پچھلی ایک تحریر میں ہم نے متکلمین کی دلیل حدوث کی روشنی میں علت کا مفہوم واضح کیا تھا نیز کانٹ کی پیش کردہ ایک انٹینامی کا تجزیہ بھی کیا تھا۔ اسی نوع کی ایک انٹینامی کانٹ یہ بھی پیش کرتا ہے کہ خدا اگر علت ہے تو اسے عالم میں بھی ہونا چاہئے اور اس سے خارج بھی ہونا چاہئے۔ متاثرین کانٹ کے خیال میں یہ ناقابل حل ہے، تاہم یہ پوری انٹینامی متعدد غلط فہمیوں کا مجموعہ ہے۔ پہلے ہم ان اصولوں کی نشاندہی کرتے ہیں جو متکلمین نے علت کی بحث کو سمجھنے کے لئے وضع کئے، پھر کانٹ کی فکر کے مسائل کو واضح کیا جائے گا۔ اس کے بعد کانٹ کی پیش کردہ انٹینامی خود بخود کافور ہوجائے گی، ان شاء اللہ۔ اگر امام غزالی کے الفاظ میں کانٹ کی غلط فہمیوں کا خلاصہ کیا جائے تو وہ حادث و ممکن کے تصور اور اس کے مضمرات کو پوری طرح سمجھ نہ پانا ہے۔ متکلمین کا استدلال کیسے چلتا ہے، آئیے پہلے اس کا خلاصہ ملاحظہ کرتے ہیں۔ گفتگو کو مربوط رکھنے کے لئے مقدمات و نتائج نیز سوال و جواب کی صورت بات بڑھائی جائے گی۔
متکلمین کا طریقہ بحث
پہلا مقدمہ: حواس کے رو برو عالم موجود ہے
اگر آپ حواس سے حاصل ہونے والی اخبار کو بے معنی و غیر حقیقی سمجھتے ہیں تو آپ سوفسطائی ہیں، ایسے سو فسطائیوں سے بحث الگ طرح ہوتی ہے جو یہاں ہمارا موضوع نہیں ۔ ویسے بھی یہ مقدمہ کانٹ اور متکلمین کے مابین مابہ النزاع نہیں
دوسرا مقدمہ: حواس کے رو برو یہ عالم حادث ہے
حادث کا معنی وہ شے ہے جو “مسبوق بالعد م ” ہو۔ حواس کے سامنے جو یہ عالم ہے اس کے دو ہی امکان ہیں: یا یہ قدیم ہے یعنی ازل سے ہے اور یا یہ حادث ہے یعنی عدم سے وجود میں آیا ہے۔ متکلمین کے مطابق اس کا قدیم ہونا محال ہے، لہذا یہ حادث ہے۔ اگر آپ کو اس سے اختلاف ہے تو پھر پہلے اس پر بحث ہوگی اور اگلی بات بعد میں ہوگی ۔ عالم کا حدوث کن دلائل سے ثابت ہے، یہ فی الوقت ہماری گفتگو کا موضوع نہیں لہذا ہم اسے ترک کرتے ہیں،ویسےبھی یہ زیر بحث مسئلہ میں مابہ النزاع نہیں
تیسرا مقدمہ: حوادث اپنی توجیہہ نہیں کرسکتے
حادث نہ واجب ہے اور نہ محال ، بلکہ یہ لازماً ممکن ہے اور ممکن ہونے کا مطلب ہی یہ ہے کہ یہ ایک سے زائد احتمالات میں سے کسی ایک جانب ترجیح کے لئے غیر کا محتاج ہے۔ اپنی اس احتیاج کو یہ خود پورا نہیں کرسکتا کہ پھر یہ حادث نہ ہو۔ اگر حادث خود اپنی علت یا وجہ ترجیح ہو تو مطلب یہ ہوگا کہ وہ غیر کا محتاج بھی ہے اور اس سے غنی بھی ہے (محتاجی کی وجہ حادث ہونا اور غنا کی وجہ خود اپنی علت ہونا)! اب جو خود اپنی توجیہہ کرنے لائق نہ ہو وہ کسی دوسرے کی ترجیح بن کر اس کی حاجت کیسے پوری کرسکتا ہے؟ اگر یہ کہا جائے کہ بعض حوادث بعض کے لئے علت ہیں تو ان بعض کی بعض دوسروں پر علت بننے کی وجہ ترجیح کیا ہے؟ پس یہ خیال کہ ایک حادث خود اپنی یا دوسرے حادث کی علت یعنی اس کی وجہ ترجیح ہے، یہ بے بنیاد خیال ہے۔ پس نہ تو حوادث کے مجموعے کا کوئی ایک جزو پورے مجموعے کی علت ہوسکتا ہے اور نہ یہ پورا مجموعہ۔
نتیجہ اول : کل عالم حادث ہے کیونکہ یہ حوادثات (یعنی معلولات) کا مجموعہ ہے۔ پس کل عالم توجیہہ یعنی علت کا محتاج ہے ، یہاں کوئی شے کسی کی توجیہہ و علت نہیں ہوسکتی
سوال: ہم دیکھتے ہیں کہ عالم میں موجودات کے مابین علت و معلول کا تعلق ہے، آخر تم حوادث کے مابین اس علیت کے تعلق کی نفی کیوں کرتے ہو؟
جواب: لفظ “علت ” سے تم نے کیا مراد لیا؟ اگر مراد تاثیر ہے تو یاد رکھو کہ تم جس شے کا مشاہدہ کرتے ہو وہ علت یعنی ” جلانے کی تاثیر” نہیں ہے بلکہ صرف یہ ہے کہ جب روئی آگ کے پاس آئی تو دوسرے لمحے وہ ایک بدلی ہوئی شے تھی (مثلا وہ بھڑک اٹھی یا راکھ ہوگئی وغیرہ) ۔ تمہارے مشاہدے میں صرف “دو حالتیں ” آتی آئیں، رہی علت یا سبب تو وہ تم نے کب دیکھا؟ حواس کے ذریعے تم ایک خاص ترتیب سے ظاہر ہونے والے جس ربط کا نام “اشیاء کی تاثیرات” رکھتے ہو، وہ تاثیرات تمہارے مشاہدے میں کبھی نہیں آتیں، یہ تمہارے ذہن کی اختراع ہے کہ اس نے جمادات نما حوادث کو “مؤثر ” سمجھ لیا ہے جبکہ عقل اس بات ہی سے ابا کرتی ہے کہ “حوادث از خود مؤثر ہوکر مرجح ہوں”۔ لہذا عقل نے جب اس اصول کو پہچان لیا کہ حوادث اپنی توجیہہ نہیں ہوسکتے تو اس نے اس غلط خیال کو رد کردیا کہ جمادات کی صورت یہ حوادث خود مؤثر بھی ہیں۔
چوتھا مقدمہ : حادث کے لئے محدث درکار ہے
جب یہ معلوم ہوگیا کہ حادث ممکن ہے اور کسی ایک جانب ترجیح کے لئے مرجح کا محتاج ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ حادث موجود ہے، تو عقل لازما تقاضاکرتی ہے کہ مرجح بھی موجود ہو۔ یہ محدث یا سبب کیسا ہونا چاہئے؟ اس پر ہم نے پچھلی تحریر میں بحث کی تھی کہ یہ محدث چار سوالات کا جواب دے گا:
- حادث کے لئے عدم سے وجود کی ترجیح
- وجود کے بعد معدوم ہونے کے بجائے وجود پر بقا کی ترجیح
- حوادث میں تقدیم و تاخیر کی ترجیح
- حوادث کی کیفیات و مقدار کی ترجیح
جو علت ان چار سوالات کا جواب دے، وہ عالم کا مرجح کہلانے کی مستحق ہے۔ اب مرجح کے تصور پر غور کرو تو معلوم ہوگا کہ یہ “ارادہ” ہے اور اس پر ہم الگ سے گفتگو کرچکے ہیں، ترجیح و ارادے کا مطلب دو میں سے ایک جانب کا اختیار ہے، اگر یہ اختیار ثابت نہیں تو ترجیح کاکوئی مطلب نہیں۔ اب اگر تم کہو کہ علت بننے کے لئے “ترجیح ” ہونا کیوں ضروری ہے، تو ہم کہیں گے کہ پھر سے حادث و ممکن کے تصور پر غور کرو: وہ جو دو یا اس سے زائد امکانات میں معلق ہو اور کسی ایک جانب کے لئے ترجیح کا محتاج ہو۔ حادث (یعنی جو ترجیح کا محتاج ہے) کی احتیاج “ترجیح دئیے جانے ” کے بغیر بھلا کب پوری ہوسکتی ہے، اس بات کو سمجھو!
پانچواں مقدمہ: علت و معلول کے مابین لزوم و کفایت (necessity and sufficiency) کا تعلق ہونا شرط ہے اور اس لئے یہ بایں معنی ایک ساتھ پائے جاتے ہیں کہ جب علت ہوگی تو معلول ہوگا اور اگر علت نہ ہو تو معلول نہ ہوگا۔
اس مقدمے کو سمجھنا اہمیت کا حامل ہے اور اسے نہ سمجھنے سے مشکلات پیدا ہوئی ہیں۔ علت کی شرط میں نہ زمانی تقدم و اقتران (co-existence) کا مفہوم شامل ہے اور نہ ہی مکانی اقتران کا، یعنی مرجح ہونے کی یہ کوئی شرائط نہیں۔ اہل علم اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ بسا اوقات دو امور میں زمانی تقدم و تاخر نیز اقتران کا تعلق ہوتا ہے مگر وہ پھر بھی ایک دوسرے کے لئے علت نہیں ہوتے، بعینہہ مکانی اقتران بھی تصور علت کی شرط نہیں ۔ پس جب علت کے تصور کے لئے زمانی و مکانی اقتران شرط نہیں ہے تو اس کے اطلاقات کو زمان و مکان میں محدود کرنے کی کوئی بنیاد موجود نہیں۔ علیت کے مفہوم میں زمانی تقدم کا تصور شامل نہیں، اسےان مثالوں سے بھی باآسانی سمجھا جاسکتا ہے جنہیں عالم مشاہدہ میں علت سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ یہاں بھی کسی شے کو کسی دوسرے کی علت اس لئے نہیں کہا جاتا کہ وہ زمانی اعتبار سے اس سے پہلے ہوتی ہے بلکہ اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ وہ اس کے لئے مرجح ہوتی ہے، جیسے پانی میں ہاتھ ہلانے سے پانی کا ھلنا یا آگ و روئی کا جلنا وغیرہ۔ اس بات کو مقدمہ نمبر دو تا چار سے باآسانی سمجھا جاسکتا ہے، یعنی چونکہ جواہر و اعراض حادث ہیں لہذا جس طرح یہ مرجح کے بغیر عدم سے وجود میں آنے کی صلاحیت سے محروم ہیں اسی طرح کسی خاص لمحے میں وجود کے بعد دوسرے لمحے میں منتقلی کی صلاحیت سے بھی محروم ہیں۔ پس جب حادث کو بقا ہی حاصل نہیں، تو ایک حادث دوسرے حادث پر “زمانی تقدم ” حاصل کرکے اس کے وجود کی شرط کیسے بن سکتا ہے؟ ایسا خیال حادث کے مفہوم کو نہ سمجھنے کی بنا پر پیدا ہوتا ہے ۔ اسی طرح علیت کے مفہوم میں مکانی اقتران کے شرط نہ ہونے کو بھی باآسانی سمجھا جاسکتا ہے۔ مثلا جب حکومت وقت کسی حکمنامےکے اجراء سے کسی کا حق متعین کردیتی ہے، تو یہ حکمنامہ اس کے حق کی علت سمجھا جاتا ہے حالانکہ یہاں ان دو امور کےمابین “مکانی اقتران” نہیں پایا جاتا۔ اسی طرح قیاس کے عمل میں جب ایک حکم کو فرع پر پھیلایا جاتا ہے تو یہ بھی مکانی اقتران کی بنا پر نہیں ہوتا بلکہ اس منطقی لزوم کی بنا پر ہوتا ہے جس کا درج بالا مقدمے میں ذکر ہو۔ اسی طرح جب انسان اپنی خواہشات اور اعمال کے مابین جاری سلسلوں کو علت و معلول قرار دیتے ہیں تو یہ بھی مکانی اقتران کی وجہ سے نہیں ہوتا۔ الغرض متکلمین علیت کے مفہوم کو غیر ضروری طور پر زمان و مکان کے ساتھ گڈ مڈنہیں کرتے اور ہم دیکھیں گے کہ ھیوم اور کانٹ ایسا کرتے ہیں ۔
نتیجہ دوئم: علت یعنی وجہ ترجیح عالم سے ماوراء ہے ، جو قدیم ہے، واجب ہے ، نہ جوہر ہے اور نہ عرض اور نہ ہی جسم اور نہ ہی جہت میں، نہ ہی عالم میں حلول کی ہوئی ۔ ان سب کے دلائل پر متکلمین الگ سے بحث کرتے ہیں،لیکن یہ فی الوقت ہمارا موضوع نہیں۔ اصولی با ت یہ ہے کہ اگر عالم کی علت عالم میں ہو تو وہ حادث ہوگی اور حادث خود مرجح کا محتاج ہوتا ہے نہ کہ علت۔
یہ ہے متکلمین کے استدلال کا خلاصہ۔ اب ہم کانٹ کے مسائل کی جانب بڑھتے ہیں۔
کانٹ کے تصور “علت ” کے مسائل
کانٹ کا اصل مسئلہ یہ مفروضہ ہے کہ سبب یا علت عالم کے اندر حوادث میں ہے اور اس مفروضے کی وجہ کانٹ کا نیوٹن کی فزکس سے متاثر ہونا تھا اور اسی بنا پر ھیوم کو جواب دیتے ہوئے اس نے عالم میں دکھائی دینا والے ربط کو نیوٹن کے حرکی قوانین کے زیر اثر علت کی کیٹیگری قرار دیا۔ چنانچہ جب آپ کانٹ سے پوچھیں کہ فہم کے مقولات یعنی کیٹیگریز میں جس کانام آپ نے “علت” رکھا ہے اس کی حقیقت و معنی کیا ہے، تو اس کا جواب یہ ہے:
every event is determined by a cause according to constant laws
اس کا کہنا ہے کہ کسی گھر کے معین و غیر متبدل رخ اور نہر میں نیچائی کے رخ پر بہتی (یعنی تبدیلی سے دوچار) کشتی کے مشاہدے میں جو فرق ہے وہ تبھی معنی خیز ہے جب یہ مفروضہ قائم کیا جائے کہ ایک خاص لمحے و مکان پر موجود کشتی کا رخ دراصل اپنے سے ماقبل زمانی و مکانی حالات و شرائط کی بنا پر ہے اور ان ماقبل حالات و شرائط کا تعین عالم میں جاری مستقل حرکی قوانین سے ہورہا ہے۔ کانٹ کا کہنا ہے کہ ایک غیر متبدل گھر کے مشاہدے کو میں چھت سے فرش کے بجائے الٹ طرف یعنی فرش سے چھت کی جہت میں سوچ سکتا ہوں تاہم پانی میں بہتی کشتی کے بارے میں نیچے سے اوپر بہاؤ کا خیال ممکن نہیں کیونکہ یہ بہاؤ حرکی قوانین کی بنا پر ہے۔ اپنے علمیاتی نظام فکر کی رو سے کانٹ یہ کہنے کی کوشش کرتا ہے کہ انسان اس بارے میں یہی سوچ سکتا ہے کیونکہ انسانی فہم کی بناوٹ ہی یہی ہے، نیز دکھائی دینے والے اس ربط کے بارے میں وہ اس کے سوا کچھ سوچ ہی نہیں سکتا (تاہم یہ حرکی قوانین خود کیسے متحقق ہوتے ہیں نیز ان میں لزوم کہاں سے آیا، ہم دیکھیں گے کہ کانٹ کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں)۔ کانٹ کا مسئلہ نیوٹن کی فزکس کی معروضیت و لزوم ثابت کرنا تھا، اس لئے کہ ھیوم نے اس پر سوال کھڑا کردیا تھا، لہذا ہم دیکھیں گے کہ کانٹ نے اسی کو “عقلی لزوم ” کا لبادہ اوڑھا کر آگے بڑھانے کی کوشش کی۔ ہیوم کا مسئلہ یہ تھا کہ اس کے نزدیک تصورات تجربے سے حاصل ہوتے ہیں، مگر اسے مشاہدے سے حاصل ہونے والے دو تصورات کی علت و معلول کے بندھن میں توجیہہ کرنے کے لئے ان کے مابین “زمانی تقدم”، مکانی اقتران” اور “دونوں کے باہمی لزوم” کی مشاہداتی بنیاد نہیں مل پا رہی تھی۔ ھیوم تین سوالات پوچھتا ہے:
- علت کا تصور یا مفہوم کیا ہے اور اس تصور کی تجرباتی بنیاد کیاہے؟ وہ کہتا ہے کہ یہ ایک تعلق کا نام ہے جو تین امور سے عبارت ہے: دو اشیاء کے مابین زمانی تقدم، ان کا مکانی اقتران اور باہمی لزوم ۔ چنانچہ ان تصورات کی تجرباتی بنیاد کیا چیز ہے؟ مثلا آخر مشاہدے سے جنم لینے والا وہ کونسا تصور ہے جو لزوم کی دلیل ہے؟
- “ہر واقعے کا ایک سبب ہوتا ہے”، خود اس تصور کی تجرباتی دلیل کیا ہے جبکہ یہ بات معلوم ہے کہ علت و معلول کہلائے جانے والے واقعات ایک دوسرے سے مختلف و الگ ہوتے ہیں اور انہیں الگ فرض کرنے سے تضاد بھی لازم نہیں آتا؟
- علل و معلول کے بندھن کے کسی خاص یا معین (particular or substantive) اصول (مثلا آگ روئی کو جلاتی ہے، کھڑے پانی میں ہاتھ ہلانے سے پانی ہلتا ہے، انسان کا سر کاٹ دینے سے موت واقع ہوجاتی ہے وغیرہ) کے لزوم کی دلیل کیا ہے جبکہ ہم problem of induction سے واقف ہیں جو یہ کہتا ہے کہ تجرباتی شواہد قطعی علم فراہم نہیں کرتے؟
کانٹ نے کہا کہ ان سب تصورات کی بنیاد تجربے میں نہیں بلکہ انسانی ذہن و فہم کی ساخت میں پنہاں ہے اور اس لئے انہیں ماننا سب انسانوں کے لئے ضروری ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ زمان و مکان وہ pure forms of intuition ہیں جو مشاہدے کو ممکن بنانے والے ہیں، یہاں سے “زمانی تقدم ” و “مکانی اقتران ” کی توجیہہ ہوتی ہے جبکہ تفہیمی کیٹیگریز ( جنہیں pure forms of thought کہا جاتا ہے) میں سے علت کی کیٹیگری یہ بتاتی ہے کہ ہر واقعہ ایک اصول کی بنا پر اپنے سے ماقبل حالات و شرائط کی بنا پر رونما ہوتا ہے۔ یوں اس کے خیال میں تجرباتی طور پر معلوم کردہ علل و معلول کے تعلقات کی آفاقی ، معروضی و لازمی بنیاد فراہم ہوجاتی ہے۔ گویا pure forms of intuition اور pure forms of thought مل کر اس مسئلے کو حل کردیتی ہیں جو ہیوم کو لاحق تھا۔ کیا اس مفروضے سے واقعی وہ سوال حل ہوا جو ھیوم نے اٹھایا تھا؟ موجودہ دنیا میں ماہرین کانٹ میں سے ایک بڑے ماہر Paul Guyer کا جواب نفی میں ہے۔
اس کی وجہ کانٹ کے جواب پر غور کرنے سے معلوم ہوجاتی ہے کہ وہ علت و معلول کے زمانی تقدم و مکانی اقتران کی توجیہہ کے لئے pure forms of intuition کا تصور فراہم کرتا ہے جبکہ اس اصول کی قطعیت کے لئے pure forms of thought سے علت کی کیٹیگری لاتا ہے۔ تاہم کانٹ کی فکر تیسرے سوال کہ “آیا کسی معین یعنی particular or substantive قانون کے لزوم کی دلیل کیا ہے ” کا جواب دینے سے قاصر ہے اور یہی سبسٹنٹو لزوم اصلا زیر بحث تھا جسے کانٹ نے حل نہیں کیا۔ یہ بات یاد رہے کہ کانٹ کے مطابق pure forms of thought کوئی سبسٹنٹو علم فراہم نہیں کرتیں بلکہ یہ محض “مطلق اصول تصور و تصدیق” ہیں جو مشاہداتی امور پر لاگو ہونے کے بعد particular or substantive علم پیدا کرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ pure forms of thought کسی معین اصول علت کا مافیہ یا content فراہم نہیں کرتے، چہ جائیکہ اس کے لزوم کی بھی دلیل بن سکیں۔ اسی طرح یہ pure forms of thought خارج میں رونما ہونے والے حوادث کے مابین ترتیب کو بھی متعین نہیں کرتے بلکہ یہ خاص ترتیب حسی مشاہدے سے موصول ہوتی ہے (کہ مثلا “خارج میں روئی آگ کے پاس گئی” اور “جل گئی”)۔ لہذا کانٹ زیادہ سے زیادہ یہ ثابت کرپایا کہ انسانی شعور کی وحدت میں “تصور سبب ” کی بنیاد موجود ہے نیز اسے کیوں کر لازم مانا جانا چاہئے، مگر معین زمانی و مکانی مشاہدات کے مابین کونسا تعلق وصف سببیت سے متصف ہوکر لازم ہے، اس کی فکر اس کا جواب دینے سے قاصر ہے۔ یعنی “علت و معلول کا تعلق قطعی ہے” سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ “آگ سے روئی کا جلنا بھی قطعی ہے” (یا مثلا حوادث کے مابین نیوٹن کے بیان کردہ قوانین بھی قطعی ہیں)، سببیت کے اس particular or substantive اصول کے لئے یا یہ فرض کرنا ہوگا کہ “آگ میں جلانے کی ناقابل تبدیل صلاحیت ہے” اور یا پھر یہ کہ مشاہدے میں آنے والے جن عوامل کو ہم اسباب کہہ رہے ہیں وہ خارج میں کسی مفروضہ اصول کی بنا پر ہم آھنگی (pre-established harmony) سے متصف ہیں”۔ ان مفروضات کے بغیر یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ آخر انسان علل و معلول کے معین (particular or substantive) اصول کیسے دریافت کرتا ہے نیز ان میں لزوم کیسے پیدا ہوتا ہے۔
یاد رہے کہ ایسی مفروضہ ہم آھنگی کا انکار ھیوم بھی نہیں کرتا تھا۔ دراصل کانٹ کے پیش نظر ہیوم جیسے دنیا و خواہش پرست انسان کا مسئلہ حل کرنا تھا جو پہلے سے یہ طے کئے بیٹھا تھا کہ علت عالم کے اندر ہی موجود ہے جو مشاہداتی علم سے متعین ہوتی ہے اور عالم ایک مکمل نظام ہے جو اپنی توجیہہ خود فراہم کرسکتا ہے ، تاہم اسے یہ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ حوادث کے تعلقات کے لزوم کو کیسے ثابت کرے۔ کانٹ نے اس شخص کی الجھن کو حل کرنے کے لئے اسے ایک ورکنگ فریم ورک دینے کی کوشش کی تاکہ وہ اصل مسئلے کو بھول کر دنیا پرستی میں لگا رہے۔ تاہم یہ حل صرف سراب تھا کیونکہ کانٹ کا نظام فکر حوادث کے مابین علت و معلو ل کے کسی بھی معین(particular or substantive) تعلق کے لزوم کو ثابت کرنے سے قاصر ہے۔ آسان الفاظ میں کانٹ نے یہ تو بتایا کہ خود علیت کا تصور کیوں کر لازم ہے، مگر وہ یہ ثابت نہیں کرسکا کہ “حوادث” بھی علت ہوسکتے ہیں نیز معین حوادثات کے مابین کونسے تعلقات قطعی ہیں اور اس معین علم کی بنیاد کیا ہے، جبکہ اصل نزاع اسی میں ہے! ایسے میں کانٹ کا کنٹریبیوشن یہ بتانا رہ جاتا ہے کہ “علت کا تصور قطعی و ماقبل تجربی ہے”، لیکن یہ بات کانٹ سے بہت قبل متکلمین واشگاف الفاظ میں کہہ چکے تھے کیونکہ یہ حادث کے تصور ہی میں پنہاں ہے جسے متکلمین نے بھانپ کر اس کے مضمرات کو بھی پہچان لیا تھا ۔ رہا گیاکانٹ کی جانب سے علت کے تصور کو زمان و مکان کے ساتھ مشروط کرنا، تو یہ صاف پانی کو گدلا کرنے کے مترادف تھا کیونکہ اوپر وضاحت ہوچکی کہ علیت ایک منطقی تعلق کا نام ہے یعنی علت و معلول میں تعلق منطقی “تقدم و تاخر “کا ہے نہ کہ زمانی و مکانی ۔ تصور علت کے ساتھ زمان و مکان کے تصورات کو لازمی طور پر نتھی کردینا، یہ غلطی کانٹ نے ھیوم سے متاثر ہوکر کی اور اسی غلطی کی بنا پر کانٹ اس انٹینامی کو کھڑا کرتا ہے جو زیر بحث ہے کہ جب دیگر تمام علل پر “زمانی تقدم ” اور ” مکانی اقتران” کی شرط عائد ہے تو خدا اس سے ماوراء کیسے ہوسکتا ہے؟
چنانچہ ہمیں علت کی اس کیٹیگری سے انکار نہیں ہے کہ “حادث کے لئے مرجح ہوتا ہے”، تاہم کانٹ سے ہمارا سوال یہ ہے کہ آپ کی اس کیٹیگری نے آپ کو یہ خبر کیسے دی کہ یہ تعلق ان حوادثات کے اندر جاری کسی ایسی شے (مثلا تاثیری یا حرکی قوت) کی بنا پر ہے کہ میں یہ ماننے پر مجبور ہوجاؤں کہ کشتی کا بہنا اپنے سے ماقبل حالات و شرائط کا رہین منت ہے نیز یہ تعلق لازم بھی ہے، جبکہ عقل صریح طور پر یہ جانتی ہے کہ یہ سب حوادثات ہیں نیز حوادثات اپنی توجیہہ کرنے سے قاصر ہیں نیز ان کے مابین باہمی تاثیرات کا کوئی مشاہدہ بھی موجود نہیں ؟ تاہم ان حقائق سے علی الرغم بھی کانٹ کا یہ ماننا ہے کہ انسانی عقل یہی فرض کرے کہ مشاہدے میں آنے والے حوادثات جس طرح کمیت و مقدار (مثلا واحد و جمع) یا واجب و ممکن اور وجود و عدم وغیرہ جیسے لازمی احکام سے متصف ہوں گے، اسی طرح وہ “علت ” (مرجح ہونے) کے وصف سے بھی لازما متصف ہوں گے۔ کانٹ کی بات اس حد تک درست ہے کہ عقل یہ حکم لگاتی ہے کہ حوادث علت کے محتاج ہیں، لیکن اس کا یہ مفروضہ قطعی طور پر غلط ہے کہ عقل یہ حکم بھی لگاتی ہے کہ حادث مرجح کی صفت سے بھی ہوسکتا ہے ۔ حادث پر وجود و عدم نیز کثرت و وحدت کے مقولات کا اطلاق یقینا ہوسکتا ہے مگر اس پر علت کی کیٹیگری کے تحت علت (مرجح ) کا اطلاق نہیں ہوسکتا، انسانی عقل “حادث” کو “مرجح” ماننے سے ابا کرتی کیونکہ یہ دونوں اپنی وضع میں متضاد تصورات ہیں۔ غور کیجئے کہ جس تفہیمی کیٹیگری کا نام آپ نے علت رکھا ہے، اس کیٹیگری سے قبل ایک کیٹیگری وجود کی کیٹیگری ہے جو پہلے موجودات کو واجب ، ممکن و محال کے تصور میں تقسیم کرتی ہے ، ان میں سے جو واجب و محال ہوں ان کے لئے علت کی کیٹیگری غیر متعلق ہوجاتی ہے، پھر جو حادث و ممکن ہو عقل اس کی احتیاج کی پیاس بجھانے کا سفر شروع کرتی ہے۔ اس کیٹیگری کا اطلاق شروع ہی تب ہوا جب عقل کے پاس حادث و ممکن کا تصور آیا، جب اس نے حادث پر غور کیا تو جان لیا کہ یہ خود اپنی توجیہہ نہیں کرسکتا، اسی لئے تو مرجح کا محتاج ہے ۔ چنانچہ علت کی کیٹیگری کا سفر دو حقائق کے بعد شروع ہوتا ہے:
- متعلقہ وجود حادث و ممکن ہے
- حادث وجود خود اپنی توجیہہ نہیں ہوتا اور نہ ہی دوسرے کی (یعنی حادث خود علت نہیں ہوتا)
اب خود ہی غور کیجئے کہ جب عقل کے پاس یہ خبر آگئی کہ پورا عالم ہی حادث ہے تو جس کیٹیگری کا نام آپ نے “علت” رکھا وہ اپنے مافیہ کے اطلاق (یعنی “مرجح”) کو اسی حادث عالم کے اندر موجود فرض کرکے احکام کیسے جاری کرسکتی ہے جس کے بارے میں اسے پہلے سے خبر موصول ہوچکی کہ یہ مرجح نہیں ہوسکتا؟ پس پہلے اس غلط مفروضے کو ترک کیجئے کہ عالم کے اندر مشاہدے میں آنے والی بعض چیزیں بعض کے لئے علت ہوسکتی ہیں ، علت کی کیٹیگری پہچان چکی ہے کہ یہاں سب حوادثات (یعنی معلولات ہیں) اور حادث علت نہیں ہوا کرتا ۔ وہ جانتی ہے کہ عالم میں صرف ایک کے بعد دوسرا حادث رونما ہورہا ہے اور اس لئے وہ ان میں سے ہر ایک کو اپنے حکم کا مصداق قرار دینے سے انکاری ہے۔ پس وہ یہ کہنے پر مجبور ہے کہ جب سارا عالم حادث ہے تو میرے حکم کا اطلاق اس عالم سے ماوراء کسی موجود پر ہوگا اور اس موجود کو واجب ہونا چاہئے۔ اہل مذہب اسے خدا کہتے ہیں۔
خلاصہ: علت و معلول پر کانٹ کی فکر کے مسائل دو گانہ ہیں:
الف) کانٹ یہ ثابت نہ کرسکا کہ معین حوادثات کے مابین معین یا سبسٹنٹو علل و معلول کے تعلق کے لزومی تصور کی دلیل کیا ہے، اگرچہ یہ بات درست ہے کہ علت کا اصول (pure form) از خود قطعی ہے؟ یہ بات معلوم ہے کہ زمانی تقدم و مکانی اقتران سے متصف ہر دو حوادث علت و معلول نہیں ہوتے ۔ کانٹ محض نیوٹن کے بتائے ہوئے “حرکی قوانین ” کو فرض کرلیتا ہے اور اسی مفروضے پر وہ سبسٹنٹو قوانین کی عمارت کو جواز فراہم کرتا ہے، لیکن خود ان قوانین کا ادراک کس مشاہدے سے ہوا، اس کی کوئی خبر نہیں۔ نیز یہ مفروضہ مانے بغیر کہ “مستقبل ماضی ہی کی طرح ہوگا”، کانٹین سسٹم سے یہ کیسے ثابت ہوتا ہے کہ یہ مفروضہ قوانین یونہی رواں دواں رہیں گے؟ اسی لئے ماہرین کانٹ کی رائے میں کانٹ ھیوم کے اٹھائے ہوئے اصل مسئلے (علل و معلول کے معین سلسلوں کے لزوم کو) حل نہیں کرسکا۔ نیز یہ واضح ہوا کہ کانٹ محض نیوٹن کے حرکی قوانین کو مفروضے کے طور پر ثابت شدہ فرض کرکے انٹینامیز کھڑی کرتا رہا ۔
ب) حوادث ایک دوسرے کی علت یعنی مرجح ہوسکتے ہیں ، اس مفروضے کی کیا دلیل ہے جبکہ حادث کا تصور ہی اس سے ابا کرتا ہے؟ یہ دوسری غلطی پہلی غلطی سے بھی زیادہ بنیادی بلکہ غور کیجئے تو اس کی بنیاد تھی ۔ اسی کی بنیاد پر کانٹ کو یہ گمان گزرا کہ عالم سے ماوراء علت کے بغیر بھی فزیکل آرڈر میں رونما ہونے والے حوادث کی خود حوادث سے توجیہہ کرسکنا ممکن ہے ۔ گویا کانٹ کو صرف اس مسئلے کو حل کرنےسے دلچسپی تھی کہ عالم شہادت میں جن حوادث کو ہم عادی طور پر سبب سمجھتے ہیں انہیں ہی سبب قرار دینے کی توجیہہ کیسے بنائی جائے، علی الرغم اس سے کہ انہیں سبب کہنا کوئی معقول بات ہے بھی یا نہیں۔ کانٹ ایک ایسے تصور کو مرجح ثابت کرنے کی کوشش میں تھا جو اپنی وضع میں مرجح ہونے کے عقلی حکم کو قبول ہی نہیں کرتا، اسی لئے اسے اول الذکر ناکامی کا سامنا ہوا۔
متاثر کانٹ کے سوالات
اس گفتگو کے بعد کانٹ کی اٹھائی ہوئی انٹینامی بے معنی ہوکر رہ جاتی ہے، تاہم ہم متاثر کانٹ کی غلط فہمیوں کو دور کرتے ہیں۔
پہلا سوال: ہم نے آپ کی بات سمجھ لی، اب اس انٹینامی کو حل کیجئے
جواب: غلط فہمیوں کے تدارک کے بعد اب اپنے اٹھائے ہوئے مسئلے پر غور کیجئے ۔ آپ کا یہ کہنا ہےکہ “خدا کائنات میں بھی ہے اور اس سے خارج بھی یہ دونوں باتیں ماننا ضروری ہے” جبکہ یہ دونوں ہی باتیں غلط ہیں۔ درست بیان یہ کہنا ہے کہ وہ موجود نہ عالم میں داخل ہے اور نہ اس سے خارج ، نہ ا س سے متصل ہے اور نہ منفصل کیونکہ اس پر خارج و داخل دونوں کا اطلاق درست نہیں کہ وہ جوہر، عرض و جسم نہیں
دوسرا سوال: یہ بتائیے کہ جب خدا نے ماوراء طور پر عالم میں پہلی علت یعنی اپنے معلول پر اثر کیا جس کے بعد پھر زمان و مکان کے اندر چلنے والے علت و معلول کا سلسلہ چل نکلا تو خدا نے زمان و مکان میں حلول یا دخول یا شمول کے بغیر یہ کیسے کیا،جبکہ ہم دیکھتے ہیں عالم میں چلنے والے علت و معلول کے سلسلے اس عالم میں شمولیت کے بعد ہی قابل عمل ہیں؟
جواب: آپ پھر سے اپنی اسی غلط فہمی میں جاپڑے کہ علت عالم میں موجود حوادث کے اندر موجود ہے، یہی بات اوپر سمجھائی گئی کہ عالم صرف حوادثات یعنی معلولات کی ترتیب سے عبارت ہے۔ چنانچہ صورت مسئلہ یہ ہے ہی نہیں کہ خدا نے عالم میں کسی پہلی علت کو وجود بخشا جس کے بعد زمانی و مکانی تقدم و اقتران کے اصول پر واقعات کی ایسی لازمی ترتیب شروع ہوگئی جس پر عقل کی تفہیمی کیٹیگری “علت ” لاگو ہو۔ پس آپ کے سوال میں پس پشت یہ مفروضہ ہی غلط ہے کہ “‘عالم میں تو علت و معلول کا سلسلہ زمان و مکان میں جاری ہے’ تو خدا نے اس میں شمول کے بغیر معلول پر اثر کیسے ڈالا؟”
تیسرا سوال: لیکن اس کے بعد تو ہمارا سوال اور بھی موکد ہوگیا، کیونکہ ہم آپ سے صرف یہ پوچھ رہے تھے کہ آخر خدا زمان و مکان میں موجود ایک معلول پر کیسے اثر انداز ہوا جبکہ آپ کا دعوی یہ ہے کہ وہ یہاں رونما ہونے والے سب ہی واقعات کے لئے علت ہے۔ یہ تو الٹاآپ نے خود کو بڑی مصیبت میں پھنسا لیا ! اور پھر اس سوال کا کیا جواب ہے کہ خدا زمان و مکان میں شرکت کے بغیر ان سب حوادثات کی علت کیسے بنتاہے؟
جواب: اس “کیسے ” کی طرف ہم بعد میں چلتے ہیں، پہلے یہ سمجھ لیجئے کہ دراصل آپ کا سوال “قیاس الغائب علی الشاھد” کی غلطی کرنے والے پر پڑتا ہے، یعنی جو شخص یہ کہتا ہےکہ ۔۔۔ “عالم میں علت و معلول کا سلسلہ جاری ہے نیز زمانی و مکانی حالات علیت کے مفہوم میں بطور شرط شامل ہیں، لہذا اس سلسلے کا ایک سرا ہونا چاہئے اور وہ سرا زمان و مکان سے ماوراء خدا ہے” ۔۔ ۔ یہ شخص دراصل زمانی و مکانی تصور علت کو زمان و مکان سے ماوراء لاگو کرنا چاہتا ہے اور اس لئے غلطی کا مرتکب ہے۔ لہذا اس غلطی کو دور کرنا از حد ضروری تھا۔
رہا تمہارا یہ اصرار کرنا کہ “علت کا یہ حکم زمان و مکان سے ماقبل موجود پر کیسے جاری ہوگیا؟” تو اس کا جواب اوپر ہوگیا کہ عقل کی رو سے یہ اطلاق جائز ہے اس لئے کہ تصور علت کے لئے زمان و مکان کا تقدم و اقتران شرط نہیں ۔ پس جب یہ بات واضح ہے کہ علت ہونے کے لئے زمان و مکان کوئی شرط نہیں، تو آپ کا یہ سوال بامعنی نہیں رہا کہ خدا زمان و مکان سے ماورا رہتے ہوئے مکانی معلولات پر اثر انداز کیسے ہوا؟ نہ خدا کا زمان و مکان سے ماوراء ہونا اور نہ ہی معلولات کا مکانی ہونا تصور علت کے اطلاق کی راہ میں رکاوٹ ہے کیونکہ علت منطقی لزومی تقدم و اقتران سے عبارت ہے نہ کہ زمانی و مکانی۔ یہ سوال علت کے بارے میں آپ کے غلط مفروضات پر قائم ہے۔
چوتھا سوال: خداعالم پر موثر کیسے ہوتا ہے جبکہ وہ اس میں شامل نہیں ، یہ بات تصور میں نہیں آتی۔
جواب: اس کا جواب وہی ہے جو امام غزالی نے گروہ مجسمہ کو اس سوال پر دیا تھا کہ ” ایک موجود کا زمان و مکان میں نہ داخل ہونا اور نہ خارج ہونا ناقابل فہم ہے”۔ اس جواب کو پھر ملاحظہ کیجئے تو معلوم ہوگا کہ سمجھ نہ آنے کے دو مفہوم ہیں، آپ کے سوال کا حاصل بس یہ ہے کہ آپ کو اس کی کیفیت سمجھ نہیں آرہی۔
اس تفصیل کے بعد آپ کانٹ کی انٹینامی کو پڑھ کر بتائیے کہ اس میں عقلمندی کی بات کہاں ہے؟
کمنت کیجے