Home » فہم سنت کے بارے میں ڈاکٹر یوسف القرضاوی کی ایک کتاب
اسلامی فکری روایت عربی کتب فقہ وقانون

فہم سنت کے بارے میں ڈاکٹر یوسف القرضاوی کی ایک کتاب

ڈاکٹر یوسف القرضاوی  مصر سے تعلق رکھنے والے ایک معروف عالم دین تھے۔ آپ نے بعد میں قطر میں سکونت اختیار کی اور حال ہی میں ان کا قطر میں انتقال ہوا۔ ڈاکٹر قرضاوی کو عرب سے باہر بھی کافی شہرت ملی اور ان کی کتابوں کے اردو تراجم بھی ہوئے۔ “سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ہمارا طریق فکر و عمل” کے نام سے ڈاکٹر قرضاوی کی کتاب کا سید ارشد علی حامدی صاحب نے ترجمہ کیا ہے جس کو دارالنوادر لاہور نے شائع کیا ہے.
کتاب کی تقدیم ڈاکٹر طہٰ جابرالعوانی نے لکھی ہے۔ جس میں اس کتاب کے محاسن اور اس کے موضوعات پر انہوں نے روشنی ڈالی ہے۔ ڈاکٹر علوانی نے آغاز بہت ایمان افروز انداز میں کیا ہے۔
“تمام شکر و تعریف اس اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔جس نے اسلام کو ہمارے لئے دین کی حیثیت سے پسند کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمارے لئے رہنما ، نبی اور رسول کی حیثیت سے منتخب فرمایا۔ جس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حق کے ساتھ تمام لوگوں کی طرف بشیر و نذیر اور داعی الی اللہ بنا کر مبعوث کیا اور جس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کو مینارہ نور اور مشعل ہدایت بنایا جب لوگ سابقہ انبیائے کرام علیہم السلام کی ہدایات اور تعلیمات کو فراموش کر چکے تھے اور دنیا میں گمراہی و ضلالت عام ہو چکی تھی”
یہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کا بہترین انداز ہے جو مجھے بہت پسند آیا
ڈاکٹر علوانی نے اپنی تقدیم میں یہ بات کی ہے کہ احادیث کے سلسلے میں محدثین نے سند اور متن کا تنقیدی جائزہ لیا ہے مگر اس میں سند کے بارے میں زیادہ تحقیق و تجزیہ کیا گیا ہے۔ متون کے اوپر سند کے مقابلے میں کام کافی کم ہیں۔
یہ کتاب فہم سنت کی ایک کاوش ہے۔ جو کہ متون سے تعلق رکھتی ہے۔ یعنی کہ ڈاکٹر علوانی نے جس کمی کا ذکر کیا تھا یہ کتاب اس سلسلے کی ایک کوشش ہے۔ ڈاکٹر علوانی نے امید ظاہر کی کہ یہ کتاب بے سود بحث و تکرار سے امت مسلمہ کو نکالنے میں معاون ثابت ہو گی۔
ڈاکٹر یوسف القرضاوی نے بھی اپنے مقدمہ میں اس کتاب کے بنیادی موضوع کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اس کتاب کا مقصد حجیت حدیث کا اثبات نہیں ہے۔ بلکہ ایک داعی اور فقیہ کی حیثیت سے سنت پر تعامل، سنت کا صیح فہم و بصیرت کے اصول و ضوابط کی وضاحت مقصود ہے۔
مقدمہ کے آخر میں ڈاکٹر قرضاوی رح نے اس امید اور خواہش کا اظہار کیا ہے کہ ان کو اس کام کی بدولت سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت نصیب ہو۔
اسلام میں سنت کا مقام قرآن مجید کے بعد دوسرے ماخذ کا ہے۔بلکہ سنت قرآن مجید کی عملی تفسیر ہے۔اسلام کے عملی نظام کی معرفت حاصل کرنے کے لیے سنت کا جاننا بہت ضروری ہے۔
ڈاکٹر یوسف القرضاوی کہتے ہیں کہ سنت کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو لوگوں کو دینی امور میں تنگی و مشقت میں مبتلاء کرے۔ بلکہ سنت مشکلات کو حل اور آسانیاں پیدا کرتی ہے۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سیدنا ابو موسیٰ اشعری اور حضرت سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہم کو یمن روانہ کرتے ہوئے نصحیت فرمائی تھی سہولت و آسانی فراہم کرنا اور خوشخبری سنانا۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم بھی یہی اور عملی طور پر بھی سنت کے ذریعے اس میں ہمارے لیے آسانیاں پیدا کی گئی ہیں۔
اس آسانی کو اس انداز میں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ سنت وہ آسان ترین اور مضبوط راستہ ہے جس کو اپناتے ہوئے انسان اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتا ہے۔
ڈاکٹر یوسف القرضاوی کہتے ہیں کہ موجودہ دور میں مسلمانوں کا بحران فکری نوعیت کا ہے اور اس کی وجہ فہم سنت کی کمی ہے۔ اس پر ڈاکٹر صاحب نے ایک حدیث بھی نقل کی ہے کہ
علم نبوت کے حامل وہ سچے جانشین ہوں گے جو غلو کرنے والوں کی تحریف ، باطل پرستوں کے جھوٹے انتساب اور جاہلوں کی غلط تاویل و توجیہ کی تردید و نفی کا کام انجام دیں گے
اس حدیث کو امام ابن قیم رح کو مفتاح دارالسعادۃ میں ذکر کیا ہے۔
اس حدیث کی وضاحت ڈاکٹر قرضاوی نے کی ہے اور کہا ہے کہ اہل کتاب کو ہلاکت میں اس غلو ہی نے ڈالا جنہوں نے عقائد اور عبادت میں غلو کیا ہے۔ باطل پرستوں کا جھوٹا انتساب وہ بدعات ہیں جن سے دین کی شکل تبدیل ہو جاتی ہے۔ ایسا ہی معاملہ جاہلوں کی تاویلات کا ہے جو اسلام کی تعلیمات کی حقیقت کو مسخ کر کے ایسا معانی دیتے ہیں کہ اس کی حقیقت ہی ختم ہو جاتی ہے۔ اس لیے علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ سنت کی تفہیم و تشریح کے بارے میں مسلسل راہنمائی کرتے رہیں تاکہ باطل پرستوں کی تاویلات فاسدہ سے عوام کو محفوظ رکھا جا سکے
ڈاکٹر قرضاوی نے لکھا ہے کہ بعض لوگ ظاہری وضع قطع اختیار کر کے دانشوروں کا روپ اختیار کر کے حدیث و سنت کی غلط تاویلات کرتے ہیں ان سے ہوشیار رہنا چاہیے
ڈاکٹر یوسف القرضاوی نے لکھا کہ سنت پر غور وفکر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس کے اصولوں سے واقف ہو، مثلاً جس سنت یا حدیث پر وہ غور و فکر کر رہے ہیں وہ مستند ہو، اس کی آئمہ حدیث نے جانچ پرکھ کی ہو ، اس طرح غور کرنے والا حدیث کے سیاق و سباق سے واقف ہونا چاہیے کہ یہ حدیث کس پس منظر میں ذکر کی گئی ہے اور تیسری بات فہم سنت کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ آپ کا فہم کسی بھی دوسری نص کی نفی نہ کرتا ہو ، اس میں حکمت شریعت اور اصول حدیث کو مدنظر رکھا گیا ہو۔
ڈاکٹر قرضاوی نے ضعیف روایات کے بارے میں کافی تفصیل سے بات کی ہے اور لکھا ہے کہ علماء نے فضائل اعمال و اذکار ، ترغیب و ترہیب سے تعلق رکھنے والی احادیث کے بارے میں سہل سے کام لیا ہے اور اس میں ضعیف روایات کو قبول کیا ہے مگر اس کا بھی کچھ دائرہ کار ہے۔
ڈاکٹر قرضاوی نے صوفیاء کی کتب میں روایات پر خصوصی نقد کیا ہے اور لکھا ہے ان میں سے بیشتر کی کوئی اصل نہیں ہوتی۔ اس لیے ان کو آگے بیان کرنے سے گریز کرنا چاہیے ۔ کچھ تفاسیر جن میں علامہ اسماعیل حقی کی روح البیان کا ڈاکٹر قرضاوی نے خصوصی طور پر ذکر کیا ہے اس میں بھی احادیث کو بیان کرتے ہوئے احتیاط نہیں برتی گئی۔
اس کے علاوہ فقہاء کی روایات پر بھی ڈاکٹر قرضاوی نے کچھ جگہ نقد کیا ہے کہ کئی بار ان کی درج کردہ روایات میں بھی احتیاط نہیں برتی جاتی۔فقہاء کی کتب میں سے کچھ روایات پر محدثین نے نقد کیا ہے، فقہاء کی کتب میں کچھ بے سند روایات بھی آ گئیں جس کی وجہ سے محدثین نے ان کی تخریج پر کام کیا جیسے علامہ زیلعی حنفی رح نے ہدایہ کی احادیث پر الگ سے کام کیا، حافظ ابن حجر عسقلانی شافعی نے امام غزالی کی فقہ پر کتاب پر الگ سے کام کیا۔
ڈاکٹر قرضاوی نے فقہاء کی کتب میں سے نقل کردہ درج ذیل روایات کو بے سند کہا ہے
میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں ، تم ان میں سے جس کی اقتداء کرو گے راہ یاب ہو گے
جس کو مسلمان بہتر سمجھتے ہوں وہ اللہ کے نزدیک بھی بہتر ہے
میری امت کا اختلاف رحمت ہے
ترغیب و ترہیب کے ضمن میں ڈاکٹر قرضاوی نے کچھ دیگر محدثین کی آراء بھی نقل کی ہیں جو اس پر بھی ضعیف احادیث کو قبول نہیں کرتے ، جن میں امام بخاری ، یحییٰ بن معین ، شیخ ابنِ حزم ظاہری ، قاضی ابو بکر بن العربی ، ابو شامہ شافعی سمیت شیخ البانی اور شیخ احمد شاکر کا بھی یہی موقف ہے۔ ڈاکٹر قرضاوی کا جھکاؤ بھی اس طرف ہی ہے۔
ضعیف حدیث کو قبول کرنے کے قائلین کے نزدیک بھی شدید ضعیف روایات جو کے شدید مبالغہ آمیزی پر مبنی ہوں قابلِ قبول نہیں ہیں ۔ پھر وہ ان پر جزم و یقین اور قطعیت کے الفاظ سے بھی گریز کرتے ہیں۔
ڈاکٹر قرضاوی کہتے ہیں کہ ضعیف روایات پر مبنی کچھ افعال بھی اکثر مسلم ممالک میں رائج ہیں جن میں نصف شعبان کی رات کے قیام، یوم عاشورہ اہل و عیال سے فراخ دلی کا سلوک کرنا کیونکہ اس سے اللہ تعالیٰ کی جانب سے پورے سال کے لیے عطاء کا وعدہ ہے۔
نصف شعبان کی رات کے حوالے سے ڈاکٹر یوسف القرضاوی کی رائے کے برعکس بھی اہل علم حضرات کی رائے ہے۔ جو ان روایات سے اس کی فضیلت کے قائل ہیں۔ ان کے دلائل کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے
موضوع روایات کو جاننا اور ان کو مسترد کرنا بھی سنت کے فہم کے لیے بہت ضروری چیز ہے۔ بعض لوگ موضوع روایات کی آڑ میں صحیح احادیث کو بھی اپنی کج فہمی کی وجہ سے مسترد کر دیتے ہیں۔ یہ رویہ بھی درست نہیں ہے۔ اس پر ڈاکٹر قرضاوی نے ایک حدیث جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا کی کہ
مجھے مسکینی کی زندگی اور مسکینی کی موت اور قیامت میں مساکین کے زمرے میں اٹھا
اس دعا سے لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہوئے کہ یہاں تنگدستی اور افلاس کی فضیلت بیان ہوئی ہے جبکہ دوسری احادیث ایسی بھی ہیں جس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے افلاس و تنگدستی سے پناہ مانگی ہے۔ ایک حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ
اللہ تعالیٰ غنی ، تقوی شعار اور گمنام بندے سے محبت کرتا ہے
تو ان احادیث کے ہوتے ہوئے مسکینی کی دعا والی حدیث کا لوگوں نے انکار کیا ہے۔ یہ انکار کج فہمی ہے، اس حدیث میں مسکینی سے مراد فقر و افلاس نہیں ہے۔ اس حدیث میں مسکنت سے تواضع اور انکساری مراد ہے۔ اس دعا کا مقصد یہ ہے کہ جباروں اور متکبرین سے نہ ہوں۔ اس حدیث کو بنیاد بنا کر دولت کی مذمت مراد لینا درست نہیں ہے
کج فہمی کی ایک اور مثال حدیث مجدد کے بارے میں ڈاکٹر قرضاوی نے بیان کی ہے۔ تجدید دین سے بعض لوگوں نے یہ سمجھا کہ دین کا ایسا مفہوم جو زمانے کے موافق ہو یعنی کہ جدید ایڈیشن جس میں بنیادی تعلیمات میں کتر بیونت کر کے اس کو زمانے سے ہم آہنگ کیا گیا ہو۔
ڈاکٹر یوسف القرضاوی کہتے ہیں کہ تجدید کا مطلب منہدم کر کے نئی تعمیر نہیں بلکہ اس کا مطلب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین کے دور کی طرف رجوع کرنا ہے۔
ڈاکٹر یوسف القرضاوی کہتے ہیں کہ ہمیں اگر صحیح احادیث کا مفہوم سمجھ نہیں آ رہا تو فوراً ان کا انکار نہیں کرنا چاہیے یہ ناعاقبت اندیشی ہے۔ ہمیں اس کی مناسب تاویل کی طرف جانا چاہیے اور یہی بنیادی فرق ہے اہل سنت اور معتزلہ کے درمیان ، معتزلہ احادیث کے انکار میں عجلت پسندی سے کام لیتے ہیں جو ان کے دینی مسلمات سے ٹکرائے وہ فوراً انکار کرتے ہیں جبکہ اہل سنت کا رویہ یہ نہیں ہے وہ حتی الامکان اس میں ظاہری تعارض کو دور کرنے اور جمع و تطبیق کا طریقہ کار اختیار کرتے ہیں۔
ڈاکٹر یوسف القرضاوی نے بہت عمدگی سے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں پھیلائے اس مغالطے کی تردید کی ہے کہ ان کو فقط سترہ احادیث کا علم تھا۔ ڈاکٹر قرضاوی نے لکھا ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کوفہ میں حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے علمی مدرسے کے پروردہ تھے پھر حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بھی یہاں اپنا علمی فیضان تقسیم کیا ، یہ بات قطعی طور پر غلط ہے کہ امام ابوحنیفہ علم حدیث سے لاعلم تھے۔امام ابو حنیفہ مجتہد تھے اور ایک مجتہد کی قرآن و سنت پر گہری نظر ہوتی ہے جن سے وہ احکام کا استنباط کرتا ہے۔ امام اعظم سے احادیث کی قلت روایت کی وجہ ان کی قبولیت کی سخت شرائط ہیں جن کو محدثین نے تسلیم کیا ہے۔
ڈاکٹر یوسف القرضاوی نے داعی کے لیے خصوصی ہدایت کی ہے کہ اس کو اپنی دعوت میں ہمیشہ صحیح روایات کا سہارا لینا چاہیے۔ یہاں احادیث پر تحقیق کرنے والے محققین کی کاوشوں کی ڈاکٹر قرضاوی نے خصوصی طور پر تعریف کی ہے۔ ڈاکٹر قرضاوی نے شیخ البانی ، شیخ احمد شاکر ، فواد عبدالباقی ، شیخ احمد عبدالرحمن، شیخ محمود شاکر، شیخ حبیب الرحمن اعظمی، عبدالقادر ارناوط، شیخ شعیب الارناوط کے کتب احادیث پر تحکیم و تحقیق والے کام کی خصوصی تعریف کی ہے۔ اس کے علاوہ شروحات حدیث پر لکھی گئی کتابوں کا بھی ذکر کر کے ان کو سراہا ہے اور داعیوں کو تاکید کی ہے کہ احادیث صحیحہ اور ان کی شروحات کا وہ خصوصی طور پر مطالعہ کریں اور ان کو اپنا مستدل بنائیں۔ ڈاکٹر قرضاوی نے اس المیہ کا ذکر کیا ہے جس کا شکار زیادہ تر اسلامی ممالک کے واعظین ہیں کہ وہ موضوع اور بے سند روایات ذکر کرتے ہیں جس سے عوام میں اصلاح کی بجائے بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔
ڈاکٹر قرضاوی نے لکھا ہے کہ عذاب و ثواب کے سلسلے میں مبالغہ آرائی پر مبنی روایات سے جدید پڑھا لکھا طبقہ دین سے مزید دور ہوتا ہے۔ اس لیے ان کو بیان کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ داعی کو حکمت سے کام لینا ہوتا ہے اس لیے اگر کسی موقع پر صحیح حدیث بیان کرنا بھی حکمت کے خلاف ہو تو وہ نہیں بیان کرنی چاہیے جیسے حضرت سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ نے کچھ روایات بیان نہیں کیں۔ اس کی مثال میں ڈاکٹر قرضاوی نے حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا ملک الموت کو تھپڑ مارنے والی حدیث اور ایک روایت جس میں آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام نے کسی سے کہا کہ تمہارے اور میرے والد دوزخ میں ہیں ان جیسی اور روایات جو عام آدمی کے فہم سے بالاتر ہوں کو نہیں بیان کرنا چاہیے۔ اس روایت پر تو ڈاکٹر قرضاوی نے کلام بھی کیا ہے کیونکہ حضرت عبداللہ رحمہ اللہ زمانہ فترت میں انتقال کر گئے تھے ان تک دعوت حق نہیں پہنچی ، اس حدیث کا مفہوم اس کے ظاہری معانی میں درست معلوم نہیں ہوتا اور سائل کے والد کا انتقال بھی دعوت اسلام سے پہلے ہوا تو اس کے بارے میں بھی دوزخ کا حکم کیسے ہے۔خود ڈاکٹر قرضاوی نے لکھا ہے کہ انہوں نے اس روایت کی متعدد شروحات کا مطالعہ کیا مگر ان کا دل کسی بھی شرح پر مطمئن نہیں ہوا۔ شیخ محمد غزالی نے اس حدیث کا انکار کیا ہے اور اس کو قرآن مجید کے خلاف قرار دیا جبکہ ڈاکٹر قرضاوی نے لکھا کہ وہ مطلق تردید کی بجائے توقف کو ترجیح دیتے ہیں کہ ممکن ہے اس کا حقیقی مفہوم ابھی تک ان پر آشکار نہ ہوا ہو۔
اس لیے داعی کو چاہیے کہ اس طرح کی روایات کو بیان نہ کرے۔ یہ اس کی حکمت و بصیرت کا امتحان ہے کہ وہ اپنی دعوت کو بہتر سے بہتر انداز میں پیش کرے۔ ڈاکٹر قرضاوی نے ایک اصول لکھا ہے جس کو داعی حضرات کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ اگر کسی منکر کے ازالے کی کوشش میں اس سے بڑے منکر کے پیدا ہونے کا اندیشہ ہو تو خاموش رہنا ضروری ہے حتیٰ کہ حالات تبدیل ہو جائیں۔
فہم سنت کے حوالے سے ڈاکٹر قرضاوی نے ایک باب میں وضاحت کی ہے کہ سنت قرآن کی تشریح کرتی ہے لہذا یہ کسی صورت بھی اس سے متعارض نہیں ہو سکتی۔ اگر وہ قرآن کے خلاف نظر آئے تو یا تو وہ سنت ثابتہ نہیں یا پھر ہمارے فہم میں کوئی کمی ہے، یہ تعارض حقیقت میں نہیں ہو سکتا۔ سنت کو سب سے پہلے قرآن مجید کی روشنی میں سمجھا جائے گا۔
اس باب میں ڈاکٹر قرضاوی نے قصہ غرانیق کی تردید کی ہے جو کہ قرآن مجید کے خلاف ہے۔
ڈاکٹر قرضاوی نے لکھا ہے کہ حدیث کے قرآن کے متعارض ہونے کے دعوی کے لیے گہری تحقیق و نظر کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے احتیاط اور تحمل سے کام لینا چاہیے ۔ اس بارے میں معتزلہ نے عجلت کا مظاہرہ کیا اور ٹھوکر کھائی اور انہوں نے شفاعت کا انکار کر دیا ۔ متعدد صحیح احادیث سے شفاعت ثابت ہے۔ اس پر ڈاکٹر قرضاوی نے متعدد احادیث جو شفاعت کو ثابت کرتی ہیں لکھی ہے اور وضاحت کی ہے کہ قرآن مجید مطلق شفاعت کی نفی نہیں کرتا وہ اس شفاعت کی نفی کرتا ہے جس کا اعتقاد مشرکین عرب کرتے تھے۔
قرآن مجید کے مطابق شفاعت کی اجازت رب تعالیٰ دے گا اور اس کے حقدار صرف موحدین ہوں گے
فہم حدیث کے حوالے سے ایک اور چیز احادیث کی جمع و تطبیق ہے۔ ایک موضوع سے متعلق مختلف احادیث جمع کر کے ان کے درمیان تطبیق پیدا کی جائے اور مرادی مفہوم کی وضاحت ہو جائے۔
اس سلسلے میں بطور مثال ڈاکٹر قرضاوی نے اسبال ازار (کپڑے کو زمین پر گھسیٹتے ہوئے چلنا) کے بارے شدید وعید والی احادیث کو ذکر کیا ہے اور اس سلسلے کی دیگر روایات پر جب غور کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے اس وعید کے مخاطب دراصل وہ لوگ ہیں جو غرور و تکبر کی بنا پر اپنے لباس کو گھسیٹتے ہوئے چلتے ہیں۔
ڈاکٹر قرضاوی نے اس اصول کی اہمیت بتاتے ہوئے لکھا ہے کہ جب موضوع سے فقط ایک روایت پر اکتفا کیا جائے تو غلطی کا امکان بڑھ جاتا ہے جب اس موضوع سے متعلق دیگر روایات کو دیکھ لیا جائے تو زیادہ درست نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے
مختلف احادیث کے درمیان جمع و تطبیق یا ترجیح کا مسئلہ بھی فہم سنت کے بارے میں پیش آ سکتا ہے ۔ ڈاکٹر قرضاوی کہتے ہیں کہ تطبیق کو ترجیح پر مقدم رکھنا چاہیے تاکہ تمام احادیث پر عمل ہو سکے اور حق حق کے مقابلے میں متعارض بھی نہیں ہو سکتا اس لیے پہلی کوشش تطبیق کی ہونی چاہیے۔
اس کی مثال عورتوں کی زیارت قبور کے بارے میں دی ہے کہ اس کی صحیح حدیث میں ممانعت آئی ہے ساتھ ہی کچھ ایسی احادیث بھی ملتی ہیں جن میں مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کا بھی زیارت قبور کے لیے جواز نکلتا ہے تو اس بارے میں محتاط بات یہی ہے کہ عورتوں کو زیارت قبور کی اجازت ہے، جو ممانعت ہے وہ کثرت سے زیارت قبور کرنے والی عورتوں کے لئے ہے۔ ڈاکٹر قرضاوی نے لکھا ہے کہ تعارض اور ترجیح ایک اہم موضوع ہے جس میں اصول فقہ ، اصول حدیث اور علوم قرآن کے موضوعات شامل ہیں۔
احادیث کو ان کے اسباب ، حالات اور مقاصد کی روشنی میں سمجھنا بھی فہم سنت کا ایک اور پہلو ہے۔ جس کی معرفت ہونا بہت ضروری ہے، خوارج نے اس چیز کو مدنظر نہیں رکھا اور انہوں نے مشرکین کے سلسلے میں نازل ہونے والی آیات کو مسلمانوں پر منطبق کرنا شروع کر دیا جس کی وجہ سے حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ان کو بدترین مخلوق قرار دیتے تھے ۔
یہاں پر بطور مثال ایک حدیث مصنف نے نقل کی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مشرکین کے درمیان رہنے والے مسلمانوں سے اپنے آپ کو بری الزمہ قرار دیا تو اس حدیث کے اسباب کو مدنظر رکھے بغیر لوگوں نے اس کی بنیاد پر غیر مسلم ممالک میں اقامت کو حرام قرار دیا۔ یہ حدیث ایک خاص پس منظر میں بیان کی گئی اور ان مسلمانوں کی حوصلہ شکنی کی گئی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے برسرِ پیکار مشرکین کے درمیان مقیم تھے اور اپنے حق کو ساقط کر رہے تھے۔ان کے خون سے بری الزمہ ہونی کی بات ہے کیونکہ وہاں رہ کر اپنی جان انہوں نے خود خطرے میں ڈالی
اس طرح محرم کے بغیر عورت کے سفر کو بھی ڈاکٹر قرضاوی نے اس ہی باب کے تحت لیا ہے کہ یہ ممانعت اس وقت تھی جب تنہا سفر انتہائی خطرناک تھا، جو اونٹوں اور خچروں پر ہوتا تھا۔ موجودہ دور میں سفر کی وہ مشکلات نہیں ہیں اس لیے عورت کا تنہا سفر کرنے میں کوئی شرعی ممانعت نہیں ہے۔ڈاکٹر قرضاوی نے تو یہ بھی لکھا ہے کہ اگر راستہ محفوظ و مامون ہو تو بعض آئمہ کے نزدیک عورت تنہاء حج بھی کر سکتی ہے
قریش کی امارت کے بارے میں حدیث بھی اس ہی سے متعلق ہے یہ کوئی مطلق حکم نہیں ہے بلکہ وقتی طور پر ایک حکم دیا گیا تھا جس کا ایک خاص پس منظر اور صورتحال تھی۔
فہم سنت کے حوالے سے ایک باب ڈاکٹر قرضاوی مقاصد سنت کے تحت لائیں ہے۔ انہوں نے لکھا کہ چند لوگ ثابت شدہ مقاصد جن کو سنت حاصل کرنا چاہتی ہے کی بجائے ان ذرائع جن کا سنت میں ذکر ہوتا ہے کے درمیان فرق نہیں کر پاتے۔ اصل اہمیت مقصد کی ہوتی ہے جبکہ ذرائع اور وسائل وقت اور حالات کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ طب نبوی کے متعلق محققین کی کتابیں اس کی ایک مثال ہے۔ طب نبوی کی روح ان خاص اشیاء جیسے کلونجی ، حجامہ ، سرمہ لگانا وغیرہ کو اپنانا نہیں بلکہ اپنی صحت اور قوت جسمانی کی حفاظت ہے۔
اس پر اپنی بات کے وضاحت میں سورہ انفال کی آیت جس میں دشمن کے مقابلے میں اپنے گھوڑے تیار رکھنے کا حکم ہے کو پیش کیا ہے کہ اس میں گھوڑوں سے مراد خاص گھوڑے نہیں بلکہ جدید جنگی سامان ہے جو کہ آج کے زمانے میں ٹینک ، توپ یا دیگر آلات حرب ہیں ۔ ایسے ہی اس سلسلے میں ایک حدیث جس میں تیر اندازی کی فضیلت ہے، آج کے دور میں خدا کی راہ میں بندوق چلانا ، توپ چلانا اور میزائل چلانا اس ہی فضیلت کے تحت آتا ہے۔ اس سے خاص تیر اندازی مراد نہیں ہے۔
اس پر ڈاکٹر قرضاوی نے مزید وضاحت کرتے ہوئے ٹوتھ پیسٹ کے استعمال کو مسواک کے قائم مقام قرار دیا ہے۔ کھانے پینے کے آداب میں جو انگلیاں چاٹنے کی بات کی گئی ہے دراصل کفایت شعاری کی طرف راہنمائی کرتی ہے اور کھانے کو ضائع کرنے کی مذمت ہے۔
رویت ہلال کے بارے میں بھی مصنف نے اپنا نکتہء نظر پیش کیا ہے اور کہا ہے کہ چاند دیکھ کر روزہ یا عید کا فیصلہ کرنا دور نبوی میں آسان ترین طریقہ تھا۔ اب جدید سائنسی آلات کے ذریعے جب چاند کی پیدائش معلوم ہو جائے تو بصری رویت ضروری نہیں ہے۔ بلکہ ڈاکٹر قرضاوی نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص چاند کی رویت کی گواہی دے جبکہ سائنسی لحاظ سے یہ ممکن نہ ہو تو ہمیں گواہی کو مسترد کرنا چاہیے کیونکہ یہاں سائنسی علم قطعی ہے۔ ڈاکٹر قرضاوی کہتے ہیں کہ ہمیں آج چاند کا اثبات فلکی حساب کے ذریعے کے کرنا چاہیے ، رویت بصری صرف وہاں معتبر ہو گی جہاں حساب کا علم حاصل کرنا دشوار ہو۔ ڈاکٹر قرضاوی کی یہ رائے یہاں بھی کچھ اہل علم حضرات کی ہے مگر دوسری رائے جو روایتی علماء کی رائے ہے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ پھر ہمارے ہاں چاند دیکھنے کا کچھ گھروں میں ایک اہتمام ہوتا ہے لوگ بہت شوق سے چاند دیکھتے ہیں اور پھر اس کو دیکھ کر دعائیں مانگتے ہیں۔ یہ ایک عمدہ روایت ہے جس کا خدشہ ہے کہ بصری رویت کے غیر ضروری قرار دئیے جانے پر وہ اپنی اہمیت کھو دے گی۔ اور پھر دونوں چیزیں کو یعنی بصری رویت اور فلکی حساب کو ساتھ بھی لے کر چلا جا سکتا ہے جو کہ زیادہ بہتر طریقہ ہے۔
ڈاکٹر قرضاوی نے لکھا ہے کہ عربی زبان میں مجاز کا کثرت سے استعمال ہوتا ہے اس طرح فہم سنت کے لیے بھی حقیقت اور مجاز کے فرق کو ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے۔متعدد احادیث میں مجازی معانی مراد ہوتا ہے۔ اس کی مثال قرآن مجید میں سورہ بقرہ میں سحری کے وقت کی ہے جس میں سفید اور سیاہ دھاگے کا ذکر ہے۔ اس سے حقیقی معانی نہیں بلکہ مجازی طور پر تاریکی اور دن کی سفیدی مراد ہے ۔
اس طرح ڈاکٹر قرضاوی نے چند احادیث کا ذکر کیا ہے جن کی درست تفہیم کے لیے ان کو مجازی معنوں پر محمول کرنا چاہیے ۔ جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمانا کہ میرا بندہ ایک بالشت میرے قریب آتا تو میں اس سے ایک ہاتھ قریب ہوتا ہوں۔ یہاں حقیقی معنی نہیں لیا جا سکتا یہاں مجاز کا سہارا لیتے ہوئے محدثین نے یہ تشریح کی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی طرف رجوع کرنے والوں کو اس سے بھی جلد ثواب عطاء کرتا ہے ۔
ایک اور حدیث جس میں ہے کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے، اس میں بھی مجاز ہی کا سہارا لیا جائے گا۔
ڈاکٹر قرضاوی نے اس باب میں بتایا ہے کہ مستشرقین حقیقت اور مجاز کے اس فرق کو ملحوظ خاطر نہیں رکھتے اس پر وہ احادیث پر حملہ آور ہوتے ہیں اور اس کو عقل و سائنس سے متصادم قرار دیتے ہیں۔ اس باب میں ڈاکٹر قرضاوی نے اور بھی بہت سی احادیث بطور مثال پیش کی ہیں جن کے مجاز کو نہ سمجھنے پر لوگوں نے ٹھوکر کھائی ہے لیکن ساتھ ساتھ ڈاکٹر قرضاوی نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ مجازی تاویلات اختیار کرتے ہوئے بھی احتیاط کا دامن نہیں چھوڑا جا سکتا، جیسے کہ باطنیہ فرقے کے لوگوں نے تاویلات کا سہارا لیا ہے وہ قابل قبول نہیں ہے۔ ان قابلِ تردید تاویلات کی مثال میں ڈاکٹر قرضاوی نے بتایا ہے کہ بعض لوگ دجال سے مغربی تہذیب مراد لیتے ہیں۔ وہ اس کی ایک آنکھ سے مراد مادیت کی انکھ لیتے ہیں۔اس لیے یہ تہذیب کانی ہے یہ درست فکر نہیں ہے۔
ڈاکٹر یوسف القرضاوی نے لکھا ہے کہ ان کو شیخ ابنِ تیمیہ سے خصوصی انس ہے اور وہ جانتے ہیں کہ شیخ ابنِ تیمیہ نے قرآن و سنت میں مجازی زبان کی صفت عام سے انکار کیا ہے مگر ڈاکٹر قرضاوی کہتے ہیں کہ انہیں اپنے محبوب شیخ سے اس معاملے میں اختلاف ہے۔
فہم سنت کے بارے میں احوال آخرت اور امور غیب سے متعلق احادیث پر بھی بات کی ہے اور اس بارے میں معتزلہ کی فکر پر تنقید کی ہے جنہوں نے صراط ، میزان، منکر نکیر وغیرہ کا انکار کر دیا۔ ڈاکٹر قرضاوی نے لکھا ہے کہ یہ احادیث خلاف عقل نہیں ماورائے عقل ہیں جس کے مابین فرق نہ کر کے معتزلہ نے ان کا انکار کیا ہے۔ اس بارے میں درست فکر یہ ہے کہ ہم ان پر ایمان لاتے ہیں مگر ان کی حقیقت کے بارے میں نہیں جانتے، ہماری عقل ان امور کو سمجھنے سے قاصر ہے۔
کتاب کے آخر میں ڈاکٹر قرضاوی نے سنت کے انسائیکلوپیڈیا کی ضرورت محسوس کی ہے جس میں تمام احادیث کو ان کے طرق اور سندوں کے ساتھ ان کے مضامین سمیت جمع کیا گیا ہو اور ہر حدیث کی روایت اور درایتاً جائزہ لیا گیا ہو۔ پھر احادیث کی فہرست جدید مضامین سے مرتب کی جائے
ایک اور ضرورت سنت کی جدید شرحوں کی ہے جس میں معانی و مفہوم کو صیح جہت میں بیان کیا گیا اور شکوک وشبہات کا ازالہ کیا گیا ہو۔ جس کو آج کا جدید ذہن بآسانی سمجھ سکے
ڈاکٹر قرضاوی نے قرآن کی ایسی تفسیر کی بھی ضرورت کا ذکر ہے جس میں قرآن مجید کے حقائق و معارف کو جدید اسلوب میں بیان کیا گیا ہو تاکہ وہ جدید ذہن کو اپیل کر سکے ، اس پر ڈاکٹر قرضاوی نے سید رشید رضا، جمال الدین قاسمی ، سید قطب اور سید مودودی کی تفاسیر کا ذکر کیا ہے جو ان خصوصیات کی حامل ہیں البتہ سنت کی تشریح کا کام ابھی باقی ہے۔
ڈاکٹر یوسف القرضاوی نے معروضی انداز میں اپنی گفتگو کی ہے اور مختلف پہلوؤں سے تفہیم سنت کے بارے میں اپنی بات کو سامنے رکھا ہے۔ جو کہ ان کے موضوع پر گرفت کی دلیل ہے۔ ڈاکٹر یوسف القرضاوی کی تشریحات سے اختلاف کی گنجائش موجود ہے مگر جس انداز سے انہوں نے مختلف جہات سے احادیث کا جائزہ لیا ہے اور ان کی درست تفہیم کی طرف راہنمائی کی ہے وہ انتہائی اہم اور قابل تعریف ہے۔ اس سے اصولی طور پر سنت کی تفہیم و تشریح کے لیے دین کے طالب علم کو سیکھنے کا کافی سامان موجود ہے اور اہل علم طبقے کے لیے بھی یہ کتاب کافی معاون ثابت ہو سکتی ہے

راجہ قاسم محمود

راجہ قاسم محمود پیشے کے اعتبار سے اکاونٹنٹ ہیں اور مختلف علمی وفکری موضوعات پر اظہار خیال کرتے ہیں۔
rajaqasimmehmood@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں