ڈاکٹر وقاص احمد
اس سے پہلے موسیقی کےبارے لکھا جائے تھوڑی سی آگاہی آواز کے متعلق بھی ہو جائے تو مناسب رہے گا۔
آواز توانائی کی ایک شکل ہے۔ جس طرح روشنی ، حرارت ،بجلی اور مقناطیسیت ہیں۔
یا
آواز وہ احساس ہے جو ہمیں کان کے ذریعے محسوس ہوتا ہے۔
دوسری تعریف میں چھوٹا سا ابہام رہ جاتا ہے کہ جو آواز کان کے ذریعے محسوس نہ ہو وہ آواز ،آواز نہیں رہتی۔کسی انفرادی کان کو محسوس نہ ہو مگر باقی کانوں کو محسوس ہو تو انفرادی کے نزدیک آواز ، آواز نہیں رہے گی مگر کہ باقی محسوس کرنے والوں کے ہاں پھر بھی ہو گی۔ البتہ اگر کائنات کا کوئی کان محسوس نہ کرے تو پھر آواز ہو گی یا نہیں؟ اہم سوال ہے۔ ہو سکتا ہے آواز ہو مگر کان کو احساس نہ ہوا ہو۔بہرحال پہلی تعریف کی طرف آتے ہیں۔
پہلی تعریف پرسوال پیدا ہوتا ہے کہ توانائی کیا ہے؟
اس کی آسان ترین تعریف کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
“توانائی” جو جسم کام کر سکتا ہے ۔یاد رہے سائنس کی زبان میں سوئی سے لے کر زمین ، چاند وغیرہ ہر چیز کو جسم کہا جاتا ہے۔
یہاں ” کام” کا لفظ غور طلب ہے۔ سائنس میں کام سے مراد وہ نہیں جو عام زبان میں ہے ۔یہاں ” کام” کے لیے ہمیں دو چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے ۔
قوت
فاصلہ
جب کوئی قوت کسی جسم پر عمل کرتی ہے اور وہ جسم اس قوت کے اثر کے تحت فاصلہ طے کرتا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ کام ہوا ہے مثلاً ایک شخص دن بھر کوئی چیز اٹھانے کی کوشش کرے اور بوجھ اپنی جگہ سے نہ ھلے تو ہم کہیں گے ” کام ” نہیں ہوا۔
نوٹ : توانائی کی شکل تو تبدیل ہو سکتی ہے مگر ضائع نہیں ہو سکتی۔
اب تعریف ذہن میں لائیں۔
“آواز توانائی کی ایک شکل ہے۔”
توانائی کی کئی اور اشکال ہیں مثلا حرارت ، بجلی وغیرہ۔ مگر توانائی کی ہی ایک شکل آواز ہے ۔توانائی کی تعریف اوپر لکھی جا چکی ہے اب اس کو اپلائی کر کے آواز کو سمجھا جا سکتا ہے۔
کہتے ہیں کہ آواز گیسوں ، ٹھوس اجسام اور معائعات میں سفر کر سکتی ہے لیکن روشنی کی طرح خلا میں سے نہیں گزر سکتی۔
روشنی کی رفتار 1,86,000 میل فی سیکنڈ ہے جبکہ زمین کا قطر اس سے بہت کم صرف چند ہزار میل 7917.5 ہے جبکہ کلومیٹر کے لحاظ سے 12٬742 ہے اب آواز کی رفتار 1120 فٹ فی سیکنڈ ہے۔یہاں سے اندازہ لگا لیں کہ آواز کیوں کر اور کتنی دور تک بغیر آلہ کے جا سکتی ہے۔اس کا اندازہ یوں لگا لیں کہ اگر آواز کی رفتار گولی سے زیادہ ہوتی تو آپ شکار مشکل ہی کر پاتے ۔گولی سے پہلے آپ کی آواز پہنچ جاتی اور شکار صاحب فرار ہو جاتے۔ اب آواز سفر کیسے کرتی ہے ؟ اس پر قارئین سائنس کی کتب پڑھیں۔
بہرحال موسیقی کے لیے آواز انتہائی اہم ہے۔آئیں موسیقی و آواز کے بارے بھی کچھ مزید جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہر قوم کی تاریخ میں موسیقی بنیادی حیثیت رکھتی ہے اور ہر قوم موسیقی سے متعلق اپنی اپنی توضیحات پیش کرتی ہے۔
موسیقی لفظ کے ماخذ بارے کئی مفروضے ہیں ۔ایک مفروضہ یہ ہے کہ لفظ موسیقی ” موسیقار” نامی پرندے سے مشتق ہے اس کی چونچ میں سات سوراخ ہوتے ہیں اور ہر سوراخ سے ہمراہ ہوائے تنفسی ایک صدائے خوش برآمد ہوتی ہے۔ اس پرندے کو سنسکرت میں دیپک لاٹ ،یونانی میں قینقس اور فارسی میں آتش زن کہتے ہیں اور اس کے رہنے کی جگہ کوہ کاف بتائی جاتی ہے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ موسیقی ایک یونانی لفظ ہے موسی سے مشتق ہے معنی ہے ایجاد کرنا یا پیدا کرنا۔
اہل ایران حکیم فیثا غورث کو موسیقی کا موجد کہتے ہیں مگر یہ درست نہیں ہے ۔مصری سمجھتے ہیں کہ یہ دیوتاؤں کی ایجاد ہے ۔ یہودی کہتے ہیں کہ آدم علیہ السلام کی ساتویں پشت میں جوہلی نامی ایک شخص تھا وہی اس فن کا بانی ہے ۔ ہندوستانی اسطور کے مطابق برہما دیوتا نے ایک اساطیری عارف ” نارد” کو گیت سکھایا۔ یونانی اساطیر میں فنون نو دیوتاؤں کے تابع تھے۔ انہیں Muses کہا جاتا تھا ۔میوزک اور امیوزمنٹ جیسے الفاظ انہی کے مرہون منت ہیں۔
آئیے موسیقی کی تعریف دیکھتے ہیں۔
” موسیقی خیال یا احساس کو اظہار کرنے اور جذبات کو متاثر کرنے کے لیے آوازوں کو ترتیب دینے کا فن ہے۔یہ آوازیں الحانی ( ووکل) ہوتی ہیں یا پھر انھیں مختلف قسم کے آلات کے ذریعے ہیئت بخشی جاتی ہے۔”
نوٹ :آوازوں کا خوش گوار ہونا لازمی ہے۔اس لیے کہ موسیقی آواز کا فن ہے۔حس سامعہ سے تعلق رکھتی ہے۔
تعریف سے حاصل نکات
آوازوں کو ترتیب دینے کا فن
جذبات کو متاثر کریں
خیال یا احساس کا اظہار
آوازوں کو ترتیب نہ دیا گیا ہو تو یاد رہے وہ موسیقی نہیں ،محض آوازیں ہیں ۔ ترتیب دے بھی دیا جائے مگر محض ترتیب آواز ہو ،اس میں کسی خیال کا اظہار نہ ہو پھر بھی موسیقی نہیں لیکن محض ترتیب آواز ہے۔ پھر خیال بھی ایسا ہو جو کسی کے جذبات کو متاثر کر سکے۔
آوازوں کی ترتیب تربیت آواز کے بعد جس قدر عمدہ ہو گی حس سامعہ اتنی ہی لطف اندوز ہو گی ۔ خیال جس قدر عمدہ ہو گا اس قدر جذبات کو متاثر کرے گا۔ خیال ٹریجڈی ،کامیڈی ،ایپک پر مشتمل ہو سکتا ہے ۔خیال محبت ، نفرت و دیگر چیزوں پر بھی مبنی ہو سکتا ہے۔ خیال تو خیال ہے ۔احساس تو احساس ہے ۔جس قدر عمدہ خیال ہو گا اور جس قدر کوئی چیز اچھی محسوس ہو گی ۔لوگوں کے جذبات کو بھی اتنا ہی متاثر کرے گی۔
خیال یا احساس اگر مبنی بر گھٹیا ، فحش ہو گا تو دین اسلام کی پکڑ میں بھی آتا جائے گا وگرنہ کوئی اتنا مسئلہ نہیں۔
آواز کو آلات کے ذریعے ہیئت بخشی جاتی ہے ۔ آلات کو ہندوستانی موسیقی میں عموماً چار حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے
تات یعنی تار دار ساز
سنیشر یعنی ہوا سے آواز دینے والے ساز
اوندھ یعنی وہ آلات جو ہاتھ کی ضرب سے بجائے جانے والے ہوں مثلا ڈھول یا طبل
گھن یعنی دھات کے ایسے ساز جنہیں ایک دوسرے سے ٹکرا کر بجایا جاتا ہے ۔
مشہور آلات موسیقی یہ ہیں۔
سارنگی:
الحانی موسیقی کی سنگت کے لیے سب سے زیادہ موزوں آلہ ۔لمبائی تقریباً دو فٹ جس پر کھال کا ٹکڑا جڑا ہوتا ہے۔باہری سطح پر تین تار ہوتے ہیں۔ یاد رہے اسراج ، سرند ،دلر بھی سارنگی سے ملتے جلتے ہیں لیکن ستار کی طرح بجایا جاتا ہے۔جبکہ سارنگی کو ایک کمان سے تاروں پر رگڑ کر بجایا جاتا ہے۔
وینا:
وینا ایک شرین ترین آلہ موسیقی ہے ۔یہ بھی تاردار ہے۔اس پر گونج پیدا کرنے کے لیے نبی جو عموماً کدو کے خول سے بنتی ہے ،ہوتی ہے۔ اس میں سات مختلف اقسام کے تار ہوتے ہیں۔ہندوستانی موسیقی کا قدیم ترین آلہ ہے۔اس کی تار پر ضرب لگانے والے آلے کو مضراب کہتے ہیں۔یہ تکونی شکل کا ہوتا ہے۔جسے شہادت کی انگلی میں پہن کر مطلوبہ تار کو کھینچا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ ستار ، سرود،تان پورا یا تنبورا، بانسری ، شہنائی،ہارمونیم وغیرہ بھی مشہور آلات موسیقی ہیں ۔ یہ آلات موسیقی جتنے عمدہ ہوں اور جتنے ماہرین کے ہاتھ ان پر بہتر چلتے ہوں ۔ اتنی ہی موسیقی دلکش و دلنشیں اور پرکشش ہوتی ہے۔
دین اسلام میں آلات موسیقی کی حرمت بارے جو حدیث صحاح میں آئی ہے سندا اختلافی ہے۔منکرین موسیقی اسے درست سمجھتے ہیں جبکہ موسیقی کے حمایتی اس کو سندا درست متصور نہیں کرتے۔ بہرحال مجھے یہ اختلاف پسند ہے۔
آوازوں کا خوش گوار ہونا لازمی ہے۔ بہت خوب اور عمدہ بات ہے ورنہ تو کان لطف کیا محسوس کریں؟ الٹا زبان برا بھلا کہنے پر اتر آئے۔
موسیقی آواز کا فن ہے ۔ آواز کے بارے کچھ معلومات پہلے حصے میں دی گئی تھی کچھ اور یہاں بیان کی جاتی ہے۔
قدیم ترین تصور کے مطابق آواز کو دو طرح کا کہا گیا ہے۔
اول ارتعاش فلک: یہ فیثا غورثیوں کی اختراع ہے جسے نغمہ افلاک بھی کہتے ہیں۔یہ انسانی دائرہ سماعت سے باہر ہے۔یہ موسیقی بے ساخت اور بے ہیئت ہے۔
دوم ارتعاش ہوا: باہیئت اور بانظم آواز ہے ۔جسے انسان کی بنائی ہوئی موسیقی کا مادہ تصور کیا جاتا ہے۔ تا ہم مانا جاتا ہے کہ یہ آواز کائنات کے قوانین کو منعکس کرتی ہے اور یہ ذہن کی تپش سے جسم کے تنفس کے ربط کا نتیجہ ہے۔
آئیے اب سریلی آواز پر بھی کچھ گفتگو کرتے ہیں۔
اس ضمن میں یاد رہے کہ اصول موسیقی میں آواز کے دو حصے تسلیم کیے گئے ہیں ۔
صدائے محض یا صدائے کرخت: یعنی وہ آواز جو گانے کے صرف میں نہیں آ سکتی جیسے ریل کی آواز ، بندوق کا دھماکہ
صدائے موسیقی یا صدائے لطیف: وہ آواز جو گانے میں آئے ۔
آواز کی خصوصیات: اس کی موسیقی میں تین خصوصیات بیان کی گئی ہیں۔
آواز کا حجم
آواز کی نوعیت
آواز کا نشیب و فراز
یاد رہے موسیقی کی اساس آوازوں کے تناسب پر قائم ہے۔
اس کے بعد آواز کے متعلق آواز کو حاصل کرنے کے تین وسائل درج کیے جاتے ہیں۔
ایک ایسا آلہ جو ارتعاش پیدا کرے( مثلا انسانی منہ)
ایک ترسیلی نظام یا درمیانی رابط
ایک مرسل آلہ( کان)
یاد رہے آواز کے یہ تینوں وسائل نہ حرام ہیں دین اسلام میں۔ نہ آواز کی خصوصیات ۔نہ آواز۔ آواز میں ادا کیے گئے الفاظ جو کبھی شاعری کی اور کبھی نثر کی شکل میں ہوتے ہیں ۔نہ بذات شاعری ونثر دین اسلام میں حرام ہیں ۔ شاعری و نثر میں شرکیہ الفاظ ، فحش الفاظ جو فحش جذبات کو بھڑکائیں ۔برے ہیں ۔ برے کے الفاظ بھی اس لیے استعمال کیے ہیں کہ بعض جگہ ایسے الفاظ کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ آوازوں کی ترتیب ، آوازوں کا گنگنانا برا نہیں ہے ۔ البتہ آلات موسیقی اختلافی مسئلہ ہے۔
آئیے اب موسیقی کے عناصر ترکیبی دیکھتے ہیں۔
اجزائے موسیقی:
میلوڈی
ہارمونی
لے ( تال)
آواز کی کیفیت
موسیقی کو آرٹ آف آرٹس کہا جاتا ہے۔ موسیقی کو اپنے شدید اصولوں کی بنا پر سائنس جبکہ فطرت کے لحاظ سے فن کہا جاتا ہے۔ پس اس کی حیثیت دوہری ہے ۔ سائنس کی حیثیت سے اسے کچھ اصولوں کے تابع رہنا ہے جبکہ بحثیت فن یہ اپنے لیے ہیئت اور اصول خود ہی تشکیل دے لیتی ہے۔بہرحال آج موسیقی کے متعلق کچھ معلومات دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔
سب سے پہلے یہ جان لیجیے کہ موسیقی کے سر سات ہوتے ہیں۔ جو یہ ہیں۔
سا ، رے ، گا ، ما ، پا ، دھا ، نی
ان سروں کے مجموعے کا نام” سرگم “ہے . یاد رہے کہ جب سرگم کی جاتی ہے تو آخری سر ” نی” کے بعد ” سا” کا اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ یعنی یوں کہا جاتا ہے۔
سا ، رے، گا ، ما ، پا ، دھا ، نی ، سا= آروہی
یاد رہے کہ یہ لائن بھی سرگرم کا نصف حصہ ہے ۔سرگم اس وقت مکمل ہو گی جب ان سروں کی ترتیب کو الٹا کر کے بھی کہیں گے ۔یعنی اس طرح
سا ، نی ، دھا ، پا ، ما ، گا ، رے ، سا= امروہی
اب سیدھی اور یہ الٹی ایک مکمل سرگم ہے ۔ مکمل سرگم کی پہلی لائن کو آروہی اور دوسری سطر کو امروہی کہتے ہیں۔
سات سر جو سب سے پہلی لائن میں بیان ہوئے تھے ۔ان میں سے ہر سر کا ایک نام ہے۔ جو درج ذیل ہیں۔
سا= کھرج = علم موسیقی کا سب سے پہلا سر جو سب سے پست ہوتا ہے ۔
رے= رکھب
گا= گندھار
ما= مدھم
پا= پنجم
دھا= دھیوت
نی = نکھاد
اگر غور کریں تو سات سروں کے پہلے سر کے نام کے علاوہ باقی چھ سروں کا نام اسی سر کے حرف پر ہے۔
اگر آپ سرگرم کو تھوڑا اونچی پڑھیں تو آپ کو محسوس ہو گا جوں جوں آواز اونچی ہوتی جائے گی وہ پتلی ہوتی جائے گی۔ ایک حد تک جانے کے بعد آواز ابتدائی آواز سے دگنی اونچی ہو گی ۔ آواز کی ان دو حدوں کے درمیان فاصلہ کو سپتک یا اوکٹیو کہا جاتا ہے۔ اسی سپتک کو سات حصوں میں تقسیم کر کے ان سات آوازوں یا سروں کے مندرجہ بالا نام رکھے گئے تھے۔
سا = کھرج ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس سر کو قائم سر بھی کہتے ہیں۔
پا= پنجم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس سر کو بھی قائم/ اٹل/ اچل سر ہیں۔ان کے ساتھی سر نہیں ہوتے۔
جبکہ باقی سروں کو کومل اور تیور میں تقسیم کیا گیا ہے۔
پہلا رے کومل دوسرا رے تیور
پہلا گا کومل دوسرا گا تیور
پہلا ما کومل دوسرا ما تیور
پہلا دھا کومل دوسرا دھا تیور
پہلا نی کومل دوسرا نی تیور
تیور سے مراد چڑھا ہوا اور کومل سے مراد نرم یعنی اترا ہوا۔
سپتک:
اوپر اس کے بارے بیان ہو چکا ہے۔لیکن یاد رہے جس سپتک میں گانا گایا جاتا ہے اس کو مدھو سپتک، اس سے اوپر والے سپتک کو تار سپتک اور نیچے والے کو مندر سپتک کہا جاتا ہے۔ہارمونیم پر ان تینوں سپتک کو تقسیم کیا جا سکتا ہے۔دراصل ان کا تعلق پریکٹس سے ہے ۔ اس لیے پوسٹ میں اس قدر آگاہی پر اکتفاء کیا جاتا ہے۔ باقی شوقین حضرات موسیقی کی لکھی گئی کتب سے رہنمائی لے سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر وقاص احمد پی ایچ ڈی اسلامک سٹڈیز ہیں۔آپ وائٹل گروپ آف کالجز گوجرانوالہ میں شعبہ اسلامیات اور اردو کے ہیڈ ہونے کے ساتھ ساتھ پنجاب یونیورسٹی گوجرانوالہ کیمپس میں وزٹنگ اے پی ہیں ۔
کمنت کیجے