عبداللہ اورفہدایک غریب گھرانے کےنوعمربچے تھے دونوں کےوالد محنت مزدوری سے اہل خانہ کاپیٹ پالتے تھے۔ دونوں کئی مرتبہ بغیر ناشتہ کیے سکول چلے جاتے۔ پڑھائی میں وہ اگرچہ بہت زیادہ نمبر نہ لیتے تاہم فرمان بردارطلبہ میں ان کا شمار تھا، سکول میں بِنا کچھ کھائے مسلسل آٹھ پیریڈ پڑھنے کےبعد وہ بھوک سےنڈھال ہوجاتے ،
بریک کے دوران ان کے ہم جماعت کنٹین سے کھانے پینےکی اشیا ٕ سے پیٹ کی آگ بجھاتے ، کھیلتےکودتے اور مزے کرتے جبکہ وہ دونوں بھوک سے نڈھال ہونے کے باعث کھیل بھی نہ پاتے ، چنانچہ تفریح کی گھنٹی بجتے ہی یہ دونوں کمرہ جماعت سے سیدھے سکول کی مسجد میں جا پہنچتے جہاں نماز سے کچھ دیر قبل آرام کرتے اورجب نمازکا وقت قریب ہوتا اورسکول کےاساتذہ اورطلبہ مسجد آنا شروع ہوتے تویہ دونوں وضو کر کے سنتیں ادا کرنے میں مشغول ہوجاتے ،
نمازظہر سے فراغت کےساتھ ہی تفریح کاوقت ختم ہوجاتا تو یہ واپس کمرہ جماعت میں آ کر بقیہ دوپیریڈ پڑھتے اور پھرچھٹی کے بعد اکٹھے گھر لوٹتے ،
ایک دن سکول سے واپسی پرعبداللہ اور فہد نے محلہ کی مسجد میں اکٹھے مغرب کی نماز ادا کی ، مسجد سے باہر نکلتے وقت عبداللہ نے فہد کےکان میں سرگوشی کی اور پھر دونوں خاموشی سے عبداللہ کےگھر آ گٸے
فہد نے عبداللہ کی امی اور ابو کو سلام کیا اورعبداللہ کےساتھ ڈراٸنگ روم میں چلا آیا۔ چاٸے سے تواضع کے بعد عبداللہ نے فہدسے کہا بھاٸی ! آج میں آپ سے ایک بہت ہی اہم مشورہ کرنا چاہتا ہوں، فہد فوراً بولا جی جی بتلائیے عبداللہ بھائی ۔ عبداللہ کہنے لگا فہد بھائی ! آپ جانتے ہو کہ ہم دونوں کے گھرکی معاشی حالت بہت کمزور ہے میراخیال ہے کہ ہمیں اپنے ابّا کا ہاتھ بٹانا چاہیے ، فہد نے عبداللہ کی بات سن کرکہا کہ آپ کی بات تو بجا ہے ،لیکن! ہم کس طرح ابا کا ہاتھ بٹا سکتے ہیں؟ وہ دونوں سرجوڑے مشورے میں مصروف تھےکہ اچانک باہر سے ایک گرم انڈے بیچنے والے بچے کی آوازآئی، ”انڈے گرم انڈے “۔ آواز سنتے ہی عبداللہ نے فہدسے کہا مجھے تو یہ ہمارے ہم جماعت نصیرکی صدا لگ رہی ہے چنانچہ عبداللہ نے کھڑکی سے جھانک کر نصیر کو آواز دی ارے نصیر بھیّا! بات سننا تھوڑی ہی دیرمیں نصیر بھی ان کے پاس آگیا ،
عبداللہ نے نصیر سے کہا کہ ہم دونوں ان دنوں بہت پریشان ہیں ،آپ تو جانتے ہو کہ تمہارے والد کی طرح ہمارے ابا بھی دن بھر محنت مزدوری کرتے ہیں مگر اس کے باجود گھر کے اخراجات پورے نہیں ہوپاتے ، ہم دونوں چاہتے ہیں کہ ہم بھی اپنے ابا کا ہاتھ بٹائیں ، آپ ہمیں مشورہ دو کہ ہم کیا کریں ؟
نصیر نے عبداللہ اور فہد کی بات سن کر مسکراتے ہوٸے کہا کہ پیارے بھائیو ! آپ کی سوچ بہت اچھی ہے زیادہ پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں آپ بھی میری طرح رات کو گرم انڈے فروخت کیا کرو میں نے جب سے انڈے بیچنا شروع کیے ہیں ہمارے گھر کے معاشی حالات خاصے بہتر ہوگئے ہیں اب مجھے ابا جان سے جیب خرچ بھی نہیں مانگنا پڑتا ۔
یہ تو ٹھیک ہے لیکن نصیر آپ جانتے ہو کہ جب ہمارے ساتھیوں کو یہ پتہ چلے گا کہ ہم رات کو انڈے بیچتے ہیں تو وہ سب ہمارا مذاق اڑائیں گے اور طعنے کسیں گے ۔عبداللہ کی یہ بات سن کر نصیر بولا عبداللہ بھائی آپ نے جس خدشہ کا اظہار کیا میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا جن دنوں میں نے انڈے بیچنے شروع کیے تھے تو میرے ایک ساتھی نے اگلے دن کمرہ جماعت میں سب بچوں کے سامنے استاذصاحب کو بتلادیا کہ نصیر تو رات کو گرم انڈے بیچتا ہے ، یہ بات سننا تھی کہ ساری کلاس نے مجھ پر ہنسنا شروع کردیا اور میں نٕے مارے شرمندگی کے سرجھکا لیا،
میری آنکھوں میں آنسو بھر آئے لیکن یک دم سر عبدالرحمن نے سب بچوں کو خاموش ہونے کا اشارہ کیا اور پھرمجھے اپنے قریب آنے کا بول کر شفقت سے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور پھر سب بچوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہنے لگے
دیکھو عزیز طلبہ !
ہمارے پیارے نبی حضرت محمدﷺ نے ایک مرتبہ ایک مزدور کے ہاتھوں کو بوسہ دے کر فرمایا کہ محنت کرنے والا اللہ کا دوست ہے،آپ کا ہم جماعت نصیر رات کو گرم انڈے ہی تو بیچتا ہے کسی کے گھر ڈاکہ تو نہیں ڈالتا۔ وہ ان انڈوں سے حاصل ہونے والے منافع سے اپنے خاندان کی کفالت کرتا ہے۔ آپ سب کے والدین آپ کی ہر ضرورت کو پورا کرتے ہیں، آپ کو جیب خرچ دیتے ہیں، آپ اپنے گھروالوں سے اپنی ضروریات کے لیے پیسے لیتے ہیں جبکہ آپ کا ساتھی اس نو عمری میں اپنے گھروالوں کو کما کر دیتا ہے۔ اس پر آپ سب کو تو اپنے ساتھی کی بھرپور حوصلہ افزائی کرنا چاہیے نہ کہ حوصلہ شکنی، اس کے بعد سر عبدالرحمن نے اپنی جیب سے ایک سو روپے کا نوٹ نکالا اور نصیر سے کہا شاباش بیٹا ! یہ آپ کا انعام ہے ،
سرعبدالرحمن کی یہ بات سننا تھی کہ کمرہ جماعت تالیوں کی آواز سے گونج اٹھی۔ سب نے میری خوب حوصلہ افزائی کی، اور مجھ سے معذرت کی اسی دوران پیریڈ کا وقت ختم ہو گیا تو سرعبدالرحمن مجھے اپنے ساتھ کلاس روم سے باہر باغیچہ میں لے آٸے اور مجھے بڑی شفقت سے نصیحت کرتے ہوٸے بولے دیکھو نصیر بیٹا ! اگر آپ محنت سے جی لگا کر اپنی پڑھائی مکمل کرو گے تو اس تعلیم کی بدولت آپ کسی اچھے مقام پر فائز ہو کر اپنے خاندان کی باعزت پیشہ سے کفالت کرسکو گے لیکن اگرآپ نے پڑھائی میں دلجمعی کا مظاہرہ نہ کیا تو جس طرح سخت سردی میں آپ آج رات کو انڈے بیچتے ہو مستقبل میں تمہارے بچوں کو بھی یہ مشکل کام کرنا پڑے گا اس لیے بیٹا! اپنے مستقبل کی فکرکرو۔
اس دن کے بعد میرے دل میں محنت کی عظمت پہلے سے کئی گُنا بڑھ گئی ، اب میں کسی کی بات کی پرواہ نہیں کرتا دن میں اسکول جا کردلجمعی سے پڑھاٸی کرتا ہوں اور رات کو انڈے بیچتا ہوں ، اگرآپ دونوں بھی اپنے ابا کا ہاتھ بٹانا چاہتے ہو تو پھر محنت میں کسی قسم کی عارنہ سمجھو ،
یہ بات بول کر نصیر چلا گیا اس کے بعد عبداللہ اور فہد کی آنکھوں میں چمک اور جذبوں میں اُڑان تھی ان دونوں نے عہد کیا کہ وہ محنت سے کبھی دل نہیں چرائیں گے چنانچہ اگلے روز انہوں نے بھی رات کو گرم انڈے بیچنے شروع کیے تو کچھ ہی دنوں میں ان کے گھر کے حالات بھی بہتر ہوگئے اور خود ان کا جیب خرچ کا مسئلہ بھی حل ہو گیا۔اب وہ بھی اپنے دوستوں کے ساتھ تفریح کے وقت میں کچھ نہ کچھ کھا پی لیتے اور نماز بھی پڑھتے ، وقت بڑی تیزی سے گزرتا گیا ، اور پھر ایک وقت آیا کہ وہ دونوں اپنی تعلیم مکمل کر کے نمایاں عہدوں پر فائز ہو گئے ، جس دن انہیں یہ کامیابی ملی تو ان دونوں کو اپنے استاذ کی برسوں قبل کہی بات یاد آٸی وہ دونوں ایک دن اپنے استاذ کے گھر گئے اور ان کو اپنی کامیابی کی داستان سنائی جس پر ان کے استاذ نے انہیں ڈھیروں دعأوں سے رخصت کیا۔
کمنت کیجے