ڈاکٹر زاہد مغل
مسائل حسن و قبح (خیر و شر) پر معتزلہ و ماتریدیہ بعض نتائج میں ہم آہنگ اور بعض میں مختلف فیہ ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ اکثر و بیشتر کتب میں اس کی بنیاد پر گفتگو و بحث نہ ہونے کے برابر ہے، اکثر مصنفین نتائج کا فرق بیان کرنے پر اکتفا کرتے ہیں کہ معتزلہ فلاں مسئلے میں فلاں بات کہتے ہیں اور ماتریدیہ فلاں جن میں سے بعض پر ان کے مابین اتفاق ہوتا ہے اور بعض میں اختلاف۔ مثلاً تکلیف مالا یطاق کے عدم جواز اور اسی طرح عقلی ادراک کی بنیاد پر بعض امور کی تکلیف لازما آنے پر معتزلہ و ماتریدیہ کے ایک گروہ کا اتفاق ہے جبکہ خلق افعال عباد (بندوں کے افعال کی تخلیق ) کے مسئلےپر ان کا اختلاف ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ اتفاق و اختلاف کس اصول پر متفرع ہے؟ نیز ان مسائل پر خود ماتریدیہ کے مابین جو اختلاف ہے اس کی کیا وجہ ہے؟ یہاں ہم اختصار کے ساتھ چند نکات کی صورت اس پر روشنی ڈالتے ہیں۔
معتزلہ کا موقف
پہلے ہم معتزلہ کا موقف بیان کرتے ہیں۔
1۔ اختلاف کی بنیاد ہر فریق کے نزدیک ذات باری سے متعلق عدل و حکمت کے مفہوم کا فرق ہے۔ فریقین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حسن و قبح افعال و اشیاء کے اوصاف ہیں، اس لئے ان کے نظریہ اخلاق کو essentialist or objectivist theory of morality کہا جاسکتا ہے۔ افعال و اشیاء کے یہ اوصاف دراصل اللہ کی صفت حکمت کا مظہر ہیں جس کے بعض تقاضوں کو انسان پہچان سکتا ہے۔
2۔ معتزلہ کے نزدیک حکمت کا مطلب خدا کے فعل میں “اصلح للعباد” کا پہلو پایا جانا ہے۔ ان کے مطابق ہر فاعل کا ارادہ کسی مصلحت پر مبنی ہوتا ہے، یہ مصلحت یا فاعل کی جانب لوٹتی ہے اور یا مفعول کی۔ چونکہ خدا مصلحت و فائدے کے حصول سے ماوراء ہے، لہذا ماننا ہوگا کہ اس کے ارادے میں بندوں کی مصلحت پیش نظر ہوتی ہے۔
3۔ چونکہ خدا قادر و جواد ہے، لہذا اس کی بارگاہ سے بندوں سے متعلق ایسے ہی فعل کا صدور ہوتا ہے جس میں بندوں کا امکانی طور پر سب سے زیادہ (maximum possible) فائدہ ہو، اسے “اصلح للعباد “کہتے ہیں۔ جو فعل اس پہلو سے خالی ہو وہ “عبث “ہوتا ہے جو کہ سفاہت ہے اور سفاہت حکمت کی ضد ہے۔ انسان کی مصلحت و فائدے سے مراد وہی عام تصورات ہیں جن سے انسان واقف ہے اور شریعت انہی بنیادوں پر انسان کو خطاب کرتی ہے۔ چنانچہ اخلاقی قضایا (moral judgements) بندے و خدا کے مابین مشترک ہیں اور یہی اشتراک خطاب کی تفہیم کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔
4۔ حکمت کے اس تصور کے پیش نظر افعال تین قسم کے ہیں:
(الف) وہ جن کی اچھائی کے پہلو کو انسان اس بنا پر پہچان سکتا ہے کہ ان میں انسان کا یقینا فائدہ و مصلحت ہی ہوگی جیسے کہ ایمان باللہ کا مفید ہونا، شکر منعم (یعنی انعام کرنے والے کا شکر بجا لانا) حسن ہونا وغیرہ،
(ب) وہ جن کے عدم مصلحت کے پہلو کو انسان عقل سے جان سکتا ہے جیسے کفر کا برا ہونا، بلا وجہ جھوٹ بولنا یا بلاوجہ کسی کی جان تلف کرنا وغیرہ،
(ج) وہ جن سے متعلق انسان قطعیت کے ساتھ فیصلہ نہیں کرسکتا اور متذذب ہوتا ہے جیسے کہ پانچ وقت نماز کی ادائیگی یا زنا کی قباحت وغیرہ
5۔ ہر تین صورت میں عقل اور شارع کاحکم یا خطاب افعال میں قدر پیدا نہیں کرتے بلکہ انہیں ظاہر کرتے ہیں، یعنی عقل ذات باری کی صفت حکمت کے بعض پہلووں یا نتائج کو اصلح للعباد کے تناظر میں قطعی طور پر پہچان لیتی ہے اور یہ ادراک خدا کی جانب بندے کی تکلیف کی بنیاد ہے۔ اسی طرح شارع جب نماز کا حکم دیتے ہیں تو یہ حکم نماز میں خیر کا پہلو وضع نہیں کرتا بلکہ اسے ظاہر کرتا ہے۔ افعال کی قدر کی وجودی بنیاد خدا کا حکم نہیں بلکہ اس کی صفت حکمت ہے اور عقل کے ذریعے بعض اخلاقی امور کا یہ ادراک اسی طرح ہے جیسے عقل ذات باری کے وجود اور اس کی بعض صفات کا ادراک کرلیتی ہے کہ مثلا وہ عالم و قادر ہے۔ اسی طرح وہ اس کی صفت حکمت کے مفہوم کے تقاضوں کا بھی ادراک کرسکتی ہے۔
6۔ اس بنا پر معتزلہ کا ماننا تھا کہ:
الف) جن لوگوں تک نبی کی خبر نہیں پہنچی ان پر ان امور کی تکلیف ہے جن کے حسن و قبح کو عقلاً جاننا ممکن ہے اور وہ خدا کی بارگاہ میں ان کے لئے جوابدہ ہیں۔
ب) خدا شر کا ارادہ نہیں کرتا اور نہ بندوں کے افعال تخلیق کرتا ہے بلکہ بندے اپنے افعال کو خدا کی جانب سے دی گئی قدرت و اختیار سے خود خلق کرتے ہیں اور یہی ان کی جوابدہی کی بنیاد ہے۔ اگر خدا برائی کا ارادہ کرے گا یا ان افعال کو خلق کرے گا تو اس پر شریر ہونے کا الزام آئے گا، اور یہ بات محال ہے کہ ایک حکیم ایسے افعال کا ارادہ کرے۔ کسی برے فعل کا ارادہ تبھی ممکن ہے جب فاعل کو اس کی برائی کا علم نہ ہو، یا وہ اس فعل کو کرنے کا محتاج ہو اور یا اسے یہ علم نہ ہو کہ اسے اس کی حاجت نہیں اور خدا ان تینوں باتوں سے ماوراء ہے۔ یہ معتزلہ کے نزدیک انسانی افعال سے متعلق “مسئلہ شر ” (problem of evil) کا حل ہے۔
ج) اسی طرح بندوں کے افعال سے جو نتائج جنم لیتے ہیں (مثلا پتھر پھینکنے پر وہ لڑھکتا ہوا جاتا ہے، تو پتھر کو پھینکنا فعل جبکہ اس کا لڑھکنا فعل کا نتیجہ ہے) ان کی نسبت بھی بندوں کی جانب ہوگی (انہیں “افعال متولدہ ” کہتے ہیں، اس کی نسبت سے متعلق پر حکمائے معتزلہ کی آراء مختلف ہیں)۔
د) یہ جائز نہیں کہ خدا بندوں کو بلا کسی سابقہ گناہ سزا یا تکلیف دے کیونکہ یہ ظلم (اصلح للعباد کے خلاف) ہے۔ رہے وہ اعمال و مظاہر جن میں بظاہر کسی بے گناہ انسان کو تکلیف ہوتی ہے (جیسے حادثہ، طوفان و زلزلہ وغیرہ) تو لطف و عوض کے اصولوں کے تحت ان کا مداوا کیا جانا لازم ہے۔ لطف کا مطلب یہ ہے کہ خدا اس تکلیف کی وجہ سے بندے کو کسی نیک عمل کی توفیق عطا کردیتا یا معصیت سے بچا لیتا ہے، عوض کا مطلب آخرت میں بندوں کی ایسی تکالیف کا ازالہ کردیا جانا ہے جو بلا عذر تھیں۔ یہ معتزلہ کے نظام فکر میں “مسئلہ شر ” کے اس پہلو کا حل ہے جو انسانی افعال سے متعلق نہیں۔
ھ) عدل و حکمت کے تقاضوں کے تحت یہ جائز نہیں کہ خدا اعمال کی جزا ان کی نوعیت کے مطابق نہ دے، یعنی اچھے عمل کی جزا ثواب اور برے کی عقاب۔
و) بندوں پر ایسے اعمال کی تکلیف ڈالنا جائز نہیں جنہیں ادا کرنے کی ان میں استطاعت نہ ہو (اسے تکلیف مالا یطاق کہتے ہیں)۔ ایسا حکم دینا سفاھت ہے جو خدا کے شایان شان نہیں۔
ذ) خدا از روئے حکمت بندوں کو ایسے افعال کا مکلف نہیں بنا سکتا جو برے ہیں، مثلا وہ کفر کرنے یا جھوٹ بولنے کا حکم نہیں دے سکتا کہ ایسا کرنا سفاہت ہوگی اور خدا اس سے منزہ ہے۔
ملاحظہ کیا جاسکتا ہے کہ (الف ) تا (ذ) تمام جزیات معتزلہ کے نظریہ عدل و حکمت کے ساتھ مربوط ہیں۔
ماتریدیہ کا موقف
اب ہم ماتریدیہ کے موقف کا خلاصہ لکھتے ہیں۔
7۔ ماتریدیہ کے نزدیک حکمت کا مطلب کسی فعل میں “اصلح للعباد” کا پایا جانا نہیں بلکہ “عاقبت حمیدہ” کا پہلو پایا جانا ہے، چاہے اس میں اصلح للعباد کی رعایت ہو یا نہ ہو۔ یعنی حکیم وہ ہے جس کا فعل نتیجے کے اعتبار سے اچھا اور حمد کا کوئی پہلو لئے ہو، بعض معاملات میں وہ پہلو بندوں کی مصلحت بھی ہوسکتی ہے لیکن یہ ضروری نہیں۔ ایک عمل اپنے بعض فوری نتائج کے اعتبار سے شر معلوم ہوسکتا ہے، لیکن چونکہ وہ حکیم کا فعل ہے لہذا وسیع تر تناظر میں اس میں کوئی ایسا پہلو موجود ہوتا ہے جو نتیجے کے اعتبار سے اچھا و برتر اور لائق حمد ہوتا ہے۔ مثلاً کسی ڈاکٹر (حکیم) کا مریض کا آپریشن کرنا فوری طور پر تکلیف کا باعث ہوتا ہے، تاہم مریض کے وسیع تر تناظر میں وہ خیر ہوتا ہے۔ اسی طرح خدا کے ہر فعل (یہاں تک کہ شیطان کی تخلیق) میں بھی حکمتیں پوشیدہ ہیں۔
8۔ ماتریدیہ کا تصور حکمت دو اعتبارات سے معتزلہ کے تصور سے مختلف ہے:
الف) معتزلہ کا تصور (اصلح للعباد) بہت حد تک انسان مرکزیت (humancentricism) پر مبنی ہے اور اسی لئے ان کے ہاں اخلاقی قضایا سے متعلق انسانی تصورات و احساسات کو خدا پر لاگو کرنے کا رویہ زیادہ ہے جبکہ ماتریدیہ کے مطابق حکمت کے پہلو خدا کی جانب لوٹتے ہیں۔ چونکہ خدا حکیم ہے لہذا اس کے ہر فعل میں یقیناً کوئی نہ کوئی قابل حمد پہلو ہوتا ہے، چاہے انسان کو سمجھ آئے یا نہ آئے
ب) معتزلہ کا تصور “اصلح للعباد” محدود جبکہ ماتریدیہ کا تصور “عاقبت حمیدہ” وسیع تناظر کا حامل ہے اور اسی بنا پر وہ بعض ایسے افعال کی توجیہہ فراہم کرتا ہے جو معتزلہ کے تصور کے تحت ممکن نہیں جس کی مثالیں آگے آئیں گی۔
9۔ معتزلہ کی طرح ماتریدیہ کے نزدیک بھی عقل نیز خطاب الہی اعمال کی اخلاقی قدر ظاہر کرتے ہیں نہ کہ ان میں قدر وضع کرتے ہیں، اخلاقی قدر کی بنیاد صفت حکمت ہے۔ اسی بنا پر احناف کے ہاں حسن و قبیح لعینہ کی اقسام موجود ہیں۔ ماتریدیہ بھی معتزلہ کی طرح اعمال کو تین اقسام میں رکھتے ہیں جن کا ذکر اوپر گزرا ، اس کی بنیاد یہ ہے کہ ان کے مطابق حکمت (عاقبت حمیدہ) کے بعض مثبت و منفی پہلووں کو انسانی عقل جان سکتی ہے۔
10۔ ماتریدیہ کے دو بڑے گروہ ہیں: اہل سمرقند اور اہل بخاری۔ اول الذکر کے بڑے نمائندگان مثلاً خود امام ابو منصور ماتریدی (م 334 ھ) اور امام ابو معین نسفی (م 508 ھ) ہیں جبکہ موخر الذکر کے نمائندگان میں امام ابو الیسر بزدوی (م 493 ھ) اور علامہ کمال ابن الہمام (م 861 ھ ) وغیرہ ہیں۔ ان گروہوں کے مابین تحسین و تقبیح سے متعلق بعض مسائل پر اختلاف ہے۔
11 ۔ چنانچہ ماتریدیہ کا کہنا ہے کہ:
الف) جس شخص تک نبی کی خبر نہیں پہنچی اس پر توحید کا اقرار اور شرک سے اجتناب عقلاً واجب ہے، یہ اہل سمرقند کا قول ہے اور اس کی حمایت میں امام ابوحنیفہ (م 150ھ) سے دو مشہور اقوال بھی منقول ہیں۔ ان حضرات کے مطابق کفر وشرک کی شناعت اور ایمان باللہ و شکر منعم کا حسن ہونا حکمت کے ایسے لازمی تقاضوں میں سے ہے جن کا ادراک عقل کرسکتی ہے۔ تاہم امام ابوالیسر بزدوی اس تکلیف کے قائل نہیں اور وہ امام ابوحنیفہ کے قول کی توجیہہ کرتے ہیں۔ اہل سمرقند میں بعض کے ہاں یہ رائے بھی پائی جاتی ہے کہ نبی کو مبعوث کرنا بھی حکمت کے ضروری تقاضوں میں سے ہے۔
ب) خدا تمام افعال کا ارادہ کرنے والا اور انسان کے تمام افعال کا خالق ہے۔ چونکہ خدا کے ہر فعل میں کوئی حکمت پوشیدہ ہوتی ہے جو اس فعل کو بالآخر حسن بناتی ہے، لہذا خدا کا کوئی بھی ارادہ و فعل شر نہیں ہوسکتا۔ یہ مسئلہ خیر و شر (problem of evil) کا ماتریدی حل ہے اور اس مسئلے پر اہل سمرقند و بخاری کا اتفاق ہے۔ معتزلہ اصلح للعباد کے اپنے محدود تصور کی بنا پر انسانی ارادے سے ظاہر ہونے والے شر کی نسبت خدا کے ارادے کی جانب کرنے سے قاصر تھے، ماتریدیہ حکمت کے تصور کو پھیلا کر ایسا ممکن بنا دیتے ہیں کہ اگرچہ بندے کا کوئی فعل فوری و محدود تناظر میں شر ہو تاہم وسیع تر تناظرمیں وہ خیر (عاقبت حمیدہ کا پہلو لئے) ہی ہوتا ہے، لہذا خدا کی جانب سے اس کا ارادہ کرنا عدل و حکمت کے خلاف نہیں۔ کیونکہ معتزلہ کے نظرئیے میں شر کی نسبت خدا کی جانب جائز نہیں، لہذا ان کے نزدیک بندے کو عطا کردہ فعل کرنے کی قدرت فعل کرنے کے لمحے سے قبل ہوتی ہے جس میں استقلال پایا جاتا ہے تاکہ اس کے ارادے سے جنم لینے والے شر کی نسبت خدا کی جانب نہ ہو۔ اس کے برعکس ماتریدیہ کے نزدیک یہ قدرت فعل کے ساتھ اور لمحاتی ہوتی ہے اور یہ نتیجہ ان کے تصور حکمت کی بنا پر ممکن ہے۔ تاہم دونوں میں مشترک یہ ہے کہ ہر فریق اپنے اپنے انداز سے شر کی نسبت خدا سے دور کرتا ہے۔
ج) بندوں کے افعال سے جو نتائج ظاہر ہوتے ہیں (یعنی افعال متولدہ)، اسی درج بالا اصول پر خدا ان کا بھی خالق ہے۔
د) عقلاً یہ جائز ہے کہ خدا بندوں کو بلا کسی سابقہ گناہ تکلیف دے اور اس پر عوض دینا واجب نہیں، اس لئے کہ عین ممکن ہے ان مصائب کے پس پشت خدا کی کوئی حکمت پوشیدہ ہو جس کا ہمیں علم نہیں۔ یہاں پھر غور کیجئے کہ ماتریدیہ کا تصور حکمت کیونکر انہیں معتزلہ کے نتیجے سے الگ کررہا ہے۔ یاد رہے کہ یہاں یہ نہیں کہا جارہا کہ خدا ناگہانی مصائب کا عوض نہیں دے سکتا یا نہیں دے گا، وحی کی خبر کی بنیاد پر یہ تصور رکھنا جائز ہے۔ تاہم عقل کی رو سے تصور حکمت کے تحت یہ لزوم ثابت نہیں ہوتا جیسا کہ معتزلہ کا کہنا ہے۔
ھ) عدل و حکمت کے تقاضوں کے تحت یہ جائز نہیں کہ خدا کفر و شرک کرنے والے کو ابدی جنت اور اہل ایمان کو ابدی جہنم عطا کرے۔ اس مسئلے پر اہل سمرقند و بخاری کا اختلاف ہے کہ کیا واقعی عقل کی رو سے یہ حکمت کا کوئی تقاضا ہے؟ علامہ ابن الہمام اس کے قائل نہیں۔ لیکن جو اس کے قائل ہیں ان کے نزدیک ایسا فعل عاقبت حمیدہ کے پہلو سے خالی ہوگا اور نتیجتاً یہ خدا کے شایان شان نہیں۔
و) بندوں کو ایسے اعمال کی تکلیف دینا جائز نہیں جنہیں ادا کرنے کی ان میں استطاعت نہ ہو کیونکہ ایسا حکم دینا انسانوں کو مکلف بنا کر آزمائش میں ڈالنے کی حکمت کے خلاف ہے لہذا یہ سفاھت ہے جو خدا کے شایان شان نہیں۔ اس مسئلے پر بھی اہل سمر قند و اہل بخاری کا اختلاف ہے۔
ذ) خدا از روئے حکمت بندوں کو ایسے افعال کا مکلف نہیں بنا سکتا جو قطعی طور پر برے (قبیح لعینہ) ہیں جیسے کفر کرنے یا جھوٹ بولنے کا حکم دینا کہ ایسا حکم سفاہت ہے۔
12۔ مسائل حسن و قبح پر معتزلہ و ماتریدیہ کے مواقف کے خلاصہ و موازنہ اس گوشوارے سے سمجھا جاسکتا ہے۔ اگرچہ اشاعرہ کے طریقہ بحث پر گفتگو نہیں کی گئی، تاہم ان کی رائے کا خلاصہ بھی یہاں درج ہے۔
نفس مسئلہ | معتزلہ | ماتریدیہ | اشاعرہ | |
سمرقندی | بخاری | |||
کیا عقل سے کسی حکم کا شرعی وجوب لازم آتا ہے؟ | ہاں | ہاں | نہیں | نہیں |
کیا خدا انسانی افعال کا خالق ہے؟ | نہیں | ہاں | ہاں | ہاں |
کیا خدا افعال متولدہ کا خالق ہے؟ | نہیں | ہاں | ہاں | ہاں |
کیا خدا کا کوئی ارادہ شر پر مبنی ہوتا ہے؟ | نہیں | نہیں | نہیں | نہیں |
کیا خدا لطف و عوض کے بغیر بندوں کو تکلیف دے سکتاہے؟ | نہیں | ہاں | ہاں | ہاں |
کیا خدا کافر کو ابدی جنت دے سکتا ہے؟ | نہیں | نہیں | ہاں | ہاں |
کیا خدا تکلیف مالا یطاق دے سکتا ہے؟ | نہیں | نہیں | ہاں | ہاں |
کیا خدا قبیح لعینہ (مثلا کفر و کذب) کا حکم دے سکتا ہے؟ | نہیں | نہیں | نہیں | ہاں |
کیا ہدایت کے لئے نبی مبعوث کرنا لازم ہے؟ | ہاں | ہاں | نہیں | نہیں |
13۔ ماتریدیہ کا تصور حکمت وسیع تر تناظر رکھنے کے باوجود چونکہ essentialist اخلاقی تصور ہے جس کے بعض پہلووں کے عقلی ادراک کا امکان بھی موجود ہے، لہذا معتزلہ کے نظرئیے کی طرح بعض مسائل میں وہ بھی قدرت و ارادہ باری تعالی پر چند اخلاقی حدود و قیود عائد کرتا ہے۔ تاہم اس بحث سے واضح ہے کہ ہر گروہ کی جزیات ان کے اصول سے متفرع ہیں اور محض ان جزیات کی مطابقت و اختلاف کی بنیاد پر انہیں ایک جیسا یا الگ قرار دینا درست نہیں۔
نتائج بحث
14۔ یہ تحریر چند امور پر روشنی ڈالتی ہے:
الف) “فلاں قدیم عالم کی فلاں رائے ظاہر کرتی ہے کہ ان پر اعتزال کا اثر تھا”، یہ طریقہ بحث ناکافی ہے کیونکہ یہ محض نتائج دیکھ کر فیصلہ کرنا ہے جبکہ یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ ان کا اصول کیا تھا۔ معتزلہ و ماتریدیہ الگ اصول کی بنیاد پر بعض یکساں نتائج تک پہنچتے ہیں۔
ب) معتزلہ و ماتریدیہ ہر ایک کے نزدیک اگرچہ عقل اور وحی خیر و شر کو ظاہر کرتے ہیں نیز عقل سے بعض امور کی تکلیف لازم آتی ہے، تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ دونوں کے نزدیک وحی کی ضرورت نہیں کیونکہ عقل سے معلوم ہونے والے ایسے معاملات بہت کم ہیں نیز وحی نے انہیں بھی موضوع بنایا ہے۔ چنانچہ حکمت کے پہلو سے ماخوذ قضایا کا زیادہ تر مقصد نص کی شرح کی بعض حدود و قیود متعین کرنا ہے (کہ مثلا چونکہ یہ اصول قطعی ہیں، لہذا نص میں ان امور کے خلاف بات نہیں ہوسکتی اور اگر بظاہر ہو تو ان اصولوں کی روشنی میں ان کی مناسب توجیہہ کی جائے گی)۔
ج) معتزلہ کے موقف سے متعلق یہ غلط فہمی عام رہی ہے کہ ان کے نزدیک عقل موجب ہے جبکہ ماتریدیہ کے نزدیک عقل صرف کاشف ہے، موجب ذات باری ہے۔ تاہم یہ کمزور بات ہے جیسا کہ متعدد متاخرین علمائے کلام نے واضح کیا ہے کیونکہ معتزلہ کے نزدیک بھی حسن و قبح کی وجودی بنیاد ذات باری کی صفت حکمت ہے (اگرچہ وہ اس کا الگ مفہوم مراد لیتے ہیں)۔ اس غلط فہمی کی بنا پر معتزلہ کو عقل سے شریعت سازی کرنے کا الزام دیا جاتا رہا۔
د) معتزلہ کا اصل مقصد شریعت کو معطل کرنا نہیں تھا بلکہ ان کا اصل زور چار پہلووں پر تھا: (1) شر سے خدا کی تنزیہہ و پاکی بیان کرنا، (2) انسانی ذمہ داری کے لئے انسان کے اختیار کے پہلو کو اجاگر کرنا، (3) یہ واضح کرنا کہ خدا کی جانب سے بندوں کو مکلف بنانا عدل کے انسانی تصورات و تقاضوں کی رو سے عین جائز ہے اور اگر نبی مبعوث نہ ہو تب بھی بندے عقل و فطرت کے تقاضوں کے تحت جوابدہ ہوں گے، (4) نیز اثبات نبوت کی دلیل سے متعلق بعض مسائل کا قابل فہم حل نکالنا (یہ ایک الگ پہلو ہے)۔
ھ) معتزلہ کے موقف کو عمومی قسم کے بیانات کے ساتھ بیان کرکے اسے معتزلہ کی جانب منسوب کرنا درست نہیں کیونکہ وہ عمومی بیانات اہل سنت کے موقف پر بھی لاگو ہو جاتے ہیں۔ مثلاً یوں کہنا کہ “معتزلہ کے نزدیک حسن و قبح اعمال کے ذاتی اوصاف ہیں جنہیں عقل سے جانا جاسکنا ممکن ہے اور اس عقلی ادراک سے تکلیف شرعی لازم آتی ہے”۔ ظاہر ہے یہ عمومی بیان اہل سنت میں ماتریدیہ کے ایک گروہ پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ اسی لئے خود ماتریدیہ اپنی کتب میں تحسین و تقبیح پر بحث کرتے ہوئے اپنا موقف یوں بیان نہیں کرتے بلکہ وہ اصلح للعباد کے پہلو اور اس کے تقاضوں کی تردید پر زور دیتے ہیں کیونکہ یہ وہ خاص پہلو ہے جو ماتریدیہ کو معتزلہ سے الگ کرتا ہے۔
و) ماتریدیہ میں اہل بخاری کی روایت کے حاملین مسائل تحسین و تقبیح میں اگرچہ اکثر و بیشتر اشاعرہ کے ساتھ ہیں، تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ دونوں کے ہاں حکمت کا مفہوم بھی یکساں ہیں، اشاعرہ ان نتائج تک حکمت کے اپنے جدا گانہ تصور کی بنا پر پہنچتے ہیں کیونکہ حسن و قبح سے متعلق ان کا نظریہ essentialist نہیں۔
ذ) اسی طرح مسائل تحسین و تقبیح پر ماضی قریب اور جدید دور کی بعض شخصیات کی آراء کو بھی بعض جزوی مماثلتوں کی بنا پر معتزلہ کی رائے کے ساتھ ملانا درست نہیں کیونکہ اس نوع کی آراء اہل سنت کے ہاں بھی موجود ہیں۔ یہاں بھی ہر کسی کے اصول کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
کمنت کیجے