عمران شاہد بھنڈر
میری نظر سے زاہد صدیق مغل صاحب کی ایک تحریر گزری ہے، جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ کانٹ نے نئی بوتل میں پرانی شراب ڈال دی ہے، یعنی کانٹ نے جو نتائج نکالے یا دلائل دیے وہ ابوحامد الغزالی پہلے ہی پیش کر چکا تھا۔ جس بات کو کہنے کی جرآت و ہمت بڑے بڑے فلسفیوں کو بھی نہیں ہوئی، وہ ایک مذہبی انسان نے کر دی ہے۔ ان کی تحریر منطقی اغلاط کا مجموعہ ہے، جس کو دور کرتے کرتے تیس صفحات کا مضمون لکھا جا سکتا ہے، تاہم میں نے کانٹ کی ایک اینٹی نومی ان کے سامنے رکھ دی ہے اس امید کے ساتھ کہ وہ اس کی تحلیل غزالین فکر کی روشنی میں کریں گے۔ بہرحال اس پر میرا تبصرہ ملاحظہ ہو۔
میں نے اس تحریر کو اس لیے پڑھنا شروع کیا کہ اس کے عنوان میں کانٹ کا ذکر تھا۔ امید تھی کہ یہ ایک ”عالمانہ“ تحریر ہوگی جس میں تحقیق کے بنیادی اصولوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے کانٹین فلسفے کے بعض پہلوؤں کا تجزیہ پیش کیا گیا ہو گا۔ ایک معیاری تنقیدی تحریر کا سب سے بنیادی وصف یہ ہوتا ہے کہ جس فکر پر ہمیں اعتراض ہو، یا کچھ تحفظات ہوں اس کو جوں کا توں پیش کیا جائے اور پھر اس کا تنقیدی جائزہ لیا جائے۔ لیکن اس تحریر کو پڑھ کر کوئی بھی شخص یہ نہیں جان سکتا کہ کانٹ کا فلسفہ کیا تھا۔ اور جب یہی علم نہیں کہ کانٹ کا فلسفہ کیا تھا تو اس پر اعتراضات کی تفہیم بھی ناممکن ہے۔ البتہ جن احباب نے کانٹ کو پڑھا اور سمجھا ان کے لیے یہ نتیجہ نکالنا مشکل نہیں ہے کہ اس مضمون کے لکھاری نے کانٹ کے فلسفے کی ابجد کو بھی نہیں سمجھا۔ محض ظاہری مماثلتیں اپنی ذہن میں قائم کیں اور بعدازاں یہ بتا دیا کہ غزالی پہلے ہی ان کا جواب دے چکا تھا۔ محمد اقبال نے اپنی کتاب ”فکرِ اسلامی کی نئی تشکیل“ کے پہلے لیکچر میں کانٹ کا ذکر کرتے ہوئے بہت دلچسپ نتیجہ نکالا تھا کہ
”کانٹ اور غزالی کے درمیان ایک اہم فرق ہے۔ کانٹ اپنے اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ رہتے ہوئے خدا کے علم کے امکان کا اثبات نہ کر سکا۔ غزالی کو تجزیاتی فکر میں امید کی کوئی کرن نظر نہ آئی اور اس نے اپنا رخ صوفیانہ تجربے کی جانب موڑ لیا۔“
اس میں اہم نکتہ کہ جسے اقبال نے پہچان لیا اور جسے فلسفیانہ سپرٹ سے عاری لوگ نہیں سمجھ سکتے، یہ ہے کہ کانٹ پہلے سے کچھ طے کر کے نہیں بیٹھا تھا، بلکہ وہ فلسفیانہ خیال کی منطقی حرکت کے تعاقب میں تھا، اور اسی کی بنیاد پر اس نے نتائج اخذ کیے۔ کانٹ کا ہدف جرمنی میں حد سے بڑھی ہوئی عقلیت پسندی تھی، جس کے اہم نمائندگان میں لائبنیز اور وولف شامل ہیں، جوعقلی الٰہیات کی تشکیل کر چکے تھے۔ کانٹ نے منطقی اصولوں کی رہنمائی میں یہ ثابت کیا کہ خدا کو فطرت میں سے تلاش کرنا درست نہیں ہے۔ خدا محض ایک خیال ہے، جسے عقل تشکیل دیتی ہے، اور اس خیال کا منطقی امکان موجود ہے، لیکن اس کا علم حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لیے کانٹ نے جو انتہائی گہرے اور منطقی دلائل پیش کیے ان کی تفصیل میں جانے کا یہ مناسب موقع نہیں ہے۔ البتہ میں یہاں کانٹ کے ”اینٹی نومیز“ میں سے صرف ایک تناقض کا اینٹی تھیسس پیش کرتا ہوں، اس امید کے ساتھ کہ اس مضمون کے مصنف غزالین فکر کی روشنی میں اس تناقض کو دور کریں گے۔
اینٹی تھیسس یہ ہے کہ کوئی مطلق واجب ہستی اس کائنات کے اندر یا باہر بحیثیت علت موجود نہیں ہے۔
اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ یہ کائنات ہی ایک واجب وجود ہے یا پھر اس کے اندر کوئی ایسی ہستی موجود ہے جس کو مطلق واجب ہستی کہا جا سکتا ہے۔ اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ کائنات کے سلسلہ تغیرات میں آغاز بغیر کسی علت کے یعنی غیر مشروط ہو گا۔ لیکن جب ہم زمانے کے اندر مظاہر کا تعین کرتے ہیں تو یہ نتیجہ زمانے کے اندر موجود مظاہر کے حرکیاتی قوانین سے مطابقت نہیں رکھتا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اس سلسلے کا کوئی آغاز نہیں ہے اور اس کا ہر جز اتفاقی اور مشروط ہوگا، لہذا یہاں پر تناقض رونما ہوتا ہے۔ یہاں پر کانٹ یہ باریک نتیجہ نکالتا ہے کہ جب تک کوئی ایک جز خود ایک واجب ہستی کے طور پر موجود نہ ہو اس وقت تک کسی مجموعے کی ہستی بھی واجب نہیں کہلا سکتی۔ یعنی کائنات کے اندر ہر جز میں لزوم پایا جانا کائنات کے کُلی لزوم کے لیے ضروری ہے۔
دوسری جانب اس کے برعکس اگر ہم یہ فرض کرتے ہیں کہ کائنات کی ایک لازمی مطلق علت کائنات کے اندر نہیں بلکہ اس کے باہر موجود ہے تو اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ کائنات میں تغیرات کا جو سلسلہ موجود ہے وہ مطلق علت کائنات میں موجود تغیرات کے سلسلے کا ایک آغاز کرے گی۔ یہاں پر آغاز کو دو مفاہیم کی وضاحت کی گئی ہے: پہلا وہ آغاز کہ جس میں مطلق علت فاعلی کائنات میں سلسلہ تغیرات کو اپنے ہی معلول کے طور پر شروع کرتی ہے، جبکہ دوسرا سلسلہ انفعالی ہے جس میں علیت خود علت کے اندر پیدا ہوتی ہے، یعنی علت بطور فعال علت کے اس سلسلے کا آغاز نہیں کرتی۔ نکتہ یہاں پر یہ ہے کہ جب مطلق علت سلسلہ کائنات میں تغیرات کا آغاز کرتی ہے تو کائنات کے تعلق سے یعنی زمانے کے اندر وہ اس کی اپنی فعلیت کا بھی آغاز ہوتا ہے۔اس وقت وہ کائنات سے باہر نہیں بلکہ کائناتی مظاہر بحیثیت کُل ان کے اندر ہوگی۔ لہذا یہاں پر پھر ایک تناقض پیدا ہوتا ہے، جس کا لازمی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ نہ ہی کائنات کے اندر اور نہ کائنات کے باہر کوئی مطلق ہستی موجود ہے۔
یہ ایسے بنیادی اور اہم اور منطقی طور پر نکالے گئے تناقضات ہیں کہ ان کی تحلیل بڑے بڑے فلسفیوں کے لیے دردِ سر بن چکی تھی۔ جرمنی میں ان کی تحلیل کا آغاز فختے نے کیا اور بعد ازاں ہیگل نے ”منطق کی سائنس“ میں یہ نتیجہ نکالا کہ یہ تناقضات چار نہیں ہیں جیسا کہ کانٹ سمجھتا ہے، بلکہ یہ تناقضات ہر جگہ پر ہیں۔ اس طرح ہیگل نے ارسطوئی منطق سے اگلا قدم اٹھایا جس کی بنیادیں خود کانٹ کے تناقضات میں واضح کر دی گئی تھیں۔ ارسطوئی منطق میں اے برابر اے کے ہوتا ہے، یعنی تناقضات میں سے ایک صحیح ہے دوسرا غلط، جیسا کہ متکلمین ارسطو کی تقلید میں سمجھتے رہے ہیں۔ لیکن کانٹ نے بتایا کہ تھیسس اور اینٹی تھیسس برابر ہیں۔ یہاں سے جدید جدلیات کی بنیادیں استوار ہوئیں اور ہیگل نے ”منطق کی سائنس“ میں لکھا کہ اے برابر ہے ناٹ اے کے۔ یہی جدلیات کا بنیادی اصول قرار پایا۔
——————————————————————————-
عمران شاہد بھنڈر فلسفے کے استاذ اور متعدد کتب کےمصنف ہیں۔
کمنت کیجے