Home » بنیادی سوالات اور ہماری تہذیب
اسلامی فکری روایت تہذیبی مطالعات کلام

بنیادی سوالات اور ہماری تہذیب

 

کچھ عرصہ قبل محترم جناب عمار خان ناصر صاحب سے لاہور میں شرف نیاز حاصل ہوا تو کئی موضوع زیر بحث آئے۔ اس میں خاص طور پر یہ بات بھی ہوئی کہ ہم عصر دنیا کے روبرو مسلمانوں کی طرف سے جو ارشادات، جوابات اور مستجابات سامنے آئے ہیں ان کی نوعیت کیا ہو سکتی ہے؟ اس پر آنجناب نے فرمایا کہ ابھی تک تو بنیادی سوالات ہی کا تعین نہیں کیا جا سکا یا یہ کہ ہمارے اہلِ علم کے ہاں ایسے سوالات پر ہی اتفاق نہیں ہو سکا جنہیں بنیادی کہا جا سکے۔ جناب عمار خان ناصر صاحب کی اس بات سے متفق ہوئے بغیر چارہ نہیں۔ ان کے خیال میں پہلا کام ان سوالات کی نشاندہی ہے۔ مسلم ذہن جس حالت انکار میں ہے اس میں سوال کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن کوشش ضرور کی جا سکتی ہے۔ ذیل کی تحریر اسی نشاندہی کی کوشش ہے۔

گزارش ہے کہ ہند اسلامی تہذیب کے گزشتہ دو تین سو سالہ دورانیے میں صدیوں کی محنت سے جمع کیے ہوئے ہمارے سارے جواب اس لیے غیر اہم یا گم ہو گئے کہ انسانی بستیوں میں داخل ہونے کے لیے انہیں سوال کا دروازہ میسر نہیں رہا تھا۔ جواب خواہ الوہی ہوں یا فکری، وہ سوال کے دروازے سے انسانی شعور اور عمل میں داخل ہوتے اور تاریخ کا حصہ بنتے ہیں۔ سوال ایک طلب اور ضرورت کو ظاہر کرتا ہے اور جواب کی جڑ ہوتی ہے۔ جہاں سوال باقی نہ رہیں وہاں جوابوں کی جڑ کٹ جاتی ہے اور وہ انسانی شعور اور عمل سے غیرمتعلق ہو کر تاریخ کے بہاؤ میں گم ہو جاتے ہیں۔ اگر ہم اپنی تہذیب کو تاریخ میں ذرا دور تک دیکھنے کی کوشش کریں تو بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں نے مہتمم بالشان جوابات فراہم کر کے ہی ایک تہذیب کھڑی کی تھی۔ یہ جوابات جدید عہد میں بھی نئے سوالوں کی تشکیل میں مددگار ہو سکتے تھے، لیکن اب ہمارا تہذیبی شعور ان سے مکمل حالتِ انکار میں ہے۔ سوال جوابوں میں تمیز پیدا کرنے کا طریقۂ کار بھی ہے۔ اٹھارھویں صدی کے آغاز سے ہمارے ہاں مذہبی علوم کی نوعیت تکفیری ہونے سے صرف جواب باقی رہ گئے ہیں جنہیں ہم نے آہنی پوٹلیوں میں بارود کی طرح بھر رکھا ہے اور جو ہم میزائلوں کی طرح داغتے ہیں۔

انسان کو ظاہر و باطن، نامعلوم یا غیب، وجود و شہود اور اپنے ارضی تجربے کے حوالے سے ہمیشہ سوالات کا سامنا رہا ہے۔ ”کیا ہے؟“ سوال کا پائیدان ہے اور ”کیوں ہے؟“ اس سوال کی منزلِ طلب ہے۔ نردبانِ علم ان سوالوں کے جوابات تک رسائی کا ایک ذریعہ ہے۔ سوال، جواب اور علم عقل کی کمائی ہے، اور جب عقل ”کیوں ہے؟“ تک پہنچتی ہے تو یہ اس کی دہائی بن جاتی ہے۔ ہر انسانی معاشرہ اس وقت تہذیب کے درجے پر ترقی پا جاتا ہے جب وہ ان بنیادی سوالات کے جواب دے کر عمل کو ان پر استوار کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ”اسلامی تہذیب“ کی بات کرتے ہیں کہ جس نے تمام بنیادی سوالات کے جوابات کو اپنی اقدار کے ساتھ علم میں بھی مستحضر اور ہم آہنگ رکھا اور ان کی بنا پر اجتماعی عمل کو بھی استوار کیا۔ جدیدیت پر قائم مغربی تہذیب کی استعماری آمد کے ساتھ ہی اسلامی تہذیب اوندھے منہ گر کر رزقِ خاک ہوئی اور ہمارے کوئی سوال رہے نہ جواب، اور مسلمان تہذیبِ حاضر کا خاشاک بن کر رہ گئے۔ جس تہذیب نے امام ماتریدیؒ، امام اشعریؒ، امام غزالیؒ، رازیؒ، مولانا رومیؒ، شیخ اکبر ابن عربیؒ اور ابن خلدونؒ جیسے اساطین اور دیگر بڑے اہل علم پیدا کیے ہوں اس کا یوں ملبے کا ڈھیر بن جانا خود بھی ایک بہت بڑا سوال ہے اور ابھی تک جواب طلب ہے۔ ہم ذیل میں ان بنیادی سوالات کی ایک غیر حتمی فہرست پیش کر رہے ہیں جو ہمیں درپیش ہیں تاکہ علمی مکالمے کے امکانات کو امید سے روشن رکھا جا سکے۔

بنیادی سوالات تو ہمیشہ دو ہی طرح کے رہے ہیں، اور عصر حاضر میں انہیں وجودی اور تہذیبی کے جدید عنوانات کے تحت آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ ان سوالات کو انفسی اور آفاقی کے عنوانات کے تحت بھی زیر بحث لایا جا سکتا ہے۔ عین انہی بنیادی سوالات سے شہود اور غیب کے زیر عنوان بھی نمٹا جا سکتا ہے۔ یعنی وجودی، انفسی اور ”عالم نامعلوم“ کے سوالات تاکید کے فرق سے بڑی حد تک ایک ہی نوع سے تعلق رکھتے ہیں، اور اسی طرح تہذیبی، آفاقی اور شہودی سوالات تاکید کے فرق سے ایک ہی زمرہ میں آتے ہیں۔ اول الاولیات یعنی عقیدے یا belief structure کے تحت انسان اور اس کا عمل اپنے انفس اور آفاق کو مربوط اور ہم آہنگ رکھتا ہے۔ ہر تہذیب میں علم اور عمل یک منبع ہوتے ہیں جیسے کہ جدید مغربی تہذیب علم اور عمل میں ثنویت کا ظہور ہے اور تنزیہ کا مطلق خاتمہ ہے۔ مذہبی انسان اپنے آفاق کو وحی سے تشکیل یافتہ انفس کے تحت رکھنا چاہتا ہے جبکہ ایک غیر مذہبی انسان اپنے انفس کی تشکیل آفاق کے تابع رکھتا ہے، اور جدید عہد کے بارے میں خاص الخاص بات یہی ہے۔ عصر حاضر میں مسلم تہذیب کے انفس اور آفاق میں کوئی زندہ نسبت، کوئی زندہ تعلق اور اس تعلق کی کوئی فعال معنویت باقی نہیں رہی۔ ہماری خوش فہمی یہ ہے کہ ہم اپنے انفس کو مذہبی تعلیمات کی اساس پر اور اپنے آفاق کو مغربی علوم سے تشکیل دے سکتے ہیں۔ یہی وہ دوئی ہے جس نے اسلامی تہذیب کے قلب کو چیر رکھا ہے۔ جدید عہد نے آفاق کے دائرے میں ایک بنیادی زمرۂ سوالات کا اضافہ کیا ہے جو ہمارے لیے قطعی غارت گر ثابت ہوا ہے۔ بساط بھر اس زمرے کو آخر میں مؤکد کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

عرض ہے کہ وجودی اور انفسی سوالات مندرجہ ذیل ہیں:(۱) انسان کون ہے اور کیا ہے؟ (۲) وہ کہاں سے آیا ہے؟ اور (۳) مرنے کے بعد کہاں جائے گا؟ (۴) کیا اس کا کوئی خالق ہے یا نہیں؟ (۵) انسان دنیا میں کیوں اور کس لیے ہے؟ (۶) حیات انسانی کی معنویت کیا ہے، اور انسان نے یہاں دنیا میں کیا کرنا ہے؟ (۷) دنیا میں زندگی گزارنے کے لیے کیا انسان کے پاس ضروری علم ہے یا نہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔ ان سوالات کو کئی طرح سے اٹھایا جا سکتا ہے لیکن گھوم پھر کے یہ سوالات تقریباً ایک جیسے ہی رہتے ہیں۔ یہ سوالات اس لیے ضروری ہیں کہ انسان اپنے آپ کو متعین کیے بغیر اپنے سے خارج کی دنیا کے بارے میں کوئی کلام کرنے یا اس پر کوئی ججمنٹ دینے یا اس پر کوئی پوزیشن لینے یا اس سے تہذیبی تعرض کرنے کا اہل نہیں ہو پاتا۔ انسان اپنے سے باہر دنیا کو کیسے دیکھتا ہے، یہ امر اولاً اس کے عرفانِ ذات اور اس کے تعینِ ذات سے مشروط ہے۔ وجودی سوالات کا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے جوابات علمی نہیں ہوتے اور نہ ہو سکتے ہیں۔ اور اگر وہ علمی ہوتے تو دنیا کے تمام انسانوں میں قابل اشتراک ہوتے۔ وجودی سوالات اقتضآت فطرت سے ابھر کر شعور میں داخل ہو جاتے ہیں، یعنی وہ شعور اور وجود کی پراسرار گہرائیوں سے ابھرتے ہیں اور وہ کسی ’چیز پر‘ نہیں ہوتے، بلکہ کسی ’چیز کے لیے‘ ہوتے ہیں اور ملفوف اور بالقویٰ قدر کی طلب یا حتمی علم کی ضرورت کو ظاہر کرتے ہیں۔ اقدار ضروری علم ہے اور قدر بیک آن شعور و وجود پر حاوی اور حَکم ہوتی ہے۔ وجودی سوالات انسان کو خود ساختہ یا عطا کردہ ان بیانات (axioms) کی طرف لے جاتے ہیں جو مذہبی عقیدے اور غیر مذہبی belief structure یا وجودی موقف کا محتویٰ (content) بنتے ہیں۔ یہ سوالات اول الاولیات کا محض اشاریہ ہیں اور اصلاً انسان اور کائنات کو دیکھنے کی بنیادی پوزیشن بناتے ہیں۔ امام عالی مقام غزالی علیہ الرحمہ کا اصل علمی کارنامہ یہی ہے کہ انہوں نے مسلم عقیدے کے وجودی اور انفسی مواقف پر یونانی فلسفے کے اٹھائے گئے علمی سوالات کا عقل کے ثقہ معیارات پر جواب دے کر انہیں کند کر دیا اور تن تنہا اسلامی تہذیب کو بچانے میں کامیاب ہو گئے۔

یہاں ایک بہت اہم بات کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ اگر ہم اپنی تہذیب کی وقیع علمی روایت کو دیکھیں تو ایک بات عام قاری پر بھی واضح ہو جاتی ہے کہ (۱) عقیدے اور عملِ صالح کے حوالے سے دینی تعلیمات اور علمی وسائل نہ صرف بہت کثرت سے دستیاب ہیں بلکہ عمل میں بھی ہیں؛ (۲) اسی طرح نصائح و اخلاقی تعلیمات کے بھی انبار کے انبار مہیا ہیں اور کسی نہ کسی حد تک عمل میں بھی ہیں؛ (۳) تصوف اور سلوک کی کتابیں اور اشغال بھی بہت فراوانی سے دستیاب ہیں اور سلسلہ ہائے تصوف سے جڑے ہوئے لوگ بھی بہت کثیر تعداد میں ہیں؛ (۴) سب سے اہم یہ کہ عرفانی لٹریچر کی بھی ہمارے ہاں کوئی کمی نہیں ہے۔ امام غزالیؒ، مولانا رومیؒ اور ابن عربیؒ آج بھی زندہ مباحث کے طور پر جاری ہیں اور ان اساطین سے استفادہ عام ہے۔ جدیدیت کے زیر اثر مغربی انسان کو ذات کی سطح پر جس وجودی بحران کا سامنا ہوا، ہمارے ہاں وہ صورت حال مندرجہ بالا دستیاب وسائل کی وجہ سے پیدا نہیں ہوئی یا وہ شدت اختیار نہیں کر سکی۔ آج کی دنیا میں انسان کے وجودی اور انفسی سوالات کا سامنا کرتے ہوئے ان پہلوؤں کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ مذہبی معاشرے میں فرد کا وجودی بحران عقیدے کے بیانِ نو اور اخلاق کے آلاتی بن جانے سے پیدا ہوتا ہے۔ عقیدے کے بحران میں نئے علم کا ظہور بنیادی سبب ہوتا ہے، جبکہ اخلاق کا بحران نئے حالات کی آمد اور نئے اعمال کے ظہور سے براہ راست جڑا ہوتا ہے، اور ہمیں دونوں صورتوں کا سامنا ہے۔ ایمان حال ہے جبکہ عقیدہ بیان ہے اور نیا علم عقیدے کے بیان کو منہدم کر کے بحران کھڑا کر دیتا ہے۔ قرن اول میں یونانی علوم کی آمد سے عین یہی بحران پیدا ہوا تھا، اور اب ایک بار پھر ہمیں اس کا سامنا ہے۔ جو اہم بات میں عرض کرنا چاہ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ انسان کے وجودی بحران کا سامنا کرنے اور اس کا ثقہ حل پیش کرنے میں اسلامی تہذیب اور ہماری علمی روایت جدیدیت کا سامنا کرنے میں کہیں زیادہ بہتر پوزیشن میں تھی اور ثقہ علمی معیارات پر جدیدیت کے پیدا کردہ مسائل کا بخوبی سامنا کیا جا سکتا تھا لیکن یہاں بھی ہماری کارکردگی بہت شرمناک رہی ہے۔ ابھی تک ہم وحی اور جدید علم، اور عملِ صالح اور ٹیکنالوجی کے پیدا کردہ حالات کی باہمی نسبتوں سے بھی بےخبر چلے آتے ہیں۔ ہمارے لیے مذہبی، اخلاقی اور تہذیبی کے امتیازات بھی باقی نہیں رہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس بحران کو سمجھنے اور اس سے نکلنے کی توفیق ارزانی فرمائے۔

اب ہم ان سوالات کی طرف رجوع کرتے ہیں جو بنیادی طور پر تہذیبی ہیں اور آفاق کے دائرے میں آتے ہیں۔ گزارش ہے کہ تہذیب ایک واقعاتی چیز ہے، اور تاریخ میں ظاہر ہوتی ہے، لہٰذا انسان کے اجتماعی اعمال سے براہ راست جڑی ہوتی ہے یعنی تہذیب انسان کے اجتماعی عمل کا مظہر ہے۔ ہمارے ہاں چیزوں کو دیکھنے کے لیے علم کا کوئی تہذیبی اور روایتی تناظر باقی نہیں رہا اور نہ جدیدیت اور تہذیبِ مغرب کی تفہیم کے وسائل ہی پیدا کیے جا سکے ہیں۔ یہ ضرور ہوا ہے کہ ہم مذہبی متون کی الل ٹپ اور بے سروپا تعبیرات میں بہت بڑی مہارت پیدا کر چکے ہیں، اور ان تعبیرات کا دین سے کوئی تعلق ہے اور نہ عقل سے، اور نہ ان کا کوئی تعلق دنیا اور ماورا سے ہے۔ گزشتہ دو سو سال میں ہم ایسی جتنی بھی تعبیرات سامنے لائے ہیں وہ جدیدیت کی تہذیبی مرادات پر ڈھلی ہوئی ہیں۔ اور یہ صورتِ حال خود آگاہ شعور کی معدومیت اور حالتِ انکار کے مطلق استیلا کی وجہ سے تقریباً لاینحل ہو گئی ہے۔

گزارش ہے کہ مسلمانوں کو دائرۂ آفاق میں اصل سوالات اور چنوتیوں کا جونہی سامنا ہوا تو ان کی ہمپٹی ڈمپٹی دیوارِ عروج سے ایسی گری کہ اس کے ٹکڑے بھی ابھی تک سمیٹے نہیں جا سکے، اور اب ہے کہ سب بولائے پھرتے ہیں اور ایک دوسرے کو کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں۔ ہمارے ہاں آفاق سے مراد عموماً دنیا ہے اور دنیا میں سیاسی طاقت اور سرمائے کا مسئلہ بنیادی طور پر اہم ہے۔ اگر دین کے اجتماعی احکام کے ساتھ ساتھ نصیحت الملوک، احکام سلطانیہ اور آئینِ جہانداری وغیرہ جیسی کتابوں کو دیکھا جائے تو یہ جاننا مشکل نہیں کہ اسلامی تہذیب ان دو سماجی عوامل و مظاہر کو ماقبل جدیدیت تک دینی اقدار کے تحت رکھنے میں بہت حد تک کامیاب رہی، اور اپنے تہذیبی مسائل کے حل کرنے میں سرخرو رہی ہے۔ دینی تعلیمات اور ملوکی نصیحتیں براہ راست انسان سے مخاطب ہیں یعنی اولی الامر سے۔ لیکن جدیدیت کا پیش آمدہ چیلنج بالکل ہی غیرمتوقع تھا اور ہمارے لیے ابھی تک ناقابل فہم ہے۔ جدیدیت کے مطالبات اور اعمالِ امتثال سے یہ قطعاً ظاہر نہیں ہوتا کہ ہمیں اس کی کوئی تفہیم بھی حاصل ہو گئی۔ یہ کمالات ریس سے آئے ہیں یعنی جتنی بھی جدیدیت ہم نے اپنائی ہے وہ استعماری جبر اور نقل و ریس سے آئی ہے۔ جدیدیت نے انسان کے وجودی، اور معاشرے اور تہذیب کے تمام تنظیمی اصول تبدیل کر دیے ہیں۔ جدید معاشرے آرگنائزیشن کے اصول پر تشکیل دیے گئے ہیں، اور آرگنائزیشن ہی پیداوار اور طاقت کا اصول ہے۔ ہمارا تہذیبی بحران اسی لیے ظاہر ہوا ہے کہ ہم آفاق میں پیدا ہونے والے نئے چیلنجوں کا سامنا کرنے کا اجتماعی ارادہ اور ان کی تہذیبی فہم سامنے لانے میں ناکام رہے ہیں۔

ہمارا بنیادی تہذیبی سوال ایک ہی ہے اور وہ یہ ہے کہ جدید عہد میں امر سے کیا مراد ہے اور اس کی تہذیبی تشکیلات کون سے افکار کے تحت کن اسالیب اور ہیئتوں میں کی گئی ہیں یا کی جا سکتی ہیں؟ آفاق میں جدیدیت جو چیلنج سامنے لائی وہ بنیادی طور پر ایک ہی ہے اور باقی اس کی تحتیات اور فروعات ہیں، اور وہ ہے معاشی عمل کا میکانکی اور مشینی بن جانا۔ اس کی ذرہ بھر تفصیل ضروری ہے۔ جدید عہد کے آغاز میں مغربی انسان نے طبائع یا مادیات کا ایسا علم دریافت کر لیا، اور مشین کی صورت میں اس کے ایسے عملی اطلاقات ایجاد کر لیے جنہوں نے معاش کے عمل کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا۔ مارٹن لوتھر کے بعد مغربی معاشرے میں گہری ثقافتی اور سیاسی تبدیلیوں کا جو عمل شروع ہوا تھا، وہ بتدریج تنزیہ کے انخلا اور تشبیہ کے مطلق استیلا پر منتج ہوا۔ جدید انسانی فکر تشبیہ میں محصور ہو گئی اور ڈیکارٹ کی آمد کے ساتھ تبدیلی کا یہ عمل مکمل ہو گیا اور ایک pagan تہذیب کے ظہور کی تمام ضروریات پوری ہو گئیں۔ معاشی عمل کے میکانکی ہونے سے معاشرے میں مزید ریڈیکل تبدیلیاں ضروری ہو گئیں اور معاشرے کی مکمل تنظیم نو لازم ٹھہری تاکہ اسے نو دریافت شدہ میکانکی معاشی عمل سے مسلسل ہم آہنگ رکھا جا سکے۔ جدید معاشروں کی تنظیم نو کا ماڈل مشین سے پیدا ہونے والا میکانکی اور منظم (organized) معاشی عمل تھا۔ اسلامی اور مغربی تہذیب میں بنیادی ترین فرق یہ ہے کہ اول الذکر میں معاشرتی تنظیم کا اصول اجتماعی اقدار ہیں جبکہ مؤخر الذکر میں مشین اور میکانکی معاشی عمل ہے۔ ہمارے لیے بنیادی سوال یہ تھا کہ کیا میکانکی معاشی عمل کے ہوتے ہوئے اجتماعی دینی اقدار پر معاشرے کی تنظیم ممکن ہے یا نہیں؟ تمام تر تہذیبی سوالات کے حوالے سے ہمارا بنیادی دبدھا یہی ہے، اور اسی کا جواب درکار ہے۔ یہ بنیادی سوال صرف اس تناظر میں ہی زیربحث لایا جا سکتا ہے کہ سیاسی طاقت اور سرمائے کے ذرائع اور وسائل اب صرف اور صرف مشین اور جدید تنظیمی عمل سے جڑے ہوئے ہیں، اور ہر انسانی معاشرے کی بقا ان کے بغیر ناقابل تصور ہے۔ ریاست اور جدید معاشرے کے تمام ادارے اور تنطیمی ہیئتیں معاش کے میکانکی اور منظم پیداواری عمل کی توسیع ہیں۔ یہاں اس امر کی طرف توجہ دلانا ازحد ضروری ہے کہ جدید عہد مغربی معاشرے میں تنزیہ کے بتدریج اور مکمل خاتمے اور تشبیہ میں لڑھکانِ تامہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ جدید مغربی معاشروں نے تنزیہ تک اٹھنے کا کوئی روزن اور امکان ہی باقی نہیں رہنے دیا۔ یہ ہے وہ چیلنج جو مسلمانوں کو درپیش ہے۔

گزارش ہے کہ دائرۂ آفاق کو صرف دنیا سمجھ لینا ہماری سب سے بڑی غلطی ثابت ہوئی ہے۔ آفاق دنیا اور طبائع کے مجموعے کا نام ہے یعنی دنیا اور طبعی فطرت، یعنی human world اور natural world۔ ہم یہاں ’دنیا‘ (human world) سے مراد معاشرہ اور تاریخ لے رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ طبعی فطرت (natural world) اس دنیا کی اساس رہی ہے۔ جدید عہد اس حقیقت سے عبارت ہے کہ طبعی فطرت (natural world) ایک ایسے ٹیکنالوجیائی آتش فشاں کی صورت میں پھٹ پڑی ہے جس کی نکیل مغربی انسان نے تھامی ہوئی ہے، اور وہ اس آگ اگلتے ٹیکنالوجیائی مَرکَب کو ایسے گھمائے پھرا ہے کہ پرانی دنیا کل کی کل بھسم ہو کر رہ گئی ہے۔

وجودی سوالات کے بعد تہذیبی سوالات ہی اہم ترین ہیں جن کا براہ راست تعلق سیاسی طاقت اور سرمائے سے ہے۔ سیاسی طاقت کی تنظیم کن اصولوں پر کی جائے گی؟ معاشی پیداواری نظام اور سرمائے اور دولت کی تقسیم کا نظام کن اصولوں پر قائم ہو گا؟ قانون، تعلیم اور کلچر کے سوالات بھی اجتماعی سوالات ہیں لیکن عصر حاضر میں سیاست اور سرمائے کے ضمن میں ہی زیربحث لائے جا سکتے ہیں۔ معاشرے کی اجتماعی تنظیم پر گفتگو کے ہمارے علمی وسائل نہایت مخدوش ہیں کیونکہ ان کی دستیابی کا آغاز ہی نہیں ہو سکا۔ تہذیبی سوالات کے ضمن میں بنیادی سوال صرف ایک تھا کہ اللہ تعالیٰ جب اولی الامر سے خطاب فرماتا ہے تو اس میں امر سے کیا مراد ہے اور جدید عہد میں اس کو زیر بحث لانے کے علمی اور فکری اسالیب کیا ہیں؟ سادہ لفظوں میں اصل بحث مسلم امر کی علمی تفصیلات سامنے لانے اور انہیں فکر میں متعین کرنے کی تھی۔ امر تمام انسانی معاشروں میں علی الاطلاق ایک فطری موجودگی رکھتا ہے اور جو طاقت اور سرمائے کا مجموعہ ہے۔ مغربی تہذیب نے امر کی بالکل ہی نئی اور ہمارے لیے ابھی تک ناقابل فہم تشکیلات کھڑی کی ہیں۔ امر انسانی معاشرے کا فطری محتویٰ ہے لیکن ہر تہذیب اس کی تشکیلات اپنے بنیادی تصورِ حیات کے مطابق کرتی ہے۔ یعنی امر کی تشکیلات اور ہیئات کئی طرح کی ہو سکتی ہیں، اور ان میں فرق اقدار اور سیاسی فکر سے پیدا ہوتا ہے۔ امر ہونے میں خلافت اور جمہوریت میں کوئی فرق نہیں لیکن اپنی تشکیلی اقدار اور سیاسی فکر کے لحاظ سے ان میں کوئی چیز بھی مشترک نہیں۔ خلافت مسلم امر کی تشکیل کا نام ہے جبکہ جمہوریت اور تنظیمی ریاست امر کی مغربی تشکیلات ہیں۔ اسلامی تہذیب میں امر کی تمام تر تشکیلات انسان مرکز ہیں جبکہ مغربی تہذیب میں امر کی مکمل تشکیلات نیچر مرکز ہیں۔ لیکن ہمارے اہلِ علم اور خاص طور پر سیاسی علما کو اس بحث میں کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ انہیں مغرب کے سماجی، سیاسی اور معاشی تصورات کو بغیر سمجھے ”اسلامی“ بنانے کا ہوکا رہا ہے، اور ان کا سیاسی عمل بھی جدیدیت کی تہذیبی مرادات کو مذہبی آڑ میں آگے بڑھانے تک محدود ہے، اور یہ عمل بیک آن انسان دشمن اور مسلم دشمن ہے۔ جدید مغرب کے دو اجتماعی تصورات، اصلاحات (reforms) اور انقلاب (revolution) اس تہذیب کے اساسی سیاسی تصورات ہیں، اور مکمل طور پر naturalistic، positivistic اور تشبیہی ہیں۔ انہیں ہمارے ہاں جس طرح مذہبی بنایا گیا ہے اس سے دین کے اجتماعی احکام اور تعلیمات نسیاً منسیا ہو گئی ہیں اور اسلامی معاشرے کے قیام کا خواب بکھر چکا ہے۔ تہذیب مغرب کے خالص اساسی تصورات کو مستعار لے کر جس طریقے پر ہمارے سیاسی علما نے ان کو دینی تعلیمات سے مؤید کیا ہے اور پورے دین کی ایک مکمل تعبیر نو کی ہے وہ ہماری جدید تاریخ کا بہت افسوسناک باب ہے۔

یہاں اس امر کو دھیان میں رکھنا ضروری ہے کہ امر کی موجودہ جدید تشکیلات عالمگیر ہیں اور پوری ارض کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہیں۔ اس امر کا مرکز امریکہ ہے، یورپ اس کا پشتیبان اور ہرکارہ ہے اور دنیا کی تمام ریاستیں اس نظامِ امر کے یونٹ ہیں۔ چین، روس اور ایران وغیرہ براہ راست اس نظام امر کا یونٹی حصہ نہیں لیکن ان کی بقا بھی اسی نظام پر منحصر ہے۔ امر کی جدید تشکیلات مکمل طور پر جدیدیت اور مغربی تہذیب کے افکار اور اقدار سے متعین ہوئی ہیں۔ امر اپنے فکری اور قدری پہلوؤں سے جو بھی ہو، تلوار سے قائم ہوتا ہے، اور جدید عالمگیر امر بھی تلوار اور نیزے سے قائم ہیں۔ مسلمان اب تلوار سے کوئی تعارف نہیں رکھتے ورنہ یہ بات بدیہی ہے کہ ایک نیام میں دو تلواریں نہیں آتیں۔ جدید امر جو وسائل رکھتا ہے اس نے اسے عالمگیر بنا دیا ہے اور امر کے دو عالمگیر نظام ایک ہی زمان و مکاں میں بیک آن قائم نہیں ہو سکتے۔ امر کا اسلامی ہونا پہلے اس کے ہونے سے مشروط ہے، یعنی اگر مسلم امر ہو گا تو احکام الہی کے مطابق اس کی تہذیبی تشکیلات بھی سامنے لائی جا سکتی ہیں۔ امر کے حصول کا واحد ذریعہ پیداواری عمل اور اس کو ممکن بنانے والا مؤید سیاسی عمل ہے۔

آفاق یا شعور سے خارج کی دنیا اور طبعی فطرت دو چیزوں سے عبارت ہے: مادیات اور مجردات۔ سادہ لفظوں میں دنیا و ارض اپنی موجودیت میں مادیات و مجردات کے مجموعے کا نام ہے۔ یعنی دوئی دنیا کی واقعیت ہے۔ ہمیں دنیا کی حقیقت دینی تعلیمات سے بہت اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ متاع غرور ہے، دھوکے کا سودا ہے، فنا کا گھاٹ ہے اور مردار ہے اور اس کے چاہنے والے کتے ہیں۔ یہ دنیا کا علمی بیان نہیں ہے، اور نہ یہ دنیا کی واقعیت ہے۔ یہ دنیا کا ایمانی بیان ہے، حقائق ہیں اور دین کی پوری معنویت دنیا کی اس حقیقت کو مان لینے پر منحصر ہے۔ دنیا کی موجودیت اور واقعیت کا یہ کوئی علمی بیان نہیں ہے۔ تو دنیا کا علمی بیان کیا ہے؟ مجھے بہت عرصے سے دنیا کی علمی تعریف کی تلاش تھی جو مجھے مولانا حافظ شاہ علی انور قلندر رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں مل گئی۔ آپ سے سوال کیا گیا کہ ”دنیا کیا ہے؟“ تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ ”اپنی دوئی کا خیال [دنیا ہے]“۔ یعنی دنیا کی واقعیت اور حالت دوئی ہے اور اگر دوئی انسان کے احوال میں بھی داخل ہو جائے تو یہ دنیا ہے۔ دوئی تشبیہ ہے، اور اگر دوئی اور تشبیہ انسان پر غالب آ جائے تو توحید کا امکان ہی ختم ہو جاتا ہے، اور اس کا مشاہدہ کرنا ہو تو ہندو مت کو دیکھ لینا کافی ہے۔ اگر انسان کا حال واقعیتِ دنیا پر قرار پکڑ لے تو رینی ڈیکارٹ پیدا ہوتا ہے، اور جدید تہذیب کی ہر فکر اور ہر عمل عین اسی دوئی اور تشبیہ کی گواہی ہے۔ اگر یہ سوال اٹھایا جائے کہ مسلمانوں پر جدیدیت کا سب سے وسیع اور گہرا اثر کیا ہوا ہے تو وہ یہی دوئی اور تشبیہ ہے۔ اسلامی تہذیب کا ما بہ الامتیاز یہ رہا ہے کہ اس نے علم اور عمل میں تنزیہہ کو باقی رکھا ہے۔ توحید کا اول و آخر معانی تنزیہ ہے۔ جدید عہد میں ہمارے علم اور عمل پر جدیدیت کا غلبہ اس قدر ہمہ گیر اور گہرا ہے کہ ہمارے تمام مذہبی علوم تشبیہ پر منتقل ہو چکے ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں اب ہر آدمی علماً اور حالاً ڈیکارٹ کی نقل ہے۔ دوئی کے احوال سے جو علم پیدا ہوتا ہے وہ سرتاسر تشبیہی ہے، اور تنزیہ سے مکمل طور پر خالی۔ یہی علم حجاب اکبر ہے، سعیری ہے اور اسلامی تہذیب کا غارت گر ہے۔

جیسا کہ میں نے شروع میں عرض کیا تھا کہ آخر میں اس زمرۂ سوالات کا ذکر کریں گے جو بالکل ہی نئے ہیں اور سرتاسر جدیدیت کے پیدا کردہ ہیں۔ جدیدیت اصلاً دنیا (human world) سے عالم طبعی یا نیچر (natural world) میں ہبوط انسانی ہے، اور علم کی مادیات اور مجردات میں تحدیدِ مطلق ہے۔ جدیدیت جو علم پیدا کرتی ہے، جو عمل سامنے لاتی ہے اور انسان میں جو احوال پیدا کرتی ہے اس پر تنزیہ کی کوئی جھمک بھی نہیں ہوتی۔ جدیدیت تنزیہ سے مطلق انقطاع کے احوال و حالاتِ ہستی (human condition) ہیں۔ جدیدیت کے پیدا کردہ حالات و احوال ہستی کیسے ہیں:

أَوْ كَظُلُمَاتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍّ يَغْشَاهُ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ سَحَابٌ ۚ ظُلُمَاتٌ بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍ إِذَا أَخْرَجَ يَدَهُ لَمْ يَكَدْ يَرَاهَا ۗ وَمَنْ لَمْ يَجْعَلِ اللَّهُ لَهُ نُورًا فَمَا لَهُ مِنْ نُورٍ

جدیدیت شبستان وجود کے تہہ خانے کی تاریکیوں کے احوال و حالاتِ ہستی ہیں۔ جدیدیت دنیا کے احوال شبستانی میں شدت پیدا ہو جانے کی کیفیت ہے۔ جدیدیت کا پیدا کردہ تمام علم مکمل تشبیہی اور اثباتیاتی ہے، تنزیہ کی کرن سے بھی خالی ہے، اور جدیدیت کا پیدا کردہ ٹیکنالوجیائی عمل بھی سرتاسر تشبیہی اور اثباتیاتی ہے۔ جدیدیت کے پیدا کردہ علم اور عمل کے قطبین مادیات اور مجردات ہیں، جہاں تنزیہ کا گزر بھی نہیں۔ اس صورت حال میں ایک مذہبی آدمی اور مذہبی تہذیب کے لیے جو سوالات پیدا ہوئے ہیں وہ ممکنہ طور پر یہ ہو سکتے ہیں: (۱) کیا بطور مسلمان جدیدیت کی پیدا کردہ دنیا میں ہم تنزیہ سے دستبردار ہو کر مسلمان رہ سکتے ہیں؟ (۲) کیا جدیدیت کے پیدا کردہ علم اور عمل کے ساتھ ہم اپنے دین کے تطابق کو روبکار لا سکتے ہیں، اور اس کی کیا ممکنہ بنیادیں ہو سکتی ہیں؟ (۳) ایک ایسی دنیا جس میں طاقت، سرمائے اور انسانی معاشروں کی بقا جدیدیت کے پیدا کردہ علم اور اس کے ٹیکنالوجیائی عمل سے مطلق مشروط ہو گئی ہے، کیا ہم ان سے الگ رہ سکتے ہیں؟ اور کیا یہ الگ رہنا کوئی حقیقی امکان بھی ہے؟ (۴) کیا جدیدیت کے پیدا کردہ علم اور عمل میں تنزیہ کو داخل کیا جا سکتا ہے؟ (۵) کیا ہم ان دینی وسائل کو بروئے کار لا سکتے ہیں جو انسان کو حیوان اور مشین بنانے کے جدیدیت کے بالفعل مطالبے کی روک کر سکیں، اگر ہاں تو وہ وسائل کون سے ہیں؟ (۶) اصل اور اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہم جدیدیت کی پیدا کردہ دنیا میں اپنے ایمان اور عمل میں تنزیہ کو باقی رکھ سکتے ہیں؟ اور ہم نے اپنے پورے دین کو اور اپنے احوال کو تشبیہ سے محفوظ رکھنے کے لیے کیا علمی اور عملی انتظامات کر رکھے ہیں؟ (۷) مسلمان کی بنیادی ترین دینی اور ایمانی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ تشبیہ میں بھی تنزیہ کو باقی، استوار اور سربلند رکھے، تو کیا ہم نے جدیدیت کے پیدا کردہ جہانِ تشبیہ کے امڈتے اندھیروں میں اس کا کوئی خاطرخواہ انتظام کر رکھا ہے؟

میری رائے یہ ہے کہ ماقبل جدیدیت کی دنیا ایک مجہول تشبیہ (passive immanence) تھی جبکہ جدیدیت کی پیدا کردہ دنیا ایک فعال تشبیہ (active immanence) ہے۔ یعنی دنیا تشبیہ ہی تشبیہ ہے اور جدیدیت دو آتشہ تشبیہ ہے۔ ماقبل جدیدیت دنیا اگر ایک پہاڑ کی طرح تھی تو جدیدیت کی پیدا کردہ دنیا آگ اگلتے پہاڑ کی طرح ہے۔ دنیا میں ہونا اختیاری نہیں ہے جبکہ دنیا سے نمٹنا اختیاری ہے۔ دین کا بنیادی ترین مطالبہ یہ ہے کہ احوال، دنیا سے مغلوب نہ ہوں، اور عمل دنیا پر غالب ہو۔ افسوس کہ ہماری تہذیب فعال تشبیہ کے سامنے بالکل ہی ڈھیر ہو گئی اور اب ہم اپنے دین کو بھی تشبیہی اصولوں پر منتقل کرنے میں ہر وقت جتے ہوئے ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی آمد سے دینی مطالبات تو بدل نہیں گئے، مسلمانوں کی اصل ذمہ داری تشبیہ میں تنزیہ کو سربلند رکھنا ہے، اور یہ کام سائنس اور ٹیکنالوجی کے ہوتے ہوئے بھی قابل حصول ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

محمد دین جوہر

محمد دین جوہر، ممتاز دانش ور اور ماہر تعلیم ہیں اور صادق آباد میں مدرسۃ البنات اسکول سسٹمز کے ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
mdjauhar.mdj@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں