ایک تحریر میں محترم جناب عصمت اللہ صاحب نے صفات باری پر متکلمین کے مذہب (تفویض معنی) کی تردید اور شیخ ابن تیمیہ کے موقف (معنی معلوم مگر کیفیت مجہول) کو ثابت کرنے کے لئے یہ استدلال کیاہے کہ متکلمین کے مطابق سمع و بصر جیسی صفات کے حقیقی معنی اللہ کے لئے ثابت ہیں جبکہ:
• متکلمین دیگر مقامات پر جسمیت کے تقاضوں کی وجہ سے ید و نزول وغیرہ میں تفویض معنی کرتے ہیں
• پھر ہم (یعنی شیخ ابن تیمیہ کے موقف کو درست کہنے والوں) پر اعتراض کرتے ہیں کہ آخر کیف کی نفی کے بعد لغت میں مذکور حقیقی معنی کب باقی رہے، یہ تو نامعقول بات ہے
• تو پھر متکلمین کو چاھئے کہ سمع و بصر میں بھی تفویض معنی کریں لیکن یہاں وہ اسے ادراک قرار دے کر حقیقی معنی پر ہی محمول کرتے ہیں
• جبکہ لغت میں سمع و بصر کے حقیقی معنی لوازمات جسم کے ساتھ ہی مذکور ہیں – تو اگر سمع و بصر میں لوازمات جسم (یعنی کیف) کی نفی کے بعد کوئی حقیقی معنی مراد لینا ممکن ہے تو ید اور وجہ میں کیوں نہیں؟ اگر شیخ ابن تیمیہ کا موقف ید و نزول میں غیر معقول ہے تو متکلمین کا موقف بھی اسی اصول پر سمع و بصر کے معاملے میں کیوں غیر معقول نہیں؟ اور اگر متکلمین کیف کی نفی کے ساتھ حقیقی معنی کی گنجائش سمع و بصر میں نکالتے ہیں تو ید و نزول میں کیوں نہیں نکالتے؟
• اس سے گویا ثابت ہوا کہ معنی معلوم و کیفیت نامعلوم کا وہ موقف متکلمین کے منہج پر بھی معقول ہے جو شیخ ابن تیمیہ نے بیان فرمایا
تبصرہ
عصمت اللہ صاحب متکلمین کے موقف پر ان قدیم اور انتہائی سوالات کے ذریعے ہمیں متکلمین کا موقف سمجھانے کا موقع فراہم کررہے ہیں، اس کے لئے ہم ان کے شکر گزار ہیں۔ اب ذیل میں اس پر تبصرہ کیا جاتا ہے۔
1۔ یہ استدلال دراصل متکلمین کے موقف میں غیر ہم آہنگی دکھا کر صفات باری سے متعلق شیخ ابن تیمیہ کا موقف درست ثابت کرنے کی کوشش ہے۔ اصلاً یہ استدلال ایک الزامی استدلال ہے نہ کہ اصولی۔ چنانچہ اگر ایک لمحے کے لئے ہم بر سبیل تنزیل یہ مان لیں کہ آپ کی بات درست ہے کہ سمع و بصر کے معاملے میں متکلمین کے موقف میں غیر ہم آہنگی ہے تو اس سے آپ کا یہ مقدمہ کیسے ثابت ہوا کہ “حقیقی معنی معلوم و کیف مجہول” ایک معقول مذہب ہے؟ اگر مخالف ایک نامعقول موقف پر کھڑا ہو تو اس سے آپ کے موقف کی نامعقولیت معقولیت میں کیسے بدل جائے گی، یہ بات سمجھ نہیں آئی۔ اگر اس دلیل کے بعد بالفرض متکلمین یہ کہہ دیں کہ ٹھیک ہے سمع و بصر میں بھی تفویض معنی ہوگی تو آپ کے پاس اپنے مقدمے میں کہنے کے لئے کیا رہا؟ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اپنا مقدمہ ثابت کرنے کے لئے محض دوسرے کی غیر ہم آہنگی کا سہارا لینا کافی نہیں ہوتا بلکہ اپنے مقدمے کی معقولیت دکھانے کے لئے اثباتی دلیل الگ سے دینا ہوتی ہے جو آپ نے اب تک پیش نہیں کی۔
2۔ متکلمین کا اصول یہ ہے کہ آیات ظاہری حقیقی معنی پر محمول ہیں یہاں تک کہ یہ معنی مراد لینا محال ہو جائے۔ وجوب، امکان اور استحالہ احکام عقلیہ ہیں، چنانچہ کیا چیز محال ہے اور کیا نہیں اس کے لئے عقل کی جانب رجوع کرنا ہوگا:
الف) اگر کسی چیز کا محال ہونا ثابت ہوجائے اور ظاہری معنی اس محال پر دلالت کرتے ہوں (یعنی کیف کی نفی کے بعد قابل فہم حقیقی معنی ختم ہوجائیں) تو ظاہری معنی مراد نہیں ہوں گے بلکہ ان کی تفویض ہوگی۔ ید و نزول میں یہی معاملہ ہے
ب) اگر ظاہری حقیقی معنی مراد لینے کی اصول عقلیہ میں گنجائش ممکن ہو (یعنی عقل اسے ممکن کہے) تو حقیقی معنی مراد لئے جائیں گے۔ یہ سمع و بصر کا معاملہ ہے
3۔ متکلمین کی حتی الامکان کوشش ہوتی ہے کہ جسم اور اس کے لوازم (یعنی کیف) کی نفی کے بعد اگر کوئی حقیقی معنی مراد لینا ممکن ہوں تو اسے مراد لیا جائے۔ سمع و بصر پر بات سے قبل ہم یہاں رؤیت باری کی مثال دینا چاہیں گے تاکہ بات واضح ہوسکے۔ معتزلہ کا کہنا تھا کہ رؤیت کے لئے دیکھے جانے والے وجود کا جہت میں ہونا لازم ہے اور چونکہ ذات باری جسم نہیں اس لئے وہ جہت میں نہیں اور نتیجتاً اس کی رؤیت محال ہے۔ اس کے برعکس متکلمین اہل سنت کا کہنا ہے کہ رؤیت باری ممکن ہے۔ کیا یہ کوئی تضاد ہے؟ نہیں، ان کا کہنا ہے کہ کسی شے کی رؤیت کی حقیقت ایک خاص طرح کا ادراک یا علم ہے جبکہ آنکھ کا ڈیلااور روشنی کا کسی جسم سے ٹکرا کر اس پر منعکس ہونا یہ اس خاص ادراک سے متعلق وہ امور عادیہ ہیں جو اللہ تعالی نے اس دنیا میں جاری فرمائے ہیں۔ تاہم جو رؤیت کی حقیقت ہے وہ ان امور کے سوا بھی ممکن ہے، یعنی ایسا بالکل ممکن ہے کہ اللہ چاہے تو آنکھ کے بغیر بھی انسان میں براہ راست وہ ادراک پیدا کرسکتا ہے جسے رؤیت کہتے ہیں اور چاہے تو کسی واسطے کے بغیر براہ راست آنکھ یا مثلاً ہاتھ میں وہ ادراک پیدا کردے۔ اس سے معلوم ہوا کہ رؤیت بدون جہت بہرحال ممکن ہے اور جب اس کا امکان ثابت ہوگیا تو نص کو ظاہر ہی پر محمول کیا جائے گا (اگر یہ تقریر سمجھ آگئی تو امام بزدوی کی عبارت بھی حل ہوجائے گی)۔
4۔ یہی معاملہ سمع و بصر کی صفات کا ہے، ان کی حقیقت بھی موجودات سے متعلق ایک خاص طرح کا علم و ادراک ہے۔ مثال سے یوں سمجھئے کہ ایک شخص نے آپ کو آم کی خبر دی، پھر آپ نے اسے دیکھ لیا، پھر اسے سونگھ لیا، پھر اسے چکھ لیا۔ ان سب سے آم سے متعلق علم کی مختلف سطحات حاصل ہوئیں، انہیں ادراک کہتے ہیں۔ آنکھ اور کان اس عالم میں بصارت و سماعت سے متعلق ادراک کے لئے اللہ کی عادت کے تحت جاری ہونے والے ذرائع یا نشانیاں ہیں، اللہ چاہے تو ان کے بغیر بھی مخلوق میں سماعت و بصارت سے متعلق وہ ادراک پیدا کرسکتا ہے جو عادتاً آنکھ و کان کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔ نہ تو آنکھ میں اور نہ ہی کان میں کوئی ایسی تاثیر و قوت ہے جو سماعت و بصارت کا اثر پیدا کرتے ہوں، اللہ چاہے تو زبان سے سنوائے اور ہاتھ سے بلوائے (یہاں یہ دھیان رہے کہ متکلمین کے نظام فکر میں سماعت و بصارت کوئی قوت نہیں ہے جو ایک کے بجائے دوسرے عضو میں رکھ دی جائے بلکہ ان کے ہاں واحد علت ذات باری کا فعل ہے)۔ پس معلوم ہوا کہ سماعت و بصارت کی حقیقت خاص طرح کا علمی ادراک ہے نہ کہ جسم کا کوئی عضو۔ اس تجزئیے سے ہم سمع و بصر کے ایسے حقیقی معنی لینے کے امکان تک پہنچے جو “اصلاً ” جسم سے مبرا ہے، یعنی ان کے حقیقی معنی میں اصلاً جسم ہے ہی نہیں، جیسے کہ قدرت و ارادے کے مفہوم میں نہیں۔ اسی لئے متکلمین اللہ کے لئے ان کے حقیقی معنی کو ثابت مانتے ہیں۔ کیا آپ ید و نزول کے کوئی ایسے حقیقی معنی ثابت کرسکتے ہیں جہاں جسم کے سب لوازمات ختم ہوجانے کے بعد بھی کوئی ایسے حقیقی معنی بچ رہیں جو اسی طرح قابل فہم ہوں جیسے سمع و بصر کا معاملہ ہے؟ اگر کوئی ایسے معنی ہیں تو ہمیں سمجھائیں، ہم آپ کی بات ماننے میں دیر نہیں لگائیں گے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ید و نزول میں کیف (یعنی کسی جسم سے متعلق اعراض) کی نفی کے بعد ایسے کوئی حقیقی معنی بچتے ہی نہیں، ہاں ید کے بارے میں قدرت وغیرہ کا مفہوم ضرور بچ جاتا ہےلیکن وہ حقیقی معنی نہیں مجازی معنی ہیں۔
5۔ بات کو آسان کرنے کے لئے کچھ مزید کھول لیتے ہیں، سماعت کی مثال لیجئے۔ اس دنیا میں سماعت کے ساتھ عادتاً یہ تصورات وابستہ ہیں:
(الف) کانوں کی خاص ہئیت اور رنگ،
(ب) جسم کا عضو ہونا،
(ج) کان کی اندرون خاص طرح کی ساخت ہونا،
(د) خاص طرح کے علمی ادراک کا حصول (جو مثلاً بصارت سے مختلف ہے)
• اب اگر آپ (الف ) تا (ج ) سب کی نفی کردیں تو کیا کوئی قابل فہم معنی باقی بچے؟ جی ہاں
• کیا (الف ) تا (ج ) اس معنی کے قابل فہم ہونے کے لئے لازمی شرائط کی حیثیت رکھتے ہیں؟ یعنی کیا اس معنی میں کیف (یعنی جسم سے متعلق اعراض) فرض کرنا ضروری ہے؟ نہیں
یہاں اس پہلو کو پھیلانے کا موقع نہیں، صرف اتنا عرض ہے کہ کسی شے کے حقیقی معنی اس کے بارے میں اس تصور سے متعلق ہوتے ہیں کہ اگر اس کی نفی ہوجائے تو وہ شے ناقابل تصور ہوجائے (اسے صفت ذاتی کہتے ہیں)۔ کیا آپ واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ کان کا پردہ وغیرہ سماعت کی حقیقت ہے؟ کیا کان کے بغیر واقعی سماعت کا تصور محال ہوجاتا ہے؟ہرگز بھی نہیں۔ پھر اگر یہ سماعت کا جزو لاینفک ہوتا تو یہ بات ناممکن ہوتی کہ کسی کے کان کا پردہ تو موجود ہو مگر وہ بہرہ ہو لیکن ہم اس کا مشاہدہ کرتےہیں۔ معلوم ہوا کہ کان کا پردہ سماعت کی حقیقت میں شامل نہیں۔
کیا آپ ایسا ہی تجزیہ ید اور نزول کے لئے فراہم کریں گے؟ مثلا نزول کی مثال میں اس کے ساتھ جڑی “انتقال مکانی” اور نتیجتاً “مکان” کی سب سے اوپری سطح کی نفی کے بعد کونسے قابل فہم معنی باقی بچے؟ بینوا و توجروا۔
6۔ اس کے بعد یہ سمجھنا آسان ہوجاتا ہے کہ متکلمین سمع و بصر کو ان کے متعلقات (یعنی ادراک المسوعات و ادراک المبصرات) کے ذریعے کیوں بیان کرتے ہیں۔ اللہ کی سماعت و بصارت کی حقیقت و ماہیت کیا ہے، یہ ہم قطعا نہیں جانتے جیسے اس کی قدرت کی ماہیت نہیں جانتے۔ ہاں جس طرح یہ ضرور جانتے ہیں کہ وہ ذات لازما اس معنی سے متصف ہے جسے عدم سے وجود میں لانا (یعنی قدرت) کہتے ہیں اسی طرح یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ ایسے معنی سے بھی متصف ہے جسے مسموعات و مبصرات کا ادراک کہتے ہیں اس لئے کہ وہ عالم ہے۔ سمع و بصر درحقیقت اللہ کی صفت علم کی جانب راجح ہیں۔ یہی اصول (یعنی صفت کو متعلق صفت سے بیان کرنا) دیگر صفات معنی پر بھی لاگو ہوتا ہے جیسے کہ محبت، غضب و رحم وغیرہ۔
الغرض متکلمین کے موقف میں ویسا کوئی تضاد موجود نہیں جو عصمت اللہ صاحب نے اپنی دانست میں پیش کیا۔ متکلمین پر نقد کرنے سے قبل ان کے اصولوں کا ادراک حاصل کرنا ضروری ہے اور اس کے لئے لازم ہے کہ آپ شیخ ابن تیمیہ اور ابن ابی العز جیسے ان کے متاثرین کی کتب و دلائل پر تکیہ کرنا چھوڑ کر براہ راست ائمہ کلام کی کتب کا مطالعہ کریں۔ شیخ ابن تیمیہ اکثر و بیشتر متکلمین کا مقدمہ کمزور طریقے پر بیان کرکے اس کے خلاف دلائل کا انبار لگا دیتے ہیں لیکن اصل موقف کی جانب رجوع کرنے کے بعد ان کے دلائل کی غلطی واضح ہوجاتی ہے۔
7۔ ممکنہ طور پر یہاں یہ اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ آلات سماعت و بصارت کے بغیر حاصل ہونے والے ادراک ان الفاظ کے حقیقی نہیں بلکہ مجازی معنی ہیں لہذا متکلمین نے یہاں حقیقی معنی مراد نہیں لیا۔ پہلی بات یہ کہ جسم کے عوارض سے پاک ادراک کو سمع و بصر کے حقیقی معنی کہنے میں کوئی قباحت نہیں ہونی چاہئے۔ اگر یہ عوراض ان کی حقیقت میں شامل ہوتے تو کان والا بہرہ ناممکن ہوتا اور کان کے بغیر سماعت ناممکن ہوتی۔ دوسری بات یہ کہ اگر بالفرض کسی کا یہی اصرار ہے کہ یہ ان کے حقیقی معنی نہیں بلکہ ایک طرح کے مجازی معنی ہیں تو متکلمین کے موقف کے لئے یہ بات بھی مضر نہیں کیونکہ جب حقیقت بالکل متعذر ہوجائے اور کسی قرینے کی بنا پر مجازی معنی لینا ممکن ہو تو وہ مراد لینا بھی جائز ہے (اور اس کی مثالیں خود محدثین نیز شیخ ابن تیمیہ کے ہاں موجود ہیں)۔ الغرض اس اعتراض سے بھی ان لوگوں کا مسئلہ حل نہیں ہوتا جو ید اور نزول کے “حقیقی معنی معلوم مگر کیفیت نامعلوم” کا قول اختیار کرتے ہیں۔
8۔ اس تفصیل پر ایک تقاضا یہ کیا جاتا ہے کہ اہل لغت نے جسمانی عوارض والی سماعت و بصارت کو سمع و بصر کے حقیقی معنی کہا ہے، لہذا لغت کی کتب سے متکلمین کے بیان کردہ معنی ثابت کئے جائیں۔
یہ تقاضا ایسا ہی ہے جیسے کوئی یہ اصرار کرے کہ صلاۃ و زکوۃ کے شرعی مفاہیم اہل لغت کی کتابوں سے بھی ثابت کرو۔ اول تو اہل لغت کے ایسے حوالے بھی موجود ہیں جہاں نرے ادراک کو سمع کے معنی کہا گیا ہے۔ اور اگر بالفرض ایسا کوئی حوالہ موجود نہ ہو تب بھی یہ ہمیں مضر نہیں کیونکہ بارگاہ الہی پر گفتگو کرتے ہوئے اہل لغت کی مرتب کردہ ڈکشنریوں میں درج وہ معنی حجت نہیں بن سکتے جو ان الفاظ کے دنیا سے متعلق عام استعمال کے مفاہیم ہیں۔ یہ طریقہ بحث تو خود یہ دوست بھی اختیار نہیں کرسکیں گے کیونکہ اگر لغت میں سمع کا معنی کان سے سننا لکھا ہوا ہے جہاں کان کا مطلب ایک خاص وضع والا جسم کا عضو ہے تو کیا یہ لوگ “حقیقی معنی معلوم” کے تحت اللہ کے لئے ایسے ہی کانوں والی سماعت ثابت کرنے کے قائل ہیں؟ ہرگز نہیں بلکہ لیس کمثلہ شیء کے تحت کان کی نفی کردیتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی آپ حقیقی معنی پر مصر رہتے ہیں، یہی متکلمین کرتے ہیں۔ البتہ فرق یہ ہے کہ متکلمین اس کے بعد ایک ایسے “حقیقی معنی” کو مقرر کرتے ہیں جو ان عوارض کی نفی کے بعد سمع و بصر کی حقیقت ہے جبکہ یہ دوست نزول و ید کے معاملے میں ایسا کچھ ثابت نہیں کرپاتے۔
کمنت کیجے