نظریۂ ارتقا اب فقط ایک نظریہ نہیں رہا، حقیقت بن چکاہے۔ایک وقت تھا جب لوگ نہیں مانتے تھے کہ زمین گول ہے۔صدیوں سے بحث جاری تھی۔ زمین پر موجود انسانوں کی بڑی اکثریت زمین کے گول ہونے کی بات سُن کر ہنس دیا کرتی تھی۔لیکن پھر جب زمین کے گول ہونے کی حقیقت واضح ہوگئی تو سب نے مان لیا۔اور آج لوگ ان پر ہنستے ہیں جو زمین کو گول نہیں مانتے۔سب کچھ الٹ گیا۔صرف تین چار سوسال کے اندر۔
نظریۂ ارتقا کے ساتھ بھی یہی ہورہاہے۔ میں تو اکثرکہاکرتاہوں کہ نظریۂ ارتقا کا تنازعہ مذہبی نہیں، جمالیاتی ہے۔ بھلا کس کو بُرا لگے گا اگر ہم کہیں کہ تمام انسان ایک پرندے کی اولاد ہیں۔ اور پرندہ بھی ایسا جس کا رنگ سبز ہےاورجو جنت کا پرندہ ہے۔ یاد رہے کہ خصوصی طورپر سبزرنگ کے اِس پرندے کا ذکر ہماری اپنی بعض روایات میں موجود ہے۔ مثلاًمسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ شہداکی رُوحیں سبز رنگ کے پرندوں کے دل میں ہیں۔اسی طرح ایک ضعیف روایت یہ بھی ہے کہ جب مٹی سے آدم کا بُت بنالیاگیا تو رُوح سے کہا گیا کہ تُو اس میں گھس جا۔ رُوح ہچکچائی تو اللہ تعالیٰ نے اسے واپس نکالنے کا وعدہ کرلیا۔ اوریہ رُوح ایک سبزرنگ کےپرندے میں تھی۔
چنانچہ اگر نظریۂ ارتقا یہ کہتا کہ تمام انسان پرندوں کی اولاد ہیں یا پرندوں سے نکلے ہیں تو کسی نے زیادہ غصہ نہیں کرنا تھا۔ نہ ہی لوگوں کا اتنا ردعمل آتا۔ یہ مسئلہ جمالیات کا ہے۔ اورنظریۂ ارتقا کو بیان کرنے والے اساتذہ کی حماقتوں سے خراب ہوا ہے۔ یعنی یہ کہنا کہ انسان بندروں کی اولاد ہیں، انسانی جمالیات کے لیے قابلِ قبول نہیں ہے۔ خُدا نے ہماری نفسیات ہماری حسّوں کے مطابق بنائی ہے۔ مثلاً خوشبُو ، خوشبُو کیوں ہے؟ اور بدبُو بدبُو کیوں ہے؟ ایسا کیوں نہیں کہ بدبو ہمیں خوشبو جیسی لگے۔ جب کوئی جانور مرجاتاہے تو اس سے بدبو اُٹھنے لگتی ہے۔ انسان تو انسان باقی درندے بھی اسے نہیں چھُوتے، نہ ہی کھاتے ہیں۔ لیکن ہزاروں لاکھوں کیڑوں مکوڑوں کے لیے وہی بدبُو کسی خُوشبو جیسی ہے۔ بندرکی اولاد ہونا ایسا ہی نفسیاتی مسئلہ ہے جو ہماری مینٹل فیکلٹی کا حصہ بن چکاہے۔
صرف مسلمانوں کی بات کریں تو قرانِ کریم میں موجود قِرَدَةً خٰسِـٕیْنَ (دھتکارے ہوئے بندروں) کے الفاظ کی وجہ سےبندروں سے متعلق ہماری حسِّ جمالیات متاثر ہوئی۔یہاں یہ بھی یاد رہے کہ ماڈرن آرکیالوجی نئے نئے فاسلوں کی دریافت کے بعد آج کل یہ کہہ رہی ہے کہ دراصل بندرخود بھی چارپاؤں پر بعد میں چلنا شروع ہوئے۔ اور یہ کہ بندر اور انسان دونوں ہی ایک ایسے جانور کی اولاد ہیں جو دوپاؤں پر چلتا تھا۔ بندربعد میں الگ ہوئے، یا یوں کہہ لیجیے کہ ان دوپایوں میں سے کچھ کو بندر بنادیا گیا اور وہ چار پاؤں پر چلنے لگے۔
تاہم یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ مسلمانوں نے نظریۂ ارتقا پر اتنا شدید ردِعمل کبھی بھی نہیں دیا جتنا عیسائیوں نے دیا ہے۔ مذاہب میں بدھ مت اور ہندُو مت البتہ وہ مذاہب ہیں جنہوں نے نظریۂ ارتقا کو کھلے دل سے قبول کیا۔
ہندوؤں کے حوالے سے ایک اضافی اور غیرمتعلقہ بات کرتاچلوں کہ،
ہندُو جن خُداؤں کی پوجا کرتے ہیں اُن میں کثرت کے ساتھ آسمانی ستارے ، سیّارے اور دیگر اجرام فلکی شامل ہیں، اس لیے ہندوؤں کو ستارہ پرست بھی کہاجاسکتاہے۔ اوراگرہندوؤں کو مسلم مفسرین یا کم ازکم مفکرین نے کبھی ستارہ پرستوں کی فہرت میں شامل کرلیا تو عین ممکن ہے کہ ہندوؤں کوبھی مسلمانوں کے نزدیک آسمانی مذاہب کا احترام مل جائے جیسا دیگر اہلِ کتاب کودیاگیاہے۔ اوراس بات کا امکان پہلے سے بھی موجود ہے کیونکہ قرانِ کریم کے بعض معتبر مترجمین نے بھی کسی حدتک اس کی گنجائش چھوڑی ہے۔مثلاً فتح محمد جالندھری کے مشہورترجمہ کے الفاظ یہ ہیں،
’’ جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست، (یعنی کوئی شخص کسی قوم و مذہب کا ہو) جو خدا اور روز قیامت پر ایمان لائے گا، اور نیک عمل کرے گا، تو ایسے لوگوں کو ان (کے اعمال) کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا اور (قیامت کے دن) ان کو نہ کسی طرح کا خوف ہوگا اور نہ وہ غم ناک ہوں گے۔(۶۲)
ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ترجمے میں جالندھری صاحب نے ستارہ پرست کے سامنے بریکٹ لگاکراُس میں لکھاہے، ’’یعنی کوئی شخص کسی قوم و مذہب کا ہو‘‘، گویا سب کے لیے گنجائش چھوڑی ہے۔
بہرحال اپنے موضوع کی طرف واپس آتے ہیں۔ چنانچہ زیادہ تر مذاہب کو نظریۂ ارتقا کے ساتھ اس شدت کی مخاصمت نہیں ہے، جس شدت کی مخاصمت عیسائیت کو تھی اور آج تک بھی ہے۔
اور یہ حقیقت بھی اب اظہرمن الشمس ہے کہ ایک بار جب کسی قوم کے لوگ نظریۂ ارتقا کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کر ماننا شروع کردیتے ہیں تو اس قوم کے حالات میں سالوں میں نہیں، دنوں میں تبدیلی آناشروع ہوجاتی ہے۔اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ نظریۂ ارتقا کی پوری تاریخ ہی ہرفردِ قوم کے انفرادی بقا کی جنگ ہے۔ اورچونکہ قومیں افراد سے بنتی ہیں اس لیے اگرہرفردِ قوم اپنے بقا کی جنگ لڑیگا تو وہ گویا مجموعی طورپر پوری قوم کے بقا کی جنگ ہوگی۔ اوریوں وہ اعتماد جو کسی عیسیٰ یا کسی مہدی کے انتظار میں بیٹھے رہنے والوں کے پاس کبھی ہوہی نہیں سکتا، وہی اعتماد پوری کی پوری قوم میں جنم لینے لگتاہے۔ عام سماجی اصطلاح میں اس اعتماد کا نام ہے، اپنے آپ پر بھروسہ رکھنا۔ کیونکہ بقول اقبال غلامی سے بے یقینی بدتر ہے۔
۔۔
جب ایک ایک خزانہ مری زمین میں ہے
توقرض غیر سے لینا کہاں کے دین میں ہے
کمنت کیجے