؟
خالد مسعود : نہیں ،ہے تو شاخت کا ،کیوں کہ یہ بحث چلی ہے ڈاکٹر فضل الرحمٰن سے پہلے۔ کراچی یونیورسٹی میں ڈاکٹر محمد یوسف نے اس Concept of Sunnah پر لکھا تھا اور وہ شاخت کے جواب میں لکھاتھا ۔پھر اعظمی صاحب کی ڈسکشن بھی ہے۔کتابیں تو ان کی بعد میں آئی ہیں اور ویسے بھی یہ ہمارے اصول ِ فقہ والے خضری بک ہوں یا دوسرے، اس زمانے میں یہ بحثیں شروع ہو گئی تھیں۔ تو سنہ کا جو Conceptہے اگر آپ (ڈاکٹر جواد علی کی) المفصل بھی پڑھیں نا تو اس میں بھی سنہ کا تصور موجود ہے ،وہ جاہلی تصور موجود ہے ۔
مطیع سید: گویایہ نقطہ نظر شاخت کا ہے ۔
خالد مسعود : نہیں Point of Discussion اس کا ہے ۔کیوں کہ ہمارے ہاں یہ بحثیں شروع ہو چکی تھیں ۔
مطیع سید: جی، تو ڈاکٹر فضل الرحمٰن اس کا جواب دے رہے ہیں ۔
خالد مسعود : جی ہاں ۔
مطیع سید: آپ کی جب ڈاکٹر فضل الرحمٰن سے ملاقات ہوئی تو کیا وہ تب پاکستا ن سے جاچکے تھے ؟
خالد مسعود: نہیں ، میں نے 62 میں ایم اے اسلامیات کیا۔ مجھے خوش قسمتی سے گولڈ میڈل بھی ملا ۔میں اس وقت بہت خوش تھا ۔میں نے انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک سٹڈیز میکگل میں داخلے کے لیے درخواست بھیج دی ۔
مطیع سید: تو وہ جاچکے تھے وہاں ؟
خالد مسعود: نہیں جا نہیں چکے تھے ۔ وہ وہاں انگلینڈ Durum سے آئے تھے ۔اس عرصے میں اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں بھی درخواست دے چکاتھا ۔ڈاکٹر فضل الرحمٰن نے جب میری پی ایچ ڈی کی Application دیکھی تو انہوں نے کہا کہ نہیں پہلے ہم آپ کو ایک سسٹم کے تحت چا ر سال ٹریننگ دیں گے ۔
مطیع سید: ان کی ٹریننگ کی کیا نوعیت تھی ، اس میں انہوں نے کیا پڑھایا ؟
خالد مسعود :ہمارے جو فیلوز تھے ۔ اس وقت جو آفیسر گریڈ ون کے لیے جاتے تھے ، انہیں فیلوز کہتے تھے ۔تو اس میں فضل الرحمٰن بھی تھے۔اسلم صدیقی صاحب بھی تھے ۔ یہ تین چار لوگ تھےجو سارے لیکچرز دیتے تھے ۔
طیب عثمانی :ڈاکٹر اسلم صدیقی لاہور والے ؟
خالد مسعود : نہیں ان کا تو انتقال ہو چکا ہے ۔یہ اسلم صدیقی بڑے پرانے بیوروکریٹ تھے ۔ ان کا تو مجھے یاد ہے کہ ایک تو History of Ideas پڑھاتے تھے ۔اورایک Methodology of History ۔Methodology کیسے Develop ہوئی اصول فقہ وغیرہ ۔دو اور کور س تھے جو مجھے اب یا د نہیں ۔یہ کو رسز مکمل ہوئے تب مجھے انہوں نے داخلہ دیا۔
مطیع سید:یہاں آپ کو کس نے پڑھایا ؟
خالد مسعود : History of Ideas تو ڈاکٹر فضل الرحمٰن نے خود پڑھایا ۔اسی طرح Methodology of History in Islam انہوں نے پڑھایا ۔ دو اور کورس انہوں نے پڑھایا ۔اسلم صدیقی صاحب نے جوپڑھایا وہ صحیح طرح یا دنہیں لیکن Something about Democracy or Modern Systemوغیرہ سے متعلق پڑھایا۔
طیب عثمانی : Methodology of history in Islam میں کیا Contents تھے؟
خالد مسعود :یہ ان کی بعد میں کتاب چھپی ہے Methodology of history in Islam۔
مطیع سید:History of Ideas کی کوئی کتاب تھی یا کوئی Outlineتھی ؟
خالد مسعود :نہیں اس موضوع پر ان کے لیکچرز زبانی تھے۔
مطیع سید: ان لیکچرز کی کوئی ریکارڈنگ تو نہیں ہوئی ہوگی؟
خالد مسعود : نہیں ،اس زمانے میں تو یہ مشکل کام تھا۔ History of Ideas میں تو اصل میں فلاسفی تھی ۔لیکن اس میں وہ یہ نہیں بتاتے تھے یہ فلاں Greek آئیڈیا ہے یا فلاں کا ۔آئیڈیاز کیسے Develop ہوئے ، یہ بتاتے تھے ۔
مطیع سید: جب ڈاکٹر فضل الرحمٰن یہاں سے چلے گئے تو اس کے بعد بھی کبھی آپ کی ان سے ملاقات ہوئی ؟
خالد مسعود:جی ،میں شکاگو گیاتھا۔
مطیع سید:کبھی انہوں نے اس بات کا گلہ کیا کہ انہیں یہاں سے مجبورا َ جانا پڑا؟
خالد مسعود : میں نے شاید پہلے آپ سے ذکر کیا تھا کہ مجھے تو وہ اپنے گروہ کا بندہ نہیں سمجھتے تھے۔ میں ان کا شروع سے Follower تھا۔ان کو اپنا آئیڈیل سمجھتا تھا ،کیوں کہ ان کا مطالعہ بہت زیادہ تھا۔ مجھے وہ قابل بھی نہیں سمجھتے تھے ۔لیکن مجھے جو گلہ تھا ۔مثلا میں مثال دیتا ہوں ،میرے ان سے گلے تھے ،ان کو مجھ سے کوئی گلہ نہیں تھا۔ ایک تو جب میں نے McGill میں اپلائی کیا تھا تو ایک صاحب اور تھے ہمارے Colleague جنہوں نے اسلامیات میں ہی ایم اے پنجاب یونیورسٹی سے کیاتھا ۔میرا گو لڈ میڈل تھا ،ان کی سیکنڈ کلاس تھی ۔ انہوں نے میری بجائے اسی وظیفے پر ان کو بھیجا ۔بعد میں بھی اس کو بہت زیادہ مانتے تھے ۔ کوئی وجوہات ہوں گی ۔ان صاحب نے ایم اے مشکل سے کیا تھا، پی ایچ ڈی سے پہلے ہی وہ واپس آگئے۔ میں نے جب پہلا مقالہ لکھاتھا تو اس پر بھی ان کی تنقید تھی۔
طیب عثمانی : آپ کا پہلا مقالہ کون ساتھا جس پر ان کی تنقید تھی ؟
خالد مسعود : وہ تھا “اہل ِ حل و عقد کا ادارہ “۔
مطیع سید: اقبال نے جو تشکیل ِ جدید الٰہیات اسلامیہ میں کچھ خطوط واضح کیے تھے ،کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ڈاکٹر فضل الرحمٰن نے اسی کام کو آگے بڑھا یا یا ان کا اپنا منہج تھا؟
خالد مسعود : ان کی اپروچ بالکل مختلف تھی ۔
طیب عثمانی : ان کے بارےمیں ایک محفل میں بیٹھے ہوئے ڈاکٹر ابراہیم موسی سے بات ہوئی تھی کہ اقبال نے جو تصور دیا تھا خاص طورپر The Concept of Movement in Islam اس میں ڈاکٹر فضل الرحمٰن جو ہیں، وہ کچھ یہاں سے لیتے ہیں ۔اور مولانا عبید اللہ سندھی کے جو تعلقات تھے ڈاکٹر صاحب کے والد صاحب کےساتھ، کیوں کہ ان کے گھر ان کی مجلس ہوتی رہتی تھی ۔ تو ڈاکٹر فضل الرحمٰن کے ہاں دونوں Streams آکے اکٹھی ہو تی ہیں ۔
خالد مسعود : ہو سکتاہے، مجھے اس کا علم نہیں ۔لیکن وہ سرور صاحب کو لے کر آئے تھے اور سرور صاحب کا عبید اللہ سندھی سے linkتھا تو غالبا اسی Link کی بنیاد پر لائے ہوں گے ۔
مطیع سید : ڈاکٹر ابراہیم موسی نے ہمیں بتایا کہ ڈاکٹر فضل الرحمٰن آخری سالوں میں کچھ دوستوں کے ساتھ مل کر ابن عربی پڑھا کرتے تھے ۔
خالد مسعود : یہ تو ان کا بعد کا شکاگو کا پیریڈ ہو گا ۔
مطیع سید: ڈاکٹر صاحب چونکہ 60 اور 70 کی دہائی میں کام کررہے تھے اور وہ ماڈرنزم کا دور تھا اور اب تو دور پوسٹ ماڈرنزم اور اس سے بھی آگے کی طرف بڑھ چکا ہے ۔ تو کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کی فکر اب Relevantنہیں رہی؟
خالدمسعود : نہیں ان کی فکر تب Irrelevantہوگی نا جب ہم پہلے ماڈرنزم کو Accept کرلیں ۔ان کا تو Islamic Modernism بھی Accept نہیں ہوا۔خاص طورپر پاکستان میں تو نہیں ہوا۔لیکن ان کے اپنے Islamic Modernism کا رول کیا ہے ،یہ بدلتا رہا ہے ۔ جتنی بھی ان کی چیزیں ہیں نا مثلا آپ شروع کریں ان کا ادارے میں آنے سے پہلے انہوں نے ایک آرٹیکل طاہر حداد(1899-1935) پر لکھا ، عورتوں کے حقوق پر۔طاہر حداد[2] تیونس کے ہیں ۔جس کی وجہ سے یہ Polygamy Ban ہوئی۔یہ طاہرحداد کے Thoughtsتھے۔تو Islamic Modernism کا ایک تو وہ دور ہے کہ آپ بالکل Boldly اسلام میں Reforms لائیں ۔ اور وہ تقریباَسب کا ایک سا ہے ،ایپروچز مختلف ہیں ۔ محمدعبدہ(1849-1905) ایجو کیشن میں زیادہ Reforms کے قائل تھے۔اور بہت ہی ڈرتے ڈرتے law میں انہوں نے بہت کم کام کیا ۔تیونس اور مراکو میں اسی زمانے میں لوگ Islamic Reformsمیں شروع ہو گئے تھے ۔پھر مصر میں خاص طور پر Women rights کے حوالےسے۔ جو شروع کے لوگ ہیں ،قاسم امین[3] (1863-1908)، اس کی کتاب ” تحریر المراۃ” جس کا اردو ترجمہ سرور صاحب نے کیا تھا ۔تو یہ ساری چیزیں موجود تھیں ۔
لیکن ڈاکٹر صاحب کا پہلا Islamic Modernism وہ ہے جو سرسید سے جا کے ملتا ہے ۔دوسرا Islamic Modernism وہ ہے جو علامہ اقبال سے ملتا ہے۔ اپنی کتابوں میں انہوں نے لکھا ہے کہ یہ جو اقبال والا فیز تھا ، اس میں ماڈرنزم کو مانتے ہوئے West پرتنقید زیادہ تھی،جبکہ سرسید کا West کے ساتھ رویہ نرم تھا۔ تو جو علامہ اقبال کا دور ہے ،اس میں West کے ساتھ جو مسلمانوں کا ٹاکرا ہے اس کی وجہ سے یہ ایک Ambiguousیا Dichotomy Relationship ہے West کے ساتھ ۔ ڈاکٹر فضل الرحمٰن کی اس پر یہ تنقید تھی کہ اس کی وجہ سے جوہمارا ماڈرنزم ہے اس میں Modernism vs. Western Civilization کا ایک پہلو آتا ہے ۔ صحیح معنوں میں جو Modernity کا تصور ہے وہ نہیں ہے ۔ اس کے بعد ا ن کا جو دور ہے جس میں مولانا یوسف بنوری کےان کے خلاف فتوے اور ان کا سر قلم کر دیا جائے اور یہ اور وہ ، سارا کچھ ہو رہا تھا ۔اور پھر جن لوگوں نے انہیں بلایاتھا ۔وہ اکثر بتاتے تھے کہ جنرل ایوب یہ کہتا تھا کہ آپ کو اس لئے لایا ہوں کہ ہم” عبدا “پیدا کرنا چاہتے ہیں ۔وہ عبدہ تو نہیں کہتے تھے ،عبدا پیدا کریں گے،یعنی وہ محمد عبدہ چاہتے تھے۔تو Islamic Modernism کا جوتصور ایوب کے ذہن میں تھا وہ Egyptian Model تھا۔تو اس کا اس زمانے میں ماڈل عبدہ تھا۔زیادہ Philosophical ان کا اس وقت شروع ہوا جب یہاں ان کا پاکستان میں ٹاکرا ہو ا اورپھر یہ ان کو Detail میں اور پھر اسی وقت اگرچہ 1961 ء میں مسلم فیملی لاء کاآرڈیننس پا س ہو چکا تھا لیکن اس پر بحثیں جو تھیں وہ شروع ہوگئیں اور اس کے اوپر مولانا یوسف بنوری اور ان کے گروپس اس کے سخت خلاف تھے ۔ خاص طور پر ان مسائل میں جو عورتوں کے حقوق کا مسئلہ تھا ۔ یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ تھا،ان پہ بحثیں تھیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یتیم پوتے کی وراثت پر جو نوٹ ڈاکٹر فضل الرحمٰن نے لکھاتھا ، و ہ اس کے حق میں نہیں تھا ۔ وہ اس کے حق میں نہیں تھے کہ اسے وراثت ملے ۔
مطیع سید: میں نے ایک موقع پر ڈاکٹر اسرار صاحب کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ڈاکٹر فضل الرحمٰن اگر بطور ایک فرد کے لکھتے تو شاید اتنا Reactionنا آتا جتنا کہ بطور سر کاری ادارے کے سربراہ کے ۔لوگوں نے سمجھا کہ سرکار کی سرپرستی میں بڑا کچھ ہونے لگا ہے ۔کیا آپ یہ وجہ سمجھتے ہیں ؟
خالد مسعود :چونکہ میں اس سے گزرا ہوں ، فرد یا ادارے کا مسئلہ نہیں ،اصل ٹارگٹ جو Empower ہے ان کے زمانے میں ایو ب اور میرے زمانے میں پرویز مشرف ہے ۔ٹارگٹ وہ تھا اور اس کے ساتھ پنگا نہیں لے سکتے مگر اس کے جو مقرر کر دہ لوگ ہیں ان پر ۔
مطیع سید: امریکہ میں وہاں کے غیر مسلم اہل علم کی طرف سے ڈاکٹر صاحب پر کس نوعیت کا کام ہواہے ؟
خالد مسعود : بطور Reformist بطور Modernist۔لیکن یہ جو انہوں نے ادارےمیں ریسرچ کی ہے وہ بہت In depth Research تھی جس میں Activism نہیں ہے ۔ یہاں Activism ہے مسلم فیملی لا ء پر ، عورتوں کے حقوق پر ،یہاں تک کہ اردو ادب ،روایت اور Method of reform ان سب پر ۔جو بھی فکر و نظر میں یا Islamic Studies میں چھپتا تھا ،بینات میں اس کے خلاف مضمون آتا تھا۔ تو وہ مستقل تھا اور وہ جواب اسی طرح کا ہوتا جیسا الزامی جواب ہوتا ہے ۔ مثلا انہوں نے ایک مضمون میں لکھا (مجھے Exact تو یاد نہیں ) کہ امام شافعی کی وجہ سے مسائل پیچیدہ ہوئے ۔اور امام شافعی کو مور دِ الزام ٹھہراتے ہیں کہ بہت سارے مسائل میں یہ صحیح راستے سے ہٹ گئے تھے ۔ تو انہوں نے جوابا مضمون میں لکھا کہ سیدھا سادھا بتائیں کہ امام شافعی جنت میں جائیں گے یا جہنم میں ۔
مطیع سید : آپ نے کل ناشتے کے دورا ن میں فرمایا تھا کہ ڈاکٹر صاحب اشاعرہ کے بہت خلاف تھے ، وہ فرماتے تھے کہ ساری برائی کی جڑ یہ ہیں۔ جبکہ آج کے لیکچر میں جناب ڈاکٹر زاہد صدیق مغل فرمارہے تھے کہ اشاعرہ تو زیادہ Rational ہیں بمقابلہ معتزلہ کے ،کہ بہت ساری ایسی ذمہ داریوں سے آزادی مل جاتی ہے جو معتزلہ لگاتے ہیں۔ توڈاکٹر صاحب کس حوالےسے اشاعرہ کو موردِ الزام ٹھہراتے تھے۔
خالد مسعود : نہیں، زاہد صدیق مغل صاحب تو معتزلہ کے اور اس پوری Rationalist تحریک کے خلاف ہیں۔ وہ تو سارے جانتے ہیں۔ اور پھر دوسرا انہوں نے جو باربار یہ فرمایا کہ ،کیوں کہ وہ سارا الغزالی کے حوالے سے بات کر رہے تھے ۔ الغزالی کا تو ، جو میں نے آج بھی بات کی ہے کہ مقاصد الفلاسفہ میں ان کا Attack معتزلہ پر نہیں ہے، فقہاء پر ہے ۔ فقہا ء کےجو مسلمات ہیں Presumptions ہیں ،مبادی ہیں ، جن اصولو ں پر فقہ کھڑی ہے ،وہ قطعی نہیں ہیں ۔ وہ موہومہ ہیں ۔موہومہ کا لفظ غزالی ہمیشہ ان کے لئے استعمال کرتے ہیں جو Imaginary ہیں۔تو بہرحال ڈاکٹر فضل الرحمٰن کاجو بہت زیادہ Deep Researchکا جو دور ہے وہ شکاگو کا ہے ۔
مطیع سید: گویا انہیں وہاں یکسوئی سے موقع ملا ۔
خالد مسعود : موقع بھی ملا ،لیکن اسی دور میں ان کی ایک Return بھی ہے ۔وہ جب یہاں پاکستان میں ہیں تو بہت زیادہ مذہبی شخصیت نہیں ہیں ۔وہاں جاکے مذہبی شخصیت بنے۔جمعہ میں خطبہ بھی دیتے تھے اور اپنے شاگردوں کو اس کی تلقین بھی کرتےتھے ۔ تو بطور ایک مسلم کا Return تھا۔
مطیع سید : بقول اقبال “مسلمان کو مسلمان کر دیا طوفانِ مغرب نے” ۔
خالد مسعود : ہاں ، بہر حال میں تو اس سارے کو ایک علمی انداز سے دیکھتا ہو ں ۔
مطیع سید : پاکستان میں تو ان کے کام کو آگے نہیں بڑھایا گیا ، لیکن وہ ایک انٹر نیشنل پلیٹ فارم پر تھے ۔ تقریبا 20 سال کا عرصہ انہوں نے وہاں گزارا ۔ ان کے اس فکری کام کو کسی اور ملک میں آگے بڑھایا گیا ؟
خالد مسعود : مثلا َ نور خالص مجید بہت ہی اہم عہدوں پر ہے ۔ یہ انڈونیشیا میں ہیں۔ ابن تیمیہ کا جو رسالہ ہے “الجواب الصحیح لمن بدل دین المسیح “اس پر ان کا تھیسس ہے ۔وہاں جا کےانہوں نے بہت کام کیا، اس میں سے ایک چیز جو ابھی تک باقی ہے وہ پارا مدینہ یونیورسٹی(جکارتہ،انڈونیشیا) بنائی ہے۔پارا مدینہ کا مطلب On the pattern of Medina۔وہ ساری کی ساری Modernist Perspective of Fazal ur rehman کے حساب سے ایجو کیشن میں ۔اور اسی طرح کا کام شریف ہدایت اللہ یونیورسٹی(انڈونیشیا) میں ہوا ہے ۔اب جو نئی یونیور سٹی آئی ہے، اس میں کافی لوگ ڈاکٹر فضل الرحمٰن کے شاگردو ں کے شاگر د ہیں۔ایک نئی یونیورسٹی جس نے نیشنل یونیورسٹی کے طور پرابھی جولائی میں کام شروع کیا ہے۔ملائیشیا میں ان کے شاگر د ہیں ۔ترکی میں ہیں ۔مراکو میں شاید نہیں ہیں ۔
طیب عثمانی : ہمارے ہاں تنقید کا ایک مزاج رہا ہے ۔خاص طور پہ علامہ محمد اسد آئے ہیں ،ان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ڈاکٹر فضل الرحمٰن صاحب کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ اور آگے ہم دیکھتے ہیں کہ علامہ جاوید غامدی صاحب کے ساتھ بھی کچھ ایسا ماحول بناہے ۔ہمار ے ہاں مذہبی طبقے کا یہ جو عمومی مزاج ہے ،یہ نئے طریقے کو کیوں قبول نہیں کرپا رہا۔ فتویٰ کی جو روش ہے کیوں ہے ، آپ اس سارے منظر نامے کو کس طرح دیکھتے ہیں ؟
خالد مسعود : وہ تو دیکھیں نا مولانا عبید اللہ سندھی ، مولانا مناظر احسن گیلانی ،اسی دیوبند میں آپ دیکھیں تو بہت سارے لوگ ہیں ، کہ اسی وقت ہی ان کے خلاف فتوے دیے گئے ۔ایک اتھارٹی جب بن جاتی ہے اس کے خلاف اگر بات کریں گے تو چاہے وہ آپ کے کتنے بھی قریبی عزیز ہوں ،وہ تو اندر کی ایک پولیٹکل اتھا رٹی کا مسئلہ ہے ۔لیکن یہ جو علامہ اسد کے حوالےسے آپ بات کہہ رہے ہیں ،تو اسد کو علماءسے زیادہ ہمارے پاکستان کی گورنمنٹ نےنقصان پہنچایا ہے ۔اسد کو یہ لے کے آئے تھے ، اور اسد کو بڑے چاؤ سے بلایا ، اور اس کے بعد مدتوں انہوں نے ان کو کوئی ادار ہ نہیں دیا۔ پھر Instructions of Islam کے نام سے لاہور میں ایک ادار ہ بنایا ۔اس میں ان کو حیثیت بالکل نہیں دی گئی۔پھر اس کے بعد جو بنائی تھی Islamic Ideology Council کی طرح کی ۔اس میں انہوں نے ایک پوری تجویز دی تھی ،کہ اس طرح کا اس کا خاکہ ہوگا ،اس طرح کا اس میں کام کیا جائے گا۔ اسد کو اس کی منظور ی نہیں ملی ۔پھر وہ یہاں سے نالاں ہو کے باہر گئے، ان کو پاسپورٹ نہ دیا گیا ۔پہلے انہیں پاسپورٹ پاکستانی دیا گیا تھا ۔تو ان کے ساتھ بہت زیادتیاں ہوئیں۔اسد جو ہیں ان کی اپنی Personality تھی ۔وہ چونکہ Jewish background سے تھے اور توریت کے بہت ہی بڑے عالم تھے ۔ان کا جو ٹاکر ا اقبال کے ساتھ ہے وہ بھی دلچسپ ہے۔انہوں نے بڑا کھل کے کہا کہ اقبال یہ جو تمWork کر رہے ہوں، یہ سارا غلط ہے ۔ تو وہ Personality کا ٹکراؤ بھی ہوتا ہے،بہت ساری چیزیں ہو تی ہیں ، لیکن وہ یہاں سے بہت مایوس گئے ۔
طیب عثمانی : جو علامہ اسد نے اقبال پر تنقید کی ہے اس کا Source کیا ہے ، کیا اس پر کوئی تحریر لکھی تھی؟
خالد مسعود : دیکھیں ایک تو ان کی اپنی کتابیں، Road to Makah ۔پھر اکرام چغتائی صاحب نے Road to Makahکے بعد ان کی بیوی کے خطوط ، اور یہ ساری چیزیں جو چھاپی ہے Road to Makkah-2 ،اس میں یہ ساری چیزیں Documented ہیں ۔
مطیع سید:ڈاکٹر فضل الرحمٰن کی جو قرآن کی ایپروچ ہے ،ان کی کتاب Major themes of Quran میں ، وہ موضوعات بناتے ہیں۔مثلا ایک موضوع ہے خدا اور خدا کے موضوع پر قرآن کی ساری آیات انہوں نے اپنے سامنے رکھ لی ہیں ، اور ان کی روشنی میں وہ ایک پوری تصویر بناتے ہیں ۔اس طرح کیا ایسا نہیں ہورہا ہے کہ جب آپ ایک آیت وہاں سے اٹھا رہے ہیں دوسری کسی دوسرے مقام سے ، تو کیا آپ ان آیات کو پس منظر سے کا ٹ نہیں رہے ،تو اس طرح پس منظر سے کاٹ کے تو آپ کچھ بھی بنا سکتے ہیں ۔ آپ کا اس اپروچ کے بار ے میں کیا نقطہ نظر ہے؟
خالد مسعود : نہیں، یہ بھی ہو سکتا ہے اور اس طرح کی موضوعاتی ترتیب بھی قرآن مجید کی بہت سارے لوگوں نے کی ہے ۔ اور اس کے علاوہ اور بھی ترتیبیں ہیں ۔خواجہ عبد الوحید ان کے ہم عصر بھی تھے ، ڈاکٹر صاحب ادارہ تحقیقات ِ اسلامی میں ان کو لے کے بھی آئے۔مشفق خواجہ کے والد ۔یہ خواجہ عبد الوحید Light of Islam کے نام سے لاہور سے ایک رسالہ بھی نکالتے تھے ۔ انہوں نے بھی موضوعاتِ قرآنی کے حوالےسے کتاب لکھی جو ادارہ تحقیقات ِ اسلامی سے چھپی۔یہ جو Major themes of Quran ہے یہ موضوعاتِ قرآن نہیں ہیں ۔اس کو Philosophical Interpretation کہہ لیں یاPhilosophical Work ہے کہ قرآن میں Major themes کیاہیں۔ Major Themesکا مطلب ہے جو بار بار قرآن میں Repeatہو رہے ہیں ۔اور جن کی بنیاد پہ ان کی نظر میں Islamic Movement ہے ۔یا اسلام کا جو پیغام ہے اس کے لئے وہ Major Themesہیں ۔اور اگر آپ ان کو پڑھ لیں تو گویا آپ اسلام کی تحریک کو سمجھ گئے اور قرآن کا جو خلاصہ ہے وہ آپ سمجھ سکتے ہیں ۔یہ بالکل دوسری اپروچ ہے ۔یہ تفسیر نہیں ہے۔اور یہ بہت Appreciateکیا گیا اور بہت بڑاکام ہے۔
مطیع سید : ابھی آج کے ایک سیشن میں جناب خورشید ندیم صاحب سے میں نے سماج کے حوالے سے سوال کیا تھا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ سماج Standardہوتا ہے مذہب کے مقابلے میں، تو میں نے کہا کہ قرآن حکیم میں تو آیا ہے کہ کئی دفعہ مذہب کی وجہ سے سماج کو اڑا دیا گیا۔ انہوں نے اس کا جواب دیا جو غامدی صاحب دیتے ہیں قانون ِ دینونت والا کہ وہ رسولوں کے ساتھ خاص ہے ۔مجھے اس پہ شرح صدر نہیں ہوتا ۔ کیوں کہ قرآن مجید کا کم و بیش ایک تہائی حصہ قصص پہ مشتمل ہے اور وہ سارے قصص رسولو ں سے Relatedہیں۔اس کا مطلب تو یہ ہے کہ قانون ِ دینونت کی روشنی میں تو وہ سارے قصے زیادہ سے زیادہ نبی ﷺ کے مخاطبین ِ اول کے ساتھ Relatedہیں۔ہمارے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں ۔
خالد مسعو د: وہ تو اگرامام غزالی اور زاہد مغل صاحب کے ساتھ آپ جائیں تو جو Thesis ہے نا وہ یہ ہے ۔میں اس کو اس لئے نہیں مانتا کہ رسول اللہ نے اس وقت کوئی معجزہ دکھایا ہی نہیں ہے ۔جب بعثت کا اعلان کیا ہے اس وقت کوئی معجزہ نہیں دکھایا ۔تاریخ میں کہیں ذکر نہیں۔معجزہ کی بجائے آپ نے فرمایا کہ ، قرآن مجیدمیں بھیQuote ہے، میں نے تمہارے اندر عمر گزاری ہے ،تم نے مجھے کیسا پایا ہے۔اب اس میں امام غزالی کی فلاسفی کے الٹ چیز ہے۔یہ سارا وہ پیریڈ ہے جب وحی نازل نہیں ہوئی ،وہ کہتے ہیں کہ وحی سے پہلے آپ کو حسن وقبح کاعلم نہیں ہوتا۔اور وہ اس کو معیار بتا رہے ہیں کہ آپ میری زندگی کو دیکھیں ۔یہ وحی کے ورود سے پہلے کا ہے نا ۔اس کا مطلب ہے وحی کے ورود سے پہلے بھی انسان اچھے کام کر سکتاہے ، حسن و قبح کو جان سکتاہے ۔یہ تو بالکل اس Thesis کے الٹ ہے۔غامدی صاحب کا جو ہے وہ غزالی کا اگلا ہےکہ جب اللہ تعالیٰ نے حجت قائم کر دی ،تو اس کے بعد جو اس سے انکار کر تا ہے اس کو سزا ملے گی ۔اس کو تباہ کیا جائے گا اس کو ختم کیا جائے گا ۔تو غامدی صاحب کا جو پورا Thesis ہے قرآن مجید میں جتنی بھی انبیا کی کہانیاں ہیں ان سب میں یہ ہے کہ جب تکذیبِ انبیا ہوئی تو ان سب کوتباہ کردیا گیا ۔تو یہ ان کا Thesis ہے ۔
مطیع سید: یعنی ہمارے ساتھ اب اس کا کوئی تعلق نہیں ۔کیوں کہ ہم اب کسی رسول کے دور میں نہیں رہ رہے۔ کیوں کہ یہ سارا معاملہ ایک رسول کے ساتھ خاص ہے ۔
خالد مسعود : نہیں ، اس کے اندر یہ ہے کہ ، قرآن مجید میں بھی ہے کہ جب تک آپﷺ زندہ ہیں اس وقت تک اللہ تعالیٰ عذاب نہیں بھیجے گا ۔تو جو صوفیا ہیں یا دوسرے لوگ ہیں ،وہ تو رسول اللہ کو اب بھی زندہ مانتے ہیں ،اس لئے اس قوم کو وہ عذاب جو پہلے ہوتے تھے،نافرمانی پہ وہ نہیں ہوں گے ۔ایک تووہ توجیہ ہے ۔دوسری توجیہ یہ ہے کہ چونکہ اس کے بعد نبوت ہے نہیں ،تو رسو ل اللہ کی حجت جو تمام ہوگئی ، اس پیریڈ پہ ان پہ ہو گئی۔وہاں بھی میں اس Thesisسے اس لئے متفق نہیں کہ رسول اللہ نے جب فتح مکہ کیا ، تو جو احادیث میں ہے اس کو بھی دوبارہ دیکھنا چاہیے کہ کچھ لوگوں کے بارے میں فرمایاکہ جہاں بھی ملیں ،ان کو قتل کردیا جائے ،باقی سب کو معاف کر دیا ، حالانکہ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے رسول اللہ کو وہاں سے نکا لا، قرآن مجید میں ہے ناکہ انہوں نے تمہیں اپنے گھر وں سے نکالا، اس لیے تم پر ان سے جہاد لازم ہے ، تو اگر تو ان کا Thesis لیا جائے تو ان کو سزا دینی چاہئے تھی ۔لیکن رسو ل اللہ کی سیرت میرے خیال میں اور ہے اور جس طرح لو گ اس کو پیش کرتے ہیں، وہ اور ہے ۔
مطیع سید :ڈاکٹر زاہد صدیق مغل جب حسن وقبح پر گفتگو کررہے تھے تو میں یہی سوچ رہا تھا کہ قرآن میں ہے کہ لتنذر قوم ما انذر اٰبائھم فھم غافلون ۔ اب وہ لوگ تقریبا ڈھائی ہزار سال سے غافلون ہیں اور ان میں حسن و قبح چل رہا ہے ۔اور حضر ت شاہ ولی اللہ تو یہاں تک فرماتےہیں کہ انہی ” غافلون” کی سوسائٹی سے کئی معیارات شریعت نے لیے ہیں ۔
خالد مسعود : نہیں اس کی بڑی وجہ وہی ہے نا کہ امام غزالی بہت بڑے امام بہت بڑے فلسفی ہوں گے لیکن انہوں نے جو تھیالوجی کو فقہ اور شرع میں رول دیا ، اس کی وجہ سے سوائے ان لوگوں کے جو فقہ میں کام کرتے ہیں ، ہماری پوری کی پوری سوچ کو بد ل کے رکھ دیا۔ اب اس میں یہ سارے کے سارے مقدمے انہوں نے قائم کیے ،یہ تھیالوجی کے مقدمے ہیں ۔ یہ قرآن مجید سے نہیں ہیں ۔سر سید جب یہ کہتاہے تو ہم اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں ۔ خرقِ عاد ت ہوئے ، لیکن وہ خر قِ عاد ت ، سر سید کہتا ہے کہ ہمیں جب تک سائنس کا علم نہیں تھا، ہم اس کو خرِق عاد ت سمجھتے تھے۔ اگر یہ ٹیلی وژن اس زمانے میں ہوتا تو نیک لوگ اسے معجزہ سمجھتے اور دوسرے لوگ اسے جادو۔اب ہمارے لئے کوئی مشکل نہیں ہے ۔ ایک آدمی یہاں بیٹھا ہوا امریکہ میں بات کر سکتا ہے ۔ حضرت عمر یا ساریۃ الجبل کہہ کر جنگ میں شامل ہوئے بغیر بھی جنگ کی Instructions دے سکتے ہیں ۔جو مذہبی آدمی ہے وہ اس کوتو معجزے کے پیرائے میں مان لیتا ہے ، لیکن اب ہمیں معجزہ کہنے کی ضرورت نہیں رہی ۔ تو سر سید کا جو Argument ہے وہ اس طرح ہے کہ جب تک کوئی چیز ہمارے علمی انداز یا علمی معیار پر پور ا نہیں اترتی ، اس وقت تک ہم اس کو یا معجزہ سمجھتے ہیں یا جادو۔
مطلب سر سید کو ہم نے رد کر دیا۔ حالانکہ وہ سر سید کے زمانے کی ضرورت نہیں ہے لیکن سر سید بھی پھنسے ہوئے ہیں اسی نیچر کے Permanent ہونے میں اور وغیرہ جس نے کہ امام غزالی سے لے کر پور یChristian Theologyہے ، جیسے ڈاکٹر محسن نقوی صاحب نے بتایا کہ پہلے سے بھی یہی چلاآرہا ہے ،اور چونکہ یہ موجود ہے ،اس لئے آپ بھی کہتے ہیں کہ یہ جو غزالی کی تھیالوجی ہے ، یہ واقعی صحیح ہے ،اور اس میں آکے جب سولہویں صدی کے جو تین بڑے Spanish Jurists ہیں ، انہوں نے lawکےPerspective سے انہی مسئلوں کو دیکھا۔ انہوں نے سوسائٹی کی جو پریکٹس ہے ، اور جو Custom ہیں اس کو Law کے Source کے طور پراہمیت دی ۔جبکہ اِنہوں نے Lawکے Source سے ہٹا دیا ہواہے ۔Theologically جو Human Society ہے اس کاکوئی رول نہیں ہے ۔اس لئے عر ف بھی یا Human Practice بھی Sourceنہیں بن سکا۔
طیب عثمانی :امام غزالی کے عا م طورپر فکری حوالے سے دو ادوار لکھ دیے جاتے ہیں کہ تشکیک سے پہلے اور مابعد تشکیک کا دور۔ہم اس طرح امام غزالی کو کیوں نہیں دیکھتے کہ امام غزالی کو نظام الملک سلجوقی سلطنت میں لایا ۔کیوں کہ سلجوقیوں کے خلاف با طنیوں کا ایک خاص قسم کا ردِ عمل تھا ۔ باطنیوں کی طرف سے جو Attack ہورہے تھے ۔اس کو Open Perspectiveمیں دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے ؟
خالد مسعود:اس پہلو سے لکھاگیا ہے لیکن اس کو قبول ِ عام حاصل نہیں ہوا۔ یہ تشکیک کا دور نہیں ہے ۔ یہ پورے عروج کے دور میں غائب ہو گئے تھے ۔ یہ فضائح الباطنیہ لکھوائی گئی تھی ۔فضائح الباطنیہ باطنیوں کے خلاف تھی ۔ اب پتہ نہیں فضائح الباطنیہ کو دل سے نہیں لکھا یا کیا ہوا۔اس زمانے میں نظام الملک طوسی بھی قتل ہوئے ،اور بھی کئی علماء قتل ہوئے تو یہ سار ا کچھ چھوڑ کے چھپ گئے۔المنقذ من الظلال میں اس کو تشکیک کا دور نہیں کہا ۔حالانکہ یہ بھی ہو سکتاہے کہ وہ اس پر نظر ثانی کر رہے ہوں کہ میں نے باطنیہ کو کیوں ایسا کہا ۔ وہ جو فضائح الباطنیہ والی کتا ب ہے نا اس کے بعد ایک دم یہ ساری چیزوں سے ہٹ گئے ۔ میراپنا جو تجربہ ہے وہ یہ ہے کہ غزالی کو سمجھنے کے لئے پہلے ان کے استاد جوینی کو سمجھنا ضروری ہے ۔ جوینی بالکل دوسری جانب ہیں ۔ تھیالوجی میں بھی ، فقہ میں بھی اور پولیٹکل تھیوری میں بھی ۔ اور امام غزالی بالکل دوسری طرف ۔امام غزالی کی فقہ پہ جو کتابیں ہیں یہ ان کی واپسی کے بعد کی ہیں ،اور اس میں Clarity وہی ہے جس طرح زاہد مغل صاحب نے بیان کیا ہے ۔ ان کی سوچ بہت Clear ہے ، اور اس کی وجہ سے نہ صرف وہ خود Convinceہیں بلکہ دوسروں کوبھی Convince کرتے ہیں ۔ المستصفیٰ اگر آپ پڑھیں تو اتنی Clearاور کوئی اصولِ فقہ کی کتاب نہیں ہے ۔تو یہ Clarityاس وقت بھی آتی ہے جب ہر طرح کی وہ چیزیں جو آپ کے Thesisسے ہٹی ہوں ، ان کو آپ ہٹا دیں اور صرف سیدھی سادھی Simplify کرکے آپ دے دیں۔تو وہ Simplification ہے ۔
مطیع سید: Reconstruction of Religious Thoughts میں اقبال اور لگتا ہے اور جب ان کی شاعری پڑھتاہوں تو بالکل اور اقبال سامنے آتا ہے ۔مثلا ایک طر ف وہ اپنے خطبات میں بڑے Realistہو کے بات کر رہے ہوتے ہیں ، وہ مہدی سے متعلق روایات پر اعتبار نہیں کرتے،دوسری طرف شاعر ی میں ان کا پورا تصور ہے مہدی کا ۔ یہ کیا Duality ہے ان کی شخصیت میں ؟
خالد مسعود : میری جو کتاب ہے علامہ اقبال پہ جو پہلے اردو میں لکھی تھی “اقبال کا تصور ِ اجتہاد ” پھر اس کو میں نے انگریزی میں کیاتھا ، Iqbal: The Reconstruction of Ijtihad تو میراTheme Actual یہ تھا کہ اقبال جس زمانےمیں تھا،تب سر سید کا دور گزر چکا تھا ،سر سید کا جو فائدہ اٹھانے والے تھے ، وہ جاگیر دار ،شر فا کااعلی ٰ طبقہ تھا ،عام آدمیوں کے لئے نہیں تھے ۔ جس وقت پاکستان کی تحریک شروع ہوتی ہے ، اور پاکستان بننے کے بعد بھی ،جو عام مسلمان ہے انڈیا کا بھی اور پاکستان کا بھی ، یہ بالکل Neglectedتھا۔ اور دوسر ا ان کے اندرایک مایوسی اس حد تک تھی کہ یہ کسی قسم کا بھی Step لینے کے لئے تیار نہ تھے ۔علامہ اقبال کی شاعر ی نےان میں وہ خودی پیداکی ،اس کا Contributionیہ ہے کہ اس کے لئے اس نے جو پیرایہ اس وقت چل رہا تھا ، وہ پیرایہ استعمار کے خلاف آزادی کا تھا۔ استعمار کے خلاف آزادی میں یورپ اور یورپ کے فلسفہ پر Attackکر نا ضروری تھا ۔لیکن ہوا یہ ہے کہ ہم نے اس میں چن کے وہی لیا ہے جو ہمیں Suit کرتا ہے،ضربِ کلیم بھی ہے ،مثنوی بے خودی بھی ہے ،فارسی بھی ہے ، ہم نے صرف وہ اشعار لیے،جو ہمارے رومانس سے تعلق رکھتے تھے ۔
حوالہ جات
[1] . International Institute for the Study of Islam in the Modern World (ISIM) in Leiden, The Netherlands
[2] ۔طاہر حداد تیونس کے ایک سکالر،مصنف،مصلح اور لیبر ایکٹوسٹ تھے۔
[3] ۔ قاسم امین مصر کے قانون دان،فلسفی،ترقی پسند اسلامی سکالر، اور مصلح تھے۔انہیں عرب دنیا کا پہلا فیمینسٹ (Feminist)سمجھا جاتا ہے۔
درج بالا شاندار انٹرویو پڑھنے کا موقع ملا، جناب طیب عثمانی اور مطیع سید کا بہت شکریہ جنہوں نے یہ انٹرویو کرکے اسے شائع کرنے کا اہتمام کیا۔ تاہم اس انٹرویو کو لفظ بلفظ شائع کرنے کی بجائے مزید بہتر بنایا جاسکتا ہے۔
ایک چیز کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ اس انٹرویومیں استاذمحترم ڈاکٹر خالد مسعود شاید کسی غلط فہمی کی بنیاد پر یہ قرار دے رہے ہیں کہ ڈاکٹر فضل الرحمن یتم پوتے پوتی کی وراثت والے مسئلے میں لکھے گئے اپنے نوٹ میں عائلی قوانین آرڈیننس میں درج قانون کے خلاف رائے رکھتے تھے۔ ڈاکٹر فضل الرحمن کا وہ نوٹ اسلامی نظریاتی کونسل کی پہلی دس سالہ رپورٹ میں موجود ہے، اس کا تفصیلی مطالعہ کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ عائلی قوانین آرڈیننس میں وراثت کے ضمن میں موجود قانون کے مکمل حامی تھے۔ ڈاکٹر خالد مسعود صاحب کو شاید اس حوالے سے کوئی تسامح ہوا ہے ۔ واللہ اعلم