Home » علم کلام کی علمی اور دینی حیثیت -3
اسلامی فکری روایت فلسفہ کلام

علم کلام کی علمی اور دینی حیثیت -3

ڈاکٹر خضر یاسین

١٥ – ابو منصور الماتریدی رحمہ اللہ کے نزدیک علم کی بنیادی اقسام دو ہیں۔ پہلی قسم علم اللہ ھے اور دوسری علم الانسان ھے۔ علم اللہ کے امتیازی اوصاف بیان کرتے ھوئے کہتے ہیں:
وھو علم قديم ليس بضرورى و لا مكتسب و لا واقع عن عن حس و لا عن فكر و نظر و هو مع ذلك محيط بجميع المعلومات على التفصيل و الله عالم بكل ما كان و كل ما يكون و كل ما لا يكون ان لو كان كيف كان يكون بعلم واحد ازلي غير حادث
حیرت کی بات یہ ھے؛ امام رحمہ اللہ نے علم اللہ کی صفات میں الوہیت بطور صفت شامل ہی نہیں کیا اور جن صفات کے بیان سے “علم اللہ” کو علم الانسان human knowledge سے ممتاز کرنے کی سعی کی ھے، ان میں سے کوئی ایک یا تمام کی تمام صفات، الوہیت کا بدل ہیں اور نہ الوہیت کا عین ہیں۔
جن صفات کا الامام رحمہ اللہ نے تذکرہ کیا ھے، یہ تمام صفات انسانی مدرکات علم سے میسر آئی ہیں۔ “علم اللہ” کی منزل صفات میں، بعض کا سرے سے بیان ہی غائب ھے اور کچھ وہ صفات ہیں جن کا کہیں واضح اقرار ملتا ھے اور نہ کہیں واضح انکار ملتا ھے۔ قدم اور حدوث کی بحث کے سارے مضمرات انسانی مدرکات علم میں با آسانی تلاش کئے جا سکتے ہیں۔ اندریں صورت یہ وہ صفات نہیں ہیں جو اللہ تعالٰی اور انسان کے مابین ما بہ الامتیاز قرار پا سکیں۔
“علم اللہ” کی پہلی اور آخری صفت یہاں صرف یہ ھے کہ “الوہی علم” ھے اور انسان کے علم کی پہلی اور آخری صفت یہ ھے کہ وہ انسانی علم ھے۔ الوہیت و انسانیت کی تقسیم اس قدر کامل و مکمل ھے کہ کسی اور طرف متوجہ ھونے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔ الوہیت اور انسانیت ایک دوسرے سے مختلف نہیں ہیں، یہ دونوں ایک دوسرے کی سو فیصد نفی totally negation ہیں۔ متکلمین کا خیال تھا کہ انسان اور خدا کے مابین وجودی تفاوت کو قوت و ضعف، نقص و کمال اور ادنی و اعلی جیسے مقولات سے درست تعبیر کیا جا سکتا ھے۔ حالانکہ ایسا ناممکن ھے۔ ایسا نہیں ھے کہ انسان چھوٹا خدا ھے اور خدا بڑا انسان ھے یا انسان خدائے ناقص اور خدا تعالٰی انسان کامل ھے۔
متکلمین ذات و صفات باری تعالی کے متعلق نبوت کماھی پر قناعت کرتے تو انہیں یہ ضرورت پیش ہی نہ آتی اور نہ وہ علم اللہ کے لئے وجود ذہنی کی صفات کا اثبات پر مطمئن ھوتے۔ وجود ذہنی کی اور وجود خارجی کی صفات کا ابتدائی ادراک ہی انسان پر یہ حقیقت عیاں کر دیتا ھے کہ یہ نفس الامر یا موجود فی الخارج کی صفات نہیں ہیں بلکہ صرف اور صرف انسانی ادراک کی صفات ہیں۔
اہم ترین مسئلہ یہاں اور ھے، جس کی طرف علم کلام کے متقدمین کی توجہ گئی ھے اور نہ متاخرین نے اس پر توجہ مرتکز کی ھے۔
وحی شدہ اخبار، منظم فکر و فلسفہ ہیں اور نہ الوہی احکام انسان کا پیدا کردہ نظام العمل ھے۔ وہ الوہی ھدایات ہیں اور ان اخبار و احکام کو ھدایت کے منظر، پیش منظر اور پس منظر میں رکھنا ضروری ھے اور کماھی پر عمل کرنا واجب ھے۔ مھتدی ھدایت کے مقابل خود کو فکری اور عملی طور پر فعال اور جج بنا دے تو فیض ھدایت سے محروم ھو جاتا ھے۔ متقدمین فقہاء و متکلمین ھدایت الہیہ سے منظم فکر و فلسفہ کا انتزاع کرتے آئے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا ھے کہ منظم فکر وجود میں آ گیا۔ لیکن اس کی قیمت یہ چکانی پڑی کہ وحی شدہ اخبار و احکام کی نفی کرنی پڑی ھے۔ قرآن مجید میں علم الہی کا بیسیوں مرتبہ ل تعلیل کے ساتھ تذکرہ آیا ھے۔ ھدایت کے تناظر میں دیکھیں تو یہ ھادی اور مھتدی کے مابین زندہ تعلق ظاہر کرتا ھے۔ لیکن جب وحی شدہ اخبار سے منظم مابعد الطبیعیات اٹھائی گئی تو اس زندہ تعلق کو تو ختم ہی نہیں کیا گیا، خود منزل من اللہ خبر کی بھی نفی کر دی گئی۔
ماتریدی رحمہ اللہ کی مذکورہ بالا عبارت ان تمام آیات قرآنی کی نفی کرتی ھے جن میں ل تعلیل سے علم الہی کا تذکرہ ھے۔ دراصل بات یہ ھے؛ “تنزیل من رب العالمین” میں منظم فکر کی تشکیل اس نوع کی مشکل لازما پیدا کر دیتی ھے۔ ھم انسان اپنی علمی استعداد knowing faculty کی بنیاد پر باری تعالٰی کی ہستی اور ماہیت ہستی کا ادراک نہیں کر سکتے۔ جو کچھ اس نے اپنے متعلق بتایا ھے، وہ حقیقت ھے اور حق ھے۔ مگر وحی خداوندی کو منظم فکر بنانے کی تمنا اس قدر شدید اور منہ زور ھوتی ھے کہ ہر حال میں اپنی تکمیل چاھتی ھے، چاھے اس کی قیمت ایمان بالغیب کی صورت میں کیوں نہ ادا کرنی پڑے۔
۱۶۔

علم کلام کے بڑے مسائل میں ایک مسئلہ باری تعالی کی ذات و صفات کے متعلق تشبیہ و مماثلت اور تنزیہہ و عدم مماثلت ھے۔ قرآن مجید میں کہیں بھی اللہ تعالٰی کی صفات اس طرح سے بیان نہیں ھوئی ہیں کہ پڑھنے والا یہ فرض کر پائے کہ غیراللہ ان صفات میں مماثلت یا عدم مماثلت موضوع بن سکتا ھے یا غیراللہ کو ان شریک و سہیم مانا جا سکتا ھے۔ لیکن متکلمین کے نزدیک اللہ تعالٰی کی کچھ صفات ایسی تشبیہی ھیں کہ ان میں انسان اور دوسری مخلوق ہستیاں اللہ تعالی کے ساتھ مشابہت پیدا کر لیتی ہیں اور کچھ ایسی تنزیہی ہیں کہ مخلوق ان صفات شریک متصور نہیں ھو سکتے۔ جس کا مطلب یہ ھے کہ اللہ تعالی کی کچھ صفات ایسی بیان ھوئی ہیں جو انسان اور دیگر مخلوق ہستیوں میں ملتی جلتی ہیں اور کچھ وہ ہیں جو اللہ تعالٰی کی ہستی کے ساتھ خاص ہیں۔ وہ صفات جو مخلوق ہستیوں سے ملتی جلتی ہیں، تشبیہی کہلاتی ہیں اور دوسری تنزیہی کہلاتی ھے۔
متکلمین کے سامنے ایک بڑا علمی چیلنج یہ تھا کہ اللہ تعالٰی اپنی تمام صفات میں لا کالمخلوق ھے تو تشبہی صفات کو کیونکر جائز مانا جائے۔ ان کا خیال یہ ھے کہ یہ دراصل صرف لفظوں میں متشابہ ہیں، حقیقت میں نہیں ہیں۔ متکلمین کہتے ہیں، اللہ تعالٰی نے اپنے بارے فرمایا ھے؛
ليس كمثله شئي و هو السميع العليم
وہ کہتے ہیں؛ “لیس کمثله شئي” سے مماثلت کی نفی ھو جاتی ھے اور “ھو السمیع العلیم” سے صفات کا وجود ثابت ھو جاتا ھے۔ یعنی لیس کمثلہ سے یہ ثابت ھو جاتا ھے کہ اس کی صفات میں مماثلت نام کی کوئی شے نہیں پائی جاتی۔ لیکن اگر السمیع اور العلیم پر غور کریں تو اگر اللہ جل مجدہ یہ صفات واقعتا موجود ہیں تو غیر اللہ میں بھی یہ صفات پوری قوت کے ساتھ پائی جاتی ہیں۔ قرآن مجید کی سورہ الدھر، 76 کی آیت 2 میں انسان کو سمیعا بصیرا فرمایا گیا ھے۔
سوال پھر پھرا کر ادھر ہی آ جاتا ھے کہ متکلمین حضرات نے باری تعالٰی کی ذات و صفات کے متعلق جس تصور کو اصل الاصول مان رکھا ھے وہ انسان کی ذات و صفات ھیں۔ وہ یہ
ماننے کو تیار نہیں ہیں کہ انسان اور باری تعالٰی میں اشتراک فی الذات ممکن ھے اور نہ اشتراک فی الصفات ممکن ھے اور اس وجہ الوہیت اور غیر الوہیت ھے۔ تشبیہ و تنزیہ کا امکان صرف ایک صورت میں جائز اور ممکن ھے کہ ھم پہلے تشبیہ و تنزیہ کا محل ایک مان لیں۔ جب الوہیت اور انسانیت میں اشتراک کی کوئی صورت ہی نہیں ھے تو محل اشتباہ ہی ختم ھو جاتا ھے۔ پھر تنزیہ و تشبیہ صفات کی تقسیم چہ معنی دارد؟
شہرستانی رحمہ اللہ “ابطال التشبیہ” کے تحت لکھتے ہیں؛
“فمذھب اھل الحق ان الله سبحانه لايشبه شيئا من المخلوقات و لا يشبه شيئ منها بوجه من الوجوه المتشابهة و المماثلة ليس كمثله شئي و هو السميع البصير فليس باری سبحانه بجوهر و لا جسم و لا عرض و لا فى مكان و لا فى زمان و لا قابل للاعراض و لا محل للحوادث”
قرآن مجید سے کم از کم یہ ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ باری تعالی کے لئے زمان و مکان کی نفی ممکن ھے۔ “عالم الغیب و الشهادة” ہستی کے لئے زمان و مکان کی نفی کیسے ممکن ھو سکتی ھے؟ اسی طرح ید، عین، خوشی، ناراضگی اور قدرت و قوت کی نفی ممکن نہیں ھے۔ لیکن متکلمین اخبار الرسالة یا منزل اخبار کو اسی طرح غیراہم سمجھ کر اپنی بات آگے چلائے جاتے ہیں جس طرح فقہاء احکام الہی کی مقرر کردہ حدود سے تجاوز کو اپنا فطری حق سمجھتے ہیں۔
سوال یہ ھے کہ آخر آپ اپنے عقلی واہمہ اور تخیل کو یہ اجازت کیوں دیتے ہیں کہ وہ منزل اخبار کے ساتھ ان تصورات کو نتھی کرے جن کا اقرار و انکار وحی سے ثابت نہیں ھے؟ بالفرض واہمہ اور متخیلہ اس سے باز نہیں رہ سکتی یا انہیں باز نہیں رکھا جا سکتا تو کیا یہ ضروری ھے کہ ان اوہام اور تخیلات کے حاصل کو سچ مانا جائے؟ وحی کے ذریعے جو علم انسان کو عطا فرمایا گیا ھے وہ انسانی استعداد کے زائیدہ علم کا مقدمہ بن سکتا ھے اور نہ نتیجہ ھو سکتا۔ انسانی علم اور الوہی علم کے امتیازات کا شعور برقرار رکھنا، ہم پر اسی طرح واجب ھے جس طرح علم بالوحی پر ایمان بالغیب واجب ھے۔
۱۷۔

بقا و فنا کا مسئلہ علم کلام میں، بڑے اور اہم ترین مسائل میں شمار ھوتا ھے۔ بقا کیا ھے اور فنا کیا ھے؟ ان تصورات کی فلسفیانہ توجیہ یہ ھے کہ زمان و مکان میں جو شے نسبتا زیادہ طویل دورانیہ تک قائم رہتی ھے اسے باقی اور جو نسبتا کم دورانیہ تک قائم رھے، اسے فانی کہا جاتا ھے۔ عرض اور جوہر کا فرق بھی اسی اصول کے ساتھ کیا جاتا ھے۔ جن اجسام پر جوہر یا عرض کا اطلاق ممکن نہیں ھے، ان کی نسبت باقی و فانی کا فیصلہ صادر کرنا ممکن نہیں۔ مثلا زمین، آسمان، سورج، چاند، ستارے ہم انسانوں کے مشاہدے میں باقی اور غیرفانی اجسام ہیں، اس کی وجہ یہ نہیں کہ یہ واقعتا باقی یا فانی اجسام ہیں۔ اس وجہ یہ ھے کہ ہم انسان اپنے دوران حیات میں جن عقلی تعمیمات سے کام لیتے ہیں، ان کا اطلاق مذکورہ اجسام پر عقلی تجاوزات کے دائرے میں آ جاتا ھے۔
ھم نہیں جانتے ان کی ابتداء کب ھوئی ھے یا کوئی ابتداء ھے بھی اور اسی طرح ان کی انتہا ھے یا کبھی یہ ختم ھو سکتے ہیں، یہ سب کچھ ہمارے مشاہدے کے دائرے سے خارج ھے بلکہ قابل مشاہدہ امور میں انہیں شامل کرنا ممکن نہیں ھے۔ ان کے مقابل وہ اجسام جن کے بعض مظاہر رونما ھوتے اور وقت کے ایک ایسے مختصر دورانیہ میں ختم ھو جاتے ہیں، جن کا مشاہدہ ہم انسان اپنی زندگی میں کر سکتے ہیں، ان میں کچھ جوہر کہلاتے ہیں اور کچھ عرض کہلاتے ہیں۔ جسم کیا ھے؟ چند صفات مکان کے کسی نکتے پر یک جا ھو جاتی ہیں، ھم نہیں جانتے کہ یہ صفات یہاں کیونکر جمع ھو گئی ہیں۔ البتہ ان میں کچھ صفات عارضی ہیں اور کچھ نسبتا دائمی ہیں۔ عارضی اور دائمی صفات کا یہ مجموعہ جسم کہلاتا ھے۔
مختصر یہ ھے کہ فنا و بقا کا تصور زمان و مکان کے تصورات سے جڑا ھوا ھے۔ زمان و مکان مقدم الوجود ہیں اور ان میں ظاہر ھونے والی زمانی و مکانی اشیاء موخر الوجود ہیں۔ گویا فانی و باقی ذوات زمان و مکان سے ماوراء نہیں ہیں بلکہ زمان و مکان میں فنا و بقا کی صفات سے متصف ھوتی ہیں۔
علم کلام میں مذہبی معتقدات اصل الاصول ھوتے ہیں اور ان کی عقلی توجیہات، ایمانی اعتقاد سے پرے ھو کر نہیں کی جاتی بلکہ نہیں کی جا سکتی، لہذا خالص عقلی استدلال کی یہاں صرف ادا کاری کی جاتی ھے، جس میں نتیجہ پہلے سے ثابت شدہ ھوتا ھے، یہ مصادر علی المطلوب ھے۔ عقلی استدلال اس کو پیش کرنے کا فقط ایک طریقہ یا منہج ھے۔ یہی وجہ ھے کہ علم کلام میں بقا و فنا کی دو قسمیں کی جاتی ہیں۔ یہ قسمیں انسانی مشاہدے پر مبنی نہیں ھیں۔ اس تقسیم کو دینی تصورات سے اخذ کیا گیا ھے۔ ایک نامور متکلم اس سلسلے میں لکھتے ہیں؛
البقاء نوعان أحدهما لا الى النهاية و هو بقاء الله تعالي جل مجده و بقاء من يبقيه الله عز وجل.
“بقاء اللہ” اور “من یبقیه الله” ظاہر یہ دونوں تصورات “مذہبی معتقدات” ہیں۔ عقلی استدلال کا نتیجہ ہیں اور نہ ہی مشاہداتی حقائق ہیں۔ عقلی استدلال intellectual ratiocination اور عقلی دریافت intellectual findings میں جوہر اور عرض کی تقسیم بقا و فنا کے عقلی اذعان پر منحصر ھے۔ اس عقلی اذعان کی سچائی پر شک ممکن نہیں ھے۔ ایک بار اس عقلی اذعان کی نسبت شک کا دروازہ کھول دیا جائے تو فہم و ادراک کا ہر فیصلہ لامحدود تشکیک کی زد میں آ جاتا ھے۔
لیکن جہاں دینی حقائق کی عقلی تشکیل کا معاملہ آتا ھے تو اس عقلی تشکیل سے دینی حقائق کا وجود معرض تشکیک میں پڑ جاتا ھے۔ فنا و بقا کی عقلی تشکیلات میں اشاعرہ کا موقف جسے علامہ اقبال نے اپنے خطبات میں شرف قبولیت کی سند عطا فرمائی ھے، اسے دیکھیں وہ کس طرح انسان کے مشاہدے پر مبنی یقین کو شک میں دھکیل دیتا ھے۔
فإن البقاء فى المشاهدة هو الكون فى مستأنف الوقت بعد الوجود، فإن شئت قلت تجدد الكون حالا بعد حال، لأن بقاء هو الدوام، لا يكون الدوام المحدث الا فى مستأنف الوقت.
محدث اور قدیم کا فیصلہ اگر مشاہدے سے کرنا ھے تو قدم یہاں صرف اس شے کے ساتھ قائم ھے جو میری زندگی میں عقلی لحاظ سے فنائیت کی صفت سے متصف نہیں ھو سکتی۔ زمان کے طویل دورانیہ میں اس کا حدوث ھوا ھے یا نہیں ھوا، میں اس پر حکم نہیں بن سکتا۔
متکلمین حضرات جس ذریعے سے باری تعالٰی جل مجدہ کی ذات کو مخلوق ذوات سے ممتاز کرنا چاھتے ہیں اور چاھتے ہیں کہ یہ ایسا امتیاز ھو جو صرف ذات حق کو حاصل ھو اور مخلوق میں سے کسی کی صفت نہ بن سکے تو ان کی یہ تمنا پوری ھوتی ھوئی نظر نہیں آتی۔ اس کی وجہ یہ ھے کہ فنا و بقا کا ہر تصور نسبت و تناسب کے ساتھ ممتاز ھوتا ھے، مطلقا کسی کو ممتاز نہیں کرتا، وہ خالق ھو چاھے مخلوق ھو۔ البتہ علم بالوحی میں جو کچھ آیا ھے، اسے ایمان بالغیب مان لیا جائے اور عقلی تشکیلات سے دست کش ھو لیا جائے تو یہ ممکن ہی نہیں بلکہ یقینی ھے کہ ھم باری تعالٰی جل مجدہ کی ہر صفت کو انسان اور دیگر مخلوق ہستیوں سے اسے مطلقا ممتاز ماننے اور سمجھنے میں کامیاب ھو سکیں۔
۱۸۔

متکلمین کے ہاں ” ما یعلم بالعقل و ما لایعلم الا بالشرع” یعنی وہ جس کا علم عقل کے وسیلے سے ممکن ھے اور وہ جس کا علم شرع/ دین / وحی کے بغیر ممکن نہیں ھے، بہت مشہور بحث ھے۔ اہل الکلام کا خیال ھے کہ عالم کا حدوث، صانع عالم کی وحدانیت، قدم، صفات کی ازلیت، ارسال الرسل، تکلیف العباد وغیرہ پر عقلی علم ممکن ھے اور جائز ھے۔ لیکن کسی فعل کا واجب التعمیل ھونا اور کسی فعل واجب الاحظار ھونا فقط وحی سے ثابت ھو سکتا ھے۔
سوال یہ ھے؛ کیا کائنات کے حدوث پر عقلی دلالت سے کوئی علمی نتیجہ ممکن ھے؟ کائنات صرف میرے سامنے پیدا ھونے اور مٹنے والے مظاہر کا نام ھے کیا؟ اگر عقلی نظر و استدلال سے آپ اس زاویے پر آ جائیں کہ مظاہر کا غیاب و شہود، ورود و سقوط اور پیدائش و نابود ہی کائنات کا دائمی مظہر ھے تو یہ عقل استدلال اپنی قوت اور زور صرف کھو نہیں دیتا ھے بلکہ پورا استدلال برعکس نتیجے پر جا منتج ھوتا ھے۔ عقل اپنے مفروضات خیالات کے ساتھ جب ایک اور خیالی مفروضہ شامل کر لیتا ھے کہ یہ صرف خیالی مفروضات نہیں ہیں بلکہ خارج میں موجود بھی ہیں تو اس سے خارج متشکل ھوتا ھے اور نہ وہ مفروضہ، خارجی وجود کا حامل ھو جاتا ھے۔
کائنات کا احاطہ عقل کی ہر فطری اور نظری صلاحیت سے ماوراء ھے۔ چہ جائیکہ کہ عقل کے وسیلے سے کائنات کے خالق اور اس کی صفات و افعال کا میں کوئی تصور پیدا کر سکوں۔ اگر وحی کے وسیلے سے رب العالمین انسان کو اپنی ذات و صفات کا علم باہم نہ پہنچائے تو اپنی عقلی استعداد کو انسان فقط اپنی عملی ضروریات میں صرف کرے اور نتیجہ خیز جدوجہد کی طرف متحرک رھے۔ لیکن عقلی استعداد جن اوہام و خیالات کو اپنے عملی تصورات میں شامل کر دیتی ھے، ایک نہ ایک دن یہ خیالی تصورات یقین پیدا کرنے میں ضرور کامیاب ھو جاتے ہیں کہ وہ صرف خیالات نہیں ہیں بلکہ واقعہ بھی ہیں۔ یہی وجہ ھے کہ اہل کلام اس غلط فہمی میں مسلسل مبتلا ھوئے ہیں کہ عقل کے واسطے سے حدوث عالم پر استدلال جائز ھے اور ممکن ھے۔
جس طرح نزول وحی سے قبل اور خطاب شارع جل مجدہ کے بغیر ھم انسان خود پر واجب من اللہ اور حرام من اللہ کا ادراک نہیں کر سکتا، بالکل اسی طرح اس کی ذات اور صفات کے علاوہ ان تمام اخبار الغیب کا ادراک بھی نہیں کر سکتے جن کا علم بذریعہ وحی ہم تک پہنچایا گیا ھے۔ متکلمین کا خیال ھے، عقلی بدیہات میں حدوث و قدم عالم کا ادراک شامل ھے۔ عقلی بدیہات میں اگر یہ ادراک شامل ھوتا تو کوئی بھی انسان ان کا منکر ھوتا اور نہ اس پر عقلی و فکری احتجاج کر سکتا۔
عقل کے وسیلے سے ھم جن بسائط اور مرکبات کا علم حاصل کرتے ہیں یا کر سکتے ہیں، ان کی پہلی تقسیم استقسات اور ان جواہر کی ھے جن میں تجزیہ کو قبول کرنے کی اہلیت پائی جاتی ھے۔ مقولات عقلیہ اور معروضات خارجیہ کے مابین نسبت کا شعور بھی بسائط کے دائرے میں آتا ھے۔ خارجی معروض مقولات میں سے کسی مقولے کا موضوع بنتا تو قابل فہم ھوتا ھے۔ لیکن متکلمین عقلی مدرکات کا دائرہ اس قدر وسیع کر لیتے ہیں کہ اس میں وہ سب کچھ آ جاتا ھے، جن کے ادراک اولیہ کا اہل عقل نہیں ھے۔
اشیاء و اعمال اور اقدار و فضائل میں عقلی حسن و قبح کا انکار ممکن نہیں ھے۔ جہاں منزل من اللہ مامور بہ اور منہی عنہ کا تعلق ھے تو ان میں حسن و قبح کا معیار عقل نہیں ھے۔ جب کسی شے یا عمل پر عقل یہ حکم لگاتا ھے کہ اچھی ھے یا بری ھے تو اس کے فیصلے میں جن تحفظات کو پیش نظر رکھا جاتا ھے، ان کی صحت اور ضرورت عقلی ھوتی ھے۔ وحی پر مبنی حسن و قبح کا آخری فیصلہ ایمان بالغیب کا نتیجہ ھے۔
۱۹۔

واقعہ یہ ہے کہ مذہبی ذہن، عقل نظری کی برتری کا شعوری و غیرشعوری طور پر اسقدر گرویدہ ہو چکا ہے کہ علم بالوحی کو بھی ایک طرف رکھتے ہوئے اسے عار محسوس نہیں ہوتی۔ متکلمین و اصولیین قدما میں بہترین ذہن اس مصیبت کا شکار رہے ہیں۔ ایک طرف عقلاً اسے جائز مانتے تھے کہ انسانی عقل اپنی قوت استدلال سے عالم کے حدوث اور صانع عالم کے قدم پر برہان قاطع تک پہنچ سکتا ہے اور دوسری طرف عقل نظری کے ان فیصلوں کو قبول کرنے میں متردد نظر آتے ہیں جن کا تعلق جیتی جاگتی زندگی سے ہے۔ دیانت داری کی بات یہ ہے کہ متکلمین ہوں چاہے اصولیین فقہ و اجتہاد ہوں، بعض فضائل کا درست ادراک کرنے میں بے حد سستی اور کاہلی کا شکار نظر آتے ہیں۔ جس میں متکلمین و اصولیین فقہ و اجتہاد ہمیشہ سرگرداں رہے ہیں، وہ اخلاق اور جمال کے وجودی امتیازات کی بحث ہے۔ اس بحث کی مکمل تفصیل یہاں ممکن نہیں ہیں،تاہم ابتدائی مقدمات کی طرف یہاں کچھ اشارے میں عرض کر دیتا ہوں۔
اخلاق کیا ہے؟ حسن و قبح کیا ہے؟ اشیاء و اقدار میں حسن و قبح کی اساس کیا ہے؟ اخلاقی عمل کیا ہے اور کیا غیر اخلاقی عمل لازماً بداخلاقی ہوتا ہے؟ اخلاقی اور غیراخلاقی عمل میں فرق کیا ہے؟یہ وہ سوالات ہیں جن کا درست جواب یہ تقاضا کرتا ہے کہ پہلے ہم اخلاق اور جمال کا مفہوم متعین کریں اور پھر ان کا واقعی مدلول طے کریں اور اس میں جو ذہنی مشقت درکار ہے اسے پوری علمی اور عملی دیانت کے ساتھ بروئے کار لائیں۔
اخلاق کیا ہے؟ اخلاق انسان کے ارادے کی صفت ہے، وہ ارادہ جو اخلاقی فضیلت کے حصول کی غرض سے متعین ہوتا ہے، اخلاقی ارادہ کہلاتا ہے۔ ارادہ چونکہ عمل کی استعداد ہے لھذا وہ عمل اخلاقی ہے جس کی تعمیل کے پیچھے اخلاقی فضیلت کا تحقق اور حصول محرک کی حیثیت سے کار فرما ہو۔ اخلاق کا تعلق عمل سے ہے اور اس سے قبل آپ کی نیت سے ہے۔ ہر وہ عمل اخلاقی ہے اور نہ بد اخلاقی ہے جو قبل از فعل اخلاقی فضیلت کے حصول کی نیت سے متحقق نہ ہوا ہو۔ صرف وہی عمل اخلاق ہے جس کی تعمیل کا محرک اخلاقی فضیلت ہے۔
اسے یوں سمجھیں ؛ فرض کریں مجھے بھوک لگتی ہے۔ میں اٹھتا ہوں اور روٹی کھالیتا ہوں، مجھے جنسی تسکین کی ضرورت محسوس ہوتی ہے میں جا کر اپنی غرض پوری کر لیتا ہوں۔ میں نے جو کھانا کھایا ہے، وہ میری جائز کمائی کا تھا، میں نے جنسی تسکین بیوی کے ذریعے پوری کی ہے، میرا یہ عمل اخلاقی نہیں ہے بلکہ قانونی لحاظ سے ایک جائز عمل legally justified activity ہے۔ بالفرض میں نے روٹی چوری کی ہے یا کسی سے چھینی ہے یا جنسی تسکین کسی ایسے عورت سے حاصل کی ہے جو میری منکوحہ نہیں ہے تو میرا یہ عمل قانون کی نظر میں اور میری حص اخلاق برا ہے، شر ہے۔
اس کے برعکس اخلاقی عمل وہ ہے جس کی تعمیل کا داعیہ میں میرے اندر اخلاقی قدر نے پیدا کیا ہے۔ میں سچ بولنے کو مقصد بنا کر گواہی دینے کے لئے عدالت گیا ہوں۔ میرا مقصد سچ کو سچ کی خاطر بولنا ہے۔ میں رزق حلال کی نیت لے کر گھر سے نکلا ہوں، میں کسی کے دھوکا اور فراڈ محض اس لئے نہیں کرتا کہ یہ میری انسانیت کے شایان شان نہیں ہے۔ میں جھوٹ کو اور کسی وجہ سے نہیں بلکہ صرف اس لئے ترک کرتا ہوں کہ یہ جھوٹ ہے تو میر اسچ بولنا اخلاقی عمل ہےاور جھوٹ نہ بولنا اخلاق ہے۔ اخلاق کا تعلق فعل کی غرض سے ہے مگر وہ غرض بھی میری اخلاقی حس کی دین ہے۔ ہر فعل اور نہ ہر غرض فعل، اخلاقی ہوتی ہے اور نہ اخلاقیات کے مباحث میں موضوع بحث بن سکتی ہے۔
حسن و قبح کا تعلق ہماری حس جمال سے ہے جس سے آرٹ یا فنون لطیفہ وجود میں آتے ہیں۔ حسن و قبح دراصل عمل یا اقدار کی صفات نہیں ہیں کہ خارجی معروض میں پائی جائیں تو وہ اخلاقی یا غیراخلاقی کی صفات سے متصف ہو سکے۔ آپ اگر انسانی عمل یا فعل کو ایک خارجی معروض کی طرح اپنے مشاہدے کا موضوع بنانا چاہتے ہیں تو اس کا حسن و قبح آپ کو اس کی اخلاقی پوزیشن کا شعور کبھی فراہم نہیں کر سکے گا۔ مثلاً ایک آدمی قاتل ہے، میں نے اس کے خلاف گواہی دی ہے اور جج نے اسے موت کی سزا دی ہے۔ میرا اور جج کا عمل قانونی لحاظ بالکل درست ہے اور ہمارے معیار حسن پر پورا اترتا ہے۔ اس لئے کہ میں نے اور جج نے اپنا فرض ادا کیا ہے اور بطریق احسن ادا کیا ہے۔ لیکن بالفرض میں نے گواہی اس لئے دی ہے کہ وہ میرا دشمن تھا اور جج نے موت کی سزا اس لئے دی ہے کہ اس نے رشوت نہیں دی تھی۔ اب کیا خیال ہے؟ میرا عمل اور جج کا عمل اخلاقی لحاظ سے درست ہے یا نہیں ہے؟ قانونی لحاظ میں نے بالکل درست کیا ہے اور جج نے قانون کے مطابق فیصلہ سنایا ہے، اس کے باوجود آپ میرے اور جج کے عمل کو اخلاقی عمل نہیں کہہ سکتے۔ وجہ یہ ہے کہ اخلاق کا تعلق صرف غرض فعل سے نہیں ہوتا بلکہ ہمارے حس اخلاق کے ٹھوس فیصلوں سے ہوتا ہے۔ بظاہر میری گواہی کا ظاہری حسن ضائع نہیں ہوا اور نہ جج کے فیصلہ کا حسن ختم ہوا ہے، بایں ہمہ میرا اور جج کا عمل غیراخلاقی ہے، نہیں بد اخلاقی ہے۔
متکلمین جب اس مسئلے پر بات کرتے ہیں تو وہ اخلاقی خیر و شر اور جمالیاتی حسن و قبح دونوں میں خلط مبحث پیدا کر دیتے ہیں۔ عقل انسانی اللہ کی دی ہوئی نعمت ہے، اس کا وظیفہ یہی ہے کہ وہ اشیاء و اقدار کی قدری جہات کا شعور حاصل کرے۔ بالکل اسی طرح جیسے جسمانی لحاظ سے دل کا وطیفہ خون کا مسلسل حرکت میں رکھنا ہے، عقل کا وظیفہ اشیاء و اقدار کی قدری جہات میں کا تعین ہے، نہیں اس کا وظیفہ اس سے کچھ سواء ہے، اس کا کام ہے کہ اگر اقدار میں توارد پیدا ہو جائے تو ان کو اپنی اصلی جگہ پر لے آ کر رکھے۔
۲۰۔

انسان اپنے اعمال کا خالق ہے یا کاسب ہے؟ یہ وہ مسئلہ ہے جس پر “علم کلام” کے متقدمین اور متاخرین نے بھرپور بحث کی ہے اور ہر فرقے نے اپنے موقف پر دلائل قائم کرنے میں کوتاہی نہیں کی۔ اشعری متکلمین کے نزدیک انسان اپنے اعمال کا کاسب ہے اور ان کا خالق نہیں ہے۔ انسان کی طرح اس کے اعمال کا “خالق” بھی اللہ تعالی ہے، وہ انسان کو عمل کی قدرت عطا کرتا ہے اور انسان اللہ کی اس قدرت کے ذریعے سے اس کا کاسب ہوتا ہے۔ اللہ تعالی نے انسان میں قدرت اور اختیار رکھ دیا ہے، جب اس فعل کے کسب میں کوئی مانع نہیں ہوتا تو انسان اللہ کی اس دی ہوئی قدرت سے اپنے فعل کا کاسب بن جاتا ہے۔ چنانچہ ابداع و احداث کے اعتبار سے “فعل العبد” کا خالق اللہ تعالی ہے اور قدرت و ارادے کے اعتبار اس کا “محل کسب” انسان ہے، انسان کو اس فعل کے وجود اور تاثیر میں اس کے سواء کوئی دخل نہیں ہے کہ وہ اس “محل وقوع” یا “محل ظہور” ہے اور بس۔
اپنے فعل میں انسان کا دخل یہ ہے کہ وہ اس قدرت اور ارادے سے فعل کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اسے کو انجام دیتا ہے اور اللہ تعالی اس فعل کو خلق فرماتا ہے۔ انسان اپنے ارادے کو اس فعل سے جوڑ دیتا ہے اور یوں نہیں ہے کہ انسان اس فعل میں موثر سبب کا درجہ پا لیتا ہے۔ موثر حقیقی صرف اللہ کی ذات والا صفات ہے۔ انسان اس قدرت کے استعمال میں بذاتہ موثر نہیں ہے۔ اللہ تعالی نے انسان کو بنایا ہی ایسا ہے کہ وہ اپنے ارادے کو اس فعل سے متعلق کرتا ہے اور اس فعل کے ظہور اور وقوع کا “سبب عادی” قرار پاتا ہے۔ انسان اپنے فعل کا مستقل سبب یا علت نہیں ہے۔ گویا ایک ہی فعل اپنی جہت ایجاد کے اعتبار سے اللہ تعالی کی قدرت ہے اور اپنی جہت کسب سے انسان کی قدرت کا مظہر ہے۔
متکلمین کا خیال ہے کہ ایک ہی فعل دو مختلف جہات سے دو مختلف اسباب کے ماتحت وقوع پذیر ہو سکتا ہے، لہذا “فعل العبد” کسب کی حیثیت سے انسان کی طرف منسوب ہے اور بحیثیت “خلق” اللہ تعالی کی مخلوق ہے۔ “کسب” اور “خلق” میں فرق کو مزید واضح کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ “کسب” آلہ اور محل کا محتاج ہوتا ہے جبکہ “خلق” آلے کا محتاج ہے اور نہ محل کا محتاج ہے۔ خالق وہ ذات ہے جو اپنی ذات سے باہر اپنی تخلیق کی تاثیر پیدا کرنے پر قادر ہے اور “کاسب” وہ ہستی ہے جس کا فعل اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے، اس کی ہستی باہر اس کی تاثیر کا امکان نہیں ہے۔
اس کے سواء متکلمین میں اس مسئلے میں بھی اختلاف ہے کہ “فعل العبد” میں موثر حقیقی کون ہے؟ ایک گروہ کا خیال ہے کہ فعل العبد میں موثر حقیقی اللہ کی قدرت ہے۔ انسان کے پاس ایسی کوئی طاقت یا قدرت نہیں ہے جو اس کے فعل کو موثر بنا سکے۔ حتی کہ بحیثیت کسب بھی انسان اپنے فعل میں تاثیر پیدا کرنے کا اہل نہیں ہے۔ ایک اور گروہ کا خیال ہے؛ فعل العبد صرف انسان کی قوت سے واقع ہوتا ہے اور اس کا انسان تنہا اور بالاستقلال ذمہ دار فاعل و کاسب ہے۔ اشاعرہ کا موقف یہ ہے کہ فعل العبد میں تاثیر کی سزاوار اللہ تعالی کی قدرت ہے، انسان اس میں تاثیر کے بغیر کاسب ہے۔
اگر آپ متکلمین کی ان اپورچز کا تجزیہ کریں تو آپ کو باآسانی معلوم ہو جائے گا کہ ان کا انداز فکر ایک ایسی مابعد الطبیعیات وضع کرنے میں مصروف رہا ہے، جس میں بندے اور خدا ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑے ہیں اور متکلمین کا ایک گروہ خدا اور اس کی قدرت اور اختیار کی رکھوالی پر مامور ہے اور دوسرا بندے اور اس کی قدرت و اختیار کی حفاظت پر مامور ہے۔ لیکن اس کے برعکس اگر آپ قرآن مجید اور اس کے بیان کی فطری سادگی پر غور کریں گے تو ایک بات بالکل عیاں نظر آتی ہے کہ وہ کسی مابعد الطبیعی نظریے کی تشکیل کے درپے ہرگز نہیں ہے اور دوسری بات یہ کہ وہ بندے اور خدا کی وکالت کرتا ہوا نظر نہیں آتا۔
انسان کی قدرت اور اختیار کی بحث سے قبل “فعل العبد” کے لئے کسب و خلق کی تقسیم بھی متکلمین کا نرا تکلف ہے۔ اس میں کیا شک ہے کہ انسان اپنے اعمال کا کاسب بھی ہے اور اس کی قدرت و اختیار سے فعل میں تاثیر پیدا ہوتی ہے۔ بالفرض اشاعرہ سے سوال کیا جائے کہ کیا انسان اپنے فعل کا بالاستقلال کاسب ہے یا اسے اپنے کاسب ہونے کو کام میں لانے کے لئے بھی خدا تعالی کے ارادے اور اختیار کی محتاجی درپیش ہے؟ اشاعرہ اس سوال کا سیدھا سادا جواب کبھی نہیں دیں گے۔ اس لئے ان کی بنائی گئی مابعد الطبیعیات میں خدا کے اختیار اور قدرت کا دفاع کیا جا سکتا یا انسان کی قدرت اور اختیار کا دفاع ممکن ہے، بیک وقت دونوں کے اختیار و ارادے اور قدرت کا دفاع ممکن نہیں ہے۔ دونوں کے اختیار و قدرت کی حدود ایک دوسرے کی سلطنت میں لازماً دخل انداز ہو جاتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ متکلمین کے ہاں شعوری و غیر شعوری طور پر یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ بندے اور خدا تعالی کے مابین مدارج کا فرق ہے اور ماہیت کے اعتبار دونوں ایک ہی حقیقت ہیں۔ خدا تعالی درجے کے اعتبار سے بڑا ہے اور انسان درجے کے لحاظ سے چھوٹا ہے۔ یوں گویا خدا تعالی انسان برتر ہے اور انسان خدائے کہتر ہے۔ اسی طرح دونوں کی قدرت و اختیار بھی ایک دوسرے سے درجے کے اعتبار سےمتفاوت ہے۔
متکلمین کو یہ سمجھنا چاہیے تھا کہ بندے اور خدا تعالی کا وجود اور قدرت و اختیار ایک دوسرے متصادم ہیں اور نہ ایک دوسرے کی نفی ہیں۔ خدا تعالی کا وجود، اختیار اور قدرت الوہی اختیار و قدرت ہے اور انسان کا وجود، اختیار اور قدرت کسی معنی میں الوہی نہیں ہے۔ انسان خدا تعالی کا نائب نہیں ہے کہ اس کا اختیار و قدرت اللہ تعالی کے اختیار و قدرت سے متصادم ہو سکتا ہو۔ انسان کا علم، علم اللہ کا اسی حد تک مظہر ہے جس حد تک اس جل مجدہ کی مشیت اجازت مرحمت فرماتی ہے۔
(جاری)

ڈاکٹر خضر یاسین  اقبال اکادمی لاہور کے ساتھ بطور ریسرچ اسکالر وابستہ ہیں اور فلسفہ اور  دینی علوم پر اظہار خیال کرتے ہیں۔

(6) Khazir Yasin | Facebook

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں