عمران شاہد بھنڈر
جزئی اور کُلی کی بحث قدیم ہے اور اس کا جامع تجزیہ افلاطون کی کتاب ’جمہوریہ‘ کی کتاب دو میں ملتا ہے۔افلاطون تصورِ عدل سے متعلق جزئی اور کُلی کی بحث سے یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ عدل کا ایک ایسا تصور موجود ہے جو کُلیہ کی حیثیت رکھتا ہے اور وہ تصور زمان و مکان سے ماورا ہے۔ اس طرح افلاطون دو دنیاؤں (حقیقی اور مثالی) کے درمیان ایک حتمی تفریق قائم کردیتا ہے۔ارسطو کے لیے افلاطون کے کُلیات کے بارے پیش کیے گئے نتائج قابلِ قبول نہیں تھے۔ ارسطو نے انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور ”دی آرگینن“ کی ابتدائی دو کتابوں جو کہ”مقولات“ اور”تشریحات“ کے عنوان سے لکھی گئی تھیں، ان میں مثالوں کی مدد سے یہ ثابت کر دیا کہ جزئیات یا اشیا سے الگ کُلیات کا کوئی وجود نہیں ہے۔ ارسطو یہ مثال پیش کرتا ہے کہ اگر بہت سی چیزیں سفید رنگ کی موجود ہیں تو ان میں ’سفیدی‘ وہ شے ہے جسے کُلیہ کہا جاتا ہے۔ افلاطون کے مطابق یہ ”سفیدی“ ایک ایسا کُلی تصور تھا جس کی وجہ سے مختلف اشیا میں سفید رنگ دکھائی دیتا ہے، جبکہ خود “سفیدی” کا تصور حسیات سے ماورا ہے۔ افلاطون کے برعکس ارسطو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ ایسا کوئی کُلیہ موجود نہیں ہے جو کہ شے سے الگ وجود رکھتا ہو۔ یعنی سفیدی دراصل سفید اشیا میں موجود کُلیہ ہے اور اگر اشیا نہیں ہیں تو پھر ”سفیدی“ کا بھی کوئی وجود نہیں ہے۔ لہذا افلاطون کے لیے جو تصور قبل تجربی (Transcendental) تھا وہی تصور ارسطو کے لیے داخل یاImmanent ہے، یعنی شے سے الگ زمان و مکاں سے ماورا نہیں بلکہ شے کے اندر موجود ہے۔
اٹھارویں صدی میں عمانوئیل کانٹ نے برطانوی تجربیت اور جرمن عقلیت کی تنقید پیش کی۔ کانٹ سے قبل تجربیت پسندوں کا یہ دعویٰ تھا کہ تمام علم کی بنیاد تجربہ ہے۔ اس طرح وہ تمام تصورات کو تجربی تصورات ہی خیال کرتے تھے۔ وہ عقل کو کوئی الگ مقام دینے کے لیے تیار نہیں تھے۔ ان کے برعکس عقلیت پسند تجربے کو کسی خاطر میں لانے کو تیار نہیں تھے۔ ان کے خیال میں عقل کے قبل از تجربہ منطقی استدلال سے وجودیاتی استخراج کیا جا سکتا ہے۔ کانٹ کا فلسفہ ان دونوں انتہاؤں کے درمیان ہے۔ کانٹ ”تنقید عقلِ محض“ کے آغاز میں کہتا ہے،
”اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہمارا کُل علم حواس سے شروع ہوتا ہے۔ اس لیے کہ ہماری قوتِ ادراک کو عمل میں لانے کے لیے ان معروضات کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہوتا جو کہ ہمارے حواس پر اثر ڈالتے ہیں۔ایک طرف یہ خود ادراکات پیدا کرتے ہیں اور دوسری طرف ہمارے ذہن کو تحریک دیتے ہیں کہ ان ادراکات کا باہمی تقابل کرکے انہیں ایک دوسرے سے جوڑے یا الگ کرے اور اس طرح حسی ارتسامات کے خام مواد کو گھڑ کر معروضات کا علم بنائے، جسے تجربہ کہتے ہیں۔ اس لیے زمانے کے لحاظ سے ہمارا کوئی علم تجربے سے مقدم نہیں ہو سکتا۔“
(تنقید عقلِ محض، ص، 30)۔
اس اقتباس سے دو باتیں واضح ہو گئی ہے: ایک یہ کہ کوئی جزئیہ ہو یا کُلیہ ہمارے علم کی ابتدا حواس سے ہوتی ہے۔یعنی کُلیہ بھی ہمارے حواس سے پیدا ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ ہر کُلیہ کا علم بھی زمانی ہوتا ہے۔ کُلیات ماورائے زمان و مکان نہیں ہوتے۔ یہاں تک پہنچنے کے بعد ہم پر یہ لازم ہے کہ جزئی اور کُلی کے درمیان فرق قائم کیا جائے۔ فرق کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ کُلیات زمان و مکاں سے ماورا ہو چکے ہیں، بلکہ حواس سے حاصل شدہ مواد کے اندر ہی وہ کُلیات موجود ہوتے ہیں۔ آغاز میں ارسطو کے حوالے سے اس نکتے کی وضاحت ہم نے کر دی تھی کہ سفیدی سفید شے کی مرہونِ منت ہوتی ہے اور سفید شے حسی یا جزئی ہوتی ہے۔ یعنی سفید شے حس کا معروض ہوتی ہے جبکہ بہت سی سفید اشیا میں سفیدی کُلیہ کہلاتی ہے، جو کہ فہم کا معروض ہوتی ہے۔ بیشتر لوگ کُلیات کے استخراج میں یہ غلطی کرتے ہیں کہ وہ کُلیات کو زمان و مکاں سے ماورا قرار دے دیتے ہیں۔
آئیے اب ہم جزئی اور کُلی کے درمیان فرق کو مختلف مثالیں پیش کر کے منطقی استدلال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس سے ہم قضیہ کبریٰ سے تصدیقات (Judgments) کا منطقی استخراج کرنے کی کوشش کریں گے۔ یہ ذہن میں رہے کہ اس عمل میں خیال کی قائم کی گئیں تصدیقات کا جزئی پر اطلاق نہیں کیا جاتا بلکہ استخراج کیا جاتا ہے۔ یعنی قضیہ کبریٰ میں قضیہ صغریٰ کا ایک عنصر پہلے سے موجود ہوتا ہے۔ ملاحظہ ہو،
قضیہ کبریٰ: تمام جانور فانی ہیں۔
قضیہ صغریٰ: انسان ایک جانور ہے۔
نتیجہ: انسان فانی ہے۔
قضیہ کبریٰ ایک کُلیہ ہے جو کہ فہم نے ایک قاعدے کے تحت تشکیل کیا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ یہ قضیہ زمان و مکاں سے ماورا نہیں ہے۔ لہذا جب یہ کہا جاتا ہے کہ”تمام جانور فانی ہیں“ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کلیہ میں جزئی پہلے سے موجود ہے کیونکہ جزئی وہ ہے جو ہمیں تجربے سے فہم کے معروض کے طور پر حاصل ہوتا ہے۔
ہم پہلے ہی دیکھ چکے ہیں کہ تجربے سے ہر قسم کے علم کی ابتدا ہوتی ہے۔ قضیہ صغریٰ کے مطابق ”انسان ایک جانور ہے“ میں انسان جزئی کے طور پر سامنے آتا ہے۔ چونکہ انسان ایک جانور ہے، اس لیے اس کو کبریٰ سے مستنبط کیا گیا ہے۔ نتیجے میں ”انسان فانی ہے“ میں پہلے دونوں قضایا کی تصدیق ہو جاتی ہے۔ اس مثال میں دلچسپ اور قابلِ توجہ نکتہ یہ ہے کہ ہم نے ارسطو کی پیش کی گئی مثال کہ تمام انسان فانی ہیں“ جس میں کہ انسان ایک کُلیہ ہے اسے جزئی میں تبدیل کر دیا ہے۔ آسان الفاظ میں یوں کہ ارسطو کی مثال میں انسان جزئی نہیں بلکہ کُلیہ تھا، جزئی قضیہ صغریٰ میں ظاہر ہوتا ہے جب یہ کہا جاتا ہے کہ ”سقراط ایک انسان ہے۔“ ارسطو کی مثال میں انسان بطورِ کُلیہ قضیہ کبریٰ کے تحت آتا ہے جبکہ ہماری پیش کی گئی مثال میں ’جانور بطورِ کُلیہ‘ قضیہ کبریٰ کی ذیل میں آتا ہے جبکہ انسان جزئی کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔
میں نے جزئی کو کُلی اور کُلی کو جزئی میں اس لیے تبدیل کیا ہے تاکہ یہ نکتہ صحیح طرح سے ذہن نشین ہو جائے کہ کُلیہ اور جزئی میں کوئی حتمی تفریق نہیں ہے، بلکہ ایک کُلی میں ایک جزئی موجود ہوتا ہے اور ایک جزئی میں ایک کُلیہ شامل ہوتا ہے۔ ایک کُلیہ کسی دوسرے تناظر میں جزئی بھی ہو سکتا ہے اور ایک جزئی کسی مختلف تناظر میں کُلیہ بھی ہو سکتا ہے۔ بالکل اسی طرح اگر ہم رنگ کی مثال پر غور کریں تو ہمارے لیے یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ ایک مخصوص رنگ بیک وقت ایک جزئی بھی ہوتا ہے اور ایک کُلیہ بھی۔ اگر میرے سامنے پچاس چیزیں سرخ رنگ کی رکھی گئی ہیں تو ان میں ہر چیز میں موجود سرخ رنگ ایک کلیہ ہو گا اور چونکہ وہ کلیہ پچاس مختلف چیزوں میں پایا جاتا ہے نہ کہ ان سے ماورا، اس لیے وہ کلیہ بیک وقت جزئی بھی ہوگا۔ لہذا میں جب یہ کہتا ہوں کہ کُلیہ بیک وقت جزئی بھی ہوتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جزئی سے الگ کوئی کُلیہ موجود نہیں ہے اور جزئی ہمیں بلاواسطہ حسی مشاہدے یا تجربے سے حاصل ہوتا ہے اور وہ مشترک عنصر جو جزئیات میں پایا جائے وہ فہم کا معروض اور کلیہ کہلاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمران شاہد بھنڈر یوکے میں مقیم فلسفہ کے استاد ہیں اور اسی موضوع پر کئی اہم کتب کے مصنف ہیں ۔
کمنت کیجے