کانٹ ذدہ بعض ملحدین اور بعض سادہ لوح مذہبی مفکرین یہ باور کرانے کی کوشش میں رہتے ہیں کہ پچھلے وقتوں کے متکلمین بڑے بھولے تھے، انہیں یہ خبر نہ تھی کہ کسی شے کی حقیقت کا علم تب ممکن ہوتا ہے جب وہ حسی مشاہدے میں آئے کیونکہ اس کے بغیر اس پر ادراک کی ساخت کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔ انسانی ادراک کی آخری سرحد مکان ہے جس کے آگے عقل اندھی ہے اور اس سے پرے وہ کسی شے کا علم حاصل نہیں کرسکتی۔ دیکھو ذات باری زمان و مکان کی حد سے ماوراء ہے لہذا عقل سے اس کے بارے میں کوئی علم ممکن نہیں۔ بیچارے بھلے لوگوں کو یہ معلوم نہ تھا، اگر معلوم ہوتا تو اثبات باری کے دلائل جمع کرنے کا کشت نہ اٹھاتے۔اس چاند ماری کے لئے یہ لوگ چند گاڑھی اصطلاحات بھی استعمال کرتے ہیں لیکن اندرون خانہ بات اتنی ہی ہے جتنی اوپر بیان ہوئی۔
کانٹین فکر کے پس پشت جو متعدد تضادات و ابہامات ہیں ان پر گاہے بگاہے بات ہوتی رہی ہے، البتہ یہاں اس نکتے پر بات کرنا ہے کہ کیا یہ واقعی کوئی ایسی انوکھی بات کہہ رہے ہیں جس کا پچھلے وقتوں کے لوگوں کو علم نہ تھا؟ طریقہ بحث اور اصطلاحات کے فرق کی الجھنوں کو چھوڑ کر اگر بات سمجھی جائے تو معلوم ہوجائے گا کہ پچھلے لوگ اس مسئلے میں بھی ان سے زیادہ ہوشیار تھے۔
امام رازی کتاب “المطالب العالیۃ”میں فصل قائم فرماتے ہیں:”انا فی ھذہ الحیاۃ ھل نعرف ذات اللہ من حیث انھا ھی؟” (یعنی اس دنیاوی زندگی میں کیا ہم ذات باری جیسی کہ وہ ہے اسے جان سکتے ہیں؟)۔اسی طرح “نھایۃ العقول ” میں اس بحث سے متعلق مسئلے کا یہ عنوان قائم کرتے ہیں: “فی ان حقیقتہ سبحانہ ھل ھی معلومۃ للبشر؟” (اس مسئلے کا بیان کہ کیا ذات باری کی حقیقت انسان کو معلوم ہے؟)۔ آپ کہتے ہیں کہ انسان کے لئے یہ علم ناممکن ہے اور آپ اس پر آٹھ طرح سے دلائل قائم کرتے ہیں۔ یہاں سب دلائل پیش کرنا ممکن نہیں، صرف ایک دلیل پیش کرنا مقصود ہے جس کا خلاصہ یہ ہے:
- علم یا تصور (concept) ہے اور یا تصدیق (judgement)، یعنی ایک تصور کی دوسرے کے ساتھ اثباتی یا سلبی نسبت
- انسان کو جمیع تصورات چار ماخذات سے حاصل ہوتے ہیں :
الف) پانچ حواس ظاہرہ سے جیسے ٹھنڈا گرم وغیرہ
ب) حواس باطنہ سے جیسے لذت و تکلیف وغیرہ
ج) عقل محضہ سے جیسے وجود اور عدم، وحدت و کثرت، وجوب اور امکان
د) وہ تصورات جو انسان خیال و عقل کے زور پر ترکیب کے ذریعے تشکیل دیتا ہے، ترکیب خیالی کی مثال گھوڑے کے نچلے حصے اور انسانی دھڑ کو ملا کر ایک شے کا تصور قائم کرلیناہے، ترکیب عقلی کی مثال استخراجی دلیل میں دو مقدمات کے مابین ترتیب سے ایک نیا مقدمہ سامنے آنا ہے
- ان چار کے سوا انسان کے پاس تصور قائم کرنے کا کوئی طریقہ نہیں
- حقیقت الہیہ کو نہ ہم حواس ظاہرہ سے جان سکتے ہیں، نہ حواس باطنہ سے، نہ مجرد تصورات عقلیہ سے جیسے کہ وجود و عدم اور نہ ہی ان کے مجموعے و ترکیب سے
- ثابت ہوا کہ ذات باری کی حقیقت کا ادراک انسان کے لئے محال ہے
یہ بات کہ “ذات باری کا تصور ممکن نہیں” متکلمین کو پوری طرح معلوم تھی اور جن لوگوں نے کلام کی کسی کتاب میں ‘تنزیہات باری کے احکام” کی فصول پڑھی ہیں ان پریہ مخفی نہیں۔
یہاں قابل غور بات (جس پر اکثر غور نہیں کیا جاتا) یہ ہے کہ جب یہ کہا جاتا ہے کہ ذات باری کی حقیقت کا علم اس لئے ممکن نہیں کیونکہ اس کا تصور ممکن نہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ “تصور ” کسے کہتےہیں؟ متکلمین کے مطابق تصور کا معنی ہے “حصول صورۃ الشیئ فی الذھن”، یعنی ذہن میں کسی شے کی صورت گری ہوجانا۔ صورت گری کی ان کیفیتوں کو علم کلام کی زبان میں اعراض کہتے ہیں اور وہ نو ہیں: کم، کیف، أین، متی، فعل، انفعال ،ملک، اضافت، وضع۔ سب کی وضاحت مقصود نہیں، اصل بات سمجھنے کے لئے چند کی مراد سمجھ لیجئے:
- “کم “کا مطلب ہے مقدار، یعنی جب ذہن کسی شے کی صورت گری کرتا ہے تو اس کے ساتھ “مقدار ” کا تصور متصل ہوتا ہے
- “کیف ” کامطلب ہے کیفیت، جیسے کہ ٹھنڈی گرم وغیرہ
- “این” کا مطلب ہے مقام، یعنی وہ شے کہاں ہے
- “متی ” کا مطلب ہے زمان
الغرض اعراض کسی جسم کے ہونے کی کیفیات ہیں۔ اب متکلمین سے پوچھئے کہ جسم کیا ہے؟ جواب ہے جواہر کا مجموعہ۔ جوہر کیا ہے؟ مکان میں پایا جاسکنے والا چھوٹے سے چھوٹا قابل تصور جزو، یا وہ چھوٹے سے چھوٹا قابل تصور جزو جو مکان گھیرے۔ جوہر و جسم کاوجود مکان کو مفروضے کے طور پر فرض کرتا ہے اور یہ مکانی شے پھر مختلف اعراض سے متصف ہوتی ہے۔ متکلمین سے جب پوچھیں گے کہ جواہر و اعراض کا علم کیسے ہوتا ہے تو وہ بتائیں گے کہ حسی مشاہدے سے ۔ کیامطلب ہوا؟ جی ہاں ، مطلب یہ کہ حسی مشاہدے کی آخری حد مکان ہے، اس حد کے بعد تصور (حصول صورۃ الشیئ فی الذھن) کا امکان ختم ہوجائے گا۔ چونکہ ذات باری زمان و مکان سے ماوراء ہے لہذا اس کا تصور ممکن نہیں اور جب تصور ممکن نہیں تو اس کی حقیقت تک رسائی اس دنیا میں محال ہے۔ بتائیے کانٹ نے یہاں تک کونسی نئی بات بتائی؟
اگلا سوال
جو درج بالامعنی میں ناقابل تصور ہے کیا وہ معدوم بھی ہے؟ کانٹ اس کے جواب میں کبھی “ہاں “نہیں کہہ سکتا بلکہ وہ کہے گا کہ “نہیں، اس وجود کا امکان بہرحال موجود ہے”۔ لیکن اگر خود میرے تصورات یہ بتائیں کہ جو مشاہدے میں ہے وہ معلول ہے اور علت مکان سے باہر ہونا ہی لازم ہے تو کیا کرو گے؟ کانٹ کہے گا کہ میں اس ماوراء موجود کا تصور قائم نہیں کرسکتا۔ ہم کہتے ہیں کہ ہم یہ مانتے ہیں کہ اس ذات کا “تصور ” ممکن نہیں اور آپ مانتے ہیں کہ قابل تصور ہونا موجود ہونے کی شرط نہیں، تو اب یہ بتائیے کہ جب یہ شرط نہیں تو آپ کی یہ بات کہ “اس کا تصور ممکن نہیں” ہمارے اس مقدمے کو غلط کیسے ثابت کرتی ہے کہ ” اگر خود میرے تصورات یہ بتائیں کہ جو مشاہدے میں ہے وہ معلول ہے اور علت مکان سے باہر ہونا ہی لازم ہے ؟” تو آخر آپ کس دلیل کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ اس کے موجود ہونے کاحکم جاری کرنا بھی محال ہے؟ بینوا وتوجروا
اب آخری بات سنئے
امام رازی کہتے ہیں کہ موجود ممکنہ طور پر دو طرح کا ہے: وہ جو متحیز (مکانی) ہے اور وہ جو غیر متحیز ہے۔ متحیز یا جوہر و جسم ہوگا اور یا عرض، اور وہ جو غیر متحیز ہے وہ نہ جوہر ہے اور نہ عرض ۔ موخر الذکر کے اثبات میں اگر کوئی دلیل میسر نہ ہو تو اس کا اثبات تجویز عقلی یا امکان کے درجے میں رہے گا (یعنی نہ اقرار کیا جائے گا اور نہ انکار)، اور اگر دلیل اس کے ہونے کا وجوبی حکم لگائے تو اسے مانا جائے گا۔ کسی شے کے موجود ہونے کے اثباتی علم اور اس موجود کی کیفیات کے علم میں جو فرق ہے اسے ہمارے جدید اذھان خلط ملط کردیتے ہیں۔ مزید سنئے۔ متکلمین کے مابین جب اس موضوع پر بحث ہوئی کہ کیا ذات باری کا علم ممکن ہے تو بعض نے کہا ہاں اور بعض نے کہا نہیں۔ علامہ آمدی ( م631 ھ) ہر فریق کے دلائل درج کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ یہاں “علم ہونے” سے کیا مراد ہے اسے کھولنے کی ضرورت ہے۔ اگر علم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ مثلاً اس ذات کا موجود ہونا ثابت ہے اور وہ واجب الوجود ہے (یا اس طرح دیگر احکام وغیرہ) تو اس کا علم ممکن ہے اور اگر علم سے مراد کسی شے کے ترکیبی خصائص و اوصاف وگیرہ ہیں تو اس کا علم ممکن نہیں۔ بتائیے زیادہ سمجھدار کون تھے؟
خلاصہ
علم کلام کا ڈسکورس اس چیز کے شعوری ادراک کے ساتھ پروان چڑھا کہ حقیقت الہیہ کا ادراک انسانی معرفی بساط سے باہر ہے۔ اس لیے علم کلام پر ہر وہ تنقید بے معنی ہے جو یہ دعوی کرے کہ “چونکہ حقیقت الہیہ انسانی بساط سے باہر ہے اس لیے کلامی دلائل سے خدا کا وجود ثابت نہیں ہو سکتا” الا یہ کہ کوئی یہ ثابت کرے کہ محقق علمائے کلام یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ خدا کی حقیقت کا ادراک ہو سکتا ہے، اسی صورت میں کوئی بامعنی تنقید ہو سکتی ہے۔
کمنت کیجے