ایک اچھے استاد اور والد کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ اپنے شاگرد اور بیٹے کی صلاحیتوں میں زیادہ سے زیادہ نکھار پیدا کرتا ہے اس میں ایسی قابلیت اورلیاقت کو پروان چڑھا دیتا ہے کہ جس کی وجہ سے وہ دوسروں میں سے ممتاز نظر آتا ہے۔
اور ہرکوٸی اس کا انتخاب اسی طرح کرتا ہے جس طرح ایک گلستان میں اگے ہوٸے بے شمار پھولوں میں سے سب سے خوبصورت پھول کو کوٸی چنتا ہے۔
ایک پھل فروش اپنے پھل کو صبح تاشام بیسیوں مرتبہ صاف کرتا اور پانی چھڑکتا ہے اورسب سے اچھے پھلوں کو خوب چمکا کر سب سے اوپر رکھتا ہے جس کی چمک دمک سے گاہک ان پھلوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔
بچوں کے مابین مثبت اندازمیں باہمی خیرخواہی کے جذبات کومقدم رکھتے ہوٸے ایک دوسرے سے پڑھاٸی اور کھیل میں آگے بڑھنے کے مقابلہ کی ترغیب ہونا چاہیے ۔بچے ایسے مقابلہ جات میں خاصی دلچسپی لیتے ہیں سستی اوربے توجہی کے شکار بچوں کوامید کی کرن دکھاٸی جاٸے اوران کا ان ہی کے ہم عمر بچوں سے مقابلہ کروایا جاٸے تو بہت ممکن ہے کہ مقابلے کی فضا کی وجہ سے یہ بچہ کاہلی اورنالاٸقی کے حصارکو پھلانگ کرکسی نہ کسی کوہ گراں کو سرکرنے میں ضروربالضرورکامیاب ہوجاٸے
ہمارادین ومذہب بھی ایسے مقابلہ جات کی حوصلہ افزاٸی کرتا ہے چنانچہ خلیفہ اول سیّدنا حضرت ابوبکرصدیق ؓاورخلیفہ ثانی سیّدناحضرت عمرفاروق ؓ ہردوحضرات کے مابین ایک دوسرے سے نیکی کے کاموں میں سبقت لے جانے کے بیسیوں واقعات ملتے ہیں
ایک مرتبہ حضرت عمرفاروق ؓ نے اس کی وجہ یہ بتلاٸی کہ عرب کے بدواورچرواہے ہم۔سے بہت آگے نکل گٸے اورہم سرداری کے زعم میں مست وبدحواس رہے اب آگے بڑھنا ہوگا خوب سے خوب ترمحنت کرنا ہوگی چنانچہ پھروہ وقت آیا کہ چالیسویں نمبر پر اسلام لانے والے سیّدنا عمرفاروقؓ اپنی غیرمعمولی عبادت وریاضت اورجرات وجوانمردی کی بنیادپرخلیفہ ثانی جیسے عظیم اورقابل رشک منصب پرفاٸزہوٸے ۔
جنگ بدرکے لیے روانگی کے موقعہ پرجب کمسن صحابہ کو یہ کہہ کر واپس کردیا گیا کہ وہ ابھی چھوٹے ہیں تو ان میں سے چھوٹے نے بارگاہ نبوت میں عرض کی کہ ہمارا مقابلہ کروالیں اگرمجھ میں دم ہواتو مجھے بھی شریک سفرکرلیجیے گا چنانچہ ان دونوں بچوں کے مابین جب مقابلہ کروایا گیا توچھوٹے بھاٸی نے بڑے کو پچھاڑ دیا چنانچہ دونوں کو اجازت مرحمت ہوگٸی ۔
اوریہ بدیہی سی بات ہے کہ جس مارکیٹ میں جتنا زیادہ مقابلہ ہوتا ہے تووہاں ہر دکاندار دوسرے سے زیادہ بِکری کے لیے سرتوڑمحنت کرتا ہے ۔
یہ بہت ہی افسوس ناک عمل ہے کہ ایک تاجرتو اپنی مصنوعات کی فروخت کے لیے اپنی پوری تواناٸی صرف کرے لیکن ایک استاداور والد اپنے بچوں بارے سست روی کا شکار ہو۔
تاجراپنی مصنوعات کی بڑے پیمانےپرفروخت سےیہ سمجھتا ہے کہ اس سے اس کی ضروریات زندگی کی زیادہ سے زیادہ تسکین ہوگی
تو ایک استاد اور والد کو اس سے کٸی گنا اطمینان اورخوشی اپنے بچوں کی مثالی کامیابیوں سے ہونی چاہیے۔اس لیے وقتا فوقتا بچوں کے مابین مختلف نصابی وہم نصابی سرگرمیوں کے عنوان پرمقابلہ جات کروانا اورانعامات کے ذریعےانکی حوصلہ افزاٸی کرنا انتہاٸی مثبت نتاٸج کا ذریعہ بنتا ہے۔
کمنت کیجے