Home » غیرمسلموں کی نجات کا مسئلہ
اسلامی فکری روایت کلام

غیرمسلموں کی نجات کا مسئلہ

ابن حزم کی “الفصل فی الملل والاہواء والنحل” میں ان کا یہ موقف نظر سے گزرا کہ وہ غیر مسلم جن تک اسلام کی دعوت صحیح طرح سے نہیں پہنچ سکی ہے وہ معذور ہیں۔ان کو عذاب نہیں دیا جائے گا۔(ج،۴ ص،۱۰۷) ان کا استدلال قرآن کی ان آیات سے ہے :
واوحی الی ہذالقرآن لانذرکم بہ ومن بلغ، ’’ اور میری طرف اس قرآن کی وحی ہوئی ہے کہ میں اس سے تمہیں ڈراؤں ا ورجن جن کو وہ پہنچے‘‘۔ الانعام،۱۹،
وما کنا معذبین حتی نبعث رسولا، الاسراء اورہم کسی کو عذاب دینے والے نہیں ہیں جب تک کوئی رسول نہ بھیج دیں ۔ الاسرا،۱۵)۔
ابن حزم لکھتے ہیں کہ نص سے یہ بات واضح ہے کہ عذاب کے مستحق وہ لوگ ہوتے ہیں جن تک اسلام کی دعوت پہنچ چکی ہونہ کہ وہ لوگ جن تک یہ دعوت نہ پہنچ سکی ہو۔مزید فرماتے ہیں: فصح بذلک انہ من لم یبلغہ الاسلام اصلا فانہ معذور،’’اس سے ثابت ہوا کہ اسلام جن لوگوں تک بالکل نہیں پہنچ سکا ان کوعذاب نہیں ہوگا‘‘۔(ایضا)۔ وہ اپنے اس موقف کوایک حدیث سے بھی ثابت کرتے ہیں جومختصرطورپریہ ہے کہ اللہ تعالی کے سامنے گونگے،احمق ،انتہائی ضعیف العمر اوروہ شخص جس کی موت فترے میں ہوئی ہے، کولایا جائے گا۔یہ لوگ اللہ تعالی کے سامنے عذرپیش کریں گے کہ میں نے اسلام کے بارے میں کچھ نہیں سنا، کچھ نہیں سمجھا یا میرے پاس کوئی رسول نہیں آیا۔توآگ سلگائی جائے گی اوران سے کہا جائے گا کہ اس میں داخل ہوجاؤ۔لیکن جب وہ اس آگ میں داخل ہوں گے تووہ آگ ان پرٹھنڈی کردی جائے گی۔(احمد،طبرانی)
تیسری دلیل ان کی نظر میں یہ ہے کہ جعفر  بن ابوطالب حبشہ میں ہجرت کی زندگی گزاررہے تھے اورادھرمدینہ میں قرآن وشریعت کا نزول ہورہا تھا ۔ جن سےیہ لوگ حبشے میں اپنی اقامت کے چھ سالوں تک خبررہے۔ ان سے محرمات کا ارتکاب بھی ہوا اور انہوں نے فرائض کی ادائگی بھی نہیں کی(عملوا بالمحرم وترکوا الفرائض) لیکن وہ اس تعلق سے معذورتصورکیے گئے۔
اس سے ملتی جلتی بات غزالی نے’’ فیصل التفرقہ‘‘ میں لکھی ہے۔ وہ کہتے ہیں:’’اللہ کی وسیع ترین رحمت کا تصور کرو ۔اور امورالہیہ کو اپنے مختصر اور رسمی پیمانے سے مت ناپو۔‘‘(فاستوسع رحمۃ اللہ تعالی ولا تزن الامور الالھیہ بالموازین المختصرۃ الرسمیۃ)۔۔۔۔۔۔ أ نا اقول ان الرحمۃ تشمل کثیر ا من الامم السالفہ…. بل اقول ان اکثر نصاری الروم والترک فی ہذا الزمان تشملہم الرحمۃ ان شاء اللہ تعالی ۔اعنی الذین ہم فی اقاصی الروم والترک ولم تبلغہم الدعوۃ یعنی میں کہتا ہوں کہ اللہ کی رحمت سابق امتوں میں سے بھی بہت سوں کے شامل حال ہوگی …. بلکہ میں کہتا ہوں کہ آج کے زمانے کے روم و ترک کے اکثر نصاری اللہ کی رحمت سے فیضیاب ہوں گے۔ ان نصاری سے میری مراد وہ ہیں جو ممالک روم وترک کے دور دراز حصوں میں رہتے ہیں اور ان تک اسلام کی دعوت نہیں پہنچی‘‘۔
ایسے لوگوں کی انہوں نے تین قسمیں کی ہیں:پہلی قسم میں وہ لوگ شامل ہیں جن تک رسول اللہ ﷺ کا نا م ہیں نہیں پہنچا یا دوسرے لفظوں میں آپ ﷺ کی بعثت کی ان کو خبرہی نہ ہوسکی۔ یہ معذورہیں۔دوسری قسم میں وہ لوگ داخل ہیں جو اسلامی ممالک کے پڑوس میں رہتے ہیں۔انہیں مسلمانوں کے ساتھ ملنے جلنے کے مواقع حاصل ہیں اوران تک اللہ کے رسول کا نام اورآپ کی سیرت وصفات کے بارے میں معلومات پہنچیں،لیکن وہ اپنے انکار پرمصررہے ۔یہ لوگ کفارو ملحدین میں سے ہیں ۔تیسری قسم ان لوگوں پر مشتمل ہے جن تک آپ کا نام تو پہنچا یا نام کی خبرتوہوئی لیکن سیرت و صفات کا ان کوعلم نہ ہوسکا۔بلکہ آپ کے بارے میں انہیں اس طرح اطلاع ملی کہ جیسے ہمارے محلے کے بچے سن لیتے ہیں کہ ابن مقفع نام کے ایک شخص نے نبوت کا دعوا کیا تھا۔تو چوں کہ انہوں نے آپ ﷺ کی اصل صفات کی بجائے اس کا برعکس سنا ۔اس لیے صرف اتنی بات ایسے لوگوں کے اندر طلب وجستجوکے داعیے کوابھارنے کے لیے کافی نہیں ہے۔اس لیے یہ لوگ بھی پہلی ہی قسم میں داخل ہیں۔ (فیصل التفرقہ، ۸۴۔۸۷)
اسی طرح وہ کہتے ہیں کہ کسی مذہب کا وہ شخص جو خدا اور آخرت پر یقین رکھتا ہو ،حقیقت یہ کہ تلاش حق سے دور نہیں رہ سکتا توا یسا جوشخص تلاش حق کے راستے میں ہو اور اس میں پوری طرح کوشاں ہولیکن حق کی دریافت سے قبل اس کی موت واقع ہوجائے خدا کی رحمت ومغفرت اس کے بھی شامل حال ہوگی۔(ایضا)
شیخ احمد سرہندی نے ایسے لوگوں کوجن تک اسلام کی دعوت نہیں پہنچی، ان لوگوں پرقیاس کیا ہے جوانسانی آبادی سے دور پہاڑوں اورجنگلوں میں بسے ہوئے ہوں اور ان کا انجام اپنے کشف کی بنیاد پریہ لکھا ہے کہ انہیں آخرت میں جانوروں کی طرح نیست ونابود کردیا جائے گا۔یہ بات مولانا مناظراحسن گیلانی نے اپنی کتاب ’’الدین القیم ‘‘میں مکتوبات کے حوالے سے لکھی ہے۔
یہ موضوع بہت اہم اورتحقیق طلب ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلامی فکری روایت میں غیرمسلموں کی نجات کا مسئلہ بھی زیربحث رہا ہے اور اس حوالے سے مختلف علمائے اسلاف کی مختلف آرا رہی ہیں جن پر غوروفکر اور تحقیق ضروری ہے۔

ڈاکٹر وارث مظہری

وارث مظہری ہمدرد یونی ورسٹی دہلی کے شعبہ اسلامک اسٹڈیز میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر خدمات انجام دیتے ہیں اور دار العلوم دیوبند کے فضلا کی تنظیم کی طرف سے شائع ہونے والے مجلے ’’ترجمان دارالعلوم‘‘ کے مدیر ہیں۔
w.mazhari@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں