دینا ناتھ کا کنواں
یہاں سے ہوتے ہوئے ہماری اگلی منزل مسجد وزیر خان اور اس کے باہر کونے پر موجود دینا ناتھ کا کنواں تھا۔ اس کنویں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے چار کونے تھے، یہ کونے اآج بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ تاکہ مسلمان ہندو سکھ عیسائی سب اپنے اپنے مذہب کے مطابق پانی پی سکیں۔ سچی بات یہ ہے کہ ایسی باتیں جب ہماری اور ہمارے بعد والی نسل کے سامنے آتی ہیں، تو ان کے لیے قیام پاکستان کے وقت کے حالات کا صحیح تجزیہ کرنا یا اسے سمجھنا ممکن نہیں ہوتا۔ کیا اس کرہ ارضی پر ایسا وقت بھی گزرا ہے کہ اللہ کی دھرتی سے نکلنے والے پانی کو حاصل کرنے کے لیے مذہب کی بنیاد پر راستے الگ الگ کیے جائیں، اور اس کے بغیر کسی ایک فریق کے لیے پانی تک کا حصول ناممکن ہو، بل کہ یہ عمل ان کے مابین کچھ اس طرح وجہ نزاع بنے کہ اس سے انسانی جانوں کو خطرات لاحق ہوجائیں۔
تاریخ کا بیان ہے کہ راجہ دینا ناتھ, راجہ کلانور نے صاحب بہادر میجر میکریگر صاحب ڈپٹی کمشنر ضلع لاہور کے مشورے سے یہ کنواں ۱۸۸۳ء میں تعمیر کرایا۔ لاہور گزٹئیر ۱۸۸۳ء میں اس کنویں کی ۱۸۸۰ء کی ایک تصویر چھاپی گئی تھی، جس میں کنویں کے ارد گرد کوئی تعمیرات نظر نہیں آ رہیں۔ تقسیم ہند کے بعد یہ کنواں کچھ عرصے ویران رہا، بعد میں یہاں دکانیں بن گئیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ کنواں ۱۹۷۰ء کی دہائی تک پانی کی ترسیل کے لیے استعمال ہوتا رہا۔ دینا ناتھ کی لاہور میں اور بھی کئی عمارتیں تھیں۔ اب بھی اس کنویں کے علاوہ مسجد وزیر خان کے قریب اس کی حویلی کے آثار موجود ہیں۔
یہ کنواں اس وقت خشک ہے، اس پر ایک گنبد نما چھوٹی سی عمارت موجود ہے، جس کے اثرات سے اس کی قدامت اور تاریخ کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
جیسا کہ عرض کیا جاچکا ہے کہ تمام حضرات نے ناشتہ دس بجے کے بعد پہلے کرلیا تھا اور مسلسل سفر میں تھے جب مسجد وزیر خان پہنچے تو نماز ظہر کا وقت شروع ہو چکا تھا البتہ جماعت میں وقت باقی تھا، ہم نے وہاں اپنے طور پر نماز ظہر ادا کی۔ نماز کی ادائیگی سے فارغ ہو کر مسجد سے باہر نکلے تو ہم نے اپنے گائیڈ یوسف صاحب سے پوچھا کہ کسی ایسے ہوٹل کی نشان دہی کریں، جہاں ہم سکون سے بیٹھ بھی سکیں، اور تھوڑا بہت کھانا بھی کھا سکیں۔ کیوں کہ اس وقت تک گرمی کی شدت اور پیدل چلنے کی وجہ سے ہمارے اکثر ساتھیوں کی بھوک خوب چمک چکی تھی۔ انہوں نے لاہور شہر کی قدیم گلیوں کے مزید کئی ایک چکر کھلانے کے بعد ایک سادا سے ہوٹل کی طرف رہ نمائی کی۔ یہاں پہنچ کر ہمارے ساتھیوں نے خاص طور پر ہوٹل والوں سے کہہ سن کر فیملی ہال لے لیا، جہاں اے سی کی وجہ سے ماحول باہر کی بہ نسبت خنک تھا۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ ہمیں کچھ وقت گرمی سے بچ کرسستانے کا موقع مل گیا۔ ہمیں بھوک نہیں تھی اور دوپہر کو کھانے کی عادت بھی نہیں ہے، جب کہ سفر کی وجہ سے ہمارے مفتی شہزاد صاحب کا نظام ہضم متاثر تھا، یوں ہم دونوں نے طے کیا کہ ہم کھانے میں شریک نہیں ہوں گے۔ ہم نے باہر نکل کر پہلے تو لمکا ٹرائی کیا، وہ اس قابل تھا کہ اس سے کچھ وقت کے لیے اپنی پیاس کا مداوا کیا جاسکے۔ پھر ایک عدد قلفی کو اپنے معدے میں اتارا، اور واپس آ کر ظہرانے میں شریک اپنے رابطہ کے ساتھوں کے ساتھ بیٹھ گئے، انہیں یہ تلقین کرنے کے لیے کہ وہ کھانے سے جلد فراغت حاصل کریں، تاکہ ہم اپنے سفر کا دوسرا حصہ شروع کر سکیں۔ ابھی بہت کچھ دیکھنا باقی تھا۔
کھانے سے فراغت کے بعد ہم نے اپنے گائیڈ سے معلوم کیا کہ یہاں سے اگر ہم بادشاہی مسجد جانا چاہیں تو کس قدر فاصلہ ہے، انہوں نے بتایا کہ یہ فاصلہ بیس پچیس منٹ سے زیادہ نہیں ہے، ہم نے ساتھیوں سے مشورہ کیا اور پیدل چلنے کو ترجیح دی، اور سمت کا تعین کر کے روانہ ہوگئے۔ اس کا ایک بنیادی مقصد یہ بھی تھا کہ قدیم لاہور کے مزید گلی کوچوں کو دیکھا بھی جا سکے، اور ان کے طرز تعمیر سے مزید استفادہ بھی ہو سکے، یوں ہم گھومتے پھرتے، ہنسی مذاق کرتے، اور لطیفے گھڑتے بادشاہی مسجد پہنچ گئے۔
باد شاہی مسجد لاہور
باد شاہی مسجد لاہور ۱۶۷۳ میں اورنگزیب عالمگیر نے تعمیر کرائی تھی۔ یہ عظیم الشان مسجد مغلوں کے دور کی ایک شان دار مثال ہے اور فیصل مسجد اسلام آباد کے بعد پورے پاکستان کی دوسری بڑی مسجد شمار ہوتی ہے، جس میں بہ یک وقت ۶۰ ہزار لوگ نماز ادا کرسکتے ہیں۔ اس مسجد کا انداز تعمیر جامع مسجد دہلی سے بہت ملتا جلتا ہے۔
اورنگزیب عالمگیر نے اس مسجد کی تعمیر کی ذمے داری اپنے بھائی مظفر حسین عرف فدائے خان کوکا کو سونپی تھی، جو اس وقت لاہور کے گورنر بھی تھے۔ ان کی زیر نگرانی ہی یہ تعمیر ہوئی، جس کا اظہار وہاں موجود ایک تاریخی کتبے سے بھی ہوتا ہے۔ ۱۸۴۰ء میں آنے والے زلزلے کے نتیجے میں مسجد کے میناروں کی بلندی پر واقع برج بُری طرح متاثر ہوئے۔ان کی مرمت کا کام ۱۸۵۲ء میں شروع کیا گیا، لیکن مکمل بہ حالی پھر بھی نہ ہو سکی۔ صحیح معنوں میں اس کی بحالی اور متاثرہ حصوں کی دوبارہ تعمیر بیس ویں صدی میں شروع کی گئی، جس پر پچاس لاکھ روپے سکہ رائج الوقت لاگت آئی۔ آرکیٹیکٹ نواب زین یار جنگ بہادر نے اس کی بہ حالی کے تعمیراتی کام کا نقشہ تیار کیا۔ تعمیراتی کام کے مکمل ہونے کے بعد اس کو اصل شکل میں واپس لایا گیا۔
فنِ تعمیر کے لحاظ سے بادشاہی مسجد مغل دور کے فنِ تعمیر کی بھرپور عکاس ہے۔ مسجد کے تین گنبد، چار بڑے مینار اور چار چھوٹے مینار ہیں۔ ہر بڑے مینار کی لمبائی ۳۰ فٹ اور ہر چھوٹے مینار کی لمبائی ۲۰ فٹ ہے۔ اس کا فنِ تعمیر جامع مسجد دلّی سے بہت مماثلت رکھتا ہے جو مغل بادشاہ اورنگزیب کے والد شاہجہاں نے ۱۶۴۸ء میں تعمیر کروائی تھی۔
علامہ اقبال کے مزار پر
ہم بادشاہی مسجد میں روشنائی دروازے کی جانب سے داخل ہوئے، داخل ہوتے ہی ہمارے الٹے ہاتھ پہ علامہ اقبال کا مزار تھا۔ اس پہ نظر پڑتے ہی ہمارے قدم خود بہ خود اسی جانب اٹھ گئے۔ ہم وہاں پہنچے اور سب سے پہلے فاتحہ پڑھی۔ دوستوں نے تصویر کشی کا اپنا شوق بھی پورا کیا، پھر باہر کی فضا میں بھی کچھ دیر رہ کر تصویریں کھینچیں اور مسجد کے بیرونی نظارے سے بھی محظوظ ہوئے۔
علامہ اقبال کے مزار کے اندر کی حالت خاصی توجہ طلب ہے۔ اندر موجود سنگی کتبوں پر کندہ اشعار کی سیاہی مدھم پڑتی جا رہی ہے۔ صفائی ستھرائی کا معاملہ بھی توجہ چاہتا ہے، مجموعی طور پر یہ مزار حکومت کی فوری توجہ کا متقاضی ہے۔
ویسے تو مسلمانوں کے ہاں صفائی ستھرائی کا معیار ہمیشہ سے قابل بحث رہا ہے، مگر عوامی آمد کی جگہیں زیادہ ہی کریہہ مناظر پیش کرتی ہیں۔ یہاں بھی پوری مسجد کا عالم یہ ہے کہ گندگی ہی گندگی ہے، کچرہ ہے، مٹی ہے، دھول ہے۔ مسجد واقعی بہت بڑی ہے، اسے ہمہ وقت اتنے زائرین کی موجودگی میں مکمل صاف ستھرا رکھنا ایک مشکل مرحلہ ہے، جب کہ زائرین بھی ہمارے ہاں کے ہی ہیں، جنہیں ۔۔۔۔۔ شاید چھوکر بھی نہیں گزری۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا محکمہ اوقاف کے پاس اس مسجد کو صاف ستھرا رکھنے کے بھی وسائل موجود نہیں ہیں۔ حکومت کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ یہاں غیر ملکی خصوصاً غیر مسلم حضرات کی بھی بڑی تعداد میں آمد و رفت رہتی ہے ایسے میں ان کو مسلمانوں کی اتنی اہم عبادت گاہ کے حوالے سے اچھا پیغام جانا چاہیے، نہ یہ کہ عام طور پر مسلمانوں سے متنفر غیر مسلم یہاں سے مزید متنفر ہو کر لوٹیں۔
مسجد میں طرح طرح کے کاروبار بھی عروج پر تھے، ہم جوں ہی مسجد میں داخل ہوئے تو اوپر کی جانب جہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے بزرگان دین کی طرف منسوب تبرکات موجود ہیں، جانے والے راستے کے قریب کچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے، جو یہاں سے گزرنے والے زائرین کو مسلسل انتہائی جارحانہ انداز میں ترغیب دے کر اوپر جانے پر مجبور کر رہے تھے۔ یہ حربہ انہوں نے ہم پر بھی آزمانے کی کوشش کی، لیکن ظاہر ہے کہ اس نوعیت کی مذہبی کاروباری آوازیں کم از کم ہم پر تو اثر انداز نہیں ہو سکتی تھیں۔
پھر ہم نے بادشاہی مسجد کا طویل صحن قطع کرتے ہوئے اندر کے ہال میں قدم رکھا۔ یہ بھی ایک دل چسپ مرحلہ تھا۔ یہ صحن کافی طویل ہے۔ لاہور شہر میں بادشاہی مسجد کا صحن اور اس کے برابر میں متصل مینار پاکستان کے گراؤنڈ کو کسی بھی بڑے سے بڑے اجتماع میں بھرنا منتظمین کے لیے ایک چیلنج ہوا کرتا ہے، اس کی وسعت کا اندازہ اسی وقت لگایا جا سکتا ہے جب وہاں ۱۵ بیس ہزار افراد کو جمع کر لیا جائے۔ بادشاہی مسجد میں بہ یک وقت ایک لاکھ سے زائد افراد کے نماز پڑھنے کی گنجائش موجود ہے، اسی بات سے مسجد کے قطر اور صحن کی وسعت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اس گرمی میں اتنے بڑے صحن سے گزر کر اندرونی حصے میں پہنچنا مشکل کام ہے۔ اس کا حل یہ نکالا گیا ہے کہ پرانے انتہائی خستہ ٹاٹ کے ٹکڑے بچھا کر چلنے کے راستے بنائے گئے ہیں، جنہیں ٹھنڈا رکھنے کے لیے ان پر پانی چھڑک دیا گیا ہے۔ ہم نے جوتے تو باہر ہی اتار دیے تھے۔ یہ منظر دیکھ کر موزے بھی اتارے اور اسی راستے سے چل کر اندر جانے کی کوشش کی۔ لیکن صاحب باقی ساتھیوں کا تو پتا نہیں، ہمارے لیے تو یوں چلتے ہوئے صحن طے کرنا آزمائش بن گیا۔ سخت کوفت محسوس ہورہی تھی۔ یوں لگ رہا تھا جیسے انتہائی گندی جگہ پہ یا کیچڑ نما کسی راہداری سے گزر رہے ہوں۔ کیا اس کا کوئی اور معقول انتظام نہیں کیا جاسکتا؟
اندر داخل ہو کر اپنے گائیڈ کی رہ نمائی میں ہم نے ایک بار پھر قدیم ماہرین تعمیرات کا فن ملاحظہ کیا۔ شاہی حمام کی طرح یہاں بھی جیومیٹری کے اصولوں کی بنیاد پر ایسے ستون کھڑے کیے گئے ہیں اور ایسی محرابیں تراشی گئی ہیں کہ ایک کونے پر سرگوشی کرنے والا دوسرے کونے میں جا کر اس سے مستفید ہو سکتا ہے، جب کے برابر کھڑے ہوئے شخص کو اس سرگوشی کا علم تک نہیں ہوسکتا۔
یہاں سے نکل کر ہم نے واپسی کی راہ لی، مجاوروں کو نذرانہ پیش کر کے اپنے جوتے حاصل کیے، اور عالم گیری دروازے سے نکل کر شاہی قلعے کے مرکزی دروازے کے سامنے پہنچ گئے۔ اس کے سامنے کے حصے میں عابدہ پروین کے کسی پروگرام کی تیاری جاری تھی۔ یہ پروگرام آج ہی رات منعقد ہونے والا تھا۔
اس مرکزی دروازے کے سامنے والی قلعے کی دیوار دنیا کی سب سے بڑی تصویری دیوار کہلاتی ہے۔ واللہ اعلم
تصویری دیوار
شاہی قلعے کے مرکزی دروازے کے ساتھ شمالی اور شمال مغربی بیرونی دیوار پر ٹائلوں کے ذریعے تصاویر کا ایک طویل سلسلہ ہے۔ یہ تصویری دیوار اپنے فن کے اعتبار سے دنیا کی چند نادر ترین دیواروں میں سے ایک ہے۔ اس دیوار پر لمبائی کے رخ ٹائلوں پر بنی تصاویر نظر کو مبہوت کردینے کے لیے کافی ہیں۔ اس مصوّر دیوار کی تعمیر عہدِ جہانگیر میں شروع ہوئی اور شاہجہانی عہد (۳۳۔۱۶۳۲ء ) میں پایۂ تکمیل تک پہنچی۔ دیوار کی لمبائی تقریباً ۴۵۰ میٹر اور اونچائی ۱۷ میٹر ہے۔ اس تفصیل سے ہی اس دیوار کی اہمیت اور فن کاروں کے فن کی حیثیت واضح ہو سکتی ہے۔
ان تصاویر کو دو کارنسوں کے ذریعے محرابی طاقچوں کی دو قطاروں میں تقسیم کیا گیا ہے۔دیواری تصویریں محرابی طاقچوں میں بنائی گئی ہیں۔جب کہ ہم وار حصوں کو ٹائلوں پر بنی تصاویر سے آراستہ کیا گیا ہے۔یہ تصاویر انسانوں ، پریوں، ہاتھیوں، شیروں، دیو مالائی اژدہوں،جانوروں کی لڑائی ،پولو اور دیگر کھیلوں کے مناظر پر مشتمل ہیں۔ان تصاویر میں موجود انسانی شکلوں میں بادشاہ اور حکم ران بھی شامل ہیں، جب کہ غلام اور ملازمین بھی۔ ان تصاویر میں ان سب کے لباس دیکھ کر اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس زمانے میں شاہی خاندان ، جنگجو طبقے اور نوکروں اور غلاموں کا لباس کس نوعیت کا ہوتا تھا۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ یہ مصور دیوار مغل دور کی تہذیب اور ثقافت کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔
اس تصویری دیوار کو دیکھتے اور اس سے محظوظ ہوتے ہوئے، نیز یہاں کے مناظر کو کیمرے میں محفوظ کرتے ہوئے ہم قلعے میں داخل ہوئے۔ قلعے کے مرکزی دروازے سے اندر داخل ہونے کے لیے جو سڑک تعمیر کی گئی ہے، وہ قلعے کی اصل بنیادوں سے بہت بلند ہے، بار بار کی مرمت کے ذریعے اس کو محفوظ کرنے کی کوششوں کے نتیجے میں وہ بعض جوانب سے سڑک کی سطح سے بہت نیچے آ چکا ہے۔
شاہی قلعہ
لاہور کا شاہی قلعہ شہر کے شمال مغرب میں واقع ہے۔ یہ قلعہ بہت قدیم ہے، مگر پہلے یہاں ایک کچا قلعہ ہوا کرتاتھا۔ ۱۵۶۶ء میں اکبر بادشاہ نے اس کی جگہ از سر نو ایک شان دار پختہ قلعہ بنوایا، جس کی تعمیر میں رہائشی مقاصد کے ساتھ ساتھ فوجی مقاصد کو بھی مدِنظر رکھا گیا۔ اس قلعے کی لمبائی ۴۶۶ میٹر اور چوڑائی ۳۷۰ میٹر ہے، اس کی دیواریں سرخ پختہ اینٹوں سے بنی ہوئی ہیں، جن کی چنائی مٹی کے گارے سے کی گئی ہے۔ بادشاہ اکبر کے بعد آنے والے حکم ران بھی اس قلعے کی تزئین و آرائش کرتے رہے۔ لہٰذا یہ قلعہ مغلیہ فنِ تعمیر اور روایت کا ایک نہایت ہی شان دار نمونہ نظر آتا ہے۔ قلعے کے اندر واقع چند مشہور مقامات میں شیش محل، عالمگیری دروازہ، نولکھا محل اور موتی مسجد شامل ہیں۔ ۱۹۸۱ء میں یونیسکو نے اس قلعے کو شالامار باغ کے ساتھ عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا تھا۔
سب سے پہلے ہم بارہ دری کے قریب سے گزرے اور اس کے پائیں باغ کا نظارہ کیا۔
بارہ دری
قلعے میں واقع مختلف عمارتوں میں اہم ترین عمارت بارہ دری کی ہے۔ اسے گورنر لاہور وزیرخان نے ۱۶۴۵ء میں شاہجہان کے لیے تعمیر کروایا تھا۔ یہ ایک محرابی بارہ دری ہے اس کے پُشتے کو پچی کاری سے مزیّن کیا گیا ہے۔ اس کی شمالی دیوار خوب صورت کندہ کی ہوئی جالیوں سے مزیّن ہے۔ اس کا فرش مختلف اکلیدی نمونوں اور مختلف رنگوں کے سنگِ مرمر سے مزیّن ہے۔ ایک پیالہ نما خوب صورت حوض اس کے درمیان میں واقع ہے۔جس پر قیمتی پتھروں سے پچی کاری کی گئی ہے۔
اس کے کچھ فاصلے پر شیش محل موجود تھا اس کے لیے الگ ٹکٹ خریدنا پڑتا ہے، وقت تنگ ہونے لگا تھا اس لیے ہم نے شیش محل کو دیکھنے کا ارادہ ترک کیا اور باقی جگہوں سے محظوظ ہونے لگے۔اسی کو دیوان خاص بھی کہتے ہیں۔
ہماری اگلی منزل دیوان عام تھا، اس کا شمار قلعہ کی قدیم عمارات میں ہوتا ہے، اسے خود اکبر نے تعمیر کروایا تھا۔ دیوان عام کی چھت ستونوں کے سہارے کھڑی ہے۔ اس میں ایک جھروکہ ہے، جہاں بیٹھ کر شاہ جہاں رعایا کو اپنا دیدار کروایا کرتا تھا۔ اب صرف اس عمارت کے باقی ماندہ کے اثرات کو ہی ملاحظہ کیا جاسکتا ہے، لیکن کھنڈرات بتا رہے ہیں کہ عمارت واقعی عظیم تھی۔
دیوان عام کے ساتھ ہی اکبر بادشاہ نے اپنی ہندو بیوی جودہ بائی کی فرمائش پر ایک مصنوعی سورج بنوانے کا اہتمام کیا تھا، تاریخی روایات بتاتی ہیں کہ جودہ بائی سورج بنسی تھی۔ سورج بنسی ہندو راجپوتوں کا ایک فرقہ ہے، جو اپنے آپ کو سورج (دیوتا) کی اولاد میں سے خیال کرتا ہے، اور اسی خیال کے زیر اثر وہ سورج کی پوجا کرتا ہے۔ یہ سورج سونے سے بنایا گیا تھا اور اسے روشن کرنے کے لیے نیچے غلام اور باندیاں چراغ لے کر کھڑے ہوا کرتے تھے، جن کی روشنی کا انعکاس جب سونے کے بنے ہوئے سورج پر پڑتا تھا تو وہ عمارت روشن ہو جاتی تھی۔ اصل میں ملکہ نے فرمائش یہ کردی تھی کہ سورج تو شام میں غروب ہوجاتا ہے، اس کے بعد ہمیں عبادت کا تقاضا ہو تو کیا کریں، اس فرمائش کے تحت یہ عمارت بنوائی گئی تھی۔
اس کے ساتھ ہی وہاں پر شاہی باورچی خانہ بھی موجود ہے، یا یوں کہیے کہ اس کے آثار موجود ہیں، جسے انگریز کے دور میں قید خانوں کی شکل دے دی گئی تھی، وہیں پر وہ کمرہ بھی محفوظ کیا گیا ہے، جس میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو بھی قید رکھا گیا تھا، اب اس کی نشان دہی کے لیے وہاں تختی بھی نصب ہے۔ یہ کمرہ مقفل ہے البتہ برابر میں موجود کھڑکی سے اندر جھانکا جا سکتا ہے۔
موتی مسجد
یہاں سے نکل کر ہم موتی مسجد کی طرف آئے، لیکن وقت کی کمی کے باعث ہم اندر داخل نہیں ہو سکے، ویسے بھی مسجد اس وقت بند تھی، ہمیں یہ بھی بتایا گیا کہ یہاں آج کل صرف ظہر کی نماز جماعت سے ادا ہوتی ہے۔ واللہ اعلم
موتی مسجد شاہی قلعے کے اندر واقع عمارتوں میں سے ایک اہم عمارت ہے۔ یہ مسجد شہنشاہ شاہجہان کی تعمیر کردہ ہے۔ یہ پوری مسجد سفید سنگ مر مر سے بنائی گئی ہے۔ اسی لیے اسے موتی مسجد کا نام دیا گیا ہے کہ یہ مسجد اور اس کے خاص طور پر گنبد موتی کی طرح چمکا کرتے تھے اور اس چمک کی ایک جھلک آج بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ اس مسجد پر تین گنبد ہیں، جب کہ یہ مسجد پانچ محرابوں پر مشتمل ہے۔ مغلیہ دور کے زوال کے دوران لاہور پر جب سکھوں کا قبضہ ہوا تو انہوں نے اسے مندر میں بدل دیا اس کا نام موتی مندر رکھا گیا۔بعد میں رنجیت سنگھ نے یہاں اپنا خزانہ محفوظ کرنے کا بھی حکم دیا۔ پھر وقت تبدیل ہوا اور انگریزدور میں یہ مسجد مسلمانوں کے حوالے کر دی گئی۔
کھڑک سنگھ کا محل
قلعے کی عمارتوں میں بعد کے ادوار میں جو اضافے ہوئے ان میں کھڑک سنگھ کا محل بھی ہے، یہ عمارت درحقیقت رنجین سنگھ کے بیٹے کھڑک سنگھ کی طرف منسوب ہے۔
مہاراجا کھڑک سنگھ(پیدائش: ۲۲ فروری ۱۸۰۱ء – ۵ نومبر ۱۸۴۰ء) سکھ سلطنت کا دوسرا حکم ران تھا۔ وہ مہاراجا رنجیت سنگھ کا بیٹا تھا۔ جون ۱۸۳۹ء کو تخت نشیں ہوا مگر اُس کے بیٹے نو نہال سنگھ نے اُسے معزول کر کے نظر بند کر دیا۔ اور اس نے نومبر ۱۸۴۰ء میں قید کی حالت میں ہی وفات پائی۔ اس عمارت کا زیریں حصہ اکبر دور میں تعمیر ہو چکا تھا، بعد میں رنجیت سنگھ کے زمانے میں اس میں مزید اضافہ کر کے اسے کھڑک سنگھ کی رہائش کے لیے قابل استعمال بنایا گیا۔ آج کل یہاں والڈ سٹی اتھارٹی، نیز باغات کے متعلق انتظامی دفاتر موجود ہیں۔ اب ہماری واپسی کا سفر تھا، اسی تصویری دیوار تک ہم دوبارہ پہنچے، یہاں جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا، عابدہ پروین کے بڑے پروگرام کی تیاری زور و شور سے جاری تھی، مفتی شہزاد صاحب بولے کہ ممکن ہو تو اس میں بھی شرکت کرلی جائے، ہم نے مسکرا کر گویا اس خواہش کی تائید کردی، مگر قریب ہی ایک صاحب، جو حلیے سے ہم سے بھی زیادہ دین دار لگتے تھے، ہمیں مسلسل دیکھ رہے تھے، انہیں اس گم راہانہ جملے پر سخت تاؤ آیا، اور ہماری اصلاح کی غرض سے، لیکن نہایت دھیمی آواز میں یہ کہتے ہوئے ہم گناہ گاروں کے قرب سے فوراً ہی دور ہوگئے کہ بندا کچھ عبادت ہی کرلیتا ہے، کچھ نوافل ہی پڑھ لیتا ہے۔
یہاں سے روانہ ہو کر ہم مینار پاکستان کی طرف نکلے، ہمارا ارادہ تھا کہ ہم پہلے چائے پی لیں، تاکہ پھر اگلی منزل جناب احمد جاوید صاحب کے دفتر کا رخ کریں۔ جہاں ان سے ہماری اور شرکائے رابطہ کی ملاقات طے تھی۔لیکن اس دوران ہمیں واپس اسٹیشن بھی جانا تھا کہ طاہر بھائی کی گاڑی وہاں پر پارکنگ میں کھڑی تھی۔ ہم نے چائے کے کئی ڈھابے دیکھے مگر ساتھیوں کو اطمینان نہیں ہوا، چائے سفر میں اچھی تو ملتی بھی نصیب سے ہی ہے، بلآخر یہی طے ہوا کہ اسٹیشن پر پہنچ کر پہلے حافظ ہوٹل میں چائے پی جائے، پھر وہیں سے اگلی منزل کا رخ کرلیا جائے۔ باہر نکل کر چنگ چی رکشے والوں سے تھوڑی دیر بھاؤ تاؤ کیا ہمارے فضل اللہ فانی کے کچھ جاننے والے عزیز ان سے ملنے کے ارادے سے یہاں آگئے تھے، وہ ان ہی کے ساتھ موٹرسائیکل پر روانہ ہو گئے، باقی ہم پھنس پھنسا کر ایک چنگ چی رکشے پر سوار ہو کر اسٹیشن پہنچ گئے۔ ہم نے طے شدہ پروگرام کے مطابق حافظ ہوٹل کا رخ کیا۔ چند ساتھیوں نے بیت الخلا جانا تھا، اور وضو کرنا تھا کہ وہ نماز عصر ادا نہیں کرسکے تھے، اس دوران ہم نے ہوٹل کے باہر موجود اسٹال سے گرم گرم سموسے لیے اور چائے کا آرڈر دے دیا۔ ابھی ساتھی تتر بتر تھے، اکٹھے بھی نہیں ہو پائے تھے کہ باہر موسم یک سرتبدیل ہو گیا اور انتہائی طوفانی ہوائیں اور آندھی چلنے لگی۔ شکر ہے کہ ہم اس سے پہلے ہوٹل میں پہنچ چکے تھے، اس لیے سائبان میسر تھا باہر انتہائی سخت ہوا اور دھول اور مٹی کی کیفیت تھی، پھر بارش بھی شروع ہوگئی، اسی دوران بجلی بھی چلی گئی، ہوٹل کا یو پی ایس کام کر رہا تھا، اس لیے مکمل اندھیرے سے دو چار ہوئے بغیر ہم کوئی آدھا گھنٹہ وہاں پناہ گزین رہے، پھر موسم میں قدرے اعتدال پیدا ہوا تو ہم نے گاڑی پارکنگ سے نکلوائی، ساتھی زیادہ تھے، اس لیے ایک ٹیکسی کی اور احمد جاوید صاحب کے گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔ مغرب کی نماز ہم نے وہیں ادا کی۔ پھر ان سے طویل ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات کا تعلق رابطہ سے ہے، اس لیے لاہور کے اس تفریحی سفر کا یہیں پر اختتام ہوتا ہے۔ خدا حافظ
کمنت کیجے