Home » تحفظِ ناموسِ صحابہ بل اور ہمارا موقف
سماجیات / فنون وثقافت فقہ وقانون کلام

تحفظِ ناموسِ صحابہ بل اور ہمارا موقف

چند دن قبل  قومی اسمبلی میں صحابہ رضوان اللہ علیہم کے ناموس کے تحفظ کی خاطر  قانون سازی کی گئی ہے ۔کچھ عرصہ پہلے پنجاب اسمبلی سے بھی اس نوعیت کی قانون سازی ہوئی تھی۔ اس حوالے سے ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ شیعہ سنی نزاع کو حدود وآداب کا پابند بنانے کے لیے ایسے فورم زیادہ مناسب اور موثر ہیں جن میں مذہبی قیادت سماجی سطح پر اپنی حیثیت اور اثر ورسوخ کو بروئے کار لاتے ہوئے اقدامات کرے۔ اس ضمن میں ملی یکجہتی کونسل اور اس طرح کے دیگر فورمز کا نام لیا جا سکتا ہے جنھوں نے گزشتہ برسوں میں اس حوالے سے تناؤ کو کم کرنے میں خاصا مفید کردار ادا کیا ہے۔

جہاں تک قانونی سطح پر کسی تعزیری اقدام کا تعلق ہے تو اس کے لیے ضابطہ تعزیرات کے سیکشن 295 اور 298 کی ذیلی شقیں بنیادی طور پر کافی ہیں جن میں کسی بھی مذہبی گروہ کی دل آزاری کو قابل تعزیر قرار دیا گیا ہے اور مقدس شخصیات کی توہین پر سزا مقرر کی گئی ہے۔ اس کو مزید موثر بنانے کے لیے اگر کسی ترمیم کی ضرورت ہو تو وہ تمام مذہبی طبقوں کو اعتماد میں لے کر ہی ہونی چاہیے تاکہ وہ دفع فساد میں مددگار ہو۔ ایسا طریقہ اختیار کرنا جس سے یہ تاثر ملے کہ مذہبی اکثریت کسی اقلیت کے خلاف اپنی سیاسی طاقت کا اظہار کر رہی ہے، مذہبی سیاست کی ضرورت تو ہو سکتی ہے جو اپنی بقا کے لیے مسلسل ایسی پیش قدمیوں یا کامیابیوں کی محتاج ہے، لیکن فرقہ وارانہ مسئلے کے حل کے لیے یہ انداز نامناسب بلکہ مضر ہے۔

گزشتہ کچھ عرصے میں ریاستی قانون سازی کی سطح پر ایسی جو کوششیں کی گئی ہیں، ان میں یہی پہلو زیادہ نمایاں ہے۔ خاص طور پر ایسی شخصیات کے متعلق جو فریقین کے مابین متنازعہ ہیں، ایسے تقدیسی موقف کو قانونی طور پر لازم کرنا جسے قبول کرنا کسی فریق کے لیے اپنے مذہبی موقف سے دستبرداری کے ہم معنی ہو، کوئی جواز نہیں رکھتا۔ یہ مذہبی آزادی کے اصول کے بھی خلاف ہے اور اس کا ایک عملی اثر یہ ہوتا ہے کہ جو عناصر متنازعہ شخصیات کے متعلق اہانت کے رویے کی مذمت کرتے اور آداب اختلاف کی پابندی کی بات کرتے ہیں، ان کی بات بے اثر ہو جاتی ہے اور مسلکی شناخت کی نمائندگی کے لیے متشدد اور غیر محتاط عناصر زیادہ قوت پکڑ لیتے ہیں۔ ذمہ دار مذہبی قیادت کو ان سارے پہلوؤں سے اپنی حکمت عملی پر غور کرنا چاہیے اور فرقہ وارانہ مسئلے کو مذہبی سیاست کی عمومی ضرورتوں کے لیے ایندھن بنانے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

ہذا ما عندی واللہ تعالی اعلم

محمد عمار خان ناصر

محمد عمار خان ناصر گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ کے شعبہ علوم اسلامیہ میں تدریس کے فرائض انجام دیتے ہیں۔
aknasir2003@yahoo.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں