Home » مسئلہ خیار بلوغ، امتداد خیار بلوغ وولایت اجبار: فقہی ، معاشرتی و قانونی جائزہ
سماجیات / فنون وثقافت فقہ وقانون

مسئلہ خیار بلوغ، امتداد خیار بلوغ وولایت اجبار: فقہی ، معاشرتی و قانونی جائزہ

ڈاکٹر فرخ نوید

اسلامی شریعیت کی رو سے نابالغ و کمسن بچے اور بچی کا نکاح منعقد ہو جاتا ہے تاہم لڑکی کو بلوغت کی عمر تک پہنچنے پر نکاح کو باقی رکھنے یا ختم کرنے کا اختیار دیا جاتا ہے جسے خیار بلوغ کہتے ہیں۔

حنفی نقطہ نظر کے مطابق لڑکی کو خیار بلوغ تب حاصل ہو گا جب اس کا نکاح باپ یا دادا کے علاوہ کسی اور نے (مثلا ماں، بھائی، ماموں، چچا وغیرہ) کروایا ہو۔ تاہم اگر یہ نکاح باپ یا دادا میں سے کسی ایک نے کروایا ہو تو بالغ ہونے پہ لڑکی کو خیار بلوغ حاصل نہ ہو گا کیونکہ نابالغہ لڑکی پہ باپ اور دادا کو ولایت اجبار حاصل ہوتی ہے۔

چناچہ علامة مرغینانی اپنی مشہور کتاب الھدایة میں رقم طراز ہیں کہ

فان زوجھما الاب و الجد یعنی الصغیر و الصغیرة فلا خیار لھما بعد بلوغھما لانھما کاملا الرای وافر الشفقة فلیزم العقد بمباشرتھما کما اذا باشراہ برضاھما بعد البلوغ۔ وان زوجھما غیر الاب و الجد فلکل واحد منھما الاخیار اذا بلغ ان شاء اقام علی النکاح و ان شاء فسخ

یعنی باپ  اوردادا نے اگر دونوں (صغیر و صغیرہ) کا نکاح کر دیا ہوتو انہیں خیار بلوغ حاصل نہیں ہوتا ۔ وجہ اسکی یہ ہے کہ باب اور دادا میں کامل شفقت موجود ہوتی ہے اور وہ کامل الرای ہوتے ہیں لہذا ان کا کیا ہوا نکاح لازم ہو گا (اسی کو ولایت اجبار کہتے ہیں بشرطیکہ کہ ان کا سوء الاختیار ہونا ثابت نہ ہو) اور اس صورت میں  دونوں کوخیار بلوغ حاصل نہ ہوگا (چاہے نکاح کا مہر غبن فاحش کے ساتھ ہی کیوں نہ قبول کیا ہو اور چاہئے غیر کفوء میں ہی کیوں نہ کر دیا ہو)۔ لیکن اگر باپ دادا کے علاوہ کسی اور نے نکاح کر دیا تو دونوں کواختیار ہوگا کہ چاہے تو نکاح کو باقی رکھیں یا (خیار بلوغ کی وجہ سے) فسخ کر دیں۔

صاحب البحرالرائق اس مسئلے کے ضمن میں رقم طراز ہیں کہ

قوله: ولهما خيار الفسخ بالبلوغ في غير الأب والجد بشرط القضاء( أي للصغير والصغيرة إذا بلغا وقد زوجا)، أن يفسخا عقد النكاح الصادر من ولي غير أب ولا جد بشرط قضاء القاضي بالفرقة، وهذا عند أبي حنيفة ومحمد رحمهماالله … بخلاف ما إذا زوجها الأب والجد؛ فإنه لا خيار لهما بعد بلوغهما؛ لأنهما كاملا الرأي وافرا الشفقة فيلزم العقد بمباشرتهما كما إذا باشراه برضاهما بعد البلوغ.

اور علامة شامی فتاوی شامی میں تحریر فرماتے ہیں کہ

ولزم النكاح ولو بغبن فاحش ) بنقص مهرها وزيادة مهره ( أو ) زوجها ( بغير كفوء إن كان الولي  المزوج بنفسه بغبن فاحش  (أباً أو جدًا) وكذا المولى وابن المجنونة ( لم يعرف منهما سوء الاختيار ) مجانةً وفسقًا  ( وإن عرف لا) يصح النكاح اتفاقًا،

اسی لئے دور حاضر کے حنفی علماء و مفتیان بھی باپ دادا کی  ولایت اجبار کے تحت  صغر سنی  میں ان کے کیے ہوئے نکاح کو لازم قرار دیتے ہیں چاہے غیر کفوء میں ہی کیوں نہ ہو اور صغیر و صغیرہ کو اس ضمن میں خیار بلوغ نہیں دیتے (مثال کے طور پہ ملاحظہ ہوفتاری تاتارخانیہ، فتاوی دارالعلوم دیوبند، فتاوی عثمانی از مفتی تقی عثمانی مدظلہ العالی)۔

اورمذید حیرت کی بات یہ ہے کہ باکرہ بالغہ اپنا نکاح اگر غیر کفوء میں کر لے تو اولیاء کو اعتراض کا حق حاصل ہوتا ہے اور وہ ایسے نکاح کو عدالت کے ذریعے فسخ کروا سکتے ہیں جبکہ وہی اولیاء (باپ و دادا) اگر نابالغہ کا نکاح  غیر کفوء میں کر دیں تو اس مسکینہ کوخیار بلوغ حاصل نہیں ہوتا اور وہ اس نکاح کو ٖفسخ نہیں کر سکتی۔

: حنفیہ کے نقطہ نظر کا تنقیدی جائزہ

سطور ذیل میں حنفیہ کے اس نقطہ نظر کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔

1 سب سے پہلی بات یہ ہے کہ حنفیہ کے مطابق باپ دادا کو صغیر و صغیرہ پہ ولایت اجبار حاصل ہوتی ہے جس کی وجہ سے ان کا کیا ہوا نکاح لڑکی کے لئے لازم ہے اور وہ بلوغت کے بعد اس سے انکار نہیں کر سکتی الا یہ کہ باپ اور دادا سیئی الاختیار ہوں۔

سوال یہ ہے کہ باپ دادا کو ولایت اجبار کس شرعی دلیل سے حاصل ہوتی ہے؟ قرآن مجید کی کسی آیت یا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی حدیث میں ولایت اجبار کا ذکر نہیں ملتا۔ خود حنفی فقہاء (مثلا صاحب ھدایة) بھی ولایت اجبار کا ثبوت کسی نص سے نہیں بلکہ قیاس سے کرتے ہیں۔ یعنی چونکہ باپ دادا کو اپنی اولاد سے فطرتا محبت و شفقت ہوتی ہے لہذا اس کا تقاضا یہ ہے کہ ان کے لئے ولایت اجبار ثابت کی جائے کیونکہ وہ کوِئی ایسا اقدام نہیں اٹھائیں گے جو اولاد کے لئے ضرر کا باعث ہو بلکہ اپنے فیصلوں میں اولاد کی خیرخواہی کو مدنظر رکھیں گے۔

لے دے کے علامہ سرخسی رح نے المبسوط میں ولایت اجبار کے ثبوت کے لئے ایک دلیل پیش کی ہے کہ حضرت ابو بکر رض نے حضرت عائشہ کا نکاح کمسنی کی حالت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تھا ۔ پھر حضرت عائشہ کے بالغ ہونے پر حضور علیہ سلام نے ان سے یہ نہیں فرمایا کہ تمہیں اس نکاح کو قبول کرنے یا نہ کرنے کا اختیار ہے حالانکہ اگر نابالغہ کو یہ اختیار حاصل ہوتا تو جس طرح قرآن مجید کی آیت تخییر نازل ہونے پر آپ علیہ سلام نے ان کو اختیار دیا تھا اسی طرح اس معاملے میں بھی ضرور اختیار دیتے۔

لیکن اس استدلال میں ایک نقص یہ ہے کہ حضرت عائشہ رض کے لئے خیار بلوغ کا عدم ثبوت تب صحیح ہو سکتا تھا جب سیدہ عائشہ نے بالغ ہو کر خیار بلوغ  کے تحت اپنے والد (حضرت ابو بکر رض) کے کئے ہوئے نکاح کو رد کیا ہوتا اور خیار بلوغ کا حق مانگا ہوتا اور جواب میں نبی علیہ سلام نے یہ فرما دیا ہوتا کہ چونکہ یہ نکاح تہمارے باپ نے کیا ہے لہذا تمہیں بالغ ہونے پہ نکاح کو رد کرنے کا اختیار نہیں۔

دوسری بات یہ سوچنے کی ہے کہ حضرت عائشہ نے تو خیار بلوغ طلب ہی نہیں کیا وہ تو اس نکاح پہ راضی تھیں ۔ تو اگر انہیں خیار بلوغ نہیں دیا گیا تو یہ اس بات کی دلیل کب بن سکتا ہے کہ باپ کے مقابلے میں لڑکی کو سرے سے خیار بلوغ حاصل ہی نہیں۔

2:حنفیہ کے ہاں صغیرہ کے باپ دادا کے لئے ولایت اجبار اس لئے ثابت ہوتی ہے کہ وہ دونوں کامل الرائے اور وافر الشفقہ ہوتے ہیں۔ لیکن عجیب بات ہے کہ بالغ ہوتے ہی لڑکی اپنی مرضی سے بغیر اولیاء کی رضا مندی کے بھی کفوء میں نکاح کر سکتی ہے (چاہے اولیاء مثلا باپ دادا) کو اعتراض ہی کیوں نہ ہو۔ سوال یہ ہے کہ یہ کامل الرائے اور وافر الشفقہ کا فلسفہ یہاں کیوں اپلائی نہیں کیا جاتا۔ بلوغت پہ بھی یہ کہ دینا چاہیئے کہ چونکہ باپ دادا میں شفقت زیادہ ہے لہذا بالغ لڑکی کو بھی اپنا نکاح باپ دادا کی مرضی سے کرنا چاہیئے حالانکہ نکاح بالغہ کے کیس میں حنفیہ ولی (چاہے باپ دادا ہی کیوں نہ ہو) کی اجازت کے بغیر بھی نکاح کو جائز قرار دیتے ہیں۔

چانچہ مولانا مودودی رح اس ضمن میں تحریر فرماتے ہیں کہ

یہ عجیب بات ہے کہ اگر لڑکی بالغ ہو تو باپ دادا کے مقابلے میں اسے اپنی رائے استعمال کرنے کا حق حاصل ہو لیکن وہی لڑکی اگر نابالغ ہو تو اس کا حق کلیة سلب کر لیا جائےحالانکہ معاملہ نکاح کے ساتھ عورت کے تعلق کی جس اہمیت کو ملحوظ رکھ کر شارع نے اس کو یہ حق دیا ہےوہ دونوں حالتوں میں یکساں ہے۔ اگر کسی کو کامل الرائے اور وافر الشفقہ ہونے کی بناء پر ولایت اجبار حاصل ہو سکتی ہےتو وہ بلوغ کی حالت میں بھی اسی طرح ہونی چاہیئے جس طرح عدم بلوغ میں ثابت ہوتی ہے

3 تیسرا اعتراض اس نقطہ نظر پہ یہ ہے کہ ولایت اجبار کے مسئلے میں یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ باپ دادا ہمیشہ کامل الرائے و وافر الشفقہ ہی ہوتے ہیں۔ لیکن یہ کوئی قاعدہ کلیة نہیں۔ ایسے کیسز بھی ہو سکتے ہیں جہاں باپ دادا کسی ایسی جگہ پہ نسبت طے کر دیتے ہیں جہاں بڑے ہو کر بچی کا نبھا کرنا مشکل ہو جائے لیکن وہ اپنی براداری و خاندانی روایات کی وجہ سے کچھ بول نہ سکتی ہو۔ اب اگر اس حالت میں بھی اسکو خیار بلوغ نہ دیا جائے تو یہ اس پہ ظلم ہو گا۔ اور اس سے نکاح کے وہ مصالح فوت ہو جائیں گے جو شریعیت کے پیش نظر ہیں۔ باپ دادا کے کامل الرائے و وافر الشفقہ ہونے سے یہ کیسے لازم آتا ہے کہ وہ ہر حال میں درست فیصلہ ہی کریں (چاہے  وہ  فیصلہ نیک نیتی کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو)۔

ایک اور اہم بات اس ضمن میں یہ ہے کہ اگر باپ دادا نیک نیتی اور وفور شفقت کے ساتھ کسی صغیرہ کا نکاح صغیر کے ساتھ کر دیں اور بعد میں لڑکے کے جوان ہونے کے بعد پتا چلے کہ وہ اخلاقا اچھا نہیں یا کسی برائی میں مبتلا ہے اور وہ ان کی توقعات پہ پورا نہ اترے تو کیا پھر بھی صغیرہ کو صرف اس لئے خیار بلوغ حاصل نہ ہو گا کہ اس کا نکاح باپ دادا نے کر دیا تھا۔ حنفی فتاوی جات کی رو سے سوائے باپ دادا کے سئیئ الاختیار ہونے کے باقی ہر صورت میں ان کا کیا ہوا نکاح لازم ہوتا ہے جو ظاہر ہے اس صورت میں لڑکی کے لیے ضرر کا باعث ہوگا۔

4:احادیث سے یہ ثابت ہے کہ نبی علیہ سلام نے حضرت حمزہ کی صاحب ذادی کا نکاح چھوٹی عمر میں عمر بن ابی سلمہ سے کر دیا تھا یہ کہہ کر کہ بالغ ہونے کے بعد اسکو اختیار ہے چاہے تو اس نکاح کو باقی رہنے دے اور چاہے تو رد کر دے۔ اگر غور کیا جائے تو اس حدیث سے کم سن و نابالغہ بچی کے لئے خیار بلوغ مطلقا ثابت ہوتا ہے کیونکہ حضور علیہ السلام نے یہ تصریح نہیں فرمائی کہ میں چونکہ لڑکی کا باپ یا دادا نہیں ہوں اس لئے اسے خیار بلوغ حاصل ہے بلکہ مطلقا خیار بلوغ کا اثبات فرمایا ۔

ان تمام وجوہات کی بناء پر یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ حنفیہ کا موقف اس مسئلے میں درست نہیں اور وہ کمزور دلائل پہ مبنی ہے۔ لہذا حنفی مفتیان کو اس جزئیے پہ نظر ثانی کرنی چاہیے تاکہ کمسن بچیاں  اس مسئلے میں اپنے جائز شرعی حق سے محروم ہو کرمشکلات کا شکار نہ ہوں۔

: مسئلہ ھذا کا معاشرتی نقطہ نظر سے جائزہ

اوپر کی سطور میں خیار بلوغ اور اجبار ولایت کے مسئلے کا شرعی نقطہ نظر سے جائزہ لیا گیا ہے۔ زیر بحث مسئلے کو معاشرتی نقطہ نظر سے بھی دیکھا جانا چاہیئے۔

ہمارے ہاں مختلف علاقوں اور مختلف خاندانوں و قبائل میں جہاں خاندان کے بزرگوں (باپ دادا وغیرہ) کا ہولڈ ہوتا ہے وہاں بسا اوقات بچیوں کا نکاح باپ دادا کی مرضی سے صغر سنی میں کر دیا جاتا ہے۔ اب بچی اپنی خاندانی روایات و خاندانی جبر کے تحت اس نکاح کو قبول تو کر لیتی ہے کیونکہ وہ خاندان کے بزرگوں کی کفالت میں ہوتی ہے اور ان کی مرضی کے خلاف جانا نہیں چاہتی۔ لیکن وہ دلی طور پہ اس نکاح پہ راضی نہیں ہوتی۔ خصوصا جب وہ یہ دیکھتی ہے کہ جس لڑکے کا نکاح اس سے بچپن میں کر دیا گیا تھا وہ بڑا ہو کر نالائق نکلا ہے اور اسکی توقعات کے مطابق نہیں نکلا۔ اس صورت میں لڑکی کو بالغ ہونے کے بعد اگر خیار بلوغ نہ دیا جائے جس کے مطابق وہ نکاح کو فسخ کر سکے اور اسکی رضا مندی کے بغیر اسکو اس رشتے کو نبھانے پہ مجبور کیا جائے تو لڑکی کے شدید حرج میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہے۔ ایسا زبردستی کا بندھن  نکاح کے وہ مقاصد و مصالح ہی پورے نہیں کرے گا جو شریعیت کو نکاح سے مقصود ہیں۔ لہذا اس کی بہتر صورت یہی ہے کہ باپ دادا کے نکاح کے باوجود لڑکی کو خیار بلوغ دیا جائے تاکہ وہ اپنی زندگی گزارنے کا فیصلہ اپنی آذادانہ رضا مندی سے لے سکے۔

: مسئلہ ھذا کا قانونی نقطہ نظر سے جائزہ

اس مسئلہ کو اگر قانونی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو پاکستانی قانون کے مطابق بھی ایسی بچی جسکا نکاح صغر سنی میں (سولہ سال سے پہلے) کر دیا جائے تو سولہ سال (جسے قانون لڑکی کی بلوغت کی عمرتصور کرتا ہے)   کے بعد  اس لڑکی کو خیار بلوغ حاصل ہوتا ہے چاہے اس کا نکاح باپ دادا نے کیا ہو یا کسی اور نے۔ گویا قانون باپ دادا کے کئے گئے نکاح میں بھی لڑکی کو خیاربلوغ کے استعمال کا حق دیتا ہے۔ چناچہ

کے سیکشن 2 سب سیکشن 7 میں مذکور ہے کہ ایک لڑکیThe dissolution of Muslim Marriage act, 1939

درج ذیل وجہ سے (خیار بلوغ کی صورت میں) بھی تنسیخ نکاح  کا حق رکھتی

“That she, having been given in marriage by her father or other guardian before she attained the age of 16 years, repudiated the marriage before attaining the age of 18 years provided that the marriage has not been consumated”

یعنی نکاح چاہے باپ دادا کا ہی کیا ہوا ہو لیکن لڑکی کو بلوغت کے بعد خیار بلوغ حاصل ہو گاجس کی وجہ سے وہ نکاح کو فسخ کرنے کا حق رکھتی ہے۔ پاکستان کی مختلف عدالتوں نے اسی قانون کے تحت مختلف کیسز کا تصفیہ کیا ہے جہاں نابالغہ کو بلوغت کے بعد خیار بلوغ دیا گیا ہے جہاں وہ عدالت میں جائے بغیر حق بلوغ استعمال کرتے ہوئے شادی کو ختم کر سکتی ہے۔

مثلا مقدمہ نور محمد بنام ریاست میں عدالت عالیہ لاہور نے اور ساجد محمود بنام ریاست میں فیڈرل شریعیت کورٹ نے یہ فیصلہ دیا کہ اگر کسی کی صغر سنی میں شادی ہوئی ہو اور وہ عدالت جائے بغیر حق خیار بلوغ استعمال کرتے ہوئےاس شادی کو ختم کر دے تو یہ درست ہو گا۔

(PLD 1976 Lahore, 516, PLD 1995 FSC, 1.)

ہمارے ملک میں صغر سنی میں نکاح کے زیادہ تر واقعات وہی ہوتے ہیں جہاں باپ دادا نے نکاح کرا دیا ہوتا ہے لہذا عدالتوں نے اس ضمن میں نابالغہ لڑکی کو خیار بلوغ کا حق دیا ہے تاکہ وہ حرج میں مبتلا نہ ہو اور اس کے حقوق کا تحفظ ہو سکے۔

یہ حق دینا اگرچہ فقہ حنفی کے خلاف ہے لیکن شریعیت کی مجموعی اسپرٹ کے مطابق ہے جس سے نابالغہ بچیوں کے حقوق کا تحفظ ہوتا ہے اور وہ اس حق کو استعمال کرتے ہوئے اپنی آزادانہ رضا مندی سے نکاح کو باقی رکھنے یا ختم کرنے کا فیصلہ کرسکتی ہیں۔ لہذا ہماری رائے میں یہ قانون بالکل درست ہے اور علماء کرام کو بھی اسی کے مطابق فتوی دینا چاہئیے۔

: خیار بلوغ کا اختیار کب تک ہوتا ہے (خیار بلوغ کب تک ممتد ہوتا ہے)

حنفیہ کا نقطہ نظر یہ ہے کہ باپ اور دادا کے علاوہ کسی اور نے کمسن لڑکے یا لڑکی کا نکاح کیا ہو تو لڑکی کو بالغ ہونے کے بعد خیار بلوغ حاصل ہوتا ہے تاہم اس اختیار کو استعمال کرنے کی وہ یہ شرط عائد کرتے ہیں کہ جب لڑکی بالغ ہو (حیض وغیرہ آنے سے) اور اسے نکاح کی خبر ہو تو اسی وقت اور اسی مجلس میں وہ اپنی عدم رضا مندی کا اظہار کرے۔ اگر وہ اس میں تاخیر کرے یہاں تک کہ مجلس کا اختتام ہونے کے قریب ہو یا مجلس ختم ہو جائے تو اسے خیار بلوغ حاصل نہ ہو گا۔ اسی مسئلے کو یوں تعبیر کیا جاتا ہے کہ کیا خیار بلوغ مجلس کے آخر تک ممتد ہو گا یا نہیں۔چناچہ علامہ مرغینانی اپنی مشہور کتاب الھدایة میں تحریر فرماتے ہیں کہ

و خیار البلوغ فی حق البکر لا یمتد الی آخر المجلس

یعنی باکرہ کا خیار بلوغ مجلس کے آخر تک ممتد نہیں ہو گا (یعنی نہیں رہے گا)۔

علامہ شامی رح الدر المختار میں تحریر فرماتے ہیں

قال فی الدر المختار و بطل خیار البکر بالسکوت لو مختارة عالمة اصل النکاح (الی ان قال) ولا یمتد الی آخر المجلس۔

یعنی باکرہ (جب بالغ ہو) اور اسے نکاح کی خبر ہو اور وہ چپ رہے تو (اسکی اس خاموشی کی وجہ سے) خیار بلوغ باطل ہو جائے گا اور وہ مجلس کے آخر تک ممتد نہ ہو گا۔

یہ شرط بھی صرف باکرہ کے لئے ہے ورنہ ثیبہ اور نابالغ لڑکے کے لئے حکم یہ ہے کہ جب تک وہ اپنی رضا کی تصریح نہ کر دیں ان کو نکاح کے فسخ کرنے کا اختیار باقی رہتا ہے۔

خیار بلوغ کے مجلس  کے آخرتک ممتد نہ ہونے کے مسئلے میں بھی حنفیہ کا موقف درج ذیل وجوہ کی وجہ سے  درست معلوم نہیں ہوتا۔

1 یہ مسئلہ خالصتا اجتہادی نوعیت کا ہے جس کی بنیاد محض فقہاء کے قیاس رائے پہ ہے اور جسکا کوئی ثبوت قرآن و سنت میں نہیں ملتا۔

2 اگر اس بات پر غور کیا جائے کہ باکرہ نابالغہ کو خیار بلوغ کیوں دیا جاتا ہے  اور خیار فسخ کو بلوغ کے ساتھ کیوں مشروط کیا جاتا ہے تو اس کی وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ بالغ ہونے کے بعد باکرہ لڑکی سن رشد کو پہنچ جاتی ہے اور اس میں برے بھلے کی تمیز اور شعور پیدا ہو جاتا ہے۔ اور وہ اپنی عقل سے کام لے کر اپنے اچھے یا برے کا فیصلہ کر  سکتی ہے۔

لیکن ساتھ ساتھ یہ چیز بھی دیکھنے کی ہے کہ بالغ ہونے کے فورا بعد بلوغ کی علامت ظاہر ہوتے ہی اس لڑکی کے اندر اچانک سے کوئی بڑی تبدیلی یا انقلاب رونما نہیں ہو جاتا اور نہ ہی بلوغ کے آنا فانا بعد اس میں رائے قائم کرنے کی صلاحتیں ابھر آتی ہیں۔ اس لئے اس سے یہ مطالبہ کرنا کہ وہ فورا و آنا فانا ہی بغیر کچھ وقت لئے اپنی رائے کا اظہار کر دے کوئی معقول مطالبہ نہیں۔ لیکن اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ بالغ ہوتے ہی اس میں بصیرت پیدا ہو جاتی ہے تو بلوغ کے فورا بعد ثیبہ اور نابالغ لڑکے کا حال بھی باکرہ کے حال سے مختلف نہیں ہوتا یعنی ان میں اچانک کوئئ تبدیلی نہیں آ جاتی۔ پس اگر ان دونوں (ثیبہ اور نابالغ لڑکے ) کے خیار بلوغ کو اس وقت تک کے لئے ممتد کیا جا سکتا ہے جب تک وہ قولا یا فعلا اپنی رضا کا اقرار نہ کریں تو آخر باکرہ ہی کا کیا قصور ہے کہ اسے سوچنے سمجھنے کے لئے مناسب وقت نہ دیا جائے اور مجلس کے اختتام تک یا اس سے بھی کچھ دیر بعد تک اس کے خیار بلوغ کو ممتد نہ کیا جائے۔

ان ساری باتوں سے صرف نظر کرتے ہوئے  حضرات علماء کرام خیار بلوغ کو مجلس کے آخر تک یا ایک مناسب مدت تک ممتد نہیں کرتے اور فقہ کی کتابوں میں مذکور اس جزئیے سے سر مو انحراف کرنے کو تیار نہیں ہوتے( تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو فتاوی عثمانی از مفتی تقی عثمانی مدظلہ، فتاوی دار العلوم دیوبند، و فتاوی تاتار خانیہ) چاہے اس کی وجہ سے بعد میں لڑکی کتنی ہی تنگی یا حرج میں مبتلا ہو جائے

حضرات علماء کرام کو اس پہ غور کرنا چاہئیے کہ ایک باکرہ بچی کا حق خیار بلوغ وہ صرف اس وجہ سے سلب کر رہے ہیں کہ اس نے حیض کا خون دیکھتے ہی فورا  اپنی رضا مندی کا اظہار کیوں نہیں کیا۔ یہ عین ممکن ہے کہ اگر اس کو کچھ دیر مذید سوچنے کی مہلت دی جاتی (جیسے ثیبہ اور نابالغ لڑکے کو انکی قولا یا فعلا تصریح تک دی جاتی ہے) تو وہ اس نکاح کو قبول کرنے پہ راضی نہ ہوتی۔ اس کے باوجود بھی اگر ولی اس کے خیار بلوغ کو ختم مان کر زبردستی اس کو خاوند کے حوالے کر دے (چاہے وہ اس کے ساتھ رہنے پہ راضی نہ ہو) تو اس سے نکاح کے وہ مقاصد و مصالح پورے نہیں ہوتے جو شریعیت کے نکاح جیسے مقدس رشتے میں پیش نظر ہیں۔

اس ضمن میں پاکستانی عدالتوں میں دائر فیصلے بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ نابالغہ کا حق خیار بلوغ فورا ہی ختم نہیں ہوتا بلکہ اسے ایک قابل ذکر مدت تک فسخ نکاح کا اختیار حاصل ہوتا ہے۔

مثلا مقدمہ محمد ریاض بنام روبینہ بی بی میں عدالت عالیہ لاہور نے یہ فیصلہ دیا تھا کہ حق خیار بلوغ استعمال کرنے کے لئے زوجہ کو تین باتیں ثابت کرنا ہوں گی۔ پہلی یہ کہ نکاح کے وقت اسکی عمر 16 سال سے کم تھی (جو کہ قانونا لڑکی کے لئے بلوغ کی عمر ہے)۔ دوم یہ کہ اسکے اور لڑکے کے درمیان ازدواجی تعلقات قائم نہیں ہوئے۔ سوم یہ کہ لڑکی نے 18 سال کی عمر کو پہنچنے سے پہلے (خیار بلوغ کے تحت) نکاح ختم کر دیا تھا۔

CLC 1985 Lahore, 1808

اب یہاں عدالت لڑکی کو بالغ تو 16 سال کی عمر میں تصور کر رہی ہے جبکہ نکاح کو ختم کرنے کا اختیار(خیار بلوغ کے تحت) 18 سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے تک دے رہی ہے۔ گویا خیار بلوغ کو یہاں ممتد کیا جارہا ہے۔ لہذا ہماری رائے میں فقہاء حنفیہ کو خیار بلوغ کو ایک مناسب وقت تک ممتد کرنا چاہئیے تاکہ اس دوران لڑکی کو غور و فکر کا موقع مل سکے تاکہ وہ نکاح کو باقی رکھنے یا نہ رکھنے کا فیصلہ سوچ سمجھ کر کر سکے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر صاحب نے  مینجمنٹ سائنسز میں پی ایچ ڈی کی ہے ائیر یونیورسٹی اسلام آباد سے۔ ان کے تخصص کا میدان فنانس ہے خصوصا اسلامک و کارپوریٹ فنانس  اور اس میں مختلف مقالات بھی تحریر فرمائے چکے ہیں جو موقر بین الاقوامی ریسرچ جرنلز میں شائع ہوئے ہیں۔ علوم اسلامیہ میں درس نظامی کے بھی فاضل ہیں۔  آج کل رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی فیصل آباد میں مینجمنٹ سائنسز کے شعبہ میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر خدمات انجام دے رہے ہیں۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں